ہمسایہ کے حقوق

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ۝۳۶ (النساء: (36)
اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ ماں باپ کے ساتھ احسان اور سلوک کرو اور اپنے رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں یقیناً اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اس آیت کریمہ میں منجملہ اور حقوق کے ہمسایہ کے حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں۔
ہمسایہ اور پڑوسی وہ رہنے والے دو آدمی ہیں جو ایک دوسرے کے قریب رہتے اور بستے ہیں انسانیت اور اس کے تمدن کی بنیاد باہمی اشتراک عمل تعاون اور موالات پر قائم ہے اس دنیا میں ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے اگر ایک بھوکا ہے تو دوسرے پر حق ہے کہ اپنے کھانے میں سے اس کو بھی کھلائے اگر ایک تندرست ہے تو اپنے بیمار بھائی کی تیمارداری کرے۔ ایک پر اگر کوئی مصیبت آئے تو دوسر اس کا شریک اور ہمدرد بنے اور اخلاقی نظام کے ساتھ انسانوں کی مجموعی آبادی باہمی محبت اور حقوق کی ذمہ داریوں کی گرہ میں بندھ کر ایک ہو جائے۔ ہر انسان بظاہر جسمانی اور مادی حیثیت سے جتنا ایک دوسرا سے علیحدہو اور بجائے خود مستقل ہے اخلاقی اور روحانی حیثیت سے فرض ہے کہ وہ اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے سے ملا ہوا ہو اور ایک کا وجود دوسرے کے وجود سے پیوستہ ہو۔ اسی لئے ہر مذہب نے ان دونوں انسانوں پر جو ایک دوسرے کے قریب آباد ہوں آپس کی محبت اور مدد کی ذمہ داری رکھی ہے کہ وہی وقت پر اوروں سے پہلے ایک دوسرے کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ انسان کو اسی سے تکلیف اور دکھ پہنچنے کا ذریعہ بھی زیادہ ہے جو ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اس لئے ان کے باہمی تعلقات خوشگوار رکھنے اور ایک دوسرے کو ملائے رکھنا ایک سچے مذہب کا سب سے بڑا فرض ہے تاکہ برائیوں کا سد باب ہو کر یہ پڑوس دوزخ کے بجائے بہشت کا نمونہ ہو اور ایک دوسرے کی محبت اور مدد پر بھروسہ کر کے گھر سے باہر نکلے اور گھر میں قدم رکھے۔
اسلام نے ان ہی حکمتوں کو سامنے رکھ کر ہمسائیگی کے حقوق کی دفعات بنائی ہیں عربوں میں دوسری قوموں سے زیادہ اسلام سے پہلے بھی پڑوس اور ہمسائیگی کے حقوق نہایت اہم تھے بلکہ وہ عزت وافتخار کا موجب تھے اگر کسی عرب کے پڑوسی کے لئے بے عزتی اور عار کا موجب تھا تو اس کے لئے اس کی خاطر لڑنے مرنے کو وہ اپنی شرافت کا نشان سمجھتا تھا اسلام نے آکر عربوں کے اس احساس کو چند ترمیموں اور اصلاحوں کے ساتھ اور زیادہ قوی کر دیا۔
اب اس سلسلے میں ان احادیث کو پڑھئے اور سنیئے جن میں رسول اللہﷺ نے پڑوسی کے حقوق کی اہمیت بتائی ہے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو یا اجنبی مسلمان ہو یا کافر۔
حضرت امام بخاري رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ادب المفرد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے:
(قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِى جَارًا تُؤْذِينِي فَقَالَ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ۔ فَانْطَلَقَ فَأَخْرَجَ مَتَاعَهُ فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ فَقَالُوا مَا شَاْنُكَ قَالَ لِي جَارٌ يُؤْذِينِي فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ۔ فَجَعَلُوا يَقُولُوْنَ اللَّهُمَّ الْعَنْهُ اللَّهُمَّ أَخْزِهِ فَبْلَغَهُ فَاتَاهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَى مَنْزِلِكَ فَوَ اللَّهِ لَا أُوذِيكَ)[1]
’’ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ہمسایہ مجھے ایذا دیتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں پھینک دو۔ وہ گیا اور اپنے سامان کو راستے میں ڈال دیا تو لوگ اس کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میرا ہمسایہ مجھے تنگ کرتا رہتا ہے میں نے نبیﷺ سے یہ ذکر کیا تو آپ نے مجھے اپنا سامان راستے میں ڈالنے کا حکم دیا۔ تو لوگ کہنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] الأدب المفرد للبخاري: ص 42، ابو داؤد كتاب النوم، باب حق الجوار 504/4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے اللہ اس پر لعنت کر اس کو ذلیل کر۔ اس آدمی کو جب پتہ چلا تو وہ آیا اور کہنے لگا اپنے گھر واپس چلے جاؤ۔ میں تجھے اب نہیں ستاؤں گا۔‘‘
اور برے پڑوسی سے بچنے کے لئے یہ دعا رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے کہ تم برے پڑوی اور برے ہمسائے سے اس طرح پناہ مانگتے رہو۔
(اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ يَوْمِ السُّوءِ وَ مِنْ لَيْلَةِ السُّوءِ وَمِنْ سَاعَةِ السُّوْءِ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوْءِ وَمِنْ جَارِ السُّوءِ فِي دَارِ الْمَقَامَةِ.) [1]
’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں برے دن اور رات اور بری گھڑی سے اور برے ساتھی اور برے ہمسائے سے۔‘‘
نیک پڑوسی باعث سعادت اور موجب برکت ہے اور برا پڑوسی باعث نحوست ہے رسول اللہﷺٰ نے فرمایا:
(اَرْبَعٌ مِنَ السَّعَادَةِ اَلْمَرَأَةُ الصَّالِحَةُ وَالْمَسْكَنُ الْوَاسِعُ وَالْجَارُ الصَّالِحُ وَالْمَرْكَبُ الْهَنِيءُ وَارْبَعَ مِنَ الشَّقَاءِ الْجَارُ السُّوءُ وَالْمَرْأةُ السُّوءُ وَالْمَرْكَبُ السُّوءُ وَالْمَسْكُنُ السوء)[2]
’’چار آدمی نیک بختی کا سبب ہیں۔ 1۔ نیک بیوی 2۔ کشادہ مکان 3۔ نیک پڑوی 4۔ اچھی اور فرمانبردار سواری جو اپنے سوار کو تکلیف نہ پہنچائے اور چار چیزیں باعث شقاوت اور موجب نحوست ہیں۔ 1۔ برا پڑوسی۔ 2۔ بری عورت۔ 3۔ بری سواری 4۔ تنگ مکان‘‘
اور ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ يُحِبُّ ثَلَالَةً فَقُلْتُ فَمَنْ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ رَجُلٌ غَزَافِى سَبِيلِ اللهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ وَأَنْتُمْ تَجِدُونَهُ عِنْدَكُمْ فِي كِتابِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ تَلَا: ﴿اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيْلِهِ صَفًّا كَانَّهُمُ بنْيَانٌ مَّرَصُوصٌ﴾ قُلْتُ وَمَنْ؟ قَالَ: رَجُلٌ كَانَ لَهُ جَارُ سُوْءٍ يُؤْذِيهِ فَيَصْبِرُ عَلَى آذَاهُ حَتَّى يَكْفِيهِ اللَّهُ إِيَّاهُ بِحَيَاةٍ أَوْ مَوْتٍ)[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] طبرانی کبیر 294/17 (810)
[2] ابن حبان: كتاب النکاح باب ذكر الاخبار عن الاشياء التي هي من السعادة: (4021)
[3]: مسند احمد: 151،176/5، طبرانی کبیر (152/2 (1637)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اللہ تین آدمیوں کو دوست رکھتا ہے۔ میں نے عرض کیا وہ تین خدا کے دوست کون ہیں؟ جن سے اللہ دوستی رکھتا ہے آپﷺ نے فرمایا ایک مجاہد فی سبیل اللہ صبر کرنے والا اور ثواب کی نیت سے جہاد کرنے والا ہے یہاں تک کہ وہ شہید ہو جائے تم قرآن مجید میں اس آیت کو پاتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ان مجاہدین سے محبت رکھتا ہے جو صف بندی کر کے اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ اور دوسرا وہ شخص ہے کہ اس کا برا پڑوسی اس کو ستاتا ہو اور وہ اس کی تکلیف پر صبر کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف سے بچالے یا اس کو موت دے دے۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک پڑوسی جو اپنے پڑوسی کو نہیں ستانا وہ خدا کا پیارا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(خَيْرُ الْأَصْحَابِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُ هُمْ لِصَاحِبِهِ وَخَيْرُ الْجِيْرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِه)[1]
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ سب سے بہتر ساتھی ہے جو اپنے ساتھی کے لئے بہتر ہو اور پڑوسیوں میں وہ پڑوسی سب سے بہتر ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں اچھا ثابت ہو۔“
پڑوسیوں میں محبت کی ترقی اور تعلقات کی استواری کا بہترین ذریعہ باہم ہدیوں اور تحفوں کا تبادلہ ہے آنحضرتﷺ کی خود اپنی بیویوں کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اس بنا پر ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا کہ یا رسول اللہ میرے دو پڑوسی ہیں تو میں ان میں سے کس کے پاس بھیجوں؟ فرمایا جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہے۔ اس ہدیہ اور تحفہ کے لئے کسی بیش قیمت چیز ہی کی ضرورت نہیں بلکہ کھانے پینے کی معمولی چیزیں بھی اس کے لئے کافی ہیں کچھ نہ ہو سکے تو گوشت کا شور بہ ہی کافی ہے اور وہ زیادہ پانی بڑھا کر ہی کیوں نہ ہو۔[2]
رسول اللہﷺ نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ نصیحت فرمائی تھی۔
(إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَاكْثِرْ مَاءَهَا وَتَعَاهَدْ جِيْرَانَكَ)[3]
’’جب تم کوئی شور بہ دار چیز پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ملالو اور اس سے اپنے پڑوسی کی خبر گیری کرو۔“
یعنی اس کے یہاں بھی بھیج دیا کرو اس طرح کرنے سے آپس میں میل و محبت زیادہ ہوگی اس قسم کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذی، کتاب البر والصلة باب حق الجوار129/3،
[2] بخاري، کتاب الاجارة باب اىُّ الجوار اقرب-
[3] مسلم، کتاب البر والصلة، باب النهي من قول هلك الناس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہدیے اور تحفے بھیجنے کا موقع عورتوں کو پیش آیا کرتا ہے اس لئے رسول اللہﷺ نے خصوصیت کے ساتھ عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
(وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِّجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسَنَ شَاةٍ)[1]
’’کوئی پڑوسن اپنے پڑوسن کے لئے کسی چیز کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ (دینے کے لئے) بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔“
یہ نصیحت و وصیت دونوں پڑوسنوں کے لئے ہے یعنی نہ تو بھیجنے والی پڑوسن اپنے معمولی تھے وہدیہ کو حقیر سمجھ کر تحفہ نہ بھیجے اور دوسری پڑوسن اس معمولی ہدیہ کو دیکھ کر منہ نہ پھیرے بلکہ شکریے کے ساتھ قبول کرے اس طرح سے جب کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن سے روز مرہ کی برتنے والی چیز مانگے تو بلا کسی حیلے بہانے کے اگر موجود ہو تو دے دے جیسے آگ، پانی،نمک، ڈلی، ڈوئی، چیچہ چھلنی، ہانڈی، تشتری، رکابی، کٹورا وغیرہ ایسی چیزوں کی بعض مرتبہ ضرورت پیش آجایا کرتی ہے اور نہ دینے کی صورت میں دوسرے کو بڑی تکلیف پہنچتی ہے قرآن مجید میں ایسی چیزوں کو ماعون کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے جس کی ممانعت سے روکا گیا ہے اور نہ دینے والوں کی بڑی مذمت بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے:
﴿ اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ۝۱ فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ۝۲ وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِؕ۝۳ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ۝۴ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ۝۵ الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَۙ۝۶ وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۠۝۷﴾ (ماعون: 1تا7)
’’کیا آپ نے اس کو دیکھا ہے جو قیامت کے دن کو جھٹلاتا ہے یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی رغبت نہیں دیتا۔ ان نمازیوں کے لئے افسوس ہے جو اپنی نمازوں میں سستی کرتے ہیں اور دکھانے کے لئے ادا کرتے ہیں اور برتنے کی چیزوں کو روک لیتے ہیں۔‘‘
برتنے کی چیزوں سے مراد آگ، پانی، ڈور، رہی، کدال، پھاوڑا اس قسم کی چیزیں ہیں جو مانگنے پر موجود ہوتے ہوئے نہ دے وہ منافق ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت انسانی معاشرہ اس کا متقاضی ہے کہ اس قسم کی چیزیں فراخدلی کے ساتھ دی جائیں۔ اگر پڑوسی کو دیوار میں سیخ اور کھونٹی گاڑنے کی ضرورت پیش آ جائے اور گاڑنے سے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے تو گاڑنے سے روکنا نہیں چاہئے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا يَمْنَعُ جَارٌ جَارَہُ أَنْ يَغْرِزَ خَشْبَتَهُ فِي جَدَارِهِ.)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب، باب لا تحقرن جارة لجارتها۔
[2] بخاري: کتاب المظالم باب لا يمنع جار جاره ان يغرز خشبة في جداره
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی کوئی پڑوسی اپنے ہمسایہ کو دیوار میں کھونٹی گاڑ نے سے منع نہ کرے۔“
جس کا مکان مکان سے ملا ہوا ہو اور دیوار دیوار سے ملی ہوئی تو ایسی ضرورت پیش آجایا کرتی ہے اور اس قسم کی ہمدردیوں کا زیادہ مستحق ہے کیونکہ وہ سب سے زیادہ قریب ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
(يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِى جَارَيْنَ فَإِلَى اَیِّهِمَا اُهْدِى قَالَ إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا)[1]
’’یارسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کے یہاں ہدیہ اور تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تمہارے دروازے کے قریب ہو۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قریب والے پڑوسی کا زیادہ حق ہے اگر آسودہ پڑوسی آسودہ ہو کر کھائے پئے اور غریب محتاج پڑوسی کی خبر گیری نہ کرے تو وہ کامل مومن نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ)[2]
’’یعنی وہ مومن نہیں جو خود آسودہ ہو اور اس کے بغل کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘
پڑوسی خواہ وہ دوست ہو یا دشمن مسلمان ہو یا غیر مسلم سبھی کا حق برابر ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے یہاں بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا:
(هَلْ أَهْدَيْتُمْ مِنْهَا لِجَارِنَا الْيَهُودِي قَالَ لَا قَالَ اِبْعَثُوا لَهُ مِنْهَا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا زَالَ جِبْرِيلَ يُوصِينِى بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سیورثه)[3]
’’کیا تم لوگوں نے میرے یہودی ہمسائے کو اس بکری کے گوشت میں سے کچھ ہدیہ بھیجا ہے یا نہیں؟ گھر والوں نے کہا نہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: کہ اس میں سے کچھ گوشت ہدیہ کے طور پر بھیج دو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے جبرئیل علیہ السلام ہمسائے کے ساتھ نیکی کرنے کی اتنی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس کو ورثہ کا حصہ دار بنا دیں گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الاجارة باب اى الجوار اقرب۔
[2] طبراني كبير: 119/12 (12741)، مستدرك حاكم 167/4.
[3] ابوداؤد، کتاب النوم باب في حق الجوار: 504/4.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ گوشت کا ایک لوتھڑا لٹکائے جارہے ہیں۔ پوچھا کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا :امیر المومنین گوشت کھانے کو جی چاہتا ہے تو ایک درہم کا گوشت خریدا ہے۔ فرمایا اے جابر! کیا اپنے پڑسی یا عزیز کو چھوڑ کر صرف اپنے پیٹ کی فکر کرنا چاہتے ہو۔ کیا تمہیں یہ آیت یاد نہیں ہے:
﴿وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيٰو تِكُمُ الدُّنْيَا وَ اسْتَمْتَعْتُم بِهَا﴾ (احقاف: 20)
’’جس دن کافر دوزخ کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا تم نے اپنی دنیا کی زندگی میں خوب مزے لوٹ لئے اور خوب زندگی سے فائدہ اٹھایا۔‘‘[1]
رسول اللہ ﷺ کی سچی محبت یہی ہے کہ آپ کے ارشاد پر عمل کیا جائے اور پڑوسی کی عزت کی جائے۔ عبدالرحمان بن ابی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔
(انَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ يَوْمًا فَجَعَلَ يَوْمًا أَصْحَابُهُ يَتَمَسَّحُونَ بِوَضُوئِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَمَلَكُمْ عَلَى هَذَا قَالُوا حُبُّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّه أَنْ یُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ أَو يُحِبُّهُ الله وَرَسُولُه فَلْيَصْدُقُ حَدِيثَه إِذَا حَدَّتَ وَلْيُؤَدِّ اَمَانَتَهُ إِذَا ائْتُمِنَ وَلْيُحْسِنُ جَوَارَ مَنْ جَارَ)[2]
’’ایک روز نبی کریمﷺ نے وضو کیا تو آپ کے وضو کے پانی کو آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم منہ پر ملنے لگے رسول اللہ لی ایم نے فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور رسول کی محبت کی وجہ سے۔ آپ نے فرمایا ہے یہ بات بھلی معلوم ہو کہ وہ اللہ اور رسول کو دوست رکھے یا اللہ اور رسول اس کو دوست رکھیں تو اسے چاہئے کہ جب بولے تو بیع بولے اور جب لوگ اس کا اعتبار کر کے امانت رکھیں تو ان کی امانتیں جب وہ مانگیں ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خدا اور رسول کے ساتھ محبت رکھنے کی نشانی ہے اور اگر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تو یہ خدا اور رسول کے ساتھ دشمنی رکھنے کی علامت ہے جیسا کہ خود رسول اللہﷺ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] موطا امام مالك: كتاب الجامع، باب ماجاء في اكل اللحم
[2] شعب الايمان للبيهقي 201/2 (1533)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ قِيْلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ)[1]
’’ خدا کی قسم وہ پورا مومن نہیں ہے خدا کی قسم وہ کامل مومن نہیں ہے خدا کی قسم وہ شخص کامل ایماندار نہیں ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون شخص ہے؟ آپ نے فرمایا وہ شخص ہے جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے بے خوف و خطر نہ ہو اور محفوظ نہ ہو۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ایذا پہنچانے والا مومن نہیں ہے بلکہ پڑوسی کو ایذاء پہنچانے والا دوزخی ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
(قَالَ رَجُلٌ يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ فُلانَةَ تُذكَرُ مِنْ كَثْرَةِ صَلوتِهَا وَصِيَامِهَا وَصَدَقَتِهَا غَيْرَ أَنَّهَا تُؤْذِي جِيْرَانَهَا بِلِسَانِها: قَالَ هِيَ فِي النَّارِ۔ قَالَ يَارَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ثَلَاثَةَ تُذكَرُ مِنْ قِلَّةٍ صِيَامِهَا وَصَدَقَتِهَا وَصلوتِهَا وَلَا تُؤْذِي بِلِسَانِهَا جَيْرَانَهَا قَالَ هِيَ فِي الْجَنَّةِ)[2]
ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! فلاں عورت کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ وہ نماز بہت زیادہ پڑھتی ہے روزے بکثرت رکھتی اور خیر خیرات بہت کرتی ہے مگر ساتھ ہی ہمسائے کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ عورت دوزخ میں جائے گی کیونکہ نماز روزہ خیر خیرات اگر چہ افضل العبادات ہیں مگر وہ اس گناہ یعنی ایذائے ہمسایہ کی تلافی نہیں کر سکتے۔ عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! فلاں عورت کی نسبت کہتے ہیں کہ نماز کم پڑھتی ہے اور روزے تھوڑے رکھتی ہے اور خیر خیرات بھی یوں سی کرتی ہے۔ ہاں ہمسائے کو زبان سے تکلیف نہیں دیتی۔ فرمایا: وہ جنت میں جائے گی (کیونکہ ہمسائے کا تکلیف دینا دوسری، توں کی تلافی کر دیگا۔)‘‘
پڑوسی کوستانا گناہ کبیرہ ہے قیامت کے روز سب سے پہلے ان دو پروسیوں کی خدا کے سامنے پیشی ہوگی جنہوں نے دنیا میں ایک دوسرے کی حق تافی کی ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اول الخصمین یوم القیامة جاران)[3]
’’قیامت کے روز سب سے پہلے وہ دو پڑوسی خدا کے سامنے پیش ہوں گے جنہوں نے ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الادب، باب الادب اثم من لا یأمن جارہ
[2] مسند احمد 440/7، شعب الايمان للبيهقى 4992-
[3] مسند احمد: 151/4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے کا حق ادا نہیں کیا اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے تھے۔“
قیامت کے دن خدا کے سامنے ہمسایہ اپنے ہمسایہ کے بارے میں یہ شکایت کرے گا کہ اس نے نہ مجھے اچھی باتوں کی نصیحت کی اور نہ بری باتوں سے روکا، نہ نماز پڑھنے کو کہا اور نہ روزہ رکھنے کو کہا۔
نیک و بد کی یہ پہچان ہے کہ اگر پڑوسی اپنے پڑوسی کے بارے میں یہ کہے کہ یہ اچھا ہے تو وہ اچھا ہے اور جو برا کہے وہ برا ہے۔ اس کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
( قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهَ! كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ وَإِذَا اَسَأْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَمِعْتَ جَيْرَانَكَ يَقُولُونَ قَد اَحْسَنْتَ فَقَدْ أَحْسَنْتَ وَإِذَا سَمِعْتَهُمْ يَقُولُونَ قَدْ اَسَاْتَ فَقَدْ اَسَاْتَ)[1]
’’کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اپنے برے عمل کا علم کیونکر ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تو اپنے ہمسایوں کو کہتا ہوا سنے کہ تو نے اچھائی کی ہے تو جان کہ میں نے اچھا عمل کیا ہے اور جب انہیں کہتا ہوا سنے کہ تو نے برا کام کیا ہے تو سمجھ لے بے شک میں نے برا عمل کیا ہے۔“
یعنی اچھے اور برے ہونے کی یہی کسوٹی ہے کیونکہ پڑوسی اپنے پڑوسی کے اخلاق حمیدہ اور افعال ذمیمہ سے خوب واقف ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(مَنْ يَأْخُذُ مِنِّى هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ قُلْتُ أَنَا فَاَخَذَ بِيَدِی فَعَدَّ خَمْسًا فَقَالَ اِتَّقِ الْمَحَارَمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ وَارْضَ بِمَا قَسَّمَ اللَّهُ لكَ تَكُنْ أَغْنَي النَّاسِ وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا وَاحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا وَلَا تَكْثِرِ الضّحْكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضِّحْكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ)[2]
’’کون شخص ان کلمات کو (جو میں ابھی کہتا ہوں) مجھ سے سیکھتا ہے پھر اس پر کار بند ہوتا ہے یا اس شخص کو سکھاتا ہے جو انہیں عمل میں لائے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ میں سیکھتا ہوں۔ تو آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر پانچ باتیں فرما ئیں۔ حرام سے بچو، سب سے زیادہ عابد بن جاؤ گے۔ راضی بالقضا و قدر ہو جاؤ تو سب سے زیادہ غنی ہو جاؤ گے۔ اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ بھلائی کرو تو مومن بن جاؤ گے اور جو اپنے لئے چاہو وہی لوگوں کے لئے چاہو تو کامل مسلمان بن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن ماجه: كتاب الزهد باب الثناء الحسن (4223)
[2] مسند احمد: 310؍2، ترمذی کتاب الزھد، باب من اتقی المحارم 257؍3۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاؤ گے اور زیادہ مت ہنسو اس لئے کہ زیادہ ہنستا دل کو مار دیتا ہے۔“
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیکی کرنا مسلمان کامل ہونے کی دلیل ہے رسول اللهﷺ ہمیشہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی نصیحت و وصیت فرمایا کرتے تھے۔
اپنے پڑوسی اور ہمسایہ کو تکلیف پہنچا نا حرام ہے
آپ ﷺ نے فرمایا:
(لَا يَدُخُلُ الْجَنَّةَ عَبْدٌ لَا يَاْمَنْ جَارُهُ بَوَائِقَهُ)[1]
’’وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے امن میں نہ ہو۔“ برائی برائی ہے جہاں بھی ہو اور گناہ گناہ ہے جہاں بھی سرزد ہو لیکن اگر وہ برائی اور گناہ اس جگہ پر ہو جہاں لازمی طور پر نیکی ہونی چاہئے تھی تو ظاہر ہے کہ اس گناہ اور برائی کا درجہ عام گناہوں اور برائیوں سے بدرجہا زیادہ ہے بد قسمت انسان چوری ہر جگہ کر سکتا ہے مگر ظاہر ہے۔ کہ پڑوسی کے مکان میں چوری کرنا کتنا برا ہے۔ بدکاری اس سے ہر جگہ ممکن ہے مگر پڑوسی کے گھر میں جہاں سے دن رات کی آمدورفت ہے اور جہاں کے مرد پڑوسی کے شریف مردوں پر بھروسہ کر کے باہر جاتے ہیں وہاں اخلاقی خیانت کس قدر شرمناک ہے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے دریافت کیا۔
(مَا تَقُولُونَ فِي الزِّنَا قَالُو حَرَامٌ حَرَّمَهُ اللهُ وَرَسُولُهُ فَهُوَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَانُ يَّزْنِيَ الرَّجُلُ بِعَشْرِ نِسْوَةٍ أَيْسَرُ عَلَيْهِ مِنْ أَنْ يَّزْنِيَ بِامْرَأَةِ جَارِهِ قَالَ مَا تَقُولُونَ فِي السَّرَقَةِ قَالُوا حَرَّمَهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَهِيَ حَرَام قَالَ لَأَنْ یَسْرِقَ الرَّجُلُ مِنْ عَشْرِ ابْيَاتٍ أَيْسَرُ عَلَيْهِ مِنْ أَنْ يَسْرِقَ مِنْ بَيْتِ جَارِهِ)[2]
’’زنا کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو۔ لوگوں نے کہا حرام ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دس عورتوں سے زنا کرنا آسان ہے بہ نسبت اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرنے سے (یعنی پڑوسی اور ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرنے کا گناہ دوسری دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے) تم لوگ چوری کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور رسول مﷺ نے حرام کیا ہے اس لئے وہ حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہم نے فرمایا دس گھرانے کی چوری کرنا آسان ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (154/3) [2] مسند احمد: 8/6 طبرانی کبیر: 257/20 (65)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہ نسبت اپنے پڑوسی کے گھر چوری کرنے سے۔ یعنی اپنے پڑوس سے گھر چوری کرنے کا گناہ اس گنا چوری کرنے سے زیادہ سخت ہے۔‘‘
پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کا دوسرا پڑوسی بغیر اس کی مرضی اور اجازت کے اپنا مکان وزمین نہیں پیچ سکتا ہے اور اگر بغیر اجازت کے بیع کر دیگا تو یہ بیع باطل ہوگی اس کو شرعی محاورے میں ’’شفعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهَا إِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا)[1]
’’پڑوسی اپنے شفعہ کا زیادہ حق دار ہے جب کہ دونوں کا ایک ہی راستہ ہوا گر وہ موجود نہیں تو اس کا انتظار کیا جائے۔‘‘
یہ پہلے ہم بتا چکے ہیں کہ انسان مدنی الطبع ہے اس لئے سب کو چاہئے کہ بلا شر و فساد اور بغیر جنگ و جدال کے امن و امان کی زندگی بسر کریں اسی غرض سے اس نے قرآن نازل کیا ہے کہ لوگ اس کی ہدایتوں پر چلیں تو دنیا میں فساد کا نام بھی سننے میں نہ آئے۔ خدا نے امن کے قائم کرنے کے لئے جو احکام نازل فرمائے ان میں ایک حق ہمسایہ کا بھی سے ہمارے یہاں ایک کہاوت کہی جاتی ہے ہمسایہ ماں کا جایا،
پس یہ خلاصہ ہے پڑوسی کے حقوق کا اور ان کی تفصیل ان آیتوں اور حدیثوں میں ہے جو عنوان ہمسایہ کے ذیل میں نقل کی گئی ہیں۔ ہمسائے کے حقوق میں ایک حق شفعہ بھی ہے جو اسلامی شریعت کی ضروریات و خصوصیات میں سے ہے اب اس کی ضرورت کو دوسرے مذہب والوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے اور اب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں جہاں اسلامی قانون کے مکمل ہونے کے اور بہت سے دلائل ہیں ان میں سے ایک حق شفعہ بھی ہے۔
بہر حال ہمسائے کے بڑے حقوق ہیں۔
(1) اسے کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے۔ (2) نہ اس سے بے ہودہ گوئی کی جائے۔
(3) خوشی کے وقت اس کو مبارک باد دی جائے اس کی بیماری میں بیمار پرسی کی جائے۔
(4) مصیبت میں اس کی مدد کی جائے۔ (5) اس کے عیبوں کو چھپایا جائے۔
(6) اس کے بیوی بچوں کو بری نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ (7) اس کو تحفہ تحائف سے نوازا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذى، كتاب الاحكام، باب ماجاء في الشفعة للغائب 3 / 093۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی ہم سب کو پڑوس کے حق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے آمین۔
’’باركَ اللهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْمَجِيدِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَاتِ وَالذِكرِ الْحَكِيمِ۔ وَأَدْخَلَ اللَّهُ وَإِيَّاكُمُ فِي الدَّارِ النَّعِيمِ الْمُقِيمِ۔ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِجَميعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ الأَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَالْأَمْوَاتِ۔ اللَّهُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِينَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاجْعَلْنَا مِنْهُمْ وَاخْدُلْ مَنْ خَذَلَ دِينَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْهُم۔ عِبَادَ اللَّهِ رَحِمَکُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ أَذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرْكُمْ وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ وَلَذِ كُرُ اللَّهِ تَعَالَى أَوْلِي وَأَجَلٌ و اعزو اکبر)