حقیقی کامیابی (1)

﴿ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ۝۸۸
اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ۝۸۹﴾(الشعراء:88، 89)
گذشتہ جمعے ہم نے قرآن و حدیث اور عقلی دلائل کی روشنی میں یہ جانا کہ دل، عقل و شعور ، نور و فکر اور جذبات و احساسات کا مرکز ہے، دل پر آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے جو کہ حقیقی کامیابی ہے، اور دل ہی آخرت کی ناکامی کا ذمہ دار ہے، دل ہی کے ذریعے انسان کو تقدیر و تشکر کی دعوت دی گئی اور تاکید کی گئی ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا۝﴾ (محمد:24٢٤)
’’ کیا یہ لوگ قرآن مجید پر غور نہیں کرتے ! یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اور جو لوگ دلوں سے سوچنے سمجھنے کا کام نہیں لیتے انھیں: ﴿اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ﴾(الاعراف:179)
کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ تو یوں بہت سے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے دل کی اہمیت اور حیثیت بیان کی گئی ہے۔ اور دنیا و آخرت کے لحاظ سے دل کی اہمیت بیان کرنے کے لیےیقینًا قرآن وحدیث میں مزید بہت سے دلائل موجود ہیں، مگر ہم ابھی پر اکتفا کرتے ہیں ۔
تو آئیے اب جانتے ہیں دلوں کے احوال ، قرآن وحدیث میں دلوں کی مختلف حالتیں اور قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔
بنیادی طور پر ان کی دوسری قسمیں ہیں: ایک قلوب سليمة اور دوسرے قلوب مريضة ۔ یعنی ایک پاکیزہ ، تندرست اور سلامت دل اور دوسرے بیمار دل ۔
حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے قلب سلیم کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ ہم نے دلائل کی روشنی میں جانا ۔ لہٰذا ہماری منزل ، ہمارا مطلوب حصول قلب سلیم ہے ، اور قلب سلیم یقینًا خود بخود حاصل نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے لیے بہت زیادہ محنت و مشقت اور سعی و جہد کرنی پڑتی ہے دل کو سینکڑوں روحانی بیماریوں سے بچانا کوئی آسان کام نہیں ، اس کے لیے بہت زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ تو ہمیں اپنے مطلوب کے حصول کے لیے سب سے پہلے یہ جانتا ہوگا کہ دل کو لاحق ہونے والی بیماریاں اور آلائشیں کسی طرح دل پر وارد ہوتی ہیں ، اور کسی طرح دل کی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہوتی ہیں اور کیوں کر اُن سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور بچا جا سکتا ہے۔
تو سب سے اولین اور بنیادی نقطہ اس میں یہ ہے کہ دل پر وارد ہونے والی بیماریاں آزمائشوں کی صورت میں آتی ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بھانپ لینا کہ فلاں معاملہ آزمائش ہے ، بہت مشکل ہے کیوں کہ آزمائش اگر اتنی آسانی سے سمجھ میں آنے لگے تو آزمائش تو نہ ہوئی اور اگر یہ معلوم ہو بھی جائے کہ فلاں معاملہ آزمائش ہے مگر پھر اس سے بچ پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا اصلاح دل کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ دل کو لاحق ہونے والی روحانی بیماریاں آزمائشوں کی صورت میں دل پر وار ہوتی ہیں۔
حدیث میں ہے: آپ ﷺ نے فرمایا:
((تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا))
’’فتنے دلوں پر اس طرح وارد ہوتے ہیں جس طرح چٹائی کی تیلیاں ایک کے بعد ایک ہوتی ہیں ۔‘‘
((فَأَى قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ))
’’پھر جس دل نے فتنے کو قبول کر لیا یعنی اُس میں وہ فتنہ رچ بس گیا تو اُس میں ایک کالا داغ لگا دیا جاتا ہے۔‘‘
((وَأَىُّ قَلْبٍ أَنكَرَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ))
’’اور جو دل اُس کو رد کر دے اُس میں ایک سفید نشان لگا دیا جاتا ہے۔‘‘
((حَتّٰى تَصِيرَ عَلٰى قَلْبَيْنِ))
’’حتی کہ دو قسم کے دل ہو جاتے ہیں۔‘‘
((عَلٰى أَبْيَضَ مِثْلَ الصَّفَا، فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ))
’’ایک خالص سفید دل ، چکنے پتھر کی طرح ، جس کو کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچا سکے گا ، جب تک کہ آسمان و زمین قائم رہیں گے۔‘‘
((وَالْآخَرُ أَسْوَدُ مُربَادًا ، كَالْكُوْزِ مُجَخِّيًا لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا، إِلَّا مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ)) (مسلم:144)
’’دوسرا کالاسفیدی مائل ، اوندھے کوزے کی طرح ، جو نہ کسی اچھی بات کو اچھی بات سمجھے گا اور نہ بری بات کو بڑی مگر وہی جو خواہشات اُس کے دل میں گھر کر چکی ہوں گی وہ اسی کے مطابق چلے گا۔‘‘
یہاں اس حدیث میں ولوں کی سلامتی کا نسخہ بتلایا گیا ہے کہ دل پر وارد ہونے والے فتنوں کو پہچانتا ہے، اور ان سے بچنا ہے ۔ ان کو دل میں جگہ نہیں دیتی ، اس کا آخرت میں جو فائدہ ہوگا وہ تو اپنی جگہ پر مگر دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ:
((فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضِ))
’’جب تک زمین و آسمان قائم ہیں ، انھیں کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔‘‘
اندازہ کریں ! فتنوں کو ٹھکرا دینے اور ان سے بچ نکلنے سے دنیا میں کتنے اجر و انعام سے نوازا گیا ہے کہ رہتی دنیا تک انھیں کسی فتنہ اور آزمائش سے کوئی خطرہ نہ رہے گا۔ اللہ تعالی کے اس فضل و کرم اور اُس کی اس عنایت کی بنیاد کیا ہے؟ اس کی بنیاد ہے تقوی کہ جب انسان صدق دل سے اللہ تعالی کی رضا چاہتے ہوئے اس کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک کسوٹی اور معیار عطا فرما دیتا ہے کہ جس سے وہ حق اور باطل اور صحیح اور غلط میں فرق و تمیز کرنے کی رہنمائی حاصل کرتا ہے ، اس کے اندر وہ قوت اور صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس سے وہ اندازہ کر لیتا ہے کہ کون سا رویہ صحیح اور کون سا غلط ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۝۲۹﴾(الانفال:29)
’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو گے تو وہ تمھارے لیے ایک کسوئی اور معیار فراہم کر دے گا، تمھاری برائیوں کو تم سے دور کر دے گا، اور تمھارے قصور معاف کر دے گا، اور اللہ تعالی بڑا فضل فرمانے والا ہے ۔‘‘
یعنی تقوی اختیار کرنے سے انسان کو اتنی بڑی سہولت اور اتنی بڑی رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ پھر اس کی زندگی ہموار اور معتدل گزرنے لگتی ہے، اسے سکون و اطمینان اور حیات طیبہ حاصل ہو جاتی ہے، اس کے تمام معاملات قرآن وحدیث کے مطابق ادا ہونے لگتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے تقویٰ ہوتا کہاں ہے؟ اس کا مقام کیا ہے؟ تو تقوی کا مقام دل ہے ۔تقوی دل میں ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((اَلتَّقْوٰى هَاهُنَا))
((وَيُشيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ))
’’آپ سے ہم نے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقوی یہاں ہے۔‘‘
تو دل عقل و شعور ، تدبیر و تفکر، جذبات و احساسات اور اللہ تعالی کے ڈر، خوف اور تقوی کا مقام اور مرکز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دل انسان کے جسم میں سب سے اہم ، سب سے حساس اور سب سے ذہین عضو ہے۔
دل کو ہمیشہ عقل و فہم اور ذہانت و فطانت کا مرکز ومحل سمجھا گیا ہے ۔ بلکہ بعض روایت میں ہے کہ جمیل بن معمر الفہری نامی ایک شخص اپنی ذہانت و فطانت ، چالاکی ، مکاری اور تیز طراری کی وجہ سے دعوی کرتا تھا کہ اس کے سینے میں دو دل ہیں ، اور محمد ﷺ کا ایک دل ہے اور وہ ذو القلبین کے نام سے مشہور تھا کہ دو دلوں والا ۔
مگر اللہ تعالی نے اس کے اس دعوے کی نفی اور تردید کرتے ہوئے فرمایا:
﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ ۚ ﴾ (الاحزاب:4)
’’اللہ تعالی نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ۔‘‘
اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ایک وقت میں انسان کے دل میں ایک ہی عقیدہ و ایمان سما سکتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی وقت میں آدمی مسلمان بھی ہو اور کافر بھی ۔
اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایک وقت میں کسی انسان کے سینے میں فزیکلی ایک ہی دل ہو سکتا ہے اور انسانی تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی انسان کے کبھی دو دل نہیں ہوئے ، دو سر اور دیگر اعضاء ایک سے زیادہ تو ہوتے ہیں مگر دو دل کبھی کسی انسان کے نہیں ہوتے ۔
اور اس آیت کریمہ سے علماء کرام نے ایک لطیف سا نکتہ بھی کشید کیا ہے، اور وہ یہ کہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بتائے ، بلکہ فرمایا کہ ہم نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ۔
یعنی اس سے عورت کو ستثنی قرار دیا ، تو کیا کسی عورت کے دو دل ہو سکتے ہیں؟ بالکل نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ پیٹ میں ہونے کی صورت میں چونکہ دو دل ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالی نے صرف مرد کا ہی ذکر فرمایا ۔
تو آئیے اب دل کی بیماریوں ، اُن کے اسباب اور ان کی قسموں کے بارے میں جانتے ہیں۔
دل کی قسمیں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا دو بڑی اور بنیادی قسمیں ہیں: ایک قلب سلیم اور ایک قلب مریض ۔ اگر چہ قلب میت (مردہ دل ) بھی ایک تیسری قسم ہے ، مگر ہماری آج کی گفتگو بیمار دل کی بیماریوں اور اُن کے اسباب جاننے سے متعلق ہوگی ۔ ان شاء اللہ
پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دل روحانی طور بھی بیمار ہوتے ہیں جس طرح کہ جسمانی طور پر بیمار ہوتے ہیں، قرآن پاک کی متعدد آیات میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ﴾ (البقرة:10)
’’ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے، جسے اللہ تعالی نے اور بڑھا دیا ہے ۔‘‘
جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش پر فورًا مواخذہ نہیں کیا بلکہ انہیں ڈھیل دے دی جس سے وہ اپنی منافقت میں بڑھتے ہی چلے گئے ۔
تو یہاں بیماری کا ذکر کیا ، مگر اس بیماری سے مراد نفاق کی بیماری ہے۔
اسی طرح دیگر آیات میں بھی دلوں کے بیمار ہونے کا ذکر فرمایا ، اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے: اللہ تعالی امہات المؤمنین بھی ان سے مخاطب ہوتے فرماتے ہیں:
﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ (الاحزاب:32)
’’اے نبی (ﷺ) کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔‘‘
یعنی تمھیں آپ ﷺکی زوجیت کا جو شرف عطا کیا گیا ہے اس کی وجہ سے تمھیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ اور یوں تمھیں بھی اُمت کے لیے نمونہ بنتا ہے، اس لیے اس کا لحاظ کرتے ہوئے تمھیں ایک خصوصی طرز عمل اپنانا ہوگا اور وہ یہ کہ
﴿ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ (الاحزاب:32)
’’اگر تم اللہ تعالی سے ڈرنے والی ہو تو پھر عورت کے فطری نرم لہجے میں بات نہ کرنا‘‘
﴿فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ ﴾(الاحزاب:32)
’’کہ دل کی بیماری میں مبتلا شخص طمع اور لالچ میں نہ پڑ جائے ۔‘‘
﴿وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ۝۳۲﴾(الاحزاب:32)
’’بلکہ عام اور معروف لہجے میں بات کیا کرو۔‘‘
عورت کی فطری آواز میں مرد کے لیے کشش کے ساتھ ساتھ اس کی سادگی اور بھولا پن بھی ہوتا ہے۔ ایک نارمل انسان کے لیے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں، مگر ایک ایسا شخص کہ جو پہلے سے دل کی بیماری میں مبتلا ہو اس کے لیے وہ آواز اور وہ لہجہ غلط فہمی کا باعث بن سکتا ہے۔ اور وہ بیماری نفاق کی بیماری بھی ہو سکتی ہے اور ثبوت کی بیماری بھی ۔ منافق تو پاکدامن عورتوں پر کوئی بھی الزام لگانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ جھٹ سے کوئی بہتان داغ دیتا ہے۔
اور جو شخص فحاشی، بیہودگی اور بداخلاقی کی بیماری دل میں لیے پھرتا ہو وہ بھی عورت کے اس فطری انداز گفتگو کو اس کی کمزوری سمجھنے لگ جاتا ہے۔
لہٰذا امہات المومنین رضی اللہ تعالی عنہن کو بالخصوص اور باقی تمام مسلمان عورتوں کو بالعموم کسی غیر محرم سے بات کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا لازم ہے کہ وہ اپنی قطری آواز میں بات نہ کرے بلکہ اس میں تھوڑا سا روکھا پن ہو اور دوٹوک بات ہو، اور بات کو خوا خواہ طول نہ دے، صرف ضرورت کی بات کرے۔ اب دل کی بہت سی روحانی بیماریوں میں ایک یہ بیماری بھی ہے جس کا تعلق بے حیائی ، فحاشی ، بیہودگی اور بداخلاقی سے ہے ۔
اگر تمام بیماریوں کا ایک ایک کر کے تفصیلی ذکر کرنا چاہیں تو اس کے لیے کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ تاہم چند بیماریوں کا مختصر سا ذکر کریں گے ۔ سب پہلے اس بیماری کی بات کر لیتے ہیں جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے، جس سے بچنا نا ممکن اگر نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ نے اس بیماری کو گھر گھر پہنچا دیا ہے اور خاندانوں کے خاندان تباہ کر دیے ہیں اور اس کا سب سے خطر ناک پہلو یہ ہے کہ اب اس کو نہ صرف یہ کہ برائی نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ ثقافت اور تفریح جیسا خوبصورت لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔
اب اسی آیت کریمہ کو اگر سامنے رکھ کر بات کریں کہ جس میں امہات المومنین رضی اللہ تعالی عنہن کو مخاطب کر کے تمام مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی غیر محرم سے بات کرتے ہوئے نرم اور لچک دار اور فطری نسوانی آواز میں بات نہ کریں بلکہ ذراسخت لہجے میں بات کریں تا کہ کسی بیمار دل اور بد قماش شخص کے دل میں بھی کوئی غلط خیال نہ گزرے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جو اللہ تعالی سے ڈرنے والی ہو اور دل میں پر ہیز گاری کا جذبہ رکھتی ہو۔
اب غور کریں ! اگر کوئی شخص دل کو لاحق ہونے والی بیماریوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے اور اپنی اصلاح کرنے کا خواہشمند ہے تو اُس کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ جب ایک طرف عورت کو غیر محرم سے بالکل عام ، سادہ اور ضرورت کی بات کرتے وقت اس کا اپنا فطری انداز گفتگو اپنانے سے منع کیا گیا ہے تا کہ کسی مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا نہ ہو۔ تو کیا سمجھتے ہیں کہ عورت کا ناچ گانا اور وہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ، آدمی کے جذبات کو برا بیختہ نہ کرتا ہوگا، اس کے جذبات میں ہیجان پیدا نہ کرتا ہو گا اور کیا وہ عمل جائزہ اور حلال ہوگا ، کیا وہ اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑانا نہیں ہوگا ۔ کیا وہ بے حیائی اور فحاشی کے ضمن میں نہ آتا ہوگا ، کیا اس کو بے غیرتی اور دعوت گناہ نہیں گردانا جائے گا ؟
اگر اس کا جواب ہاں میں ہے جو کہ یقینًا ہاں میں ہے، تو پھر ایک ایسا شخص جو ان ناچنے گانے والیوں کو پسند کرتا ہو، اور ناچ گانا کروانے والوں کو پسند کرتا ہو اور انہیں سپورٹ کرتا ہو، اس کے بارے میں کیا حکم لگا ئیں گے؟
قرآن جب کہتا ہے کہ:
﴿ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ ۖؗ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ ؕ﴾ (النساء:140)
’’ جہاں تم سنو کہ اللہ تعالی کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے تو وہاں نہ بیٹھو، جب تک کہ وہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ اور اگر تم ایسا کرو گے تو تم انہی کی طرح ہو ۔‘‘
اندازہ کریں کتنی شدید تنبیہ اور تہدید ہے ، کہ برائی پھیلانے والوں کو سپورٹ کرنا تو در کنار صرف ان کی محفل میں بیٹھنے سے ہی آدمی ان جیسا شمار کیا جانے لگتا ہے۔ چہ جائیکہ کوئی ایسے بدکردار اور ملک میں بے حیائی اور فحاشی پھیلانے والوں کی دامے، در مے ، قدمے، سخنے مدد کرتا ہو اور اسے مسلمانوں پر مسلط کرنا چاہتا ہو!
اور ایسے لوگوں کو مزید سخت لہجے میں خبردار کرتے ہوئے اور انھیں اُن کے برے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝﴾(النور:19)
’’جو لوگ مسلمانوں میں فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں ، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے ، اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
اب کیا ناچ گانا فحاشی نہیں ہے؟یقینًا فحاشی ہے، اس لیے کہ یہ فحاشی کے مقدمات ہیں، اور آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں بدکاری سے منع کرتے ہوئے اللہ تعالی نے جو انداز اختیار فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ:
﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۝﴾(بنی اسرائیل:32)
’’اور زنا کے قریب مت جاؤ کہ وہ فحاشی ہے اور بڑا ہی برا راستہ ہے ۔‘‘
اور ہر برائی کے کچھ مقدمات ہوتے ہیں ، جن کے ذریعے انسان اس برائی تک پہنچتا ہے۔ ایسے ہی بدکاری کے مقدمات مرد و زن کا اختلاط اور ناچ گانا وغیرہ ہے ۔ اور جو لوگ ناچ گانے کو کسی بھی صورت میں سپورٹ کرتے ہیں یا اس کا اہتمام کرتے ہیں انھیں ڈر جانا چاہیے کہ اللہ تعالی نے دنیاو آخرت میں عذاب الیم کی شدید وعید سنائی ہے اور دنیا میں عذاب الیم کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ، سب سے خطرناک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی کو اس کے گناہوں کے بدلے نعمتوں سے نوازتا ہے ۔ وہ سٹیج پر لڑکیاں نچوائے تو اللہ تعالی اس کو شہرت دے دے، اس کا کاروبار پھلنا پھولنا شروع ہو جائے ۔ مگر دوسری طرف رفتہ رفتہ دو اپنے گناہوں کے انجام کی طرف دھکیلا جا رہا ہوتا ہے، وہ برے دوستوں کی صحبت میں مکن کر دیا جاتا ہے، اسے برائی اچھی لگنے لگتی ہے، دل سخت ہو جاتا ہے اور پھر اس پر کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور یوں اس کے دل کی بیماریاں ملٹی پلائی ہوتی چلی جاتی ہیں۔
اور یادر ہے کہ دلوں کا سخت ہونا ، دل کی بیماریوں میں سے ایک بہت بڑی اور خطر ناک بیماری ہے ۔ جب کہ قلب سلیم کی صفات میں سے ایک صفت اُس کا نرم ہوتا ہے ، اور کتنا نرم حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَقْوَامٌ أَفْئِدَتُهُمْ مِثْلُ أَفْئِدَةِ الطَّيْرِ))(صحیح مسلم:2840)
’’کچھ ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دلوں کی طرح ہوں گے یعنی بہت نرم اور کمزور دلوں والے۔‘‘
جس طرح پرندے سب سے زیادہ ڈرپوک مخلوق ہے محض خالی ہاتھ کے اشارے سے ہی اڑ جاتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے نرم اور کمزور دل والے ہوتے ہیں کہ صرف قبر اور جہنم کا نام سن کر ہی ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انھیں عذاب الیم کی نوید بھی سنائی جائے تو ان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایسی بدبختی سے محفوظ فرمائے ، اور ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے جن کے دلوں کی کیفیت یہ بیان فرمائی کہ:
﴿ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ﴾ (الزمر:23)
’’ جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا ڈر اور خوف رکھنے والے ہیں ۔‘‘
﴿ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰی ذِكْرِ اللّٰهِ ؕ﴾ (الزمر:23)
’’پھر ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں ۔‘‘
﴿ ذٰلِكَ هُدَی اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ؕ ﴾ (الزمر23)
’’ یہ اللہ تعالی کی ہدایت ہے جسے چاہتا ہے سمجھا دیتا ہے ۔‘‘
﴿وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ۝۲۳﴾ (الزمر:23)
’’اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راہ بھلا دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔‘‘
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے ۔ آمین
اقول قولى هذا واستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم .
……………