حقوق زوجین

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠۝۲۲۸﴾ [البقرة: 228]
شریعت اسلامیہ میں حقوق کا مسئلہ انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ کسی کی حق تلفی کو ظلم کا نام دیا گیا ہے۔ اور ظلم کے بارے ارشاد نبویﷺ ہے۔
(اِتَّقُوا الظُّلْمَ إِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) [صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم (2578)]
’’لوگو ظلم سے بچو، ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔‘‘
اور آپﷺ نے فرمایا:
’’جس نے کسی پر کوئی ظلم کیا ہو کسی کی حق تلفی کی ہو وہ دنیا میں ہی معاملہ صاف کروا لے ورنہ کل قیامت کے دن درہم و دینار اور مال وزر کے ذریعے حساب نہیں چکایا جائے گا بلکہ نیکیوں اور بدیوں کے ذریعہ حساب صاف کیا جائے گا۔ وہ اس طرح کہ حق تلفی کرنے والے کی نیکیاں مظلوم کے کھاتے میں ڈالی جائیں گی اور اگر پھر بھی حق ادا نہ ہوا تو مظلوم کے گنا و حق تلفی کرنے والے (یعنی ظالم) کے کھاتے میں ڈالے جائیں گئے۔‘‘
کس قدر حساس مسئلہ ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔
بندہ مظلوم ہو کر دنیا سے جائے یہ بہتر ہے اس سے وہ ظالم بن کر دنیا سےجائے۔
لیکن آج لوگ مظلوم بننے کے بجائے ظالم بنتے پہ تلے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کی حق تلفی، ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم ہے۔ اور امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے ازدواجی و معاشرتی زندگی کے لیے ایک زبر دست اور جامع نصیحت فرمائی:
(لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبُّ لِاَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ) [بخاری، الايمان، باب من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه (13) و مسلم (45)]
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے وہ (خیر اور بھلائی) پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے کہ اس کے حقوق کی ادائیگی کی جائے اس کے ساتھ انصاف کیا جائے تو وہ دوسرے کے حقوق ادا کرے اور انصاف کرے۔‘‘
آج ہمارے معاشرے میں حقوق کے سلسلے میں یہ ایک بہت بڑی غلطی پائی جاتی ہے اور وہ غلطی یہ ہے کہ آج ہر کوئی اپنے حق کی بات کرتا ہے دوسرے کے حق کی پروا نہیں کرتا۔ یہی کیفیت زوجین کی ہے۔ شوہر اپنے حقوق کا واویلا کرتا ہے اور بیوی اپنے حقوق کا شور مچاتی ہے۔ اگر دونوں اپنے اپنے حقوق کی بجائے دوسرے کے حقوق کے فکر مند ہو جائیں تو معاشرہ پر سکون اور پر امن ہو جائے۔
اس لیے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے حقوق کی بجائے دوسرے کے حقوق کے پاسدار اور فرض شناسی بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی نمونہ پیش فرمایا۔
اور حقوق کے سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے کسی کو بھی حقوق کی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ ہاں کسی کا حق چھوٹا اور کسی کا حق ہوا ضرور ہے۔
جس طرح اولاد کے معاملے میں ماں باپ کا حق بڑا ہے لیکن ماں باپ کے ذمے اولاد کے حقوق بھی موجود ہیں اسی طرح بیوی کے مقابلے میں شوہر کا حق بڑا ہے لیکن بیوی کے حقوق بھی شوہر کے ذمے ہیں۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ﴾ [البقرة: 228]
اور میں آج تمام حقوق میں سے حقوق الزوجین بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ حقوق الزوجین میں کوتاہی کا برا اثر آل، اولاد معاشرے اور ملت و قوم پر پڑتا ہے۔
شوہر کے حقوق
جو بیوی کے ذمے ہیں کہ مندرجہ ذیل حقوق کو پورا کریں:
پہلا حق شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا:
یعنی جائز امور میں شوہر کی اطاعت کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ﴾ (النساء: (34)
’’پس نیک عورتیں وہ ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور فرمانبردار ہیں۔‘‘
معلوم ہو ا عورت کے نیک اور صالحہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عورت شوہرکی خدمت گزار اور فرمانبردار ہو۔ یہ حق احادیث مبارکہ میں بھی مذکور ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر آنے کی دعوت دے اور وہ انکار کر دے اور خاوند اس سے ناراض ہو کر رات بسر کرے تو صبح تک اس پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں‘‘[صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب اذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها (5193) و صحیح مسلم (1436)]
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی عورت پانچوں نمازیں ادا کرنے ماہ رمضان کے روزے رکھنے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔[ابن حیان (4193) و احمد (191/1)]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر کسی (شخص) کو حکم ہوتا کہ وہ کسی شخص کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘[جامع الترمذي، كتاب الرضاع، باب ماجاء في حق الزوج على المرأة (1159)]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ عورت جو اپنے خاوند کو خوش کرے جب وہ اس کی جانب نظر اٹھائے اس کے حکم کی اطاعت کرے جب وہ اس کو شریعت کے مطابق حکم دے اور اپنے وجود اور خاوند کے مال میں خاوند کی مرضی کے خلاف ایسا کام نہ کرے جو اس کے خاوند کو ناپسند ہو۔[مستدرك حاكم (2682) دیلمی (2912) حدیث حسن]
آج بہت سارے گھرانوں میں فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑے کی بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ عورت شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کی بجائے۔ شوہر پر حکم چلانے اور اسے اپنا ماتحت بنانے پہ تلی رہتی ہے جبکہ گھریلو فطری نظام یہ ہے کہ عورت شوہر کی ماتحت اطاعت گزار اور فرمانبردار ہو اور اس میں عورت کی عزت و عظمت ہے۔
دوسرا حق، شوہر کے رازوں کی حفاظت کرنا:
﴿حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ﴾ [النساء: 34]
قرآن اعلان کر رہا ہے کہ نیک اور صالح عورتیں وہ ہیں جو اپنے شوہروں کے راز محفوظ رکھتی ہیں شوہر کے پوشیدہ عیب لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتیں شوہر کی گھریلو خفیہ غلطیوں اور کوتاہیوں کا لوگوں میں چرچا نہیں کرتیں بلکہ ان پر پردہ ڈالتی ہیں اور بھلے طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتی ہیں۔
تیسرا حق، شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرنا:
﴿حَافِظَاتٌ لِلْغَيبِ﴾ [النساء: 34]
کا دوسرا معنی یہی ہے کہ نیک اور صالح عورت وہ ہے جو شوہر کی عدم موجودگی میں شوہر کے مال اور عزت کی حفاظت کرنے والی ہے شوہر کی عدم موجودگی میں اس کا مال ضائع اور برباد نہیں کرتی، اس کی عزت کو داغدار نہیں کرتی بلکہ مال وعزت کی محافظ اور پہریدار ہوتی ہے۔
چوتھا حق، شوہر کو ایذاء نہ دے:
ترمذی، ابن ماجہ میں ہے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: ’’جو بیوی اپنے خاوند کو دنیا میں تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی بیوی کو حوریں کہتی ہیں اس کو تکلیف نہ دے وہ تیرے پاس مہمان ہے جلد ہی تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا‘‘[سنن ابن ماجه، كتاب الطلاق، باب في المرأة تذى زوجتها، رقم: 2014]
آج کئی عورتیں مختلف انداز میں شوہر کو ایذاء اور تکلیف دیتی ہیں انہیں ستائی اور پریشان کرتی ہیں جبکہ یہ شوہر کی بہت بڑی حق تلفی ہے۔
پانچواں حق، شوہر سے بدکلامی نہ کرنا:
(سنن ابی داؤد کی روایت ہے) حضرت لقیط بن صبرہ ہی بیان کرتے ہیں میں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! میری بیوی کی زبان میں فحش کلامی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو طلاق دے دے۔‘‘ میں نے عرض کیا اس سے میری اولاد ہے اور اس کے ساتھ دیرینہ رفاقت بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو نصیحت کر اگر اس میں خیر کا پہلو ہوا تو وہ تیری نصیحت کو قبول کرلے گی اور اپنی بیوی کو لونڈی کی طرح نہ مار۔[سنن أبي داود، كتاب الطهارة، باب في الاستنشار، رقم: 142]
غور کیجئے رسول اللہ ﷺ نے بیوی کی بد کلامی کی بناء پر اسے طلاق دینے کا حکم صادر فرمایا اور صحیح الجامع الصغیر کی ایک حدیث میں ہے:
’’تین آدمیوں کی دعا قبول نہیں ہوتی ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس کی بیوی بدکلام ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے‘‘[صحيح الجامع الصغير، (3075) والصحيحة (1805)]
چھٹا حق، نفلی عبادات میں شوہر سے اجازت لے:
حدیث میں ہے:
(لَا تَصُومُ امْرَأَةٌ وَ زُوجُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ) [سنن ابن ماجه، كتاب الصيام، باب في المرأة تصوم بغير اذن زوجها (1761) و بخاری (5195)]
’’کوئی عورت شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھئے۔‘‘
ساتواں حق، شوہر کے رشتہ داروں کا احترام کرے:
بیوی کے لیے ضروری ہے کہ شوہر کے اقرباء ورشتہ داروں کا احترام کرے۔ شوہر کے ماں باپ کی عزت و توقیر کرے۔ صحیح البخاری میں ہے: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس بہو کے بارے طلاق کا حکم جاری کر دیا تھا جو ناشکری تھی اور جس نے اپنے سسر (جناب ابراہیم علیہ السلام) کی عزت و تکریم نہیں کی تھی۔[صحيح البخاري (475/1) (476/1)]
آٹھواں حق، بلا عذر شرعی طلاق کا مطالبہ نہ کرے:
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو عورت اپنے خاوند سے بغیر کسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘[مسند احمد (277/5)، سنن أبی داود، كتاب الطلاق، باب في الخلع (2226) ابن ماجه (2055)، دارمی (162/2)]
لیکن آج بہت ساری عورتیں صرف اس وجہ سے طلاق مانگتی اور خلع لے لیتی ہیں کہ شوہر پردے کی پابندی کرواتا ہے نماز کی پابندی کرواتا ہے اور فلم ڈرامے اور ناول افسانے سے منع کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
129
بیوی کے حقوق مرد کے ذمہ
بیوی سے بغض نہ رکھنا :
مسلم شریف میں روایت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’کوئی مومن شخص اپنی مومنہ (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت ناپسند ہوگی تو اس کی دوسری عادت کو وہ پسند بھی کرے گا۔[صحیح مسلم، كتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء (1469) و احمد (8371).]
اس حدیث میں ازدواجی زندگی کے سلسلے میں بہت بڑی نصیحت کی گئی ہے وہ یہ کہ شوہر اپنی بیوی کی کسی ایک آدھی ناپسندیدہ عادت کی وجہ سے اس کے متعلق دل میں بغض پیدا نہ کرنے بلکہ اس کی دوسری پسندیدہ عادات سے خوش ہو کر اس سے محبت کرئے آخر کسی کو دنیا میں 100 فیصد موافق بیوی کا مل جانا ممکن نہیں، لہٰذا گزارا ممکن ہو تو گزارا ضرور کرے۔
2۔ اپنے کھانے پینے اور پہننے جیسا کھانا پینا اور پہناوا مہیا کرنا:
جناب حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے عرض کیا :
يَا رَسُولَ اللهِ لا مَا حَقٌّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟
’’اے اللہ کے رسول ﷺ ہماری بیویوں کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’جب تو کھائے اس کو بھی کھلائے، جب تو اپنے لیے لباس تیار کرے تو اس کے لیے بھی لباس سلوائے اس کے چہرے پر نہ مارے، نہ اسے گالیاں دے اور اگر وہ ناراض بھی ہو تو اسے گھر سے نہ نکالے۔‘‘[مسند احمد (447/4) سنن أبي داؤد (2142) سنن ابن ماجه، كتاب النكاح، باب حق المرأة على الزوج (1500)]
آج کئی شوہروں کی عادت ہے خود بازاروں اور ہوٹلوں میں گل چھرے اڑانا، من پسند کھانے کھانا اور گھر میں بیوی کے لیے وہی دال سبزی اسی طرح خود نت نئے کپڑے خریدنا اور بیوی کے لیے وہی پرانے ملبوسات…
یہ قطعاً جائز نہیں ہے شوہر کے ذمے ہے کہ جس طرح کا خود کھائے اس طرح کا بیوی کو کھلائے (بلکہ بہتر کھلانے کی کوشش کرے) اور جس طرح کا خود پہنے اس معیار کا بیوی کو پہنائے (بلکہ بہتر پہنانے کی کوشش کرے۔)
3۔ اگر مجبوراً مار نا پڑے تو چہرے پر نہ مارنا اور تشدد نہ کرنا:
حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ تعالی عنہ اور کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو غلاموں کی مانند کوڑے نہ لگائے بعد ازاں دن کے آخری حصہ میں اس سے مجامعت کرے۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے:
’’تم میں سے کوئی ایک شخص اپنی بیوی کو کوڑے لگاتا ہے جیسے غلام کو کوڑے لگتے ہیں شاید اسے دن کے آخر میں اس سے مجامعت کرنا پڑے۔‘‘[بخاري، النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء (5204) و مسلم (2850)]
مطلب یہ ہے کہ ایک طرف بیوی سے جنسی خواہش پوری کرتا ہے اور دوسری طرف اس کی پٹائی کرتا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے؟
4۔ بیوی سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک کرنا:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے وہ شخص بہت اچھا ہے جو اپنے گھر والوں کے (حق میں ) اچھا ہے اور میں اپنے اہل والوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔‘‘[جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب فضل أزواج النبيﷺ (3895) والدارمی (159/2)]
کئی شوہروں کی عادت بد ہے باہر دوست احباب اور عزیز و اقارب کے لیے مثالی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں، بڑے شیریں اور میٹھے نظر آتے ہیں لیکن گھر میں بیوی کے لیے تھے جیسی کڑواہٹ رکھتے اور انتہائی بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہﷺ نے خصوصی تاکید فرمائی ہے کہ آدمی کے حسن اخلاق کے سب سے زیادہ حقدار اس کے گھر والے ہیں اور رسول اللہﷺ عملًا بھی اپنی ازواج مطہرات کے لیے انتہائی محمده و اعلی اخلاق کا مظاہرہ فرماتے تھے۔
5۔ اس قدر نفلی عبادات (صوم و صلاۃ ) نہ کرے کہ بیوی کی حق تلفی ہو:
کئی شوہر ضرورت سے زیادہ عبادت گزار ہوتے ہیں روزانہ دن کو روزہ رکھ لیا اور رات مصلائے عبادت پر قیام رکوع اور سجدے میں پڑے رہے بیوی بیچاری، نہ بیاہی نہ بے بیاہی….رسول اللہ ﷺ کے دور میں چند لوگوں نے ایسا انداز اختیار کیا توﷺ نے ان کی خوب خبر لی تھی اور انہیں بیوی کے حقوق کی توجہ دلائی تھی۔[سنن ابی داؤد، كتاب الصيام، باب في صوم شوال، رقم: 2432]
6۔ بیوی کے رشتہ داروں کا احترام و اکرام کرے:
آج بعض لوگ برادران نسبتی اور ساس وسسر کی بڑی تذلیل و تحقیر کرتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’آدمی کے لیے سب سے زیادہ عزت و تکریم اور تحفے تحائف کے حقدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسے بہن یا بیٹی کا رشتہ دیا ہے۔‘‘[سنن ابی داؤد، كتاب النكاح، باب في الرجل يدخل بامرأتہ الخ، رقم: 2129]
اس لیے ہمیں بیوی کے عزیز و اقارب کا احترام و اکرام کرنا چاہیے۔
7۔ ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں انصاف کرے ورنہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اگر کسی شخص کے نکاح میں دو صورتیں ہیں اور وہ ان کے درمیان عدل نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ناکا رہ ہوگا۔‘‘[جامع الترمذي (1141). سنن أبي داؤد، كتاب النكاح، باب القسم بين النساء (2133)]
غور فرمائیں؟ کتنی خطرناک سزا ہے؟ آج بڑے بڑے مذہبی لوگ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف نہیں کرتے، دوسری اور تیسری شادی کا شوق چڑھا ہوتا ہے لیکن ایک کی محبت میں جکڑے جاتے ہیں اس کے آگے پیچھے گھومتے پھرتے ہیں اور دوسری کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جبکہ تمام بیویوں کو ایک جیسا خرچہ ایک جیسی رہائش ایک جیسا وقت دینا فرض ہے بے انصافی قطعاً جائز نہیں ہے۔
چند مشترکہ ذمہ داریاں
1۔ خلوت کی باتیں فاش نہ کریں:
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’قیامت کے دن اللہ کے ہاں بدترین مقام اس شخص کا ہے جو اپنی بیوی سے مباشرت کرتا ہے اور وہ اس کے ساتھ اس میں شریک ہوتی ہے پھر وہ اس کی پوشیدہ باتوں کو پھیلاتا ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب النكاح، باب تحريم إفشاء سر المرأة (1437)، وابوداؤد (4170) واحمد (69/3)]
آج بعض لوگوں میں (بالخصوص نئی نئی شادی کرنے والے نوجوانوں میں) یہ وبا عام ہے حالانکہ یہ بہت بڑی بد دیانتی ہے کسی مرد و زن کے لیے یہ جائز نہیں، یہ تو علی الاعلان مباشرت کرنے کے مترادف ہے۔
2۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے زینت اختیار کریں:
شوہر کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کے لیے (جائز حدود میں رہتے ہوئے) خوبصورتی اور زینت اختیار کرنے خوشبو وغیر ہ لگائے اور بیوی کے لیے ضروری ہے کہ شوہر کے لیے (شرعی حدود میں رہتے ہوئے) زیب و زینت اختیار کرنے کنگھی پٹی کرئے، سرمہ لگائے، خوش نما لباس پہنے صاف ستھری رہے اور اچھا انداز اختیار کرے، عورت کی زیب و زینت کا اصل حقدار اس کا شوہر ہے لیکن کئی عورتوں کو یہ بیماری لاحق ہے گھر میں شوہر کے سامنے پراگندہ رہنا اور باہر نکلنے کے لیے خوبصورتی اختیار کرنا جبکہ یہ خطرناک گناہ ہے۔
3۔ دونوں ایک دوسرے کا دل بہلائیں:
رسول اللہﷺ نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا تھا:
(هَلًّا بِكْرًا تُلاعِبُكَ وَتُلَاعِبُهَا)
’’تو نے باکرہ (کنواری) لڑکی سے نکاح کیوں نہیں کیا وہ تیرا جی بہلاتی تو اس کا جی بہلاتا، وہ تجھ سے کھیلتی تو اس سے کھیلتا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب شراء الدواب والحمير (2097) و مسلم (715) و احمد (308/3)]
سبحان اللہ! اسلام کیسا قطری دین ہے مردو زن کے ناجائز اور آوارہ اختلاط اور غلط روابط پر پابندی لگاتا ہے لیکن مرد و زن کا وہ تعلق جسے رشتہ ازدواج کہا جاتا ہے اس میں باہمی دل لگی اور ملاعبت کی ترغیب دیتا ہے اس لیے میاں بیوی کو چاہیے ایک دوسرے کا جی بہلائیں۔ یہ دونوں کے ذمے ایک دوسرے کا حق ہے۔
بہرحال میاں بیوی کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق (قرآن وسنت کے مطابق) بجالائیں اور باہمی محبت و مودت اور الفت و چاہت والی زندگی بسر کریں اس کے نتیجے میں ایک تو گھر جنت نظیر بنے گا اولاد کی تربیت درست ہوگی، معاشرتی زندگی میں بہتری آئے گی اور دوسرا رب کائنات کے ہاں سرخروئی اور نجات و سعادت حاصل ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاء والتجاء ہے کہ وہ تمام زوجین کو قرآن و سنت کی روشنی میں محبت والفت کے سائے میں پرسکون اور بابرکت زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔