حقوق نسواں

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠۝۲۲۸﴾ [البقرة : 228 ]

’’اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق میں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے۔‘‘

 اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اپنی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالی ظالم نہیں۔ کہیں ان الفاظ میں اعلان فرمایا:

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ﴾ [النساء:40]

’’یقینا اللہ تعالی ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ۔‘‘

کہیں ان الفاظ میں اس صفت کا اظہار فرمایا:

﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾  (حم السجدة:46)

’’اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتے۔‘‘

کہیں تباہ شدہ قوموں کے حالات و واقعات بیان کر کے فرمایا:

﴿وَمَا ظَلَمَهُمُ اللهُ وَلٰكِنْ كَانُوْا انْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ﴾ [النحل:33]

’’ان پر اللہ تعالی نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔‘‘

 بہر حال اللہ تعالی ظالم نہیں ۔ بلکہ اس نے لوگوں کو بھی ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے:

﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِيْنَ﴾ [الشورى:40]

’’بے شک اللہ تعالی ظالموں سے محبت نہیں کرتے۔‘‘

اللہ تعالی ظلم نہیں کرتے بلکہ اس کا ہر حکم فیصلہ اور امر عدل و انصاف پر مبنی ہے:

﴿شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ۝۱۸﴾ [آل عمران: 18]

’’اللہ تعالی، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘

اسی لیے اللہ تعالی نے شریعت اسلامیہ میں ہر حق والے کو اس کا حق دیا ہے۔ امیر ہے یا غریب۔ ماں باپ ہیں یا اولاد شوہر ہے یا بیوی۔ سب کے حقوق موجود ہیں، حتی کہ بیماروں اور مردوں کے بھی حقوق مقرر کیے گئے ہیں:

(إِنَّ اللهَ أَعْطٰى قَدْ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ) [سنن ابی داؤد، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الوصية للوارث، رقم: 2870]

’’یقینا اللہ تعالی نے ہر حق والے کو اس کا حق  (دینے کا حکم) دیا ہے۔‘‘

 دین اسلام میں ہر کسی کا حق عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔ لیکن آج دنیا کے سب سے بڑے ظالم انسانوں نے حقوق کا جعلی پرچم اٹھا رکھا ہے۔ وہ کبھی انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں اور کبھی حقوق نسواں کے ٹھیکیدار۔

جو خود انسانوں پر عمومًا اور عورتوں پر خصوصاً ظلم زیادتی کے پہاڑ توڑنے والے ہیں۔ جن کے ہاں قبل از اسلام اور بعد از اسلام عورت کا تصور تحقیر پہنی ہے وہ عورتوں کو کیا حقوق دیں گے عورتوں کو اسلام نے صحیح اور درست حقوق دیے ہیں۔

اور اہل کفر نے دور جاہلیت میں بھی اور آج کے دور جدید میں بھی عورت کو منڈی اور بازار کا مال بنا کر ذلیل اور رسوا کرنے کے سوا کچھ نہیں دیا۔

ان کے ہاں تو عورت سامان تفریح و لذت کے سوا کچھ نہیں۔

عیسائیوں میں عورتوں کا تصور:

عیسائیوں کو دیکھئے ان کے نزدیک عورت سے نفرت اور دوری عبادت ہے۔ اس لیے انہوں نے رہبانیت میں ترک نکاح کو شرط قرار دے رکھا ہے۔

یہودیوں میں عورتوں کی حیثیت:

یہودیوں کا یہ حال تھا کہ ناپاکی کے مخصوص ایام میں بیویوں کو الگ تھلگ کر دیتے۔ نہ ان کے پاس بیٹھتے نہ ان کے ساتھ مل کر کھاتے۔ اسے انتہائی ذلیل سمجھتے ہوئے بالکل علیحدہ کر دیتے۔ جبکہ اسلام نے عورت کے مخصوص ایام میں صرف مباشرت پر پابندی لگائی۔ باقی امور میں میاں بیوی کو اکٹھے رہنے کی تعلیم دی۔ اکٹھے بیٹھیں، اکٹھے کھائیں، ایک برتن میں پئیں، ایک بستر پر آرام کریں….۔

اسلام میں عورت کا مقام:

اسلام نے ہر اعتبار سے عورت کو مقام دیا۔ صحیح مسلم اٹھائیے امام الانبیاء ﷺ نے فرمایا:

(الدُّنْيَا كُلَّهَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ) [صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب خير متاع الدينا المرأة الصالحة (1467) و ابن ماجه (1855) والنسائي (3232)]

’’دنیا ساری کی ساری (عارضی) مال و متاع ہے اور دنیا کا بہترین سامان نیک عورت ہے۔‘‘

پھر عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے وہ مقام حاصل ہے جو کسی مذہب اور دین میں نہیں:

پوچھنے والا پوچھتا ہے: مَنْ اَبَرُّ سب سے بڑھ کر کس کی خدمت کروں ۔ کس سے حسن سلوک کروں۔ فرمایا: ’’اپنی ماں کی خدمت کرو۔‘‘ تین بار یہی جواب دیا۔ اس نے چوتھی بار پوچھا تو پھر فرمایا: ’’اپنے باپ کی خدمت کرو۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الادب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة (5971) ومسلم (2548)]

 غور کیجیے! بحیثیت ماں عورت کو باپ سے بھی زیادہ حق اسلام نے دیا ہے اور صرف یہی نہیں ماں کی وساطت سے نانی اور خالہ کو اور باپ کی وساطت سے دادی اور پھوپھی کو بھی بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

بیوی کی حیثیت سے دیکھئے:

حضرت عثمان  رضی اللہ تعالی عنہ کو غزوہ بدر سے پیچھے رکھا گیا۔ کس لیے؟ اپنی بیوی کی تیمارداری کے لیے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنی بیوی کی عیادت و تیمارداری کرو۔ بدر کے غازیوں کو جو دنیوی اجر  (مال غنیمت) اور آخری اجر و ثواب ملے گا وہ آپ کو گھر بیٹھے ملے گا۔[صحيح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب اذا بعث الإمام رسولا…. الخ، رقم: 3130]

 کیسی عمدہ تعلیم ہے اور بحیثیت بیوی عورت کا کیسا مقام و مرتبہ ہے کہ بیوی کی تیمارداری کی خاطر شوہر کو اہم ترین تاریخی معرکے سے پیچھے رہنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ اجر وثواب کی پوری گارنٹی دی جا رہی ہے۔

آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہ سے بہت محبت کرتے، ان سے مشورے لیتے ۔ حدیبیہ کا موقع ہے مشرکوں سے معاہدہ ہو گیا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کریں گے اور اس سال بغیر عمرہ کے ہی واپس جائیں گے۔ تو آپﷺ لوگوں کو حکم دیتے ہیں: ’’جانور قربان کر دو سر منڈوا لو اور احرام کھول کر عام لباس پہن لو۔‘‘

 لیکن لوگ سمجھتے ہیں یہ معاہدہ ابھی منسوخ ہو جائے گا۔ لوگ منتظر ہیں آپ ﷺ اس کیفیت سے پریشان ہو کر اپنی ایک زوجہ مطہرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا) کے خیمے میں تشریف لاتے ہیں اور اس سے مشورہ کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ رضی اللہ تعالی عنہ مشورہ دیتی ہیں: آپ ﷺ  لوگوں کے سامنے خود یہ تینوں کام کریں لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ معاہدہ منسوخ نہیں ہوگا اور لوگ فورًا یہ کام کر لیں گئے۔ آپ ﷺ نے بیوی کے مشورے پر عمل فرمایا، پس لوگوں نے فورًا عمل کر لیا۔ اونٹ ذبح کر لیے سرمنڈوا لیے اور احرام کھول دیئے۔ [صحيح البخاري، كتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد الخ، رقم: 2731، 2732]

اور بیوی کو یہ مقام بھی حاصل ہے کہ اس کا کھانا، پینا، پہننا، رہائش اور گھریلو سہولتیں شوہر کے ذمے لگا دی گئی۔ بیوی عزت و وقار سے گھر بیٹھے، شوہر مزدوری، تجارت اور کاروبار کرے اور جس طرح کا خود کھائے اور پہنے اسی طرح کا بیوی کو کھلائے اور پہنائے۔ یہ نہیں کہ شوہر خود تو ہوٹلوں میں اعلیٰ قسم کے کھانے کھائے اور بیوی کو ہمیشہ دال روٹی پر رکھئے یہ قطعاً جائز نہیں۔ آپ ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا:

(خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِلأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب فضل أزواج النبيﷺ (3895) و صحيح الجامع الصغير (3314)]

’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو۔‘‘

غور کیجئے! یہ حدیث بیویوں سے جملہ حقوق کے سلسلے میں کس قدر جامع حدیث ہے کہ آپﷺ فرما رہے ہیں تم میں سے اچھا بہتر افضل اور ارفع وہ ہے جو  (عبادات واجبات اور فرائض کے ساتھ ساتھ) اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو یعنی بیوی کے حقوق کا صحیح خیال رکھنے والا ہو اور پھر آپ نمونہ پیش فرماتے ہیں: کہ میں تم سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہوں۔

بیٹی کی حیثیت سے دیکھئے:

دور جاہلیت میں لوگ بچیوں سے نفرت کرتے اور انہیں زندہ درگور کرتے تھے لیکن اسلام نے کیسی تعلیم و تربیت دی۔ ذہن ہی بدل ڈالے۔ محسن انسانیت نے فرمایا:

(مَنِ ابْتُلِيَ بِهَؤُلَاءِ الْبَنَاتِ)

’’جسے بیٹیاں دے کر آزمایا گیا اور اس نے ان کی خوب پرورش کی۔ (انہیں تربیت دی، انہیں آداب سکھلائے اور ان کی درست دیکھ بھال کی)

(كُنَّ لَهُ سِتْراً مِّنَ النَّارِ)

’’وہ بچیاں اس کے لیے آگ کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں گی۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب اتقوا النار ولو بشق تمرة (1418) و مسلم (2129)]

اور حقوق نسواں کے حقیقی علمبر دار رسول عربیﷺ نے فرمایا:

’’جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی میں اور وہ قیامت کے دن ان دو انگلیوں کی طرح قریب ہوں گے۔‘‘[صحيح الترغيب والترهيب (1970) و صحیح ابن حبان (448)]

کیسی زبردست تعلیم ہے حقوق نسواں کی اور اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والے عرب کے وہ بگڑے ہوئے لوگ بچیوں کے حقوق کے محافظ اور پہرہ دار بن گئے حتی کہ مرتے وقت بیٹیوں کے حقوق کی تاکیدی وصیت کرنے والے بن گئے۔

صحیح البخاری اٹھائیے، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ غزوہ احد سے ایک دن قبل اپنے لخت جگر حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: بیٹا جابر! مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ کل جب میدان گرم ہوگا تو سب سے پہلا شہید میں ہوں گا۔ بیٹا جابر! میرے بعد میری بیٹیوں کا (اپنی بہنوں) کا خصوصی خیال رکھنا ان کی پرورش اور تربیت میں کوتاہی نہ کرنا…. [صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب هل يخرج الميت من القبر واللحد لعلة، رقم: 1351]

بہن کی حیثیت سے دیکھئے:

قبل از اسلام لوگ بہنوں کی حق تلفی کیا کرتے تھے بہنوں پر کئی طرح سے ظلم کیا کرتے تھے کئی لوگ بہن کا حق وراثت کھا جاتے تھے۔ لیکن دین اسلام نے حق دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۝۷﴾ [النساء:7]

’’ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا حصہ بھی ہے (یعنی اس مال میں سے جو ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر جائیں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔‘‘

 لیکن دور قدیم کی طرح دور حاضر کے کافر (ہندو وغیرہ) بھی بہنوں کا حق وراثت کھا رہے ہیں اور ہندوؤں سے متاثر ہو کر بعض مسلمان بھی اس ظلم کا ارتکاب کر رہے ہیں جبکہ اسلام نے عورتوں کے حق وراثت کا تحفظ کیا ہے اور عورتوں کو وراثت دینے کی خصوصی تلقین کی ہے۔

بہرحال اہل کفر کے ہاں قدیم اور جدید دور میں عورتوں پر ظلم ہی کیا جاتا ہے:

صرف واویلا، …حقوق…. حقوق….. حقوق۔

 اور وہ کون سے حقوق؟ ان کے نزدیک حقوق نسواں یہ ہیں: کہ عورت بے پردہ گھومے، ہوس کا نشانہ بنے) مردوں کے شانہ بشانہ مال کھانے کے لیے کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرے، دفتروں اور آفسوں میں اغیار کی نوکری کرے، بن ٹھن کر، بناؤ سنگھار کر کے بنو اسرائیل کی گائے کی طرح (تَسُرُّ النَّاظِرِيْنَ) کا کردار ادا کرے جب تک وہ خوبرو اور جوان ہو، ہر کوئی اسے استعمال کرے جب وہ بوڑھی ہو جائے تو لاوارث ہو کر کسی ہسپتال یا پرورش کنندہ ادارے میں کسمپرسی کے عالم میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے، نہ وہ ماں ہو، نہ وہ بیوی ہو، نہ وہ بہن ہو اور نہ وہ بیٹی ہو۔…. یہ ہے وہ ذلت جو حقوق نسواں کے جعلی علمبرداروں نے حقوق کے نام پر عورت کو دی ہے۔

یاد رکھئے! صرف اسلام نے عورت کو مقام دیا ہے اس کی عصمت و عفت کی حفاظت کی ہے اس کی ضروریات کا سارا بوجھ مرد پر ڈالا ہے۔ اسے گھر کی ملکہ کی حیثیت سے بچوں کی تربیت کنندہ اور شوہر کی خدمت گزار بنایا ہے اور شوہر کو اس کا رکھوالا اور محافظ مقرر کیا ہے۔

اور اسلام نے عورت پر جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ باپردہ رہے، سنگھار کر کے باہرنہ نکلے اور ویسے بھی حتی الامکان گھر کی چار دیواری میں رہے شوہر یا محرم کے بغیر سفرنہ کرنے مردوں سے (بوقت ضرورت) بات کرے تو سخت لہجے میں کرے، نرمی اور لچک نہ دکھلائے۔ یہ ساری پابندیاں عورت کی عزت، عصمت اور عفت کی حفاظت کے لیے ہیں۔ اس کے مقام و مرتبہ کو بلند و بالا کرنے کے لیے ہیں۔ اسے شریروں اور بدکاروں سے بچانے کے لیے ہیں۔ اور ان پابندیوں پر عمل کرنے سے عورت کا سلیم الفطرت شوہر کے ہاں مقام و مرتبہ بلند ہو جاتا ہے۔ غیرت مند باپ کے ہاں اس کا تقدس بڑھ جاتا ہے۔ غیور بھائی کے ہاں اس کی عزت زیادہ ہو جاتی ہے اور سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ ایسی صورت رب کائنات کے ہاں نیک اور صالح قرار پاتی ہے اور فردوس وعدن کی وارث بن جاتی ہے۔

لہٰذا یہ پابندیاں عورت پر ظلم نہیں بلکہ عورت کے حق میں فضل و احسان ہیں۔ آج مغربی ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد عورتوں کی ہے کیوں؟ اس لیے کہ عورتوں نے جان لیا ہے کہ مغرب نے عورتوں کو حقوق نسواں کے جعلی نعرے کے ساتھ بر سر بازار ذلیل اور رسوا کیا ہے۔ اسے منڈیوں مارکیٹوں بازاروں اور دفتروں میں دھکے کھانے پر آمادہ کیا ہے۔ اسے باوفا بیوی اور تربیت کنندہ ماں بننے کی بجائے گندی محبت و عشق کی دلدل میں دھکیلا ہے۔ اس لیے جو مغربی کافرہ عورت معمولی سا اسلام کو پہچانتی ہے وہ اسلام قبول کر لیتی ہے۔

ایک سچا واقعہ:

ایک شخص جاپان میں رہتا تھا اس نے ایک جاپانی عورت کو اسلامی لٹریچر مہیا کیا وہ خاتون مسلمان ہوگئی، بعد میں اس شخص نے اس سے شادی کر لی اسے عزت کے ساتھ گھر بٹھایا۔ اس کی تمام ضروریات کا ذمہ اٹھایا۔ وہ عورت قبل از قبول اسلام ایک فیکٹری میں کام کرتی تھی اس کی سہیلیاں اس کی خبر لینے کے لیے آئیں۔ پوچھا: آپ فیکٹری میں کام پر کیوں نہیں آرہی؟ اس عورت نے ساری تفصیل سنائی کہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں میرے شوہر نے اسلامی تعلیمات کے مطابق میری تمام ضروریات اپنے ذمے لے لی ہیں۔ وہ میری خاطر کام کرتا کماتا اور محنت کرتا ہے اور میں اس کی خاطر کھانا پکاتی، اس کے کپڑے تیار کرتی اور اس کی آمد کا انتظار کرتی ہوں۔ وہ میرے لیے مصروف اور میں اس کے لیے محو خدمت ہوں۔ لہٰذا مجھے اب فیکٹری میں کام کرنے، اغیار کی غلامی کرنے اور دوسروں کی نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب اس کی سہیلیوں نے یہ تفصیل سنی تو بے ساختہ پکار انھیں ایسے پیارے دین (اسلام) کی تعلیم ہمیں بھی دو اور ہمارے لیے بھی مسلمان شوہر تلاش کرو۔

یہ ہے اسلام اور یہ ہے اسلام میں عورت کا مقام … مزید تفصیل کے لیے فاضل دوست مولا نا احسان الحق شہباز حفظہ اللہ کی مایہ ناز کتاب ’’اسلام عورت اور یورپ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہماری ماؤں، بہنوں اور بہو، بیٹیوں کو مغرب کا نقال بنے سے بچائے اور اسلامی تہذیب کو قبول کرنے اور اس پر فخر کرنے کی توفیق بخشے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔