حقوق اللہ اور حقوق والدین کی ادائیگی کی ترغیب

الحمد لله ذي السلطان العظيم والمن القديم. له الفضل والإحسان والعطاء والامتنان، أحمده سبحانه وأشكره على نعمه، وأعوذ به من أسباب سخطه و نقمه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له . وأشهد أن محمدا عبده ورسوله سيد الورى، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه ومن اهتدى:
تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو عظیم سلطنت والا ہے، ہر قسم کا فضل و احسان اور بخشش و عطیات اس کی طرف سے ہیں میں اس کے انعام واکرام پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور ہر اس فعل سے پناہ مانگتا ہوں جو اس کی ناراضگی و عذاب کا سبب ہو اور شہادت دیتا ہوں کہ اس ذات پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد سید الانام صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کا بے شمار درود و سلام ہوا ایسے برگزیدہ نبی پر نیز ان کے آل و اصحاب اور صراط مستقیم کی پیروی کرنے والوں پر۔ اما بعد!
برادران اسلام! اللہ سبحانہ و تعالی سے ڈرو اور کما حقہ اس کی عبادت کرو، قرآن کریم کا فرمان ہے:
﴿وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (النساء: 36)
’’اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔‘‘
اس آیت کے اندر اللہ سبحانہ نے اپنے بندوں کو صرف اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ اور در حقیقت اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی دین کا سب سے اہم فریضہ اور سب سے بڑی نیکی ہے اور اسے ترک کردینا ہی سب سے بڑا گناہ ہے۔
عبادت الہی ہی مقصود زندگی اور دین کا وہ مقدس اور اہم ترین فریضہ ہے جس کے لئے مخلوقات کا وجود ہوا البیاء و رسل بھیجے گئے، آسمانی کتا بیں اتریں اور جن وانس کی تخلیق عمل میں آئی۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵6 مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ۝۵7 اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ۝۵۸﴾ (الذاريات: 56 تا 58)
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں، میں ان سے طالب رزق نہیں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلا ئیں اللہ تو خود رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے۔‘‘
عبادت ایک ایسا لفظ ہے جو ہر اس قول و عمل کو شامل ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو۔ ایک بندے کے لئے ضروری ہے وہ صرف اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرے اور اپنے اس حقیقی معبود و پروردگار کو جس نے اسے وجود بخشا اور ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے چھوڑ کر کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہو پکارے تو اسی کو پکارے مدد طلب کرے تو اسی سے فریاد چاہے تو اسی سے نذر و نیاز کرے تو اسی کے لئے تکلیف پہنچے تو اس سے التجا کرے اور کوئی خیر حاصل ہو تو اس کا شکر بجالائے غرضیکہ کسی محبوب شئے کی خواہش و طلب ہو یا کسی مکروہ اور نا پسندیدہ چیز سے بچنے اور پناہ مانگنے کا موقع، صرف اور صرف اس ذات واحد کی طرف رجوع کرے اور اسی سے گڑ گڑائے یہی حقیقت عبادت ہے اور یہی مطلوب زندگی ہے۔ کسی شخص نے اگر اللہ تعالی کی عبادت کی لیکن اس کی عبادت مثلاً دعا استغاثہ نذر و نیاز اور ذبح وغیرہ میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا یا اسے حاجت روا سمجھ کر کوئی ایسی حاجت طلب کی جس کا تعلق صرف اللہ کے اختیار سے ہو تو ایسے شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بعبادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾ (الكہف: 110)
’’جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
لہٰذا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لئے کرے اس کے حقوق پہنچانے اور ان کی قدر کرے۔
دینی بھائیو! اللہ سبحانہ و تعالی کی اطاعت و بندگی میں یہ بھی شامل ہے کہ والدین کی اطاعت و فرماں برداری کی جائے ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کیا جائے اور ان کے حقوق کو پہچانا جائے۔ چنانچہ اللہ نے متعدد مقامات پر اپنے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق کو بھی شامل کیا ہے فرمایا:
﴿أَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيْرُ﴾ (لقمان: 14﴾
’’ (ہم نے انسان کو ماں باپ کے بارے میں یہ تاکید کی ہے کہ) میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی، تم کو میری ہی طرف لوٹ کر آتا ہے۔‘‘
پس ضروری ہے کہ ہم والدین سے حسن سلوک سے پیش آئیں ان کے ساتھ احسان کریں ان کے لئے نرمی اختیار کریں اور ان کا حکم بجالائیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(ثلاث آيات نزلت مقرونة بثلاث، لا تقبل منها واحدة بدون قرينتها، فذكر منها قوله تعالى: ﴿أَن اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ﴾
قرآن مجید کے اندر تین آیتیں ایسی ہیں جو مزید تین خصائل کو شامل ہیں اور وہ خصائل ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی خصلت اپنی ساتھ والی خصلت کے بغیر قبول نہیں ہو سکتی۔ ان تین آیات میں سے ایک آیت ﴿اَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ﴾ بھی ہے۔
لہذا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا مگر والدین کی شکر گزاری نہیں کی تو اس کا شکر بارگاہ الہی میں مقبول نہ ہو گا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(رضا الله في رضا الوالدين، وسخطه في سخط الوالدين)
[بعض محدثین نے اس حديث كو ’’رضا الرب في رضا الوالد، وسخط الرب من سخط الوالد‘‘ (یعنی رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی سے ہے) کے الفاظ سے روایت کیا ہے اور بعض نے ’’رضا الرب من رضا الوالدين، وسخطه من سخطهما‘‘ (یعنی رب کی رضا والدین کی رضا سے ہے اور اس کی ناراضگی والدین کی ناراضگی سے ہے) کے لفظ کے ساتھ بیان کیا ہے اور سیوطی نے دونوں الفاظ کو صحیح بتایا ہے اس حدیث کے بعض طرق تو صحیح مسلم کی شرط پر ہیں اور بعض طرق میں صمد بن محمد ہیں، جنہیں ہیثمی نے متروک کہا ہے۔ فیض القدیر: (33/4)]
’’اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔‘‘
ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت سلم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ جہاد کرنے کی اجازت مانگنے لگا آپ نے اس سے سوال کیا (أحي والداك) کیا تمہارے والدین باحیات ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا ” ہاں “ آپ نے فرمایا: (فَفِيهِما فَجَاهِد) جاؤ انہیں کے درمیان جہاد کرو، یعنی ان کی ہر ممکن خدمت و اطاعت کرو۔[ صحیح مسلم کتاب البر والصلة ” باب بر الوالدين (2549) و مسند احمد: 165/2 (6555)]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
(ألا أنبئكم بأكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله وعقوق الوالدين) [صحیح بخاری، کتاب الاستئدان، باب من اتكأ بين بدى أصحابه (6273) و صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب الکبائر و اکبرها (88،87)]
’’کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتا دوں؟ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ضرور بتائیں فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔‘‘
اسلامی بھائیو! جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ جیسا کرو گے ویسا پاؤ گے۔ جو نیکی و بھلائی کرے گا وہ شکر و احسان کا پھل پائے گا۔ جو برائی کرے گا ندامت و شرمندگی کے آنسو روئے گا احسان کا بدلہ احسان ہے اور برائی کا انجام خسارہ ناکامی اور پشیمانی۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک ایک نہایت ہی بنیادی حق اور اہم ترین فریضہ ہے اس طرح ان کی اطاعت و فرمانبرداری بھی ایک بہترین اطاعت ہے یہی وجہ ہے کہ رب العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
اولاد پر والدین کے حقوق یہ ہیں کہ اولاد ان کی عزت و تکریم کرے ان کے ساتھ حسن سلوک کرے ان کے آرام و سکون کی خاطر اپنی جان و مال کو قربان کر دے ان کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھے اگر بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کی مرضی و چاہت کا پورا خیال رکھتے ہوئے ان کے ساتھ نرمی برتے ان کی جانب سے پیش آنے والی تکالیف برداشت کرے ان کی ضروریات پوری کرنے سے زچ نہ ہو۔ ان کے ضعف و پیرانہ سالی میں ان کی ویسی ہی خدمت کرے جیسی انہوں نے اس کی بچپن میں کی ان کے ساتھ مهربان شفیقی و بردبار اور نرم دل بن کر رہے اور یہ جذ بہ ہمہ وقت بیدار رہے کہ دنیا کا کوئی انسان اس شفیق و مهربان ماں سے بڑھ کر اطاعت و فرمانبرداری اور حسن سلوک کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
آخر یہ وہی ماں تو ہے جس نے حمل کے زمانہ میں تکلیفیں اٹھائیں، پیدائش کے وقت شدید دکھ برداشت کیا، پھر مکمل دو سال تک اپنا دودھ پلا کر اعضائے جسمانی مضبوط کیا تم نے اسے تھکایا اور درماندہ کیا، کبھی تم کو اپنے سینے پر اٹھاتی تو کبھی تھک کر ہاتھوں میں لے لیتی، کتنی بار تم نے اس کے جسم اور کپڑوں کو گندہ کیا، کتنی مرتبہ اس نے تمہیں بلا کسی ناگواری و کراہت کے گندگی سے پاک وصاف کیا، تم کبھی بیمار ہوئے تو تمہاری بیماری کی وجہ سے افسردہ خاطر ہو کر اس نے پوری پوری رات بغیر کھائے پئے جاگ کر اور روتے ہوئے کاٹ دی۔ بھلا اس شفیق و مہربان ماں پر کسی اور کو کیسے ترجیح دی جاسکتی ہے؟
ماں کے بعد اس مشفق و مهربان باپ سے بڑھ کر اور کون احسان و خدمت کا مستحق ہو سکتا ہے جس نے تمہارے بچپن میں تمارے ساتھ احسان کیا۔ اپنا عمدہ اور نفیس ترین مال تم پر خرچ کیا اور ہر اس چیز کی رہنمائی کی جس میں دنیاو آخرت کی فلاح ہو۔
اللہ کے بندو! والدین کی نافرمانی احسان کا انکار ہے۔ نعمت کی ناشکری ہے اور احسان کے بدلے برائی کرتا ہے، بر بادی ہے ایسے شخص کے لئے جو اپنے والدین کی نافرمانی کرتا ہو رسوائی ہو ایسے شخص کی جس کے والدین اس سے خوش نہ ہوں، کیا والدین جیسے محسن کا بدلہ حسن سلوک کے علاوہ کسی چیز سے دیا جا سکتا ہے؟ کتنی بار انہوں نے اپنے نفس پر تمہارے آرام کو ترجیح دی، کبھی ایک گھڑی کے لئے جو ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو وہ بے چین ہو گئے ایک عرصہ تک انہوں نے تمہاری دیکھ بھال کی ہے تو کچھ دنوں تک تم بھی ان کی دیکھ بھال کر لو اور اللہ رب العالمین سے ان کے لئے رحم و بخشش کی دعائیں کرتے رہو۔
الٰهی! ہماری کوتاہیوں کو معاف کر ہماری لغزشوں سے درگزر فرما۔ ہمیں اپنی رضا و خوشنودی عطا کر اور وہ راہ دکھا جو ہمارے لئے خیر و سعادت کا باعث ہو۔ اعوذ بالله من الشيطان الرجيم
﴿وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳ وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ۝۲۴﴾ (الاسراء: 23،24)
’’تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، اور ان سے ادب کے ساتھ بات کرو، اور عجزونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پرودگار جیسا انہوں نے میری بچپن میں (شفقت سے) پرورش کی ہے تو بھی ان (ان کے حال) پر رحم فرما۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين
تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لئے لائق و زیبا ہے، ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں اس سے مدد چاہتے ہیں اس سے استغفار کرتے ہیں اور اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی برائی اور اعمال کی سیئات سے اس کی پناہ مانگتے ہیں، وہ جسے ہدایت یاب کرے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر آپ کے آل و اصحاب پر اور تا قیامت ان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والوں پر۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ تعالی سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور اس کے اوامر، اس کی مقرر کردہ ادب کی چیزوں اور احترام کے مقامات کی تعظیم کرو۔ اس کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾ الحج: 32)
’’جو شخص ادب کی چیزوں کی جو اللہ نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے۔‘‘
اسلامی بھائیو! ہمارے بہت سے بھائی حرم شریف میں اور اسی طرح بعض دوسری مساجد میں آتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی لئے ہوتے ہیں جو ابھی ناسمجھ ہوتے ہیں اور مسجد حرام کی عزت و حرمت نہیں جانتے ہیں، چنانچہ ان کی وجہ سے نماز پڑھنے والوں طواف کرنے والوں ذکر و اذکار میں مشغول اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے بھائیوں کی عبادات میں خلل واقع ہوتا ہے درحقیقت یہ مسجد حرام کی ایک طرح کی اہانت و بے حرمتی، مسلمانوں کے ساتھ بے ادبی و بد سلوکی اور ان کے لئے باعث حرج ہے اور کسی بھی ذی شعور مسلمان کے لئے زیبا نہیں کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی مرضی کے مطابق انہیں پوری ڈھیل دے کہ اللہ کے گھر میں اس کے بندوں کے ساتھ اس طرح کی بد سلوکی کریں اور ان کی عبادت واذکار میں خلل اور تنگی کا باعث بنیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسجد میں عبادت یا فریضہ کی ادائیگی کی نیت سے نہیں بلکہ محض سیر و تفریح اور دوستوں سے ملاقات و گفتگو کے لئے آتے ہیں چنانچہ بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مسجد میں چھوڑ دیتے ہیں وہ اسی میں دوڑتے ہیں، عبادت کرنے والوں کے سامنے چلاتے اور شور مچاتے ہیں صفوں کے درمیان سے آتے جاتے ہیں اور ان کا باپ خود کہیں آرام سے سے بیٹھا اس طرح اپنے دوست سے بات چیت چیت کر رہا ہوتا ہے جیسے اس نے مسجد میں آکر کوئی عبادت کی ہی نہ ہو۔ آخر یہ سب کتنے بڑے عیب کی بات ہے دنیا کے افضل ترین مقام کی کسی درجہ بے حرمتی ہے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کیسی بد سلوکی اور بے ادبی ہے؟ اللہ تعالی نے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے اور اپنے حرمات کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے ارشاد ہے:
﴿ذٰلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ﴾ (الحج:30)
’’یہ ہمارا حکم ہے اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو اللہ نے مقرر کی ہیں، عظمت رکھے تو یہ اس کے پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔