حقوق العباد

الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۱﴾ (آل عمران: 1۔3)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔ اللہ کی رسی سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور خدا کی اس وقت کی نعمت کو یاد رکھو جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال کر اپنی مہربانی سے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ پاؤ۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے پورا پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کی نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے اور اس کی یاد نہ بھلائی جائے اس کا شکر کیا جائے اور کفر نہ کیا جائے۔ اور مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا چاہئے۔ اللہ کی مضبوط رسی کو مل کر مضبوطی سے تھامے رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں محبت و الفت ڈال دی ہے جس کی وجہ سے سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے اس احسان کا بدلہ احسان ہے کہ آپس میں مل جل کر رہیں اور دشمنی اور بغض نہ رکھیں اور انسانی حقوق جو انسان ہونے کے تعلق سے ایک دوسرے پر ہیں، انہیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کسی کی حق تلفی کرنا ظلم اور جرم عظیم ہے جس کا جیسا کچھ حق ہے رتی رتی ادا کرنا چاہئے کیونکہ جب انسان اپنے نفس کا حق ادا کرے گا تو دوسرے کے حق کو فراموش نہیں کرے گا۔
(1) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں کثرت سے نفلی روزے رکھتا اور نفلی نمازیں پڑھتا تھا، جب آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی تو فرمایا:
فَلَا تَفْعَلُ صُم وَ اَفْطِرْوقُمْ وَنلَمْ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَ إِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنْ یَحْسِبَكَ أَنْ تَصُومَ كُلَّ شَهْرٍ ثَلَثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ لَكَ بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرُ أَمْثَالِهَا فَإِنَّ ذلِكَ صِیَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ)[1]
’’تو ایسا مت کر روزہ رکھے اور افطار بھی کر رات کو کھڑا ہو اور سو بھی، کیونکہ تیرے بدن کا تجھے پر حق ہے اور تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تجھے ہر مہینے میں تین روزے بس کرتے ہیں، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا ( تین کے تیس ہوئے) تو گویا ساری عمر روزے رکھے۔‘‘
(2) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلِمَةٌ لَآخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ اَوْ شَىءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهَا الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ، وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ ُأخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلِمَةٍ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ)[2]
’’جس نے اپنے کسی بھائی پر کسی طرح کا ظلم کیا ہو یعنی اس کی آبروریزی کی ہو یا مال وغیرہ چھین لیا ہو تو آج اس سے اس ظلم کو معاف کرا لے اس سے پہلے کہ دینار و درہم کچھ پاس نہ ہوں گے اور معاف نہ کرایا تو قیامت کے دن اگر اس (ظالم) کے پاس نیک عمل ہوں گئے تو بقدر ظلم اس سے چھین لئے جائیں گے اور نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کے گناہ اس پر لاد دئیے جائیں گے۔
(3) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لتُؤدَّنَ الْحُقُوقَ إِلى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيمَةِ حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِالقرناء)[3]
’’(قیامت کے دن ) حق داروں کے حقوق ضرور ادا کئے جائیں گے یہاں تک کہ بے سینگ کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم
[2] بخاري: کتاب المظالم باب من كانت له مظلمة
[3] مسلم كتاب البر باب تحريم الظلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بکری کا سینگدار بکری سے قصاص لیا جائے گا۔“
جب جانوروں تک کا حساب ہوگا تو انسانوں سے تو ضروری ہی حساب لیا جائے گا۔
(4) رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِيْنَا مَنْ لَا دِرْهَم لَهُ وَلَا مَتَاع۔ فَقَالَ الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيمَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكُوةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَدَفَ هَذَا وَاَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطٰى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضٰى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطْرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ)[1]
’’جانتے ہو کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ شحض ہے جس کے پاس نقد جنس کچھ نہ ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، میری امت میں در حقیقت وہ مفلس ہے جو قیامت کے روز نیک اعمال نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ لے کر حاضر ہوگا اور ایسی حالت میں حاضر ہوگا کہ کسی کو دنیا میں گالی دی ہوگی کسی کو تہمت لگائی ہوگی کسی کا مال ہضم کر لیا ہو گا کسی کی خونریزی کی ہوگی یا کسی کو ناحق مارا پیٹا ہو گا، تو جس شخص کو مثلاً اس نے گالی دی ہوگی اسے اس کی نیکیاں دے دی جائیں گئی اور دوسرے کو مثلاً جس کو اس نے مارا پیٹا تھا باقی نیکیاں دے دی جائیں گی، پھر اگر ان مظالم کے ادا ہونے سے پہلے جو اس پر ہیں اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں، تو ان مظلوموں کے گناہ اس ظالم کے سر ڈال دیئے جائیں گئے پھر اس کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
دنیا میں جو دوسروں کی حق تلفی کریں گے اور کسی حیلے بہانے سے دوسروں کی چیزوں کو اپنا لیں گے تو قیامت کے روز وہی چیز لے کر حاضر ہوں گے جس کا اسے پورا پورا بدلہ ملے گا، قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے:
﴿وَمَنْ يَّغْلُلْ يَأْتِ بِمَا عَلَّ يَوْمَ الْقِلِمَةِ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ (سورة آل عمران: 161)
’’جو شخص خیانت کرے گا وہ خیانت کردہ چیز قیامت کے دن لے کر آئے گا، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ذرہ برابر حق تلفی نہ کی جائے گی۔‘‘
(5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز وعظ کے لئے کھڑے ہوئے تو اس وعظ میں خیانت و چوری کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا اور اس کا گناہ اور اس کی بڑی مذمت بیان فرمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: کتاب البر باب تحریم الظلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ ارشاد فرمایا میں تم کو قیامت کے دن اس حال میں ہرگز نہ پاؤں کہ تم میں کوئی اپنی گردن پر اونٹ لا دے ہوئے آ رہا ہو اور وہ بلبلاتا ہو یعنی غنیمت وغیرہ کے مال میں سے اونٹ کی خیانت کی ہوگی اور چرا لیا ہو گا تو اس اونٹ کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے میرے سامنے سفارش کے لئے آئے گا اور کہے گا یا رسول اللہ! میری امداد فرمایئے! تو اس وقت میں اس کو صاف جواب دے دوں گا کہ میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں اور نہ تیری امداد کر سکتا ہوں دنیا میں میں نے یہ بات پہنچادی تھی کہ جو چوری کرے گا وہ اس چیز کو لے کر خدا کے سامنے حاضر ہوگا، میں اس کی حمایت نہ کروں گا اور ہرگز نہ پاؤں میں تم میں سے کسی کو کہ وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر گھوڑا لئے ہوئے آ رہا ہو اور گھوڑا ہنہنا کر آواز کرتا ہو کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ چوری کا گھوڑا ہے وہ میرے پاس آ کر کہے گا یا رسول اللہ! میری امداد کیجئے، تو میں اس سے کہوں گا میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں دنیا میں تم کو حکم پہنچا چکا تھا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو ہرگز نہ پاؤں کہ کوئی قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لا دے ہوئے آ رہا ہو اس بکری کی آواز ہوگی وہ میرے پاس آئے گا اور کہے گا یا رسول اللہ! میری امداد فرمائیں، میں کہوں گا کہ میں تیری کچھ امداد نہیں کر سکتا، میں یہ حکم تجھ کو پہنچا چکا ہوں پھر فرمایا ہرگز تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن کسی انسان غلام وغیرہ کو لادے ہو گا وہ چیختا ہو گا، میرے پاس آکر کہے گا یا رسول اللہ! میری امداد کیجئے! میں کہوں گا میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا، میں یہ حکم دنیا میں تجھے پہنچا چکا تھا، پھر ارشاد فرمایا، میں ہرگز نہ پاؤں تم کو اس حالت میں کہ قیامت کے دن کوئی شخص اپنی گردن پر کپڑا لادے ہوئے آئے گا، یعنی دنیا میں اس نے غنیمت کے مال میں سے کپڑے کی خیانت کرلی تھی یا کسی کا کپڑا اچھا لیا تھا یا بغیر حق کے غیروں کے کپڑے پہنے تھے وہ کپڑے ملتے اور حرکت کرتے ہوں گئے وہ کہے گا: یارسول اللہ! میری امداد کیجئے! میں کہوں گا کہ میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا ہوں، میں یہ حکم دنیا میں پہنچا چکا تھا، پھر فرمایا میں تم کو قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ کوئی اپنی گردن پر بے زبان چیزیں مثلاً سونا، چاندی وغیرہ لادے ہوئے آئے گا وہ کہے گا یا رسول اللہ میری امداد کیجئے تو میں کہوں گا کہ میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا، دنیا میں یہ حکم میں پہنچا چکا تھا۔[1]
(6) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ جب جہاد میں غنیمت کا مال حاصل ہوتا تھا، آپ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرماتے تھے کہ لشکر میں اعلان کر دو کہ جس کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري کتاب الجهاد باب الغلول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاس غنیمت کے مال میں سے کچھ بھی ہو وہ لا کر جمع کر دئے چنانچہ سب لا کر جمع کر دیتے تھے آپ پانچواں حصہ نکال کر باقی کو سب میں تقسیم کر دیتے تھے ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ آپ کے تقسیم کرنے کے بعد ایک صاحب بال کی لگام لئے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ غنیمت میں سے لے لی تھی، آپﷺ نے فرمایا۔ (أسمعت بلالاً نادى ثلاثاً)الخ ’’کیا تم نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی تین مرتبہ منادی سنی تھی؟‘‘ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ سنی تھی، آپﷺ نے فرمایا: اس وقت لانے سے کس چیز نے منع کیا تھا اس نے کوئی معذرت بیان کی جو قابل قبول نہیں تھی۔ آپﷺ نے فرمایا:۔ (كُنْ أَنتَ تُجِیْئُ بهِ يَوْمَ الْقِيامَةِ فَلَمْ أَقْبَلْهُ عَنْكَ)[1]
’’یعنی تم ہی اس کو اپنے پاس رکھو قیامت کے دن اس کو لاؤ گے آج میں اس کو قبول نہیں کرتا۔“
(7) اسی طرح سے ایک مرتبہ آپ کے ایک خادم نے غنیمت کے مال میں سے ایک چادر چرا لی تھی جہاد میں تیر لگنے سے شہید ہو گیا لوگوں نے اسکے مرنے پر مبارک باد دی کہ جنت مبارک ہو یعنی شہید ہو گیا جنت میں جائے گا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: (كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِى اَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَائِمِ لَمْ تُصِبُهَا الْمَقَاسِمُ تَشْعَلُ عَلَيْهِ نَارًا) [2]
’’ہر گز نہیں، خدا کی قسم جس چادر کو خیبر کی جنگ میں اس نے چرا لیا تھا، اس حال میں کہ وہ تقسیم نہیں ہوئی تھی وہ چادر اس غلام پر دوزخ کی آگ بھڑکا رہی ہے۔“
یعنی ایک چادر کی خیانت کی وجہ سے وہ دوزخ میں گیا، جب لوگوں نے اس کو سنا تو ایک صاحب اٹھے چمڑے کے ایک یا دو تسمے حضور کے سامنے پیش کر دیئے، آپﷺ نے فرمایا: یہ ایک یا دو آگ کے تسمے ہیں۔
پڑوسی اپنا رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار مسلمان ہو یا غیر مسلمان ہمسائیگی اور پڑوس میں سب برابر ہیں اور ہمسائیگی کے حقوق بھی ایک دوسرے پر ہیں، جن کا ادا کرنا نہایت ضروری ہے قرآن اور حدیث میں اس کی بڑی اہمیت آئی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ﴾ (النساء: (36)
’’اور خدا نے ہمسایہ قریب اور ہمسایہ بے گانہ اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داؤد: 21؍3 كتاب الجهاد باب في الغلول اذا كان يسيرا يتركه الامام ولا يحرق
[2] بخاري: کتاب المغازي باب غزوة خيبر
[3] بخاری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا ہے۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِجَارَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمُ ضَيْفَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْراً أَوِلْيَسْكُتْ)[1]
’’جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے (بلکہ اس کے ساتھ نیک سلوک کرے اور مہربانی سے پیش آئے اور جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ نیک بات کہے یا چپ رہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ستانا حرام ہے پروسی کو ستانے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ آپﷺ نے فرمایا:
(لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَبْدٌ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ)
’’وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے امن میں نہ ہو۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کے پاس آکر عرض کیا کہ فلاں عورت زیادہ نماز پڑھتی ہے اور صدقہ خیرات کرتی ہے اور زیادہ روزے رکھتی ہے لیکن وہ اپنے ہمسائے کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے تو آپﷺ نے فرمایا وہ عورت جہنمی ہے۔[3]
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارَہُ جَائِعٌ)[4]
’’وہ مومن کامل نہیں ہے جو خود آسودہ ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید فرمائی کہ میں نے سمجھا کہ اس کو وراثت کا حق دلائیں گے۔[5]
اور آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ افضل ہے جو اپنے ساتھی کے لئے بہتر ہو، اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخارى كتاب الادب باب من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يوذ جاره
[2] مسند احمد: 154/3 الترغيب 3 / 354۔
[3] مسند احمد: 440/2 مستدرك حاكم: 166/4.
[4] مسند ابو یعلی: 151/3 (2691)
[5] بخاري: کتاب الادب باب الوصاة بالجار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑوسیوں میں سے وہ بہتر ہے، جو اپنے پڑوسی کے لئے بہتر ہو۔‘‘[1]
اور آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خدا کے سامنے دو پڑوسی پیش ہوں گے جنہوں نے ایک دوسرے کے حق کو ادا نہیں کیا تھا۔[2]
بہر حال ہمسائے کے بڑے حقوق ہیں
(1) اسے کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے۔
(2) نہ اس سے بے ہودہ گوئی کی جائے۔
(3) خوشی کے وقت اسے مبارک باد دی جائے
(4) اس کی بیماری میں بیمار پرسی کی جائے۔
(5) مصیبت میں اس کی مدد کی جائے۔
(6) اس کے عیبوں کو چھپایا جائے۔
(7) اس کی بیوی اور بچوں کو بری نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔
(8) اس کو تحفہ تحائف سے نوازا جائے۔
یتیموں کا حق
دیگر انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ پیسوں کا حق ادا کرنا ضروری ہے یتیم وہ کمسن بچہ ہے جو اپنے باپ کے سایہ سے محروم ہو گیا ہو یعنی باپ کا انتقال ہو گیا ہو۔ باپ کے مرنے سے یتیم بچوں کی زندگی بے سہارا اور بے یارو مددگار ہو جاتی ہے ان کی تعلیم و تربیت کرنے والا ان کے سر پر دست شفقت پھیر نے والا اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا، اس لئے ان کی دلجوئی اور خدمت کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہر مسلمان کا فرض اولین ہے اور اس کا بہت بڑا ثواب اور مرتبہ ہے یتیم کی خدمت کرنے والے جنت میں رسول اللہ سی علم کے مہمان ہوں گے حدیث شریف میں ہے کہ:
اَنَا وَكَافِلُ الْيَمِيمِ فِى الْجَنَّةِ هٰكَذَا وَآشَارَ بِالسَّبَايَةِ وَالْوُسْطَى وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا)[3]
’’میں اور یتیم کی پرورش کا ذمہ دار دونوں جنت میں اس طرح ساتھ رہیں گئے، جس طرح یہ دونوں انگلیاں ہیں، یعنی شہادت وان اور درمیان کی انگلی اور ان دونوں کے درمیان فاصلہ رکھا۔“
اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی خدمت کرنا کتنا بڑا ثواب ہے قرآن مجید میں بھی متعدد جگہ یتیم کا بیان آیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ۝۹﴾ (سورة الضحى: 9)
’’یتیم کو مت دباؤ اور اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ۔‘‘
اور ان کے مال مت کھاؤ جو لوگ یتیم کی خدمت اور عزت نہیں کرتے ان کے اوپر عذاب نازل ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد:168/2
[2] مسند احمد: 151/4
[3] بخارى كتاب الطلاق باب اللعان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے اور ان کی روزی تنگ ہو جاتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ ۙ۬ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَهَانَنِۚ۝۱۶ كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ۝۱۷ وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِۙ۝۱﴾ (الفجر: 16 تا 18)
’’جب اللہ انہیں آزماتا ہے اور ان کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور نہ مسکین کے کھلانے پر کسی کو آمادہ کرتے ہو۔‘‘
جولوگ یتیموں اور مسکینوں کی عزت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی بڑی تعریف فرماتا ہے ارشاد ہے:
﴿ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا۝۸﴾ (الدهر: 8)
’’نیک بخت وہ لوگ ہیں جو اللہ کی محبت اور اسکی راہ میں یتیم ومسکین اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘
اور جو لوگ ناجائز طور پر یتیم کے مال پر قبضہ کر کے کھا جاتے ہیں ان کے لئے سخت وعید ہے جیسا کہ
﴿اِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامٰى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرا﴾ (سورة النساء: 10)
’’جو لوگ ناحق یتیم کے مال کو کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے انگارے بھرتے ہیں اور عنقریب دوزخ میں داخل ہوں گے۔‘‘
یتیم بچوں کے مال کو خیانت اور اسراف سے خرچ نہیں کرنا چاہئے اور نہ ان کو بے سمجھی کے زمانے میں سپرد کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی نادانی سے اس کو ضائع نہ کریں سر پرستوں اور متولیوں کو زیادہ خیال رکھنا چاہئے ۔ جب بچے شعور و بلوغ کی عمرکو پہنچ جائیں، اس وقت ان کا مال ان کے حوالے کیا جائے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤی اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤی اَمْوَالِكُمْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا۝۲﴾ (النساء:2)
’’ اور یتیموں کو ان کا مال دے دو اور حرام کو حلال کے عوض نہ لو اور ان کے مالوں کو اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ یہ بڑا گناہ ہے۔‘‘
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ، وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّذِى الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاٰتُوا الزَّكَوۃ ثُم تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ﴾ (البقرة: 83)
’’اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے اگلے بنی اسرائیل یعنی تمہارے بڑوں سے یہ پکا قول لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ سلوک کرنا اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی طرح نرمی سے بات کرنا اور نماز پڑھتے رہنا اور زکوۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا باقی سب پھر گئے اور تم لوگ ہو ہی کچھ بے پرواہ کہ نصیحت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔‘‘
اللہ تعالی نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے:
﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۝۲﴾ (سورة البقرة:215)
’’اے پیغمبر! تم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کیا خرچ کریں تو ان کو سمجھا دو کہ خیر خیرات کے طور پر جو بھی مال خرچ کرو تو وہ تمہارے ماں باپ کا حق ہے اور قریب کے رشتہ داروں قتیموں محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے اور تم جو بھی بھلائی لوگوں کے ساتھ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ (سورة الانفال: 41)
’’اور مسلمانو! جان رکھو کہ جو چیز تم لڑائی میں غنیمت میں حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول کے قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ﴾ (سورة الحشر: 7)
’’جو مال اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو ان بستیوں کے لوگوں سے بے لڑے مفت دلوا دے تو وہ اللہ کا حق ہے اور رسول ﷺ کا اور رسول کے قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور (بے توشہ) مسافروں کا، یہ (حکم) اس لئے دیا گیا ہے کہ جو لوگ تم میں مالدار ہیں یہ (مال) ان ہی میں چلتا پھرتا نہ رہے اور مسلمانو! جو چیز تم کو پیغمبر ہاتھ اٹھا کر دے دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس چیز کے لینے سے تم کو منع کر دیں اس سے دست کش رہو اور اللہ کے غضب سے ڈرتے رہو کیونکہ اللہ کی مار بڑی سخت ہے۔‘‘
بیواؤں کا حق
رانڈ اور بیوہ عورت کا حق بھی ادا کرنا نہایت ضروری ہے بیوہ وہ عورت ہے جس کا خاوند مر چکا ہو اور اپنے شوہر کے ظل عاطفت سے محروم ہوگئی ہو اس کی زندگی کا سہاگ لٹ چکا وہ اپنے سرتاج کے مرنے سے غم والم کے سمندر میں غوطہ زن رہتی ہے کوئی مونس و غم خوار نہیں یا مددگار نہیں، کوئی مربی و پرسان حال نہیں وہ بہت سی مشکلات میں ڈوبی رہتی ہے مخالفین ستاتے اور تنگ کرتے ہیں، بلکہ بے حامی اور بے محافظ دیکھ کر روحانی اور جسمانی تکالیف کے در پے ہوتے ہیں ایسی حالت میں بیوہ کا خدمت کرنا انسانی اور اسلامی فریضہ ہے اس کی اعانت سے دنیا کے لوگ خوش اور خدا اور رسول بھی خوش ہوتے ہیں، اور اس کی مدد کرنے سے بڑے بڑے درجے ملتے ہیں رسول اللہ کی ﷺ نے فرمایا:
(السَّاعِى عَلَى الْأَرْمِلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالسَّاعِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَحْسِبُهُ قَالَ كَالْقَائِمِ،لا يَفْتُرُ وَ كَالصَّائِمِ لَا يُفْطِرُ)[1]
’’بیوہ اور مسکین کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا اور ان کی خدمت کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ خدا کے راستے میں جہاد کرنے والا یا جیسا وہ تہجد گزار عابد جو نماز سے نہیں تھکتا اور وہ روزہ دار جو کبھی روزے سے ناغہ نہیں کرتا۔“
دوڑ دھوپ سے مراد خدمت ہے اور اگر اس کی رضامندی ہو تو نکاح ثانی کرا دینا چاہئے تاکہ وہ سہاگن بن جائے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَانْكِحُوا الأيامٰى مِنْكُمْ﴾ (سورة النور: 32)
’’اور اپنے میں سے بے شوہر والی عورتوں کا نکاح کر دو۔‘‘
غرض کہ بیوہ عورت کو قرآن اور اسلام نے بہترین مقام عطا کیا ہے اور لوجہ اللہ اس کی خدمت کرنے والا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاری: کتاب الادب باب الساعی علی المسکین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑا ہی سعادت نصیب ہے یاد رہے کہ اسلام آنے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اگر کوئی عورت بیوہ ہو جاتی تھی تو اس بے چاری کی زندگی جیتے جی جہنم بن جاتی تھی بیوہ ہونے کے بعد نہ اسے سسرال میں رہنے دیا جاتا اور نہ اسے میکے میں جگہ ملتی تھی ہر جگہ سے اسے دھکے دے کر نکال دیا جاتا تھا کیونکہ وہ لوگ اسے قابل نفرت سمجھ کر اس کے سائے تک سے بچنا چاہتے تھے۔ اسلام نے آ کر بیوہ کو جینے کا حق اور عزت کا مقام عطا کیا، جس کا اعتراف یورپین مفکروں اور فرانسیسی مؤرخوں نے بھی کیا ہے۔
مہمانوں کا حق
تم یہ جانتے ہو کہ ہر انسان کسی نہ کسی وقت کسی نہ کسی شخص کا مہمان ضرور ہوتا ہے اس لئے اگر تم اپنے مہمانوں کی عزت واحترام اور خدمت کرو گے تو جب تم ان کے یہاں جاؤ گئے تو وہ بھی تمہاری خدمت کریں گئے دنیا کا عام دستور یہی ہے لیکن مسلمانوں میں اس کی بہت اہمیت ہے صفات عالیہ کی تکمیل اور مکارم اخلاق کی بلندی کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ مہمان کی عزت و احترام کے ساتھ خاطر تواضع کی جائے مہمان کی خدمت اتنی اہم ہے کہ اس کو ایمان کا جزو بتایا گیا ہے۔
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكُرِمْ ضَيْفَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا[1]
’’جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرئے اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ اپنے قرابت داروں کے حقوق ادا کرے اور جو اللہ اور قیامت کے دن کو سچا جانتا ہو اس کو چاہئے کہ وہ پھلی بات کہے ورنہ چپ رہے۔“
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مہمانوں کی عزت و خدمت کرنا ایمان کامل کا ایک جزو ہے مہمانوں کی پوری عزت و خدمت نہ کرنے والے پورے مومن نہیں ہیں مہمانوں کا بہت بڑا حق ہے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
(وَ إِنَّ لِزَورِكَ عَلَيْكَ حَقًّا)[2]
”بے شک تیرے مہمان کا تجھ پر بڑا حق ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخارى: كتاب الادب باب من كان يومن بالله واليوم الآخر فلا يوذ جاره.
[2] بخارى: كتاب الادب باب حق الضيف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنے مہمانوں کی بڑی خدمت کرتے تھے، بعض دفعہ وہ خود نہیں کھاتے تھے۔ مگر اپنے مہمانوں کو ضرور کھلاتے تھے جیسا کہ تم پہلے پڑھ چکے ہو خود انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اپنے مہمانوں کی بڑی عزت کرتے تھے چنانچہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا بیان قرآن مجید میں کئی جگہ پر آیا ہے ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ۝۲۴ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَۚ۝۲۵ فَرَاغَ اِلٰۤی اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍۙ۝۲۶ فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَؗ۝۲۷ فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ ؕ وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ۝۲۸﴾ (الذاريات: 24 – 28)
’’اے ہمارے نبی! کیا آپ کے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے کہ جب یہ لوگ ان کے پاس آئے تو سب نے سلام کیا ابراہیم نے ان کے سلام کا جواب دیا اور اپنے دل میں سوچنے لگے کہ یہ اجنبی لوگ ہیں، کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی، پھر اپنے گھر جا کر موٹے تازے بچھڑے کا گوشت بھنوا کر مہمانوں کے سامنے رکھا، ان مہمانوں نے کھانے میں تامل کیا، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ لوگ کیوں نہیں کھاتے؟ اس پر بھی ان مہمانوں نے نہ کھایا تب ابراہیم اپنے جی میں ڈرے ان کی یہ حالت دیکھ کر مہمانوں نے کہا آپ کسی قسم کا اندیشہ نہ کریں ہم لوگ فرشتے ہیں کھاتے پیتے نہیں ہیں ہم آپ کو ایک ہوشیار اور ذی علم فرزند کی خوشخبری دینے آئے ہیں چنانچہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کولڑکے کی خوشخبری دی۔‘‘
یہ مہمان فرشتے تھے جو انسانی شکل میں آئے تھے حضرت ابراہیم نے انہیں انسان سمجھ کر ضیافت کا حق ادا فرمایا۔ اس واقعہ سے مہمان اور میزبان کے آداب پر آپ خود ہی غور کر لیں۔
مہمان کو بلا ضرورت کسی کے یہاں تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہئے کیونکہ اس سے میز بان کو تکلیف ہوگی اور اس پر بار پڑے گا رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمُ ضَيْفَهُ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلَثَةُ اَيَّامٍ فَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَشْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُخْرِجَهُ)[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب، باب من كان يومن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره و باب اکرام الضيف، مسلم كتاب اللقطة، باب الضيافة و نحوها۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جو شخص اللہ اور قیامت کے دن کو سچا جانتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کا جائزہ عزت کے ساتھ ایک دن ایک رات کرنے اور مہمان کا حق تین دن ہے اس سے زیادہ ٹھہرے گا تو وہ مہمان صدقہ کھائے گا اور اتنا زیادہ ٹھہرنا اس کے لئے حلال نہیں کہ اپنے میزبان کو تنگی میں ڈال دے۔‘‘
حقوق العباد کا بیان اور آ رہا ہے اللہ تعالیٰ اپنے حق کو رسول ﷺ کے حق کو اور بندوں کے حق کو ہم سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(وَاخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)