حقیقی کامیابی (2)

﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ۝اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ۝﴾(الشعراء:88، 89)
’’جس دن کوئی مال کام آئے گا اور نہ اولاد، سوائے اس کے جو قلب سلیم لیے حاضر ہوگا۔‘‘
انسان ایک افضل و اشرف مخلوق ہے، اور اللہ تعالی کی تخلیق کا شاہکار ہے، انسان کی بہت کی صفات اور خوبیوں میں سے کہ جو اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں ایک عقل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے عقل سے نوازا ہے۔
عقل کو اسلام میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، سب سے بڑھ کر تو یہ کہ اللہ تعالی نے اپنے وجود کے اثبات کے لیے انسانی عقل کو غور و فکر کی دعوت دی ہے، چنانچہ اپنے وجود کے اثبات کے دلائل ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ ۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝﴾ (البقرة:164)
’’یقینًا ، آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، لیل و نہار کے پہیم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ تعالی اوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشا ہے، اور زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلا رکھا ہے، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر کر رکھے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔‘‘
اور اس طرح کی مزید کئی آیات ہیں۔
اللہ تعالی کے وجود کا اقرار اور اس کی معرفت اور پہچان بنیادی طور پر انسان کی فطرت میں موجود ہے، پھر انبیاء و رسل علیہم السلام کی طرف سے جب اللہ تعالی پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے تو عقل سلیم اسے فورًا قبول کر لیتی ہے۔
﴿فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ؕ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ؕ ﴾(الروم:30)
’’یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی ۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کسی ایسے شخص کو احکام دین کا مکلف نہیں ٹھہراتا جو عقل سے محروم ہو، بلکہ اسے مرفوع القلم قرار دیتا ہے یعنی اس سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے اس کے اقوال وافعال لکھے نہیں جاتے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((رُفِعَ القَلَمُ عَنْ ثَلاثَةٍ))
’’تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھالیا گیا ہے۔‘‘
((عَنِ النَّائِمِ حَتّٰى يِسْتَيْقِظَ))
’’سوئے ہوئے شخص سے، جب تک وہ بیدار نہیں ہو جاتا ۔‘‘
((وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتّٰى يَبْلُغَ))
’’اور بچے سے جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتا ۔‘‘
((وَعَنِ الْمَجْنُونَ حَتّٰى يَعْقِلَ)) (ابوداؤد، رقم:4403)
’’اور پاگل سے جب تک اسے عقل و شعور حاصل نہیں ہو جاتا ۔‘‘
تو یہ وہ تین لوگ ہیں کہ جو مکلف نہیں ہوتے ، البتہ سویا ہوا شخص جب بیدار ہوگا تو نماز کی قضاء دے گا۔ اور اسی طرح اگر یہ لوگ حقوق العباد میں کوئی زیادتی اور تجاوز کریں گے تو وہ بھی ادا کرنا ہوگی۔
مثال: اگر کوئی پاگل شخص کسی کا کوئی مالی نقصان کرتا ہے، یا کسی کو قتل کر دیتا ہے تو وہ نقصان پورا کرنا ہوگا، اور وہ قتل قتل خطا کے زمرے میں آئے گا، اور اس کی دیت اس کے باپ کی طرف سے مرد رشتہ داروں پر ہوگی ، جس کو شرعی اصطلاح میں عاقلہ کہتے ہیں۔
تو عقل کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے، مگر اس سب کچھ کے باوجود معقل کی کچھ حدود و قیود ہیں، اک دائرہ کار ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتی اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔
تو انسان ایک طرف افضل واشرف مخلوق ہے، عقل و شعور رکھنے والی اور دیگر بہت سی خوبیوں کی حامل مخلوق ہے، مگر دوسری طرف وہ اک بہت کمزور مخلوق بھی ہے۔ کمزور جسمانی لحاظ سے بھی ہے، کہ اس کے مقابلے میں دیگر بہت سی مخلوقات کئی اعتبارات سے اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں، جس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتے ، مگر اس کی جس کمزوری کا اس وقت ذکر کرنا مقصود ہے وہ ہے اس کا اپنے جذبات و احساسات اور اپنی خواہشات پر قابو پانے کے لحاظ سے کمزور ہوتا عزم وارادے کے لحاظ سے کمزور ہونا، شیطانی وسوسوں کو روکنے میں کمزور ہونا، اپنے غصے پر قابو پانے میں کمزور ہونا، برداشت اور عمل میں کمزور ہونا،
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بسا اوقات انسان کسی معمولی سی بات پر بھڑک اٹھتا ہے، کوئی لائی دے، یا کوئی پرکشش چیز دیکھ لے تو پھسل جاتا ہے رالیں ٹپکنے لگتی ہیں، بہت جلد دنیا کی کشش سے متاثر ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ
و خلق الانسان ضعيفا، کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
تو انسان کی یہ فطری کمزوری ہے کہ وہ بہت سے معاملات میں، زندگی کے بہت سے شعبوں میں وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتا ہے، چنانچہ حدیث میں بھی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَمَّا صَوَّرَ اللهُ آدَمَ فِي الْجَنَّةِ تَرَكَهُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَتَركَهُ))
’’جب اللہ تعالی نے آدم علینڈ کا جنت میں ڈھانچہ بنایا، تو اللہ تعالی نے جب تک چاہا اسے یونہی ڈھانچے کی شکل میں ہی چھوڑے رکھا، یعنی اس میں روح نہ پھونکی۔‘‘
((فَجَعَلَ اِبْلِيْسُ يُطِيفُ بِهِ ، يَنظُرُ مَا هُوَ))
’’تو ابلیس اس کے گرد چکر لگا تا تاکہ معلوم کرے کہ وہ کیا ہے۔‘‘
((فَلَمَّا رَاهُ أَجُوفَ عَرَفَ أَنَّهُ خُلِقَ خَلْقًا لَا يَتَمَالَكُ))(مسلم:2611)
’’جب اس نے دیکھا کہ وہ اندر سے خالی ہے، تو اسے معلوم ہو گیا کہ وہ ایک ایسی تخلیق ہے جو اپنے آپ قابو نہ رکھ سکے گی۔ اپنی خواہشات کے سامنے بے بس ہو جایا کرے گی۔ ‘‘
تو اس اعتبار سے انسان ایک نہایت ہی کمزور مخلوق ہے، رہی یہ بات کہ انسان کو اس قدر کمزور کیوں پیدا کیا گیا ہے، تو یہ ایک دوسرا موضوع ہے، تاہم خلاصہ اس کا یہ ہے کہ تا کہ انسان اپنے آپ کو بے نیاز نہ سمجھنے لگ جائے بلکہ اللہ تعالی کا محتاج بن کر رہے اس میں اس کی خیر اور بھلائی ہے، اس میں اس کی فلاح اور کامیابی ہے کہ اس کے اپنے خالق و مالک اور اپنے محسن و منعم کے ساتھ تعلقات استوار رہیں، مضبوط و مستحکم اور پائیدار رہیں، کیونکہ انسان جب اپنے آپ کو بے نیاز محسوس کرنے لگتا ہے تو سرکشی پر اتر آتا ہے۔
اور یہ حقیقت اللہ تعالی نے قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی ہے:
﴿كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ۝اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕ۝﴾(العلق:6۔7)
’’ انسان سرکشی کرتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ بے نیاز ہو گیا ہے ۔‘‘
حالانکہ اس کی یہ سوچ اور اس کا یہ خیال غلط ہے کہ وہ بے نیاز ہو گیا ہے، البتہ اس کی سرکشی کی وجہ اس کا اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہی ہے۔ خیر اس سرکشی کا تو پھر بھی ایک باعث اور سبب ہے اگر چہ وہ بھی غلط ہی ہے، مگر ایک سرکشی اور تکبر و نخوت اس سے بھی بری ہے اور وہ وہ ہے کہ جس کا کوئی باعث نہ ہو، بلکہ اس کے نفس خبیثہ کا مظہر ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((ثَلاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَا يَنظُرُ إلَيْهِم وَلَهُمْ عَذَابٌ أَليم ))
’’فرمایا تین قسم کے لوگ ایسے ہوں گے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ان سے کلام نہیں فرمائیں گے، ان کو پاک نہیں کریں گے، ان کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں اور ان کے لیے عذاب الیم ہو گا۔ ‘‘
((شَيْخٌ زَانٍ)) ’’بوڑھا بدکار‘‘
( (وَمَلِكٌ كَذَّابٌ))
’’جھوٹا اور کذاب بادشاہ‘‘
((وَعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ))
’’ اور مغرور و متکبرفقیر‘‘(مسلم: 107)
ایسا شخص کہ جس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر وہ تکبر و غرور کرتا ہوں مگر پھر بھی وہ اکڑتا اور تکبر کرتا ہے۔
ہاں تو کمزوریوں کی بات ہو رہی تھی کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے، چنانچہ اس کی فطری کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بھول جاتا ہے، وہ پرکشش چیزوں کو دیکھ کر ان کی طرف لپک جاتا ہے، اور یوں اسے اپنا سبق یاد نہیں رہتا، اپنی منزل سے دور ہوجاتا ہے، اپنا مقصد زیست بھول جاتا ہے۔ اسے سمجھا بجھا کر، وعظ ونصیحت کر کے کچھ دین کی طرف راغب کیا جاتا ہے، مگر اگلے جمعہ وہ پھر وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ پھر نئے سرے سے دنیا کی بے شباتی، اور آخرت کی حقیقت اور اس کی شدت و سنگینی سے آگاہ کیا جاتا ہے، تھوڑی دیر کے لیے اثر لیتا ہے، مگر جونہی وہ مسجد سے باہر نکلتا ہے تو پھر وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سواب بھی ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ اور جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَثَلِى كَمَثَلِ رَجُلٍ إِسْتَوْقَدَ نَارًا))
’’میری مثال ایک ایسے شخص کی مثال ہے، جس نے ضرورت کے لیے آگ جلائی۔‘‘
((فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهَا))
’’جب اس کا اردگر و روشن ہو گیا۔‘‘
((جَعَلَ الْفَرَاسُ وَهٰذِهِ الدَّوَابُ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيْهَا))
’’تو اس میں تتلیاں ، پتنگے اور پروانے آ آ کر گرنے لگے ۔‘‘
((فَجَعَلَ يَحْجُرُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيتَقَحَّمْنَ فِيْهَا))
’’وہ انہیں آگ میں گرنے سے روکنے لگا، مگر وہ پورا زور لگا لگا کر اس میں گرنے کی کوشش کرتے ۔‘‘
((فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ وَأَنتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهَا)) (مسلم:2284، ترمذي:2874)
’’فرمایا: اور میں تمہیں کمر بند سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر تم پوری شدت سے اس میں گرنے کی کوشش کرتے ہو ۔‘‘
تو یہ انسان کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ اسے بڑی محنت سے اور بھر پور طریقے سے جہنم سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر وہ اس سے زیادہ طاقت اور شدت کے ساتھ اس میں گرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ دنیا کی چمک دمک، اس کی رونق اور اس کی کشش انسان کو متاثر کرتی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اگر انسان اس پر قابو پانا چاہے بھی تو نہیں پا سکتا، بلکہ انسان اگر ایمانداری اور سنجیدگی سے کوشش کرے تویقینًا بدل سکتا ہے، کیونکہ پھر اسے اللہ تعالی کی مدد اور توفیق حاصل ہو جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ؕ﴾ (العنكبوت:69)
’’ جو ہمیں پانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، ہم انہیں ضرور اپنے راستوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘
یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے۔ اور اگر دین پر چلتے ہوئے اللہ تعالی کی مدد اور توفیق شامل حال نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان کوششوں میں سنجیدہ اور مخلص نہیں ہیں، اللہ تعالی کا وعدہ اپنی جگہ سچا اور برحق ہے۔
مثلاً اگر کوئی شخص نماز تو پڑھتا ہے مگر اسے باجماعت نماز ادا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لیے جو کوشش اور سنجیدگی مطلوب تھی اس کی تعمیل نہیں ہوئی، چنانچہ اس آیت کریمہ میں مراد لوگوں میں اس کا شمار نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں اسے اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی حاصل ہے تو یہ سراسر دھو کہ ہوگا جو وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو دے رہا ہوگا، لہٰذا اسے اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہوگی۔
جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔
﴿ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ ؕ﴾(الحجرات:14)
’’یہ بدو آ کر کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ، ان سے کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ ہم مسلمان ہوئے ہیں ۔‘‘
﴿ وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ﴾(الحجرات:14)
’’ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔‘‘
نماز کے لیے آدمی کو قربانی دینا پڑتی ہے، جان کی مال کی، نیند کی ، آرام کی اور تعلقات کی۔ اور تعجب ہے مہینے بھر کی محنت بھی رنگ نہ لائے ، آدمی کو نمازی نہ بنا سکے۔ وہ کیسی محنت ، کیسی تربیت کیسی مشق اور ایکسر سائز ہوگی۔
کیا ایسے نہیں لگتا کہ ہم نے رمضان المبارک میں بھوکا رہنے کی مشق کی ہے روزے نہیں رکھے، کیونکہ روزے رکھنے کا لازمی نتیجہ تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ اور نماز کے وقت آدمی نیند کے مزے لیتا رہے اور پھر سمجھے کہ اس میں تقویٰ پیدا ہوا ہے،یقینًا دھوکہ ہے اپنے آپ کو دھوکہ ہے۔
نماز کی اہمیت کو سمجھیں، اگر کوئی شخص نماز کے شعبے میں فیل ہے تو وہ دین کے تمام شعبوں میں فیل ہے، اور اگر وہ نماز کے معاملے میں پاس ہے تو تمام تر خامیوں کے باوجود اس کی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔
حدیث میں ہے:
((إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ))
’’قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے جس عمل کا حساب ہوگا وہ ہے اس کی نماز‘‘
((فَإِنْ صَلُحَتْ ، فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ))
’’تو اگر وہ درست ہوگئی تو وہ یقینًا کامیاب وکامران ہو گیا۔‘‘
((وَإِن فَسَدَتْ، فَقَدْ خَابَ وَخَسِر)) (ترمذي:413)
’’اور اگر وہ خراب رہی تو وہ ناکام و نامراد ہو گیا ۔‘‘
نماز کے صحیح ہونے کا مطلب کیا ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے، مگر اس کا پہلا اور بنیادی نقطہ ہے نماز کو قربانی دے کر پڑھنا، وقت کی قربانی، کاروبار کی قربانی، نیند کی قربانی، گھر میں اگر کوئی بے نماز رشتہ دار یا دوست و احباب آئے بیٹھے ہوں تو ان کے تعلقات کی قربانی دے کر نماز کے لیے جانا۔
فرض نماز با جماعت ادا کرنا مرد کے لیے تو کم از کم مطلوب ہے، ہمیں اپنی آخرت کے لیے اس سے کہیں زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے مگر ہم کم از کم بھی ادا نہ کر پائیں تو معاملہ بڑا خطر ناک ہے۔ عام حالات میں نماز سے بڑھ کر اعمال صالحہ بجالانے کی ترغیب ہے اور فتنوں کے دور میں بلکہ اس سے پہلے پہلے نیک اعمال کرنے کی تاکید ہے۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ فتنوں کا دور ہے، قرب قیامت کی بہت سی علامات ظاہر ہو چکی ہیں، اور ان میں سے چند ایک: فتنہ و فساد اور قتل و خونریزی ناچنے گانے والیوں کی کثرت، بے حیائی اور فحاشی کا رواج ، شرک و بدعت کی کثرت اور اولاد کی نافرمانی وغیرہ ہیں۔
چنانچہ حکم ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((بَادِرُوا بِالأعْمَالِ فِتَنًا كَقِطْعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِم))(مسلم:118)
’’اعمال صالحہ میں جلدی کر لوفتوں کے آنے سے پہلے پہلے، جو کہ تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے۔‘‘
رات تو ویسے بھی اندھیری اور تاریک ہی ہوتی ہے، مگر راتوں میں کچھ راتیں زیادہ تاریک ہوتی ہیں اور کچھ روشن راتیں بھی ہوتی ہیں جیسا کہ ایام البیض کی راتیں۔ اور وہ ہیں تیرہ، چودہ اور پندرہ، ان راتوں میں چونکہ روشنی ہوتی ہے، اس لیے انہیں سفید اور روشن راتیں کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف جب رات تاریک ہو تو آدمی کو راستہ دکھائی نہیں دیتا، کدھر سے نکلنا ہے مخرج معلوم نہیں ہوتا ۔ یعنی اس قدر شدید اور تاریک فتنے ہوں گے کہ آدمی کو صحیح اور غلط کی پہچان کرنا مشکل ہو جائے گا، ہر طرف دھوکہ ہی دھوکہ ہوگا۔ کسی کی چرب زبانی سے متاثر ہونا تو ایک عام کی بات ہے پر کشش اور خوبصورت الفاظ آدمی کے دل پر اثر کرتے ہیں۔ اور اکثر لوگوں کے نزدیک صحیح اور غلط کا معیار یہی ہے کہ اس کی باتیں بڑی زبردست ہوتی ہیں، مگر صحیح اور غلط کی پہچان کا معیار صرف اور صرف قرآن وحدیث ہے۔
خیر فتنوں کے دور کے آنے سے پہلے پہلے اعمال صالحہ بجالانے کی بات ہو رہی تھی، اور فتنوں کے دور میں تو اس سے بھی زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اجر و ثواب بتلایا گیا ہے، کیونکہ فتنوں میں الجھ کر نیکی کی طرف راغب ہونا مشکل ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:
(الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةِ إِلَيَّ)(مسلم:2948)
’’قتل و خونریزی کے دور میں عبادت کرنا ایسے ہی ہے جیسا میری طرف ہجرت کر کے آنا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے، فرمایا:
((إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامَ الصَّبْرِ))
’’تمہارے بعد صبر کرنے کے دن آئیں گے ۔‘‘
((اَلصَّبْرُ فِيْهِنَّ كَقَبْضٍ عَلَى الْجَمْرِ))
’’ان میں صبر کرنا ایسا مشکل ہو گا جیسے آگ کا انگار ہ مٹھی میں لینا ۔‘‘
((لِلْعَامِلِ فِيْهَا أَجْرُ خَمْسِينَ))(مسند البزار، ج:5، ص: 178، رقم:1776)
’’ان ایام میں عمل کرنے والے کو پچاس آدمیوں کے اجر و ثواب جتنا اجر ملے گا۔‘‘
………………..