حج کے فضائل و خصائل

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰی كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ۝۲۷ لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِیْرَؗ۝۲﴾ [الحج: 27-28]
’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دیں، لوگ پیدل اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر سوار ہو کر دور دراز کے راستوں اور علاقوں سے تمہارے پاس آئیں گے۔ تاکہ وہ ان فوائد کو دیکھیں (اور حاصل کریں) جو ان کے لیے (حج میں رکھے گئے ہیں) اور مقررہ دنوں میں اللہ کے دیئے ہوئے جانوروں پر اللہ کا نام لیں، پھر ان جانوروں کا گوشت خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلائیں۔‘‘
موجودہ ایام میں حج کی درخواستیں جمع کروائی جا رہی ہیں اس مناسبت سے آج کے خطبہ میں حج کی فرضیت اور حج کے فضائل و خصائل اور فوائد و مقاصد بیان کیے جائیں گے۔
کیونکہ آج ہمارے معاشرے میں حج کے حوالے سے تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں:
1۔ جو حج کی فرضیت کو جانتے ہوئے درخواستیں جمع کروا رہے ہیں۔
2۔ جن کے پاس وسائل نہیں لیکن وہ دل میں حج کی بڑی تڑپ رکھتے ہیں اور ان کے دل حرمین کی زیارت کے لیے بے قرار اور بے چین ہیں اللہ انہیں وسائل مہیا فرمائے اور سعادت حج سے بہرہ ور کرے۔
3۔ جو وسائل کے باوجود غفلت و لاپرواہی کا شکار ہیں۔
آج کا خطبہ انہیں لوگوں کو جگانے کے لیے ہے۔ حج بیت اللہ اسلام کے بنیادی ارکان خمسہ میں سے ایک رکن ہے اور اس کی یہی فضیلت واہمیت کافی ہے کہ یہ اسلام کے ان اعمال میں سے ہے جن کے بغیر اسلام کی بنیاد ہی پوری نہیں ہوتی۔
عربی لغت میں حج کا معنی قصد کرتا ہے لیکن دین کی زبان میں اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر مخصوص ارکان (طواف سعی رمی جمار اور وقوف عرفات وغیرہ) کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ کا قصد کرنا حج کہلاتا ہے۔
فرضیت حج:
حج کی فرضیت قرآن کریم اور حدیث ر سول ﷺ دونوں سے ثابت ہے۔ سورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ﴾ [آل عمران:97]
’’اور لوگوں کے اوپر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا فرض کر دیا گیا ہے (ہر اس شخص پر) جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہے اور جس نے کفر کیا (یعنی استطاعت کے باوجود حج نہ کیا) تو وہ (یاد رکھے کہ) اللہ تعالی تو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے لہٰذا حج نہ کرنے کا وبال اس آدمی کے اپنے ہی اوپر پڑے گا اللہ کا اس میں کوئی نقصان نہیں)۔‘‘
اور صحیح مسلم میں حدیث ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ! قَدْ فَرِضَ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ فَحَجُّوا)
’’اے لوگو تم پر حج فرض قرار دے دیا گیا ہے پس تم حج کرو۔‘‘
ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم ہر سال حج کریں؟ آپﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ اس شخص نے یہ کلمہ تین بار دہرایا (اس کے جواب میں) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں (بالفرض) اثبات میں جواب دیتا تو ہر سال حج فرض ہو جاتا اور تم (ہر سال حج کرنے کی) طاقت نہ رکھتے۔ بعد ازاں آپﷺ نے فرمایا: ’جب تک میں تمہیں کچھ نہ بتاؤ سے سوال نہ کیا کرو اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ کثرت سوال اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اختلاف رکھنے کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے۔ جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو تم استطاعت کے مطابق اسے سرانجام دو اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو تم وہ کام نہ کرو۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر (1337) واحمد (508/2) وابن حبان (3705)]
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہے اس کے علاوہ نفلی حج جتنے مرضی کیے جا سکتے ہیں۔
حج کے فضائل و خصائل:
حج ایک ایسی عبادت ہے جو بہت سارے امور میں دوسری عبادات سے انتہائی ممتاز منفرد اور انوکھی عبادت ہے۔
پہلی خصوصیت و فضیلت:
حج ان تین اعمال میں سے ہے جن سے ماضی کے تمام گناہ بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ بخاری ومسلم کی روایت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْقُتْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَومٍ وَلَدَتْهُ امُّه) [صحيح البخاري، كتاب الحج، باب فضل الحج المبرور (1521) و مسلم (1350) و ابن ماجه (2889) و انترمذی (811)]
’’جس نے اللہ کے لیے حج کیا (اور اس سفر میں) بیہودہ اور فسق و فجور کی باتیں نہ کیں تو وہ اس دن کی مانند گنا ہوں سے پاک ہو کر لوٹے گا جس دن اس کی والدہ نے اس کو جنم دیا تھا۔‘‘
مسلم شریف کی روایت ہے: عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ نکالیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں؟ آپ نے دایاں ہاتھ باہر نکالا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’عمرو! کیا بات ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: شرط لگانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت کیا: ’’تو کیا شرط لگانا چاہتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ میری بخشش ہو جائے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے عمرو! کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو ختم کر دیتا ہے اور ہجرت سے بھی پہلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور حج سے بھی اس سے پہلے کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الایمان، باب کون الاسلام یهدم ما قبله و كا الهجرة والحج(121) و احمد(17792)]
سبحان اللہ! حج کرنے کی یہ کتنی بڑی فضیلت ہے کہ اس سے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، لیکن اس فضیلت کو برقرار رکھنا معنی رکھتا ہے اگر تو حج کرنے کے بعد اپنے آپ کو گناہوں اور برائیوں سے بچائے گا یہ فضیلت حاصل رہے گی اور اگر حج کے بعد اللہ کی نافرمانی اور بغاوت کرنے لگا تو دوبارہ گناہوں کی میل کچیل چڑھنے لگے گی اور وہ فضیلت ضائع ہو جائے گی۔
دوسری خصوصیت:
حج اسلام کے ان بنیادی ارکان میں سے ہے جن کے بغیر اسلام کی بنیاد کھوکھلی رہتی ہے۔ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(بَنِي الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَایْتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ) [صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب دعائكم إيمانكم (8) والترمذي (2612) والحميدي (703)]
’’اسلام (کے محل) کی بنیاد پانچ (ستونوں) پر ہے۔ (پہلا ستون) اس بات کی گواہی دیتا کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں (دوسرا ستون) نماز قائم کرنا (تیسر استون) زکوۃ ادا کرنا (چوتھا ستون) حج کرنا (پانچواں ستون) رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
معلوم ہوا مؤمن مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے کہ اگر استطاعت ہو تو ایک بار زندگی میں حج ضرور کرے۔
تیسری خصوصیت:
حج مقبول کی جزاء صرف جنت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک کے درمیان کے گناہوں کا (عمرہ) کفارہ ہوتا ہے
(وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاء إِلَّا الْجَنَّةِ) [صحيح البخاري، كتاب الحج، باب وجوب العمرة وفضلها (1773) و مسلم (1349) والترمذي (933) والدارمي (31/2)]
’’اور مقبول حج کا ثواب بس جنت ہے۔‘‘
اللہ اکبرا فریضہ حج ادا کرنا کس قدر عظیم عمل ہے کہ اس کی جزاء صرف جنت ہے لیکن یاد رکھئے! حج مبرور وہ حج ہے جو قرآن وسنت کے مطابق و موافق ہو۔
چوتھی خصوصیت:
حج کے لیے تمام علاقائی لباس چھوڑ کر ایک عاجزانہ لباس دو چادریں اوڑھنے کا حکم ہے۔ جنہیں احرام کی چادریں کہتے ہیں۔ گویا کہ رنگ، نسل اور علاقے کا امتیاز ختم صرف مسلمان ہونے کا اظہار گروہی، لسانی، علاقائی اور دیگر تمام قسموں کی عصبیتوں کا خاتمہ اور ایک اللہ کے بندے ہونے کا مظاہرہ حج کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے۔
پانچویں خصوصیت:
دوران حج وفات پانے والا دو چادروں میں کفن دیا جائے گا اسے خوشبو نہیں لگائی جائے گی اور اس کا سر نہیں ڈھانپا جائے گا اور وہ کل قیامت کے دن ’’لبيك اللهم لبيك‘‘ پڑھتا اٹھایا جائے گا۔
بخاری و مسلم میں ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ایک شخص رسول اللہﷺ کی معیت میں احرام کی حالت میں تھا اس کی اونٹنی نے (اس کو گرا کر) اس کی گردن توڑ دی وہ فوت ہو گیا اس کے بارے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(اِغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلَا تَمَسُّوهُ بِطِيبٍ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّیًا) [سنن النسائي، كتاب الحج، باب غسل المحرم بالسدر (2856) و صحیح نسائی (2671)]
’’پانی میں بیری کے پتے ملا کر اس کو غسل دو اور اس کی دونوں چادروں میں اس کو کفن دو اور اس کو خوشبو نہ لگانا نہ اس کے سر کو ڈھانپنا وہ قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جا ئے گا۔‘‘
چھٹی خصوصیت:
حج کے تمام ارکان کی مخصوص جگہیں مقرر ہیں۔ کسی جگہ کا بھی اور کوئی بدل نہیں۔ طواف صرف بیت اللہ کا۔ سعی صرف صفا و مروہ کی۔ وقوف صرف مزدلفہ و عرفات میں، قربانی صرف منی میں، رمی جمار (کنکریاں) صرف جمرات پر….
دنیا جہاں کی کسی مسجد، کسی جگہ اور کسی مقام کا طواف جائز نہیں۔ طواف صرف کعبۃ اللہ کا ہے آج لوگوں نے قبروں اور مزاروں کا حج بنا لیا ہے۔ اور قبروں کے حج کا طریقہ سکھلانے کے لیے حج مشاہد کے نام سے کتابیں لکھی ہیں۔ ایسے لوگ جاہلیت کے مشرکوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ عرب کے ان مشرکوں نے بیت اللہ کے مقابلے میں ابرہہ کے گھر کو برداشت نہیں کیا تھا، لیکن آج کے بعض نام نہاد مسلمانوں نے اخیر کر دی جگہ جگہ طواف شروع کر دیا اور اس طرح کے گستاخانہ بول شروع کر دیئے:
تیرے پیراں وچ بیہ کے بابا جی ساڈا حج ہو گیا۔
استغفر اللہ کیسی گستاخانہ بات ہے حج کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
ساتویں خصوصیت:
حج کے مہینے اور تاریخیں بھی مقرر ہیں اور ان تاریخوں کا متبادل موجود نہیں۔ آج بیت الله، صفا و مروه، مزدلفہ وعرفات، منی و جمرات سب کچھ اپنی اپنی جگہ موجود ہیں لیکن آج حج نہیں ہو سکتا حج حج کے مہینوں اور حج کی تاریخوں میں ہی ہو گا۔
﴿اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ﴾ [سورة البقرة:197]
’’حج کے مقررہ مہینے ہیں۔‘‘
ان مہینوں کے علاوہ حج کی نیت سے سفر بھی جائز نہیں۔ اور حج کی تاریخیں بھی مقرر ہیں: 8 ذو الحجہ سے 13 ذو الحجہ تک ان تاریخوں کے علاوہ کسی مہینے اور کسی تاریخ کو حج نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ باقی بہت ساری عبادات کے متبادل ایام اور اوقات موجود ہیں۔ روزوں کے متبادل ایام موجود ہیں (بیمار آدمی جو رمضان میں روزے نہیں رکھ سکا باقی گیارہ مہینوں میں جب چاہے روزے رکھ لے)۔ نماز کے اوقات کا متبادل موجود ہے۔ ظہر بھول گیا یا سفر میں رہ گئی جب یاد آیا یا سفر سے فارغ ہوا ادا کر لے۔ زکوۃ کو آگے پیچھے کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ آگے پیچھے کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن حج کی جگہ بھی محدود اور وقت بھی میں ود ہے۔ نہ جگہ کا کوئی اور متبادل موجود ہے اور نہ حج کی تاریخوں کا کوئی متبادل موجود ہے۔ اگر رکاوٹ بن گئی تو آئندہ انہی مقررہ تاریخوں کا پابند ہے یہ نہیں کہ ذوالحجہ میں حج نہ کر سکا تو محرم میں کرلے۔ ربیع الاول میں کرلے نہیں ہرگز نہیں۔
آٹھویں خصوصیت:
یہ وہ عبادت ہے جس کا اعلان حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کروایا گیا اور آپ کی آواز کو پوری دنیا تک پہنچایا گیا:
﴿ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰی كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ﴾ [الحج:27]
؛؛اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گئے۔‘‘
بس اس حکم الہی سے حضرت ابراہیم علیہ نے صدا بلند کی کہ لوگو! اللہ نے تمہارے اوپر اس گھر کا حج فرض قرار دیا ہے۔ صدا بلند کرنے کی دیر تھی اللہ کے حکم سے آپ کی یہ صدا اور آواز دریاؤں، جنگلوں اور سمندروں کو چیرتی ہوئی دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی۔ اسی آواز کا کرشمہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ وہاں پہنچتے ہیں اور کروڑوں وہاں پہنچنے کے لیے تڑپتے ہیں اور جو ایک دفعہ حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کر لیتا ہے وہ بار بار جانے کے لیے بے قرار اور مضطرب رہتا ہے۔
نویں خصوصیت:
حدیث میں ہے: جب حجاج کرام میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں عرش والا ان کے قریب آجاتا ہے اور ان پر فرشتوں میں فخر کرتا ہے اے میرے فرشتو! بتلاؤ میرے یہ بندے کیا لینے آئے ہیں؟ پھر اللہ تعالی خوش ہو کر اس دن اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کرنے کا فیصلہ فرماتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں سال بھر میں کسی اور موقع پر لوگ جہنم سے آزاد نہیں ہوتے۔[صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل یوم عرفۃ، رقم، 3244]
یہ اللہ رب العزت کی کتنی بڑی رحمت ہے جو حج کے موقع پر عرفات والے دن موجزن ہوتی ہے۔
دسویں خصوصیت:
یہ مسلمانوں کا بین الاقوامی اور عالمی سطح پر بہت بڑا باہمی رابطہ اور اکٹھ ہے، جس میں دنیا بھر کے مسلمان آپس میں ملتے اور ایک دوسرے کے حالات معلوم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شرکت ہوتی ہے اور محبت و الفت کی خوشبو مہکتی ہے کینے ختم ہوتےہیں اور بغض و عداوت کا قلع و قمع ہوتا ہے۔
حج کے فوائد و مقاصد:
﴿ لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ حج میں بے شمار دینی ودنیاوی وائد و مقاصد ہیں:
1۔ یہ اللہ کی توحید کا بہت بڑا مظاہرہ ہے:
﴿ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ﴾ [الحج:34]
’’اور ہر امت کے لیے ہم نے عبادت طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اس کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔‘‘
2۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا بہت بڑا باہمی رابطہ اور عالمی ذریعہ مواخات ہے۔ ایک
لباس ایک زبان ایک ہی کلام (لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ الخ)
3۔ اللہ رب العزت نے حج کے موقعہ پر تجارت کی اجازت دے کر حج کے ذریعے رہبانیت اور تصوف کی عمارت اوندھے منہ زمین پہ گرا دی ہے۔ اس لیے حج بہت بڑی تجارت اور کاروبار بھی ہے۔
﴿ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾ [البقرة:198]
’’تم پر اپنے رب کا فضل (تجارت و کاروبار) تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔‘‘
4۔ حج سے گناہوں کے ساتھ ساتھ فقر وفاقہ بھی مٹتا ہے۔ جناب ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَ الذُّنُوبَ)[جامع الترمذی، كتاب الحج، باب ماجاء في ثواب الحج والعمرة(180) والصحيحة (1185) و احمد (387/1)]
’’حج و عمرہ لگا تار کرتے رہیں بلاشبہ حج اور عمرہ فقر اور گناہوں کو دور کر دیتے ہیں۔‘‘
5۔ حج میں بہت سارے دینی امور کی تربیت موجود ہے مثلا 8 سے 13 تک مسلسل جفا کشی جو انسان کو عبادت کے لیے چست کرتی ہے۔ گھر بار چھوڑ نا، خرچ کرنا، بکثرت اللہ کا ذکر کرنا، اطاعت کرنا (کبھی طواف کبھی سعی، کبھی رمی جمار کہ جو اللہ کہتا جائے بندہ کرتا جائے) نفس پر قابو پانا کیونکہ حالت احرام میں خشکی کا شکار اور مجامعت وغیرہ ممنوع ہے۔
6۔ حج کے موقعہ پر قربانی کے ذریعے بہت سارے لوگوں کو گوشت جیسی نعمت کا ملنا۔ 7۔ سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا اور جنت کا داخلہ یہ دنیاوی واخروی فوائد و منافع کی ایک جھلک آپ کو دکھلائی گئی ہے۔ ورنہ حج کے اور بھی بہت سارے فائدے اور منافع ہیں جو کسی سے مخفی نہیں۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجاء ودعا ہے کہ اللہ استطاعت رکھنے والوں کو یہ فریضہ بجالانے کی توفیق بخشے اور جنہیں استطاعت نہیں انہیں استطاعت عطاء فرمائے اور جو اس فریضے کو ادا کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ان کا یہ عمل قبول فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔