حق اور باطل

﴿ اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ۝۹۵﴾(الحجر:95)

 حق اور باطل کی کشمکش شروع سے چلی آرہی ہے، باطل ہمیشہ حق سے برسر پیکار رہا اور اسے دبانے کی کوشش کرتا رہا، اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا اور اہل حق کو ہرممکن اذیتیں پہنچانے کی کوشش کرتا رہا، دل آزادی سے لے کر تہ تیغ کرنے تک کسی قسم کی ایذا رسانی کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا، اور کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا کہ جس میں کسی طریقے اور کسی انداز میں بھی مسلمانوں کو کوئی زَک پہنچا سکتا ہو۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار ِ بولہبی

تو آج مسلمان جس    ہنی اور قلبی اذیت سے دوچار ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ہر دور میں منکرین حق، اہل حق کو یوں ہی اذیتیں پہنچاتے اور ان کا تمسخر اڑاتے چلے آ رہے ہیں۔

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَكُوْنَؗۖ۝۲۹﴾(المطففین:29)

قرآن کہتا ہے کہ مجرم لوگ ایمان والوں کا مذاق آڑایا کرتے تھے:

﴿ وَ اِذَا مَرُّوْا بِهِمْ یَتَغَامَزُوْنَؗۖ﴾ (المطففين:30)

’جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھوں آنکھوں میں اشارے کرتے ہیں ۔‘‘

﴿ وَ اِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤی اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِیْنَؗۖ۝﴾ (المطففين:31)

’’اور اپنے گھروں کو پلٹتے تو خوش گپیاں کرتے ہوئے مزے لیتے ہوئے  پلٹتے۔‘‘

﴿ وَ اِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوْۤا اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَضَآلُّوْنَۙ۝﴾ (المطففين:32)

’’اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں ۔‘‘

اور یہ کوئی حادثہ نہیں کہ اتفاقاً اور غیر ارادی طور پر سرزد ہو گیا ہو بلکہ یہ ان کا وتیرہ اور ان کی عادت تھی۔

﴿زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا﴾(البقرة:212)

’’جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ، دنیا کی زندگی ان کے لیے محبوب و پسندیدہ بنادی گئی ہے، ایسے لوگ ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔‘‘

 جہاں ان کا یہ طرز عمل عام مسلمانوں کے ساتھ رہا ہے، تو اس سے یہ مت سمجھئے کہ انہوں نے انبیاء و رسل  علیہم السلام کے ساتھ کوئی رعایت برتی ہوگی، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ انبیاء  علیہم السلام کے ساتھ ان کا معاملہ اس سے بھی زیادہ سخت اور توہین آمیز رہا ہے۔

قرآن وحدیث میں منکرین حق کے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ معاملات کو جا بجا بیان کیا گیا ہے، کہ وہ انہیں طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے اور قتل کرنے سے بھی گریز نہ کرتے۔

جیسا کہ اللہ تعالی یہودیوں کا طرز عمل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝﴾(ال عمران:21)

’’ جو لوگ اللہ تعالی کی آیات ، اس کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور عوام میں سے ایسے لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں جو عدل و راستی کا حکم دیتے ہیں، ان کو دردناک عذاب کی نوید سنادو‘‘

اور ایک حدیث میں ہے جو سند کے اعتبار سے تو شائد اتنی قومی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((قَتَلَتْ بَنُو إِسْرَائِيْلَ ثَلَاثَةٌ وَّاَرْبَعِينَ نَبِيًّا مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ فِي سَاعَةٍ وَّاحِدَة))

’’بنی اسرائیل نے ایک روز صبح صبح ایک ہی وقت میں43 نبیوں  کو شہید کرڈالا۔)

((فَقَامَ مِائَةَ وَاِثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مِن عُبَّادِ بَنِي إِسْرَائِيْلَ فَاَمَرُوا مَنْ قَتَلَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوا عَنِ الْمُنْكَرِ فَقَتَلُوا جَمِيْعًا مِّن آخِرِ النَّهَارِ مِنْ ذٰلِكَ الْيَومِ، فَهُمُ الَّذِينَ ذَكَرُ الله عَزَّ وَجَلَّ))

’’ پھر بنی اسرائیل کے (۱۱۲) متقی اور پرہیز گار ترین لوگ کھڑے ہوئے اور ان قتل کرنے والوں کو نصیحت و موعظت کرنے لگے، انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے لگے تو وہ بھی دن کے آخر تک سب کے سب قتل کر دیے گئے۔‘‘

تو انبیاء علیہم السلام کا قتل کیا جانا اور اذیتیں دیا جانا قرآن پاک اور صحیح احادیث میں بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے ایک موقع پر کہ جب آپﷺ مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم کر رہے تھے اس مجلس سے لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کیا۔ محمد!ﷺ نے اس تقسیم میں اللہ اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہیں  رکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

(رَحِمَ الله مُوْسٰى فَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هٰذَا فَصَبر))

’’ اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم فرمائے ، انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیفیں دی گئیں، مگر انہوں نے صبر کیا ۔‘‘

لہٰذا اللہ تعالی مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ۝﴾(الأحزاب:61)

’’اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسی  علیہ السلام کو اذیتیں دیں، پھر اللہ تعالی نے لوگوں کی بنائی ہوئی باتوں سے ان کو بری کر دیا اور وہ اللہ تعالی کے ہاں اعلیٰ مقام رکھتے تھے ۔‘‘

 تو اہل باطل کا یہ شیوہ ہے کہ وہ اہل ایمان کو بالعموم اور انبیاء علیہمم السلام کو بالخصوص اذیتوں اور ظلم و ستم کےنشانہ بناتے ہیں۔

اللہ فرماتے ہیں:

﴿ وَ كَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ۝﴾(الزخرف:6)

’’پہلے گزری ہوئی قوموں میں ہم نے میں ہم نے کتنے ہی نبی بھیجے ۔‘‘

﴿ وَ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝﴾ (الزخرف:7 )

 ’’اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی   نبی ان کے ہاں آیا ہو اور انہوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہے‘‘

﴿ فَاَهْلَكْنَاۤ اَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَّ مَضٰی مَثَلُ الْاَوَّلِیْنَ۝﴾ (الزخرف:8)

’’ پھر جو لوگ ان سے بدرجہا زیادہ طاقتور تھے انہیں ہم نے ہلاک کر دیا، پچھلی قوموں کی مثالیں گزر چکی ہیں۔‘‘

چنانچہ اللہ تعالی ایسے لوگوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

﴿ یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ ؔۚ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝﴾ (یسین:30)

’’افسوس ! لوگوں کے حال پر کہ جو بھی رسول ان کے پاس آیا ، وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔‘‘

یعنی کتنے بد نصیب ہیں کہ اپنے محسنوں کے احسان مند ہونے کے بجائے انہیں تکلیفیں پہنچاتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں یہ خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں ورنہ ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔

اور ان کی حالت بقول شاعر ایسی ہے کہ

كَنَاطِحٍ صَخْرَةً يَوْمًا لِيُوهِنَهَا

 فَلَمْ يَضِرْهَا وَأَوْهَى قَرْنَهُ الْوَعِلُ

’’ ان کی مثال ایسے پہاڑی بکرے کی سی ہے جو ٹکریں مار کر پہاڑ کو کمزور کرنا اور گرا دینا چاہے، وہ پہاڑ کا تو کچھ بگاڑ نہ سکے گا، البتہ اپنے سینگ ضرور  تڑوا بیٹھےگا۔‘‘

آپﷺ کی شان میں گستاخی کرنا آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے۔

 عقبہ بن ابی محیط کا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا وہ قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے تھا، وہ مسلمان تو نہیں تھا مگر دوسرے مشرکین کی طرح آپ سے کو اذیت نہیں دیتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے آپﷺ کو کھانے پر بھی مدعو کیا، آپ ﷺ نے اس کی نرم مزاجی اور اسلام کے لیے نرم گوشہ دیکھ کر، اس کی دعوت قبول کرنے میں ایک شرط رکھ دی، کہ اگر مسلمان ہو جاؤ تو میں آنے کو تیار ہوں ، اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کا ایک بہت گہرا دوست امیہ بن خلف تھا، جب اس کو پتا چلا تو اس نے اس کو برا بھلا کہا، عقبہ بن ابی محیط نے کہا: اچھا بتلاؤ تمہیں کیسے خوش کر سکتا ہوں ؟

اس نے کہا کہ جاؤ محمﷺد سے ہم کو برا بھلا کہو اور اس کے منہ پر تھوک کر آؤ۔

 وہ بد بخت گیا اور اس نے ایسا ہی کیا، اور کہا جاتا ہے کہ اس کی تھوک اس کے منہ پر آپڑی جس سے اس کا منہ اور اس کے ہونٹ جل گئے۔

آپ ﷺ کو دی جانے والی تکلیفوں اور اذیتیوں کی اک طویل داستان ہے جو احادیث اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے اور ان میں سے بہت سے واقعات آپ نے سن بھی رکھے ہوں گے۔

آپﷺ  کی شان میں گستاخی کی کوشش کرنے والے احمق ! احسان فراموش اور بد بخت ہیں۔

آپ ﷺ پوری انسانیت کے محسن ہیں ، دنیا و آخرت میں بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم تمام انسانوں کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں۔ انہوں نے آپﷺ  کی قدر نہیں جانی ، اگر چہ اس سے آپﷺ کی عزت، آپ کی شان اور آپ کے مقام میں ہرگز کوئی کمی نہیں آنے والی، بلکہ دن بدن اضافہ ہی ہوتا ہے۔

اور ان کی اس ناقدری سے بھلا آپﷺ کو کیا نقصان ، بقول شاعر

وَمَا ضَرَّ الْوُرُوْدَ وَمَا عَلَيْهَا

 إِذَا المَزْكُوْمُ لَمْ يَطْعَمْ شَذَاهَا

’’زکام والا شخص اگر پھول کی خوشبو نہیں پاتا تو اس میں پھول کا کیا قصور اور کیا نقصان ہے۔‘‘

 آپ جانتے ہیں کہ کتا اگر کسی انسان پر بھونکتا ہے تو اس سے کسی انسان کی عزت میں ہرگز کی نہیں آتی، کہ انسان انسان ہی رہتا ہے اور کتا کتا ہی رہے گا۔

اب بتلائیے کہ جن کے مقام کو خود اللہ تعالی نے بلند کر رکھا ہو، جن کا ذکر بلند کر رکھا ہو، اسے کون کم کر سکتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾

’’اور ہم نے آپ کے لیے آپ کے ذکر کا آواز ہ بلند کر دیا ہے ۔‘‘

اندازہ فرما ئیں یہ خوشخبری اللہ تعالی نے اس وقت فرمائی تھی جب کوئی شخص سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایسی شخصیت کہ جس کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہوں، اس کا آواز ہ دنیا بھر میں بلند ہوگا۔

آج دنیا میں تقریبا دو بلین کے قریب مسلمان ہیں جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر ملک اور ہر شہر میں مسجد میں قائم ہیں، اذانیں ہوتی ہیں اور نماز میں پڑھی جاتی ہیں، اور دن میں پانچ بار تو با جماعت پڑھی جاتی ہیں ہر نماز میں درود پڑھا جاتا ہے اور اذان میں آپﷺ کا ذکر بلند ہوتا ہے۔

اس حوالے سے حضرت حسان بن ثابت  رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا خوب کہا ہے۔

وَضَمَ الْإِلٰهُ اسْمَ النَّبِيَّ إِلى اسْمِهِ

 إِذَا قَالَ فِي الْخَمْسِ الْمُؤَذِّنُ أَشْهَدُ

’’اور اللہ نے اپنے نام کے ساتھ نہی کا نام بھی ملا رکھا ہے، جب موذن پانچ اذانوں میں اشہد کہتا ہے۔‘‘

جب جب موذن اذان میں اشہد ان لا الہ الا اللہ کہتا ہے ساتھ میں اشہد ان محمدا رسول اللہ بھی کہتا ہے۔

وَشَقَّ لَهُ مِن اسْمِهِ لِيُجِلَّهُ

فَذُو العَرْشِ مَحْمُودٌ وَهَذَا مُحَمَّدُ

’’اور اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی عزت و تکریم کے لیے اپنے ہی نام میں سے آپ ﷺ کا نام بھی نکالا ہے ہاں عرش والا محمود ہے اور آپﷺ محمد ہیں ۔‘‘

 اس لیے اللہ تعالی نے آپ ﷺ کا جو مقام اور ذکر بلند کر رکھا ہے اس کویقینًا   کوئی کم نہیں کر سکتا ۔ مگر اس موقع پر سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں، اسی کے ذمہ دار کون ہیں؟

یہ بات تو ہم نے جان لی کہ یہ اہل باطل کا وتیرہ ہے، ان کی عادت اور روش ہے، مگر کیوں ہے؟ دنیا میں اسلام کے علاوہ بھی تو کئی ادیان ہیں پھر اسلام ہی کے خلاف ظلم وستم کا بازار کیوں گرم ہے۔

اور ایک مسلمان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی قوم پر امن بھی نہیں ہے۔ پھر مسلمانوں کے خلاف ہیں یہ دشمنی اور عدادت اور بغض و نفرت کیوں ؟

اصل بات یہ ہے کہ اسلام سے جو وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں وہ کسی بھی اور دین و مذہب سے نہیں کرتے۔ کیونکہ اسلام دین خالص ہے اس میں کشش اور جاذبیت ہے، اس کی صداقت اور حقانیت ، حق کے متلاشی کو اپنی طرف پہنچتی ہے، چنانچہ لوگ بے ساختہ اسلام کی طرف سے آتے ہیں۔

اور اغیار نے اس بات کو بھانپ لیا ہے کہ اگر لوگ یوں ہی مسلمان ہوتے چلے گئے تو ایک دن یہاں صرف مسلمان ہی ہوں گے، اور یہ پریشانی ان کے لیےیقینًا   ایک حقیقی پریشانی ہے مگر اس میں ہمارا حصہ اور کردار کیا ہے، غور کریں تو  کچھ بھی نہیں بلکہ اس کے برعکس ہم اپنے قول و فعل سے لوگوں کو اسلام سے دور کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، فراڈ کرنا، سودی لین دین اور کاروبار کرنا، رزق حرام کمانا، لاٹو اور پیئر بیچنا ۔ ہمارا یہ طرز عمل لوگوں کو اسلام سے متنفر کرتا ہے۔

یہ تو صرف الله وعدے کے مطابق ہو رہا ہے۔ جو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرما رکھا ہے۔

﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۠۝﴾ (الصف:9)

’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے تمام ادیان (باطلہ ) پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘

 اللہ تعالی کے منصوبے میں کوئی رکاوٹ بن سکتا ہے اور جو کوششیں ہیں بے حیثیت ہیں۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

تو اسلام کے خلاف اغار کی ہرزہ سرائی، توہین رسالت کی کوششوں اور مسلمانوں کے استہزا اور اذیت کے بہت سے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ آج مسلمان دنیا دار، دین  بے زار اور و ہن کا شکار ہو چکے ہیں، اور وہن یہ ہے کہ (حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ المَوْتِ)

’’ دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی ۔‘‘

 چنانچہ آج من حیث القوم مسلمانوں پر ذلت و رسوائی مسلط کر دی گئی ہے، اور وہ پہلی سی عزت و توقیر، شان و شوکت اور مقام و مرتبہ تب واپس لوٹے گا، جب (حتى ترجعوا إلى دينكم ) ہوگا۔ یعنی جب مسلمان دین کی طرف واپس لوٹ آئیں گے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں دین کی طرف واپس لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس پر ثابت قدم رکھے۔ آمین

…………….