حالات بدل جایا کرتے ہیں

اہم عناصر :

❄ سیدنا ایّوب علیہ السلام               ❄ سیدنا یوسف علیہ السلام

❄ سیدنا محمد کریم ﷺ                 ❄ سیدنا ابوہریرہ ﷜

❄سیدنا عبدالرحمن بن عوف ﷜ ❄قاضی ابو بکر محمد بن عبدالباقی رحمہ اللہ

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ [آل عمران: 140]

ذی وقار سامعین!

جنگ احد میں مسلمانوں کو سخت جانی نقصان پہنچا ، 70 مسلمان شہید ہو گئے ، منافق کہنے لگے اگر نبی ﷺ سچے ہوتے تو مسلمانوں کو اتنا زیادہ نقصان نہ پہنچتا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی؛

اِنۡ يَّمۡسَسۡكُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُهٗ وَتِلۡكَ الۡاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ النَّاسِۚ وَلِيَـعۡلَمَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَيَتَّخِذَ مِنۡكُمۡ شُهَدَآءَ‌ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَۙ [آل عمران: 140]

ترجمہ: اگر تمھیں کوئی زخم پہنچے تو یقینا ان لوگوں کو بھی اس جیسا زخم پہنچا ہے اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو جان لے جو ایمان لائے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

 یعنی دن بدلتے رہتے ہیں ، اگر آج آپ کو نقصان پہنچا ہے ، عارضی شکست سے دوچار ہوئے ہیں اورستر(70)قیمتی جانیں اللہ کے راستے میں قربان ہوچکی ہیں تو پچھلے سال بدر میں کافروں کو بھی سخت جانی نقصان پہنچا تھا ، ان کے بھی 70 آدمی جہنم واصل ہوئے تھے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ سمجھایا ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا ، دن سدا ایک جیسے نہیں رہتے بلکہ وقت کروٹ لیتا ہے ، حالات تبدیل ہو جایا کرتے ہیں ، کبھی فتح اور کبھی شکست ، کبھی بدحالی اور کبھی خوشحالی ، کبھی تنگی اور کبھی آسانی ،کبھی فاقے اور کبھی رزق کی فراوانی یہی زندگی ہے۔

بس خیال یہ رکھنا ہے کہ جب زندگی میں ایسے دن آجائیں تو اللہ کا در نہیں چھوڑنا ، اس سے گلے اور شکوے  کرنے نہیں بیٹھ جانا۔ اسکی نا شکری نہیں کرنی۔کیونکہ وفادار اور مخلص لوگ کبھی بھی اور کسی بھی حالات میں  در اور چوکھٹ بدلا نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ ایک در سے وفا کرتے ہیں۔ اور ویسے بھی زندگی میں ہمیشہ خوشیاں ہی خوشیاں رہیں اور خوشحالی ہی خوشحالی رہے تو زندگی جینے کا وہ مزہ نہیں آتا جو کبھی خوشی اور کبھی غم میں آتا ہے کیونکہ غم اور تکلیف کا بھی اپنا ایک مزہ اور سرور ہوتا ہے۔ جیسے شاعر کہتا ہے؎

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصر

غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے

اس لئے زندگی میں کبھی مشکلات اور پریشانیاں آجائیں تو ان دنوں کو بھی اللہ کی رضا سمجھ کر انجوائے کرنا ہےاور یقین رکھنا ہے کہ ایک دن حالات بدلیں گےاور ایسے بدلیں گے کہ آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ایسے بھی ہو سکتا تھا۔

آج کے خطبہ جمعہ میں ہم یہ سمجھیں گے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا ، حالات بدل جایا کرتے ہیں اور یہ بات انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے ہمیں سمجھ آتی ہے۔

سیدنا ایّوب علیہ السلام

ایوب علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ کی طرف سے ان پر ایسی آزمائش آئی کہ وہ شدید اور لمبی بیماری میں مبتلا ہو گئے، ان کے اہل و عیال بھی جدائی یا فوت ہونے کی وجہ سے ان سے جدا ہو گئے۔ جب کمانے والے ہی نہ رہے تو مال مویشی بھی ہلاک ہو گئے، مگر ایوب علیہ السلام نے ہر مصیبت پر صبر کیا، نہ کوئی واویلا کیا اور نہ کوئی حرفِ شکایت لب پر لائے۔ جب تکلیف حد سے بڑھ گئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ جو مختلف الفاظ کے ساتھ قرآن مجید میں مذکور ہے

❄ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ [ص: 41]

"اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کر، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک شیطان نے مجھے بڑا دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔”

❄  وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ [الانبیاء: 83]    "اور ایوب، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک میں، مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے۔”

سیدنا ایوب علیہ السلام کی ان دعاؤں سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اے اللہ تو نے مجھے یہ تکلیف پہنچائی ہے بلکہ تکلیف پہنچانے کی نسبت انہوں نے شیطان کی طرف کی ہے اور دوسری بات ہمیں یہ پتہ چلتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اس بیماری والے فیصلے پر راضی رہے ہیں یہ نہیں کہا کہ اے اللہ مجھے بیماری لگا دی ہے میں بیمار ہو گیا ہوں. بس یہ کہا کہ اللہ تو ارحم الراحمین ہے اپنی حالت زار کو بیان کیا ہے اور اللہ تعالی سے صفت رحم کا واسطہ دے کر دعا کی ہے۔ یہ مشکل حالات تھے پھر حالات بدلے ، جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن مجید میں اور آقا علیہ السلام نے حدیث میں فرمایا ہے؛

❄  ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ [ص: 43-42]

"اپنا پاؤں مار، یہ نہانے کا اور پینے کا ٹھنڈا پانی ہے۔ اور ہم نے اسے اس کے گھر والے عطا کردیے اور ان کے ساتھ اتنے اور بھی، ہماری طرف سے رحمت کے لیے اور عقلوں والوں کی نصیحت کے لیے۔”

❄  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: «بَيْنَمَا أَيُّوبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا، خَرَّ عَلَيْهِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ يَحْثِي فِي ثَوْبِهِ، فَنَادَاهُ رَبُّهُ يَا أَيُّوبُ أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَيْتُكَ عَمَّا تَرَى، قَالَ بَلَى يَا رَبِّ، وَلَكِنْ لاَ غِنَى لِي عَنْ بَرَكَتِكَ» [بخاری: 3391]

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا‘ ایوب علیہ السلام ننگے غسل کررہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں ان پر گرنے لگیں۔ وہ ان کو اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے۔ ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ اے ایوب! جو کچھ تم دیکھ رہے ہو ( سونے کی ٹڈیاں ) کیا میں نے تمہیں اس سے بے پروا نہین کردیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ صحیح ہے‘ اے رب العزت لیکن تیری برکت سے میں کس طرح بے پروا ہو سکتا ہوں۔

سیدنا یوسف علیہ السلام

سیدنا یوسف علیہ السلام ایک عظیم نبی ہیں جو خود بھی نبی ہیں ، باپ بھی نبی ہے ، دادا بھی نبی ہے اور پردادا بھی نبی ہے. زندگی میں ایسا موڑ آیا کہ بھائیوں نے حسد کرتے ہوئے کنویں میں پھینک دیا؛

فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ [یوسف: 15]

"پھر جب وہ اسے لے گئے اور انھوں نے طے کرلیا کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں.”

ایک راہ چلتے قافلے نے کنویں سے نکالا ، منڈی میں بیچا ، عزیز مصر کے گھر میں پہنچے ، جھوٹے الزام کی وجہ سے جیل میں گئے ، زندگی میں بہت مشکل دن گزارے.

لیکن دن بدل جایا کرتے ہیں ، حالات تبدیل ہو جاتے ہیں اور حالات اتنے تبدیل ہوئے کہ ایک دن سیدنا یوسف علیہ السلام تخت مصر پر بیٹھ گئے اور جن بھائیوں نے حسد کی وجہ سے کنویں میں پھینکا تھا وہ فقیر اور غریب بن کر یوسف علیہ السلام کے سامنے اناج لینے کے لیے موجود ہیں ، اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ سارے بھائی یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدہ (تعظیمی) کررہے ہیں؛

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ. وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ [یوسف: 100-99]

"پھر جب وہ یوسف کے پاس داخل ہوئے تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہوجاؤ، امن والے، اگر اللہ نے چاہا۔ اور اس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور وہ اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے اور اس نے کہا اے میرے باپ! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے، بے شک میرے رب نے اسے سچا کردیا اور بے شک اس نے مجھ پر احسان کیا جب مجھے قید خانے سے نکالا اور تمھیں صحرا سے لے آیا، اس کے بعد کہ شیطان نے میرے درمیان اور میرے بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال دیا۔ بے شک میرا رب جو چاہے اس کی باریک تدبیر کرنے والا ہے، بلاشبہ وہی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والاہے۔”

سیدنا محمد کریم ﷺ

1۔  جناب محمد رسول اللہ ﷺ یتیم پیدا ہوئے ، چھوٹی عمر میں ہی والدہ وفات پا گئیں ، کچھ عرصے بعد دادا کا انتقال ہو گیا. 40 سال کی عمر میں اللہ تعالی نے نبوت سے سرفراز کر دیا ، مکہ والوں کو اللہ کا پیغام سنایا ، توحید کی دعوت دی لیکن مکہ والوں نے ظلم کیا ، آپ کے ماننے والوں پر بھی ظلم کیا. اقا علیہ الصلوۃ والسلام نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا پھر حالات بدلے ، دن بدلے اور ایسے بدلے کہ جب آقا علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو پورے عرب پر اسلام نافذ ہو چکا تھا ، پورے عرب پر اسلام کا غلبہ تھا اور دیگر ملکوں کی طرف بھی اسلام غالب ہونے جا رہا تھا.

2۔  مکہ والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آقا علیہ السلام نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی. مکہ اور بیت اللہ کو چھوڑنا کتنا مشکل تھا..؟ اس بات کا اندازہ جامع ترمذی کی ایک روایت سے ہوتا ہے

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَّةَ مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّكِ إِلَيَّ وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ [ترمذی: 3926 صححہ الالبانی]

ترجمہ: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’ کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے ، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا’۔

مکہ والوں نے آقا علیہ السلام کو مکہ سے نکال دیا اور پھر چھ ہجری میں آقا علیہ السلام 1400 صحابہ کا لشکر لے کر عمرہ کرنے کے لیے مکہ جا رہے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ بہت زیادہ محبوب تھا اس کے باوجود مکہ والوں نے آقا علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کو عمرہ ادا نہیں کرنے دیا ، بلکہ بہت زیادہ کڑی شرائط میں دب کر صلح کر کے آقا علیہ السلام کو مدینہ واپس آنا پڑا۔

پھر وقت نے کروٹ لی ، حالات بدلے اور صرف اس بات (صلح حدیبیہ) کے ڈیڑھ سال بعد آٹھ ہجری میں آقا علیہ السلام 10 ہزار کا لشکر جرّار لے کر اہلِ مکہ سے دو ہاتھ کرنے کے لئے مکہ کی طرف رواں دواں ہیں ، پھر چشمِ عالم نے دیکھا کہ وہ بڑے بڑے سردار جنہوں نے آقا علیہ السلام کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا ، جنہوں نے آقا علیہ السلام کے صحابہ پہ زمین تنگ کر رکھی تھی برکتیں اور  جنہوں نے آقا علیہ السلام کو عمرہ ادا کرنے نہیں دیا تھا وہ سب کے سب آقا علیہ السلام کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں اور معافی کے طلبگار ہیں۔

سیدنا ابوہریرہ ﷜

سیدنا ابو ہریرہ ﷜وہ عظیم شخصیت ہیں جن سے سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں ، بہت زیادہ غربت تھی ، ہر وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے کہ کوئی فرمان مجھ سے رہ نہ جائے ، کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا ، بہت زیادہ آزمائشوں سے گزرے۔

لیکن وقت ایک جیسا نہیں رہتا ، وقت کروٹ لیتا ہے اور حالات بدل جایا کرتے ہیں. کیسے بدلتے ہیں..؟صحیح بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے؛

عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَشَّقَانِ مِنْ كَتَّانٍ فَتَمَخَّطَ فَقَالَ بَخْ بَخْ أَبُو هُرَيْرَةَ يَتَمَخَّطُ فِي الْكَتَّانِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لَأَخِرُّ فِيمَا بَيْنَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ مَغْشِيًّا عَلَيَّ فَيَجِيءُ الْجَائِي فَيَضَعْ رِجْلَهُ عَلَى عُنُقِي وَيُرَى أَنِّي مَجْنُونٌ وَمَا بِي مِنْ جُنُونٍ مَا بِي إِلَّا الْجُوعُ [بخاری: 7324]

ترجمہ: سیدنا محمد بن سیرین سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم سیدنا ابو ہریرہ ﷜کے پاس تھے جبکہ انہوں نےکتان کے دو کپڑے پہن رکھے تھے جنہیں سرخ مٹی میں رنگا گیا تھا۔ انہوں نے ان کپڑوں میں ناک صاف کی اور کہا: تعجب ہے کہ ابو ہریرہ کتان کے کپڑوں میں ناک صاف کر رہا ہے، حالانکہ میں نے ایک وقت خود کو دیکھا کہ میں رسول اللہﷺ کے منبر اور سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے درمیان بے ہوش پڑا ہوتا تھا اور گزرنے والا تو میری گردن پر اپنا پاؤں رکھتا اور گمان کرتا کہ میں مجنوں اور دیوانہ ہوں، حالانکہ مجھے جنوں نہ تھا بلکہ بھوک کی وجہ سے دیوانہ وار گر پڑتا تھا۔                                                                      اندازہ کیجئے کہ حالات کیسے بدلے اور وقت نے کیسے کروٹ لی۔ وہ سیدنا ابوہریرہ﷜ جو بھوک اور فاقوں کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے تھے ، ایک وقت آتا ہے کہ بیش قیمت کپڑے پہنتے ہیں اور امیر المؤمنین فی الحدیث شمار ہوتے ہیں۔

سیدنا عبدالرحمن بن عوف ﷜

سیدنا انس بن مالک ﷜بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجر لوگ مدینہ میں آئے تو رسول اللہ ﷺ  نے عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد ﷜نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں اس لیے آپ میرا آدھا مال لے لیں اور میری دو بیویاں ہیں آپ انہیں دیکھ لیں جو آپ کو پسند ہو اس کے متعلق مجھے بتائیں میں اسے طلاق دے دوں گا۔ عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا:

بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ أَيْنَ سُوقُكُمْ

اللہ تمہارے اہل اور مال میں برکت عطا فرمائے تمہارا بازار کدھر ہے؟

چنانچہ انہوں نے بنی قینقاع کا بازار انہیں بتا دیا، جب وہاں سے کچھ تجارت کر کے لوٹے تو ان کے ساتھ کچھ پنیر اور گھی تھا پھر وہ اسی طرح روزانہ صبح سویرے بازار میں چلے جاتے اور تجارت کرتے آخر ایک دن خدمت نبوی میں آئے تو ان کے جسم پر (خوشبو کی) زردی کا نشان تھا آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے انہوں نے بتایا کہ میں نے شادی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا:

كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا قَالَ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ                               مہر کتنا ادا کیا ہے؟ عرض کیا کہ سونے کی ایک گٹھلی یا (یہ کہا کہ) ایک گٹھلی کے وزن برابر سونا ادا کیا ہے. [بخاری: 3781-3780]

صحیح بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جب سیدنا عبدالرحمن بن عوف ﷜ہجرت کے لٹے پٹے قافلوں کے ساتھ مدینہ پہنچے تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر وقت نے کروٹ لی اور حالات بدلے۔ انہوں نے تجارت شروع کی اللہ تعالیٰ نے برکت ڈال دی اور نکاح کیا تو حق مہر میں سونے کی ایک گٹھلی دی اور جب انہوں نے وفات پائی تو ان کی چار بیویاں تھیں اور بیویوں کو اولا کی موجودگی میں کل مال کا آٹھواں حصہ دیا جاتا ہے ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف ﷜کی ہر بیوی کو تقریباً ساڑھے دس من سونا ملا.

[ابن حبان: 5964 ، مسند احمد: 7028-12685 صححہ الالبانی]

 یعنی کہ ان کے کل مال کا آٹھواں حصہ بیالیس من سونا تھا

اور انہوں نے ایک باغ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے لیے وقف کر دیا تھا جس کی مالیت 40 ہزار درہم تھی۔  [ترمذی: 3749 حسنہ الالبانی]

قاضی ابو بکر محمد بن عبدالباقی انصاری رحمہ اللہ

قاضی ابو بکر محمد بن عبدالباقی انصاری رحمہ اللہ کہتے ہیں؛

میں مکہ مکرمہ میں مقیم تھا۔ ایک دن مجھے سخت بھوک لگی، مجھے کوئی ایسی چیز نہ مل سکی جس سے اپنی شدید بھوک مٹا سکوں ۔ اس دوران مجھے ریشم کی ایک تھیلی گری ہوئی ملی۔ اس کا منہ بھی ریشمی دھاگے سے سلا ہوا تھا ۔میں نے تھیلی لی اور سیدھا اپنے گھر آیا ۔جب تھیلی کھولی تو اس کے اندر موتیوں کا ایک نہایت خوبصورت ہار تھا۔ اس سے پہلے میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا خوبصورت ہار نہیں دیکھا تھا ۔تھیلی کو گھر میں رکھا اور باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی پانچ سو دینار ہاتھوں میں لیے اعلان کر رہا تھا: میری ریشمی تھیلی گم ہو گئی ہے جس میں موتیوں کا ہار ہے، جو شخص اسے واپس دے گا، یہ پانچ سو دینار اسے بطور انعام دوں گا ۔ میں نے اس کا اعلان سن کر دل میں کہا؛

میں اسکا ضرورت مند ہوں ، فاقہ کشی ہے ، مگر یہ ہار میرا نہیں ہے ۔ نہ ہی اس پر میرا کوئی حق ہے۔ مجھے ہر حالت میں اسے واپس کر دینا چاہیے ۔ اچانک دل میں خیال آیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے؛

"جس نے اللہ کے لیے کوئی چیز چھوڑی اللہ تعالی اس کو اس سے بہتر عطا فرمائیں گے ۔”

[مسند احمد: 21996 صححہ الالبانی]

اس حدیث کو یاد کرنے کے بعد میں نے اپنے عزم کو اور پختہ کیا اور گھر جا کر وہ تھیلی لایا ۔ بوڑھے نے مجھے تھیلی کی علامت، اس کے پھندنے کی علامت اور تھیلی میں موجود ہار میں موتیوں کی لڑیوں کی تعداد بتا دی، نیز جس دھاگے سے تھیلی بندھی ہوئی تھی، اسکی علامت بھی بتا دی۔ میں نے تھیلی بوڑھے کے سپرد کر دی ۔ بوڑھے نے اپنی تھیلی پا کر مجھے پانچ سو دینار دینے کی کوشش کی لیکن میں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا : اس تھیلی کو اس کے حق تک پہنچانا مجھ پر واجب تھا، اس لئے میں اسکا بدلہ نہیں لے سکتا ۔ بوڑھے نے کہا: نہیں، تمہیں یہ ضرور لینا ہوگا۔پھر اس نے بار بار اصرار کیا لیکن میں نے جب لینے سے انکار کردیا تو وہ مجھے چھوڑ کر چلتا بنا۔

میرے پاس کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں تھا جس سے میں اپنی زندگی گزارتا ، میں نے ذریعہ معاش کی تلاش میں مکہ مکرمہ سے رخصت سفر باندھا اور سمندر کی طرف روانہ ہو گیا ۔ اتفاق سے میری کشتی ٹوٹ گئی اور لوگ غرقاب ہو گئے ۔ کشتی میں جو کچھ سازو سامان تھا،وہ سب سمندر کی نذر ہو گیا ۔اتفاق سے کشتی کا ایک تختہ میرے ہاتھ لگ گیا، میں اس پر بیٹھ گیا، نہ جانے کب تک سمندر کے تھپیڑوں سے دوچار ہوتا رہا، مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں اور میری منزل کدھر ہے؟

سمندر کے تھپیڑوں نے مجھے ایک ایسے جزیرہ میں لا ڈالا جہاں کچھ لوگ آباد تھے ۔میں جزیرے کے اندر داخل ہوا اور وہاں ایک مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا ۔ جزیرے کے لوگوں نے میری قرات سنی تو بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے: ہمیں اور ہمارے بچوں کو بھی قرآن پڑھنا سکھلاو ۔چنانچہ میں ان لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے لگا ۔انہوں نے میری کافی خاطر مدارات کی ۔

ایک دن میری نگاہ مسجد کے اندر قرآن کریم کے چند اوراق پر پڑی، تو میں انہیں لے کر لکھنے لگ گیا : لوگوں نے پوچھا : کیا تمھیں اچھی طرح لکھنا بھی آتا ہے؟ میں نے جواب دیا:

ہاں ۔ ان لوگوں نے مجھ سے درخواست کی : ہمارے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاو ۔ اور میں نے انہیں لکھنے پڑھنے کی تعلیم دینے لگا ۔ اسکی وجہ سے مجھے بہت سا مال بھی حاصل ہو گیا، اور گاؤں میں میری خاص اہمیت بھی ہو گئی ۔ چند دنوں کے بعد ان لوگوں نے مجھ سے کہا: ہمارے ہاں ایک یتیم لڑکی ہے، نیک سیرت اور خوبصورت ہے ۔ اسکے پاس ورثے میں کچھ دولت بھی آئی ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ اس سے تمھاری شادی کر دیں ۔لیکن میں نے شادی کرنے سے انکار کر دیا ۔ان لوگوں نے کہا:

نہیں نہیں! ہم تمھاری شادی کرکے چھوڑیں گے، پھر انہوں نے مجبور کردیا ۔ میں نے کچھ پس و پیش کے بعد ہاں کردی۔

شادی کے بعد جب بیوی سامنے آئی تو میں نے دیکھا کہ بلکل وہی موتیوں کا ہار اسکے گلے کی زینت بنا ہوا ہے جس کو میں نے مکہ مکرمہ میں پایا تھا ۔ میں ٹکٹکی باندھ کر ہار کی جانب دیکھنے لگا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا: بھائی! تم اس یتیم لڑکی کی طرف سے نگاہ پھیر کر اسکے ہار کی طرف دیکھ رہے ہو، تم نے تو اس یتیم کا دل توڑ دیا! میں نے ان لوگوں کو اس ہار کا قصہ تفصیل سے بتایا ۔

ان لوگوں نے میری بات سن کر بلند آواز سے "لا آلہ اللہ و اللہ و اکبر”

کا نعرہ لگایا ۔ میں نے پوچھا: بات کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بوڑھا شخص جس کا ہار تمہیں ملا تھا، اسی یتیم لڑکی کا باپ تھا ۔ وہ بسا اوقات کہا کرتا تھا۔ میں نے پوری دنیا میں صرف ایک ہی کامل مسلمان دیکھا ہے اور وہی ہے ، جس نے موتیوں کا ہار پا کر میرے حوالے کر دیا ۔ نیز وہ برابر اپنی دعا میں کہا کرتا تھا: اے اللہ !!! مجھے اور اس آدمی کو ایک ساتھ اکٹھا کردے تاکہ میں اپنی صاحبزادی کی اس سے شادی کردوں۔

اور اب یقینا اللہ تعالی نے اس کی مراد پوری کردی اور تم خود بخود یہاں آن پہنچے۔

قاضی ابوبکر کا بیان ہے: پھر میں اس لڑکی کے ساتھ جواب اب میری بیوی تھی ایک زمانے تک زندگی کا سفر طے کیا۔۔۔اس سے دو بچے پیدا ہوئے پھر اس نیک و صالح بیوی کئ وفات ہوگئی وہ ہار مجھے اور بچوں کو وراثت میں ملا پھر کچھ دنوں بعد میرے یہ دونوں بیٹے بھی باری باری اللہ کو پیارے ہوگئے اور یہ ہار میری وراثت میں آگیا ۔ میں نے بعد میں یہ ہار ایک لاکھ دینات میں فروخت کردیا ،یہ جو دولت تم میرے پاس دیکھ رہے ہو یہ اسی ہار کی بدولت ہے۔

[کتاب الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب الحنبلی جلد 3 صفحہ 196]

معزز سامعین:

اس واقعہ سے ہمیں کئی باتیں سمجھ جاتی ہیں۔ ہمارے موضوع کے متعلقہ بات یہ ہے کہ قاضی ابو بکر محمد بن عبدالباقی انصاری رحمتہ اللہ علیہ کے حالات یہ تھے کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ لیکن دن سدا ایک جیسے نہیں رہتے ، حالات بدل جایا کرتے ہیں اور ایسے بدلے کہ جس قیمتی ہار کو انہوں نے واپس کردیا تھا ، اللہ نے وہی انکو واپس دلادیا۔

❄❄❄❄❄