حج کی فرضیت

ارشاد ربانی ہے: ﷜﴿لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَن الْعَالَمِيْنَ﴾ (سورة آل عمران آیت:97)

ترجمہ: اور اللہ کے لئے لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جس نے کفر کیا، تو یقینا اللہ تعالی جہانوں سے بے نیاز ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : بَنِي الإسلامُ عَلَى خَمْسٍ : شَهَادَةِ أن لا إله إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيْتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ، (متفق عليه).

(صحيح بخاري كتاب الإيمان، باب بني الإسلام على خمس صحیح مسلم كتاب الإيمان، باب بيان أركان الإسلام ودعائمه العظام.)

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : خَطَبْنَا رَسُولُ اللَّهُ فقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ قَد فُرِضَ عَلَيْكُمُ الحَجَّ فَحَجُّوا فَقَالَ رَجُلٌ : أَكُلُّ عَامٍ يَا رسولَ اللهِ ؟ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثلاثا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ: لَوْ قُلْتُ: نَعَمُ لوَجَبَتْ، وَلَمَّا اسْتَطَعْتُمْ، ثُمَّ قَالَ: ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قبلكم بكثرة سؤالِهِمْ وَاخْتِلافِهم على أنبيائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ  ما استطعتم وإذا نهيتكم عن شيءٍ فَدَعَوْهُ. (أخرجه مسلم).

(صحیح مسلم کتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر.)

 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا: اے لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، پس تم حج کرو۔ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہر سال حج کرنا (فرض) ہے؟ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ اس نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اگر میں (جواب میں) ہاں کہہ دیتا تو یقیناً (ہر سال) واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر آپ نے فرمایا تم مجھے (میرے حال پر) چھوڑ دو، جب تک میں تمہیں (تمہارے حال پر) چھوڑے رکھوں، اس لئے کہ تم سے پہلے لوگ اپنے کثرت سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے۔ پس میں جب تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے اپنی طاقت کے مطابق بجالاؤ اور جب تمہیں کسی چیز سے روک دوں، تو اسے چھوڑ دو۔

تشریح:

حج کے لغوی معنی قصد وارادہ کے ہیں اور اصطلاحی معنی ایام حج میں معروف و معلوم آداب و شروط کے ساتھ بیت اللہ کا قصد وارادہ کرنا۔ حج اسلام کے پانچ اہم رکنوں میں سے ایک رکن ہے اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت، عاقل، بالغ مسلمان مرد و عورت پر ایک بار فرض ہے لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کی ضیاع سمجھتا ہے تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اگر کوئی سستی و کاہلی کی وجہ سے نہیں کرتا ہے تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوتا لیکن فاسق و فاجر اور گناہ کبیرہ کا ضرور مرتکب ہوتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے حج سے متعلق فرمایا کہ جس نے اللہ کے لئے حج کیا اور حج کے دوران اس نے کوئی فحش گوئی کی نہ کوئی برا کام کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جیسے وہ اپنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے یعنی اس کے پاس کوئی گناہ نہیں ہے۔ نیز حج مبرور کا صلہ جنت ہے اور حج مبرور وہی ہے جو مسنون اور شرعی طریقے سے ادا کیا گیا ہو اس میں کسی طرح کی زیادتی اور کمی نہ ہوئی ہو اور اس کی زندگی یکسر بدل گئی ہو۔ اللہ تعالی ہمیں سنت کے مطابق حج کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔

فوائد:

٭ حج صاحب استطاعت، عاقل، بالغ مسلمان مرد عورت پر ایک بار فرض ہے۔

٭ حج ارکان اسلام کا ایک رکن ہے۔

٭٭٭٭