حقیقی کامیابی کیا ہے؟
﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ۸۸
اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ۸۹﴾(الشعراء:88،89)
گذشتہ خطبہ جمعہ میں کامیابی کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، کہ کامیابی کی خواہش انسان کی بنیادی اور فطری خواہش ہے، اور انسان عمر بھر اس خواہش کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔
ہاں یہ الگ بات ہے کہ کامیابی کا معنی و مفہوم اور اس کا معیار لوگوں کا اپنا اپنا ہے۔یقینًا بہت سے لوگ، بلکہ لوگوں کی غالب اکثریت عارضی ، فانی اور نہایت کمی چیزوں کے حصول کو کامیابی تصور کرتی ہے، مگر حقیقی کامیابی کیا ہے؟ یہ جانتا لازمی اور ضروری ہے اور نہایت ہی اہم ہے۔ اس لیے کہ جب کامیابی کی خواہش اتنی بنیادی، فطری اور اہم خواہش ہے کہ ہر انسان اس کی خواہش کرتا ہے، ہر شعبے میں کرتا ہے اور زندگی بھر کرتا ہے اور ساری زندگی اسی تگ و دو میں صرف کر دیتا ہے، تو پھر یہ جانتا ضروری ٹھہرتا ہے کہ حقیقی کامیابی کیا ہے؟
تو آئیے جانتے ہیں کہ حقیقی کامیابی کیا ہے، مگر اس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ حقیقی کامیابی معلوم کرنے کا معیار اور کسوٹی کیا ہے!
تو حقیقی کامیابی جاننے کا معیار اور کسوٹی دو چیزیں ہیں: عقل اور نقل۔
حجیت معقل ایک مستقل اور تفصیلی بحث ہے کہ عقل کب اور کیسے حجت ٹھہرتی ہے، اور اس کا دائرہ کار کیا ہے، تاہم عقل کے تحت ہونے پر قرآن وحدیث میں متعدد دلائل ہیں۔
اور دوسری چیز ہے نقل اور اس سے مراد ہے: تحریر، نوشت اور دستاویز، یعنی ایسی مستند دستاویز جسے دلیل اور حجت کے طور پر پیش کیا جا سکے، اور وہ ہے قرآن وحدیث ۔ تو عقل اور نقل کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حقیقی کامیابی کیا ہے؟
عقل کہتی ہے کہ کسی عارضی، ادھوری اور ناقص چیز کا حصول اگر چہ ایک جزوی کامیابی تو ہو سکتا ہے، مگر اس کے مقابلے میں حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ چیز مستقل بھی ہو، بہتر بھی ہو، مکمل بھی پائیدار بھی ہو اور مکمل بھی ہو۔
تو دنیا کی نعمتیں عارضی ، ناقص، ادھوری اور نا پائیدار ہیں جبکہ آخرت کی نعمتیں مکمل بھی ہیں بہتر بھی ہیں، پائیدار بھی اور ہمیشہ بھی ہیں، لہٰذا وہی حقیقی نعمتیں ہیں اور ان کا حصول حقیقی کامیابی ہے۔
اسی طرح قرآن وحدیث میں بھی متعدد مقامات پر آخرت کی کامیابی کو حقیقی کامیابی کہا گیا ہے، ایک مقام پر اس کا ذکر اس انداز میں کیا گیا:
﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؗۖوَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰیؕ۱۷﴾(الاعلي:16-، 17)
’’مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘
گویا کہ قرآن و حدیث اور عقل کی روشنی میں یہ دو چیزیں جس میں ہوں وہ حقیقی کامیابی ہے، اور یہ دو چیزیں دنیا میں نہیں ہیں، صرف آخرت میں ہیں:
خیر! یہ جاننے کے بعد کہ حقیقی کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، اب ہمیں یہ جانتا ہے کہ حقیقی کامیابی حاصل کیسے کی جاسکتی ہے، اس کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟
تو آیئے جانتے ہیں: حقیقی کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی جانا، اور آخرت کی کامیابی کا انحصار دل کی سلامتی پر ہے۔ اللہ فرماتے ہیں۔
﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ۸۸
اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ۸۹﴾(الشعراء:88،89)
’’جس روز نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ اولاد، سوائے اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔‘‘
تو حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے ہمیں قلب سلیم حاصل کرنا ہوگا، اور قلب سلیم کیا ہے؟ قلب سلیم کا مطلب ہے، تندرست و توانا اور صحت مند دل ۔ جب حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے شرط قلب سلیم مظہری، یعنی تندرست و سلا مت دل تو اس کا مطلب ہے: بیمار دل نہیں چلے گا، بیمار دل والا کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔
دلوں کا تندرست و سلامت ہونا یا بیمار ہونا، یہ دل کی کیفیتیں، حالتیں اور قسمیں ہیں، بلکہ ایک حالت یا قسم اور بھی ہے اور وہ ہے دل کا مردہ ہونا۔ اس سے پہلے کہ دل کی اقسام کی تفصیل میں جائیں، کامیابی کے حوالے سے دل کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
قرآن وحدیث میں دل کا بہت زیادہ ذکر ہوا ہے، اور خلاصہ اس کا یہی ہے کہ آخرت کی کامیابی کا انحصار دل کی سلامتی پر ہے۔
مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیکل سائنس کچھ عرصہ پہلے تک یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ دل صرف ایک Blood puping organ ہے جس کا کام پورے جسم کو خون پہنچانا ہے اور بس۔ یعنی وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھی کہ دل میں فہم و شعور ، عقل و دانش، غور وفکر اور جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔ مگر اکیسویں صدی کے آغاز سے کہ جب سے Heart transplantاور Artificial Heart Implant کے سلسلے میں تیزی آئی Advancement ہوئی، اور کثرت سے ہارٹ ٹراسپلینٹس ہونے لگے، تو بعض ریسرچرز نے ہارٹ ٹرانسلیٹ کیے گئے لوگوں میں واضح نفسیاتی تبدیلیاں محسوس کیں۔ ان کی پسند نا پسند، ان کے طرز زندگی، حتی کہ ان کے نظریات اور عقیدہ و ایمان میں بھی تبدیلی محسوس کی گئی، تب انہوں نے اس پہلو پر غور کرنا شروع کیا کہ دل کا کام صرف جسم کو خون پہنچانا ہی نہیں، بلکہ اس کے مزید کئی اور فنکشنز بھی ہیں، جن میں عقل و دانش، بغور و فکر، پسند ناپسند، نفرت اور محبت اطمینان اور بے چینی خوشی اور غمی ، شرم کا احساس اور عزت و افتخار اور دیگر جذبات و احساسات وغیرہ ہیں، اور یہ کہ دل عقل کے تابع نہیں بلکہ دل اور دماغ ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔
انہوں نے ملاحظہ کیا کہ جب کسی مریض کو نیا دل لگایا جاتا ہے تو وہ دماغ کی طرف سے کسی اشارے کا انتظار کیے بغیر فورا دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔ بلکہ بعض ریسر چرز تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دل دماغ کو انسٹرکشنز دیتا ہے اور اس کو کنٹرول کرتا ہے، اور یہ کہ دل کے ہر Call کے اندر ایک میموری موجود ہے جو معلومات کو محفوظ رکھتی ہے۔
دل اور دماغ کا بالتفصیل ریلیشن شپ کیا ہے، اس میں میڈیکل سائنس ابھی بہت پیچھے ہے، وہ ابھی کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچے کہ ہم کیوں سوتے ہیں، اور انسان معلومات کسی طرح یا د رکھتا ہے وغیرہ۔ وہ جو کچھ ملاحظہ کرتے ہیں، مشاہدہ کرتے ہیں اور تجربہ کرتے ہیں اس کے مطابق ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں، مگر ٹھوس دلائل کی بنیاد پر کوئی قاعدہ اور اصول وضع نہیں کر سکتے ۔ مگر ہم مسلمان الحمد للہ اس کے بارے میں ایک حتمی عقیدہ اور ایمان رکھتے ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں اسلام نے دیا کہ دل عقل و شعور، غور اور فکر، یادداشت اور جذبات واحساسات کا مرکز ہے۔
یوں تو اس موضوع پر ایک مفصل گفتگو ہو سکتی ہے مگر دل کے نفس انسانی پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے دو ایک باتیں عرض کر کے پھر اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
مختلف لوگوں کے ہارٹ ٹرانسپلیٹ ہونے کے بعد ان کی نفسیات پر جو اثرات ظاہر ہوئے اور جو تبدیلیاں ملاحظہ کی گئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایک خود کشی کرنے والے شخص کا دل ایک مریض کو لگایا گیا۔ ان دونوں کے لائف سٹائل اور خیالات و نظریات میں بہت بڑا فرق تھا، وہ خود کشی کرنے والا شخص پہلے تو ٹھیک ٹھاک تھا اور نارمل زندگی گزار رہا تھا، پھر شادی کے بعد بھی کچھ عرصہ ٹھیک رہا، پھر اس کے نظریات میں تبدیلی آئی کہ دو ملحد ہو گیا اور ملحد ولادین ہونے کے بعد وہ بے چین اور پریشان رہنے لگا، بالآخر اس نے اس صورت حال سے تنگ آکر اپنے سر میں گولی مار کر خود کشی کر لی۔ اس کا دل ایک ایسے شخص کو لگایا گیا جو کہ مذہبی تھا، بہت خوش ہوا، جس شخص کا دل اس کو لگایا گیا تھا اس کی فیملی کا شکریہ ادا کیا۔
پھر کچھ عرصے بعد اس کی بیوی سے اس کی ملاقات ہوئی تو اسے محسوس ہوا کہ وہ اسے بہت پہلے سے جانتا ہے، وہ اس کے بارے میں وہی جذبات رکھنے لگا جو اس کے خودکشی کرنے والے خاوند کے تھے حتی کہ اس نے کھلے لفظوں میں اس کا اظہار بھی کر دیا اور آہستہ آہستہ اس کے خیالات میں بھی تبدیلی آنے لگی حتی کہ وہ بھی ملحد ہو گیا، اور بالآخر اس نے بھی پہلے شخص کی طرح سر میں گولی مار کر خودکشی کرلی۔
اور اس طرح کے بہت سے واقعات میں سے ایک اور مختصر سا واقعہ ذکر کرنا چاہوں گا، اور وہ یہ کہ ایک شاعر کا دل ایک ٹرک ڈرائیور کو لگایا گیا، جو کہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا، کامیاب آپریشن کے بعد اس نے بھی شعر و شاعری شروع کر دی، اور جب اس ڈرائیور کے کلام اور اس شاعر کے کلام میں موازنہ کیا گیا کہ جس کا دل لگایا گیا تھا تو پتا چلا کہ دونوں کے کلام میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔
تو یہ اور اس طرح کے اور بہت سے واقعات نے ماہرین قلب کو اس جانب سوچنے پر اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا کہ دل عقل و شعور، غور وفکر اور جذبات و احساسات کا مرکز ہے۔
اب آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں دل کی اہمیت اور اس کی اقسام جاننے کی کوشش کرتے ہیں، اور معلوم کرتے ہیں کہ کسی طرح آخرت کی کامیابی اور ناکامی دل کی صحت و سقم پر موقوف ہے۔
قرآن وحدیث کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دل کی تین بڑی اقسام ہیں:
(1) قلب سلیم (2) قلب مریض (3) اور قلب میت۔
اس سے پہلے کہ ان اقسام کی تفصیل میں جائیں، اس حقیقت کو سمجھنا اور تسلیم کرتا ہوگا کہ جس طرح جسم تندرست یا بیمار ہوتا ہے اسی طرح دل بھی تندرست یا بیمار ہوتا ہے اور جسم کی صحت و سلامتی کی تمنا اور خواہش کرنا اور اس کی بیماری پر فکر مند ہونا ہر آدمی کا بنیادی مسئلہ ہے۔ لوگ جسم کو لاحق ہونے والی بیماریوں سے یا کم از کم بڑی بڑی بیماریوں سے خوب آگاہ ہیں اور کافی حد تک ان سے بچنے کی فکر بھی کرتے ہیں۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو دل کے روحانی طور پر بیمار ہونے پر یقین کرتے ہیں اور اس کی کسی بیماری کے بارے میں علم رکھتے ہیں؟ حالانکہ دل کی بیماریاں جسم کی بیماریوں سے زیادہ خطر ناک ہیں۔
جسم کی کسی بڑی سے بڑی بیماری کا زیادہ سے زیادہ نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی مر جاتا ہے اور مرنا تو ہر ایک کو آخر کا ر ہے ہی مگر مرنے کے بعد اس بیماری کا آدمی پر مزید کوئی اثر نہیں ہو سکتا ۔ جبکہ دل کی کسی چھوٹی سے چھوٹی بیماری کا آدمی کی معیشت اس کی معاشرت، اس کی عزت، اس کی صحت اور اس کے مزاج پر ایسا گہرا اثر ہو سکتا ہے کہ ہر چیز تلپٹ ہو جائے ، اور سب سے اہم بات کہ مرنے کے بعد بھی اس کی نہ صرف یہ کہ جان نہیں چھوٹتی بلکہ اس کا حقیقی اثر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اس لیے یہ جانا ضروری ہے کہ قلب سلیم کہ جس پر حقیقی کامیابی کا انحصار ہے کیا ہے؟ اور کس طرح حاصل ہوتا ہے اور بیمار دل کیا ہے اور اس کا علاج کس طرح کیا جا سکتا ہے، اور اسی طرح مردہ دل کیا ہے اور اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔
قلب سلیم وہ دل ہے جو صحیح سلامت ہو، بیماریوں سے بچا ہوا ہو، شرک اور بدعت کی بیماری سے پاک ہو، حسد اور بغض سے پاک ہو، بخل اور کنجوسی سے پاک ہو، تکبر سے پاک صاف ہو، شہرت کی بیماری سے پاک ہو، ریا کاری اور دکھلاوے کی بیماری سے پاک ہو، دنیا کی محبت سے پاک ہو اور ہر اس خواہش سے پاک ہو جو انسان کو اللہ تعالی سے دور کر دے۔دین میں رکاوٹ ہے اور اس سے دوری کا باعث ہو۔
دل کو لاحق ہونے والی روحانی بیماریاں کوئی دو چار نہیں بلکہ ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اور ان سے بچنے کا مطلب کوئی ایک بار بچ جانا نہیں، بلکہ یہ عمل مسلسل اور پیہم ادا کرنا ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
اور دلوں کی دوسری قسم ہے: القلب المیت ، مردہ دل۔ یعنی وہ دل کہ جس میں روحانی زندگی کے کوئی آثار نہ ہوں، کوئی ایک چنگاری بھی نہ ہو، وہ نہ اپنے رب کو پہچانتا ہے اور نہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ دنیا کی لذتوں کے حصول کی کوشس میں غرق ہو، اسے اللہ کی رضا کی فکر ہو اور نہ اس کی ناراضی کی پرواہ، اور ایسا دل ، کافر کا دل ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ﴾
’’بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا﴾
’’ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ۔‘‘
﴿وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا ﴾
’’انکی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں ۔‘‘
﴿وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا﴾
’’اور ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں ۔‘‘
﴿اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ﴾(الاعراف:179)
’’وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جوغفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔‘‘
تو یوں تو ایسا دل کا فر کا دل ہوتا ہے، مگر کوئی مسلمان بھی اس سے بے فکر نہیں ہو سکتا۔ ایک بار مسلمان ہو جانے کے بعد مرتد اور گمراہ نہ ہونے کی کسی کو ضمانت نہیں دی گئی۔ نعمت اسلام پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، اس سے ڈرتے رہنا چاہیے، اور اس سے ثابت قدمی کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
((كَانَ أَكْثَرُ دُعَائِهِ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلٰى دِيْنِكَ))
’’آپﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے، (يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلٰى دِيْنِكَ)
’’ اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ‘‘
پھر فرمایا: (يا أم سلمة!) اے ام سلمہ !
((إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ آدَمِيٌّ إِلَّا وَقَلْبُهُ بين اصبعين مِنْ أَصَابِعِ الله، مَا شَاءَ أَقَامَ وَمَا شَاءَ أَزَاعُ)) (ترمذي:3522)
’’تمام بنی آدم کے دل اللہ تعالی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، جس کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، جس کو چاہتا ہے ٹیڑھا کر دیتا ہے۔”
﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (ال عمران:8)
اب آئیے دل کی تیسری قسم کا حال جانتے ہیں، تیسری قسم ہے۔ دل مریض، اور اس سے مراد وہ دل ہے کہ جس میں زندگی کی ایک رمق تو باقی ہو مگر بیمار ہو۔ ایک مسلمان کا سب سے بڑا کنسرن (Concern) تشویش اور فکر اس سے متعلق ہونی چاہیے کہ کہیں دل بیمار تو نہیں ہے، اگر بیمار ہے تو بیماری کسی راستے سے آئی ہے اور اس کا علاج کیسے کرتا ہے، اس سے چھٹکارا کیسے حاصل کرتا ہے۔ اگر حقیقی کامیابی حاصل کرنے کی خواہش ہے، تو پھر ضروری ہے کہ دل کی صحت و سلامتی کی فکر ہو، دل کی بیماریوں کے جاننے اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی فکر ہو، اور طریقہ علاج جاننے کی فکر ہو۔
ہم یہ باتیں جاننے کے حوالے سے کتنے فکر مند ہیں، یہ تو ہر شخص اپنے بارے میں بہتر جانتا ہے، مگر کتنا فکر مند ہونا چاہیے، یہ جاننے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا، وہ لوگ کہ جنہیں رضی الله عنهم ورضوا عنہ کی سند دے دی گئی، ان کا حال یہ تھا کہ وہ حقیقی کامیابی کے حوالے سے ہمیشہ فکر مند رہتے تو جس طرح جسمانی بیماریوں کی کچھ علامات ہوتی ہیں، اس طرح روحانی بیماریوں کی بھی علامات ہیں، ان علامات کو جانتا، ان کے اسباب معلوم کرنا اور ان کا علاج معلوم کرنا ایک مستقل نشست کا متقاضی ہے۔
البتہ چند ایک علامات یہ ہیں کہ بھوک نہ لگنا، جی ہاں ! جس طرح جسم کی غذا ہوتی ہے اسی طرح دل کی بھی ایک غذا ہوتی ہے، اور دل کی غذا اللہ کا ذکر ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت ہے۔ تسبیح و تہلیل ہے، اور دیگر عبادات اور ان کا شوق ہے، اور غذا کی حاجت نہ ہونا، بھوک نہ لگنایقینًا اک بیماری ہے۔
ای طرح دین کی باتیں سن کر گھٹن اور انقباض محسوس کرنا، جبکہ گپ شپ لہو ولعب اور لغو و فضولیات میں دل لگنا اور خوشی محسوس ہونا۔ ایسے ہی دیندار لوگوں کے پاس بیٹھ کر طبیعت مکدر ہونا اور مزاج پر گراں گزرنا اور دین بے زار لوگوں کی محفل میں بیٹھ کر مسرت و انبساط محسوس کرنا۔ تا ہم خلاصہ ان بیماریوں کا دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے۔
………….