حسد اور اس کی تباہ کاریاں
اہم عناصرِ خطبہ :
01. حسد کی تعریف
02. حسد اور رشک میں فرق
03. حسد کی مذمت اور اس سے ممانعت
04.حسد کے اسباب
05. حسد کے نقصانات
06. حسد سے بچاؤ کی تدابیر
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
دل کی بیماریوں میں سے ایک خطرناک بیماری ’حسد ‘ ہے ۔ اور جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اس کی زندگی انتہائی نا خوشگوار ہوتی ہے ۔ جیسا کہ بعض حکماء کا کہنا ہے کہ
(( ثَلَاثَۃٌ لَا یَہْنَأُ لِصَاحِبِہَا عَیْشٌ : اَلْحِقْدُ ، وَالْحَسَدُ ، وَسُوْئُ الْخُلُقِ))
’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں اُس کی زندگی خوشگوار نہیں ہوتی : بغض ، حسد اور بد اخلاقی ۔‘‘
اور حسد ایسی بیماری ہے کہ جو دیگر کئی بیماریوں کی بناء پر جنم لیتی ہے یا دیگر بیماریوں کو بھی جنم دیتی ہے ۔ مثلا ناپسندیدگی ، نفرت ، بغض ، دشمنی ، حسرت ، اللہ کی قضاء وقدر پر ناراضگی ، ڈپریشن ،غم اور پریشانی وغیرہ
اللہ تعالی ہم سب کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھے ۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ حضرات کو یہ بتاتے چلیں کہ ’ حسد ‘ کسے کہتے ہیں ؟
’ حسد ‘ کی تعریف بعض علماء نے یوں کی ہے :
( تَمَنِّی زَوَالِ النِّعْمَۃِ عَنْ صَاحِبِہَا ) ’’ صاحب ِ نعمت سے نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنا ۔ ‘‘
یا (کُرْہُ النِّعْمَۃِ عِنْدَ الْغَیْرِ وَتَمَنِّی زَوَالِہَا ) ’’ کسی کے ہاں نعمت کو ناپسند کرنا اور اس کے زوال کی تمنا کرنا ۔ ‘‘
مثلا کوئی شخص کسی کے ہاتھ میں عمدہ اور خوبصورت گھڑی دیکھے تو وہ اسے ناپسند کرے اور یہ تمنا کرے کہ کاش یہ گھڑی اس کے پاس نہ ہوتی ۔
یا کوئی شخص کسی کے پاس اچھی سواری دیکھے اور اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہو کہ کاش یہ سواری ایکسیڈنٹ کا شکار ہو جائے اور اس کے پاس نہ رہے ۔
یا ایک طالب علم دوسرے طالب علم کی کلاس میں اچھی پوزیشن کو نا پسند کرے اور اس کے دل میں یہ تمنا پیدا ہو کہ کاش یہ پوزیشن اس طالب علم کے پاس نہ رہے ۔
یا ایک کاروباری آدمی دوسرے کاروباری آدمی کے اچھے کاروبار پر اُس سے حسد کرے اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ اس کا کاروبار برباد ہو جائے ۔
یا ایک عالم دوسرے عالم سے اس کی اچھی شہرت کی وجہ سے حسد کرے اور وہ یہ تمنا کرے کہ کاش اس سے یہ شہرت چھن جائے۔
یا ایک قاری دوسرے قاری سے اس کی عمدہ اور خوبصورت قراء ت کی بناء پر حسد کرے اور وہ یہ چاہے کہ کاش اس کی قراء ت اچھی نہ ہو ۔
یا ایک خاتون دوسری خاتون کے حسن وجمال یا عمدہ لباس کی بناء پر اس سے حسد کرے اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ کاش اس کا حسن وجمال ختم ہوجائے اور یہ عمدہ لباس اس کے جسم پر نہ رہے ۔
یہ مثالیں اور اِن جیسی دیگر بہت سی مثالیں ’حسد ‘ کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں ۔ اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ’حسد ‘ درحقیقت کسی کے ہاں پائی جانے والی کسی نعمت کو نا پسند کرتے ہوئے اس سے اس کے چھن جانے کی تمنا کرنے کا نام ہے ۔
بعض اوقات ایک انسان صرف اتنی تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمت( چاہے مجھے ملے یا نہ ملے ) بس فلاں آدمی کے پاس نہیں رہنی چاہئے ۔اور بعض اوقات وہ یہ بھی تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمت فلاں کے پاس نہیں بلکہ میرے پاس ہونی چاہئے ۔ دونوں صورتوں میں اسے ’ حسد ‘ ہی کہا جائے گا ۔
حسد اور رشک میں فرق
’ حسد ‘ کے بارے میں آپ نے جان لیا کہ اس سے مراد کسی کے ہاں کسی نعمت کو نا پسند کرنا اور اُس سے اس کے چھن جانے کی تمنا کرنا ہے ۔ جبکہ ’ رشک ‘ یہ ہے کہ آپ کسی کے ہاں کوئی نعمت دیکھیں اور اس پررشک کریں کہ جیسے اللہ تعالی نے اُس کویہ نعمت نصیب کی ہے اسی طرح مجھے بھی نصیب کردے ۔
مثلا اگر آپ ایک کاروباری آدمی ہیں اور آپ کسی اچھے بزنس مین پر رشک کرتے ہوئے یہ تمنا کریں کہ
کاش میرا کاروبار بھی اسی طرح اچھا ہو جائے ۔
یا اگر آپ ایک طالب علم ہیں اور ایک اچھے طالب علم کی اچھی پوزیشن پر رشک کرتے ہوئے آرزو کریں کہ کاش میں بھی محنت کرکے اسی طرح اچھی پوزیشن حاصل کر لوں ۔
یا آپ کسی کے پاس اچھی گھڑی یا اچھا لباس یا اچھی سواری یا کوئی اور نعمت دیکھیں اور دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ کاش اللہ تعالی یہ نعمتیں مجھے بھی عطا کردے تو یہ ’ رشک ‘ ہے ۔
اِس بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’ حسد ‘ نا جائز اور ’ رشک ‘ جائز ہے ۔ اِس کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا حَسَدَ إِلَّا فِی اثْنَتَیْنِ : رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ یَقُوْمُ بِہٖ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ ، وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَہُوَ یُنْفِقُہُ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ)) صحیح مسلم : 815
’’ صرف دو آدمی ہی قابل ِ رشک ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا (اسے حفظ کرنے کی توفیق دی) چنانچہ وہ اس کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں قیام کرتا ہے ۔ دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے مال عطا کیا ، چنانچہ وہ اسے دن اور رات کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر آپ کسی ایسے حافظ ِ قرآن کو دیکھیں جو دن رات اسے نماز کے دوران پڑھتا ہو ، چنانچہ آپ کے دل میں بھی یہ آرزو پیدا ہو کہ کاش میں بھی اِس حافظ ِ قرآن کی طرح حافظ ِ قرآن ہوتا اور میں بھی اُس کی طرح دن اور رات کے مختلف اوقات کی نمازوں میں اس کی تلاوت کرتا تو یہ جائز ہے ۔ اسی طرح دوسرا آدمی جو مالدار ہو اوروہ دن رات اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہو ، اسے دیکھ کر آپ کے دل میں بھی یہ تمنا پیدا ہو کہ میرے پاس بھی اسی طرح مال ہوتا تو میں بھی اس آدمی کی طرح اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتا تو یہ جائز ہے ۔اور اسی کو ’ رشک ‘ کہتے ہیں ۔
حسد کی مذمت
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد احادیث مبارکہ میں ’ حسد ‘ کی مذمت فرمائی ہے ۔ چنانچہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
﴿ اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ﴾ النساء4 : 54
’’ کیا وہ دوسرے لوگوں پر اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل سے انھیں کچھ دے رکھا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ان یہودیوں کی مذمت کی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والے مسلمانوں سے اس لئے حسد کرتے تھے کہ اللہ تعالی نے قیادت وسیادت کی ذمہ داری آل اسماعیل کو عطا کردی تھی ۔
اسی طرح اللہ تعالی اہل کتاب کے حسد کو طشت ازبام کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
﴿ وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ م بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ ﴾ البقرۃ2 :109
’’ اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمھارے ایمان لانے کے بعد پھر تمھیں کافر بنا دیں جس کی وجہ ان کا وہ حسد ہے جو ان کے سینوں میں ہے، اس کے بعد کہ ان پر حق بات واضح ہو چکی ہے ۔ ‘‘
اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے بارے میں ارشاد فرمایا :
(( مَا حَسَدَتْکُمُ الْیَہُودُ عَلٰی شَیْیئٍ مَا حَسَدَتْکُمْ عَلَی السَّلَامِ وَالتَّأْمِیْنِ)) سنن ابن ماجہ : 856۔ وصححہ الألبانی
’’ یہودی تم پر جتنا سلام اور آمین کی وجہ سے حسد کرتے ہیں اتنا کسی اور وجہ سے نہیں کرتے ۔ ‘‘
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا تذکرہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّہُمْ لَمْ یَحْسُدُونَا عَلٰی شَیْیئٍ کَمَا حَسَدُونَا عَلَی الْجُمُعَۃِ الَّتِی ہَدَانَا اللّٰہُ لَہَا وَضَلُّوْا عَنْہَا ، وَعَلَی الْقِبْلَۃِ الَّتِی ہَدَانَا اللّٰہُ لَہَا وَضَلُّوْا عَنْہَا ، وَعَلٰی قَوْلِنَا خَلْفَ الْإِمَامِ آمِیْن )) صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:515
’’ انھیں ہم سے کسی اور چیز پر اتنا حسد نہیں ہے جتنا اس بات پر ہے کہ اللہ تعالی نے جمعہ کے دن کی طرف ہماری راہنمائی کردی اور وہ اس سے بھٹک گئے ۔ اور اللہ تعالی نے اُس قبلے کی طرف ہماری راہنمائی کردی جس سے وہ بھٹک گئے تھے۔ اور اس بات پر کہ ہم امام کے پیچھے آمین کہتے ہیں ۔ ‘‘
ان تمام نصوص سے ثابت ہوا کہ حسد کرنا یہودونصاری کا فعل ہے ۔ لہذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے دلوں کو اس سے پاک رکھیں۔اور ایک دوسرے سے حسد نہ کریں ۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس سے منع فرمایا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ((لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا ، وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا تَحَسَّسُوْا، وَلَا تَنَاجَشُوْا، کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ إِخْوَانًا)) صحیح مسلم :2563
’’ تم ایک دوسرے سے نہ حسد کرو اور نہ ہی بغض رکھو ۔ نہ جاسوسی کیا کرو اور نہ ہی چوری چھپے کسی کی گفتگو سنا کرو ۔ اور خریداری کے ارادے کے بغیر محض کسی چیز کی قیمت بڑھانے کیلئے بولی نہ لگایا کرو کہ دوسرا آدمی دھوکہ کھاجائے۔ اور تم سب اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو ۔‘‘
ایک حاسد انسان نفسیاتی مریض ہوتاہے ۔ کیونکہ وہ یہ نا پسند کرتا ہے کہ اللہ کی نعمتیں اس کے بندوں کو نصیب ہوں ۔ وہ خود ان نعمتوں کے حصول کیلئے کوئی جدو جہد اور محنت نہیں کرتا ، بلکہ اس کا مطمح نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ جس کو اللہ کی نعمتیں ملی ہوئی ہیں اُس سے وہ نعمتیں چھن جائیں اور وہ ان سے محروم ہو جائے ۔
اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت ہی خطرناک بیماری قرار دیا ۔جس کی وجہ سے ’حاسد ‘ اپنے دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ والعیاذ باللہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( دَبَّ إِلَیْکُمْ دَائُ الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ : اَلْحَسَدُ وَالْبَغْضَائُ ، ہِیَ الْحَالِقَۃُ ، لَا أَقُوْلُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰکِنْ تَحْلِقُ الدِّیْنَ ))
’’ تمھاری طرف تم سے پہلی امتوں کی ایک بیماری چل نکلی ہے اور وہ ہے حسد اور بغض ۔ اور یہ بیماری ایسی ہے جو بالکل صفایا کردیتی ہے ، میں نہیں کہتا کہ بالوں کا صفایا کرتی ہے بلکہ دین کا صفایا کردیتی ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
(( وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا ، أَفَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِمَا یُثْبِتُ ذَاکُمْ لَکُمْ ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ)) جامع الترمذی :2510 ۔ وحسنہ الألبانی
’’اللہ کی قسم ! تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ ۔ اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو ۔ تو کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتلاؤں جو تمھارے درمیان اس محبت کو دیر تک قائم رکھے گی ؟ تم آپس میں سلام کو عام کر دو ۔‘‘
محترم سامعین ! حسد اس قدر مہلک اور خطرناک بیماری ہے کہ بعض اوقات اس کی وجہ سے حاسد انسان جس سے حسد کرتا ہے اسے قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔ اس کی دلیل ہابیل اور قابیل کا واقعہ ہے جو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ﴾ المائدۃ5 :27
’’ اور آپ انھیں آدم ( علیہ السلام ) کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ بتائیے ۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی نہ ہوئی ۔ ‘‘
آدم علیہ السلام کے ان دونوں بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے ۔ ہابیل ایک نیک سیرت اور متقی انسان تھا ۔ اور اس نے پورے اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کی جسے قبول کر لیا گیا ۔ جبکہ قابیل ایسا نہ تھا ، چنانچہ اس نے قربانی پیش کی تو اسے قبول نہ کیا گیا ۔ بس یہی وہ بات تھی جس کی بناء پر قابیل نے ہابیل سے حسد کیا ۔ اور اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا :
﴿ لَاَقْتُلَنَّکَ﴾ ’’ میں تمھیں ضرور مار ڈالوں گا ۔ ‘‘
تو ہابیل نے جواب دیا : ﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’ اللہ تو صرف متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ ‘‘
پھر کہا : ﴿ لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ٭ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓاَ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ﴾ المائدۃ5 :28۔29
’’ اگر تو مجھے مار ڈالنے کیلئے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو بھی میں تجھے قتل کرنے کیلئے اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا ۔ میں تو فقط اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ میں چاہتاہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ سب کچھ سمیٹ لے اور اہل جہنم میں سے ہو جائے ۔ اور ظالم لوگوں کی یہی سزا ہے ۔ ‘‘
لیکن قابیل اپنے بھائی کی یہ نصیحت سن کر ذرا برابر متاثر نہ ہوا اور اسے قتل کرنے پر تل گیا ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْن ﴾ المائدۃ5 :30
’’ بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر لیا ، چنانچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا ۔ پھر وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا ۔ ‘‘
حسد کے اسباب
سامعین گرامی ! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک حاسد کسی سے کیوں حسد کرتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
اس کے کئی اسباب ہیں :
01. تقسیم ِ ارزاق پر عدم قناعت اور ناراضگی
اگر ہم اس سبب کی وضاحت کرنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے ارزاق کی تقسیم اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ، چنانچہ وہ جسے چاہتاہے زیادہ رزق عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے محدود مقدار میں رزق عطا کرتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ﴾ العنکبوت29 :62
’’ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کیلئے چاہے کم کر دیتاہے ۔ اور یقینا وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے ۔ ‘‘
ایک ایسا شخص جسے اللہ تعالی نے زیادہ رزق نہیں دیا ، ہونا تو یہ چاہئے کہ اسے اللہ تعالی نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ اس پر قناعت اختیار کرے ، ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اور مزید رزق کا اللہ تعالی سے ہی سوال کرے کہ رزق کی تمام چابیاں اُسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ لیکن اگر وہ اُس انسان سے حسد کرے جسے اللہ تعالی نے زیادہ رزق دیا ہو تو وہ گویا کہ اللہ رب العزت کی تقسیم پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے ۔ اور یہ ہرگز جائز نہیں ہے ۔
02. تکبر اور خود پسندی ۔ یعنی حاسد اس احساس میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ سب سے اچھا ہے اور تمام نعمتوں کا مستحق ہے ۔ اسی لئے جب وہ دوسرے لوگوں کے پاس مختلف نعمتیں دیکھتا ہے تو اس سے یہ چیز برداشت نہیں ہوتی ۔ چنانچہ وہ ان سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے ۔
03. حاسدکا محسود سے بغض
یعنی جب کوئی شخص کسی سے بغض رکھ لیتا ہے اور دل ہی دل میں اس سے نفرت کرنا شروع کردیتا ہے تو اسے خوشحال دیکھ کر ، یا صحت مند اور تندرست دیکھ کر ، یا اس کے پاس اللہ تعالی کی کسی نعمت کو دیکھ کر اس سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے ۔
04. محسود کا بعض چیزوں میں تفوق اور حاسد کا ان چیزوں کے حصول سے عاجز آنا
یعنی بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالی بعض صلاحیتوں سے نوازتا ہے ۔ جن کی بناء پر وہ اپنے اقران پر فوقیت حاصل کرلیتا ہے ۔ پھر اقران میں سے کوئی شخص کوشش کے باوجوداگر اس آدمی کے تفوق کو
ختم کرنے اور خود اس پر فوقیت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے تو وہ اس سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے ۔ مثلا ایک کلاس کے تمام طالب علم ایک جیسی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے ۔ ان میں سے کوئی طالب علم اگر اللہ رب العزت کی توفیق اور اس کی دی ہوئی صلاحیتوں کی بدولت اپنے ساتھیوں پر فوقیت حاصل کرلے ، پھر اس کا کوئی ساتھی شدید محنت کرنے کے باوجود اس پر فوقیت حاصل نہ کر سکے تو وہ اس سے حسد کرنے لگتا ہے ۔ اسی طرح کاروباری لوگوں میں بھی ہوتا ہے ۔ اور خواتین میں بھی ۔
05. جاہ ومنصب کا لالچ
یعنی بسا اوقات ایک شخص اپنے خاندان یا اپنے شہر یا اپنے ملک میں اعلی جاہ ومنصب کا خواہشمند ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی اور شخص اس کے خاندان یا شہر یا ملک میں اس کے مد مقابل آرہا ہے اور لوگ اسے اس پر ترجیح دے رہے ہیں تو وہ اس سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے ۔ اور ایسا آج کل سیاسی میدان میں بہت ہوتا ہے ۔ اسی طرح کمپنی یا محکمے میں بھی کئی لوگ اعلی جاہ ومنصب کے لالچ میں اپنے ساتھیوں سے حسد کرنے لگتے ہیں کہ کہیں وہ ان سے آگے نہ بڑھ جائیں اور کہیں وہ ترقی پاکر اعلی پوسٹوں پر فائز نہ ہو جائیں ۔
مدینہ منورہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول ، جو رئیس المنافقین تھا ، اس کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مکہ مکرمہ میں سردارانِ قریش کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد بھی اسی نوعیت کا تھا ۔
06. مال ودولت کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش
ہر انسان مال ودولت سے شدید محبت کرتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَاِِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ ﴾ العادیات100 :8
’’ اور وہ ( انسان ) مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے ۔ ‘‘
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
(( لَوْکَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِن مَّالٍ لَابْتَغٰی ثَالِثًا، وَلَا یَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ )) صحیح البخاری:6436،صحیح مسلم :1048
’’ اگر آدمی کے پاس مال سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ چاہتاہے کہ تیسری بھی ہو ۔ اور آدمی کے پیٹ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔ ‘‘
مال ودولت کے اسی لالچ کی بناء پر جب ایک انسان دوسرے انسان کو دیکھتا ہے کہ اُس کے پاس اُس سے زیادہ مال ہے اور وہ زیادہ دولت کما رہا ہے تو وہ اس سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی چیز سے ڈراتے ہوئے فرمایا تھا :
(( فَوَاللّٰہِ مَا الْفَقْرَ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ ، وَلٰکِنْ أَخْشٰی أَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ قَبْلَکُمْ ، فَتَنَافَسُوہَا کَمَا تَنَافَسُوہَا ، وَتُہْلِکَکُمْ کَمَا أَہْلَکَتْہُمْ ))
’’ اللہ کی قسم ! مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ تم پر فقر وفاقہ آئے ، بلکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں دنیا تم پر کھول نہ دی جائے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کھولی گئی ، پھر تم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ۔ اور دنیا تمھیں ہلاک کردے جیسا کہ انھیں ہلاک کیا تھا ۔ ‘‘ صحیح البخاری :4015، صحیح مسلم :2961
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا فُتِحَتْ عَلَیْکُمْ فَارِسُ وَالرُّوْمُ أَیُّ قُوْمٍ أَنْتُمْ ؟ ))
’’ جب تم پر فارس اور روم ( کے خزانے ) کھول دئیے جائیں گے تو تم لوگ کیا کرو گے ؟‘‘
تو عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : (( نَقُولُ کَمَا أَمَرَنَا اللّٰہُ ))
’’ ہم وہی کہیں جس کا ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے ۔ ‘‘
یعنی ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کریں گے اور اس کے مزید فضل وکرم کا سوال کریں گے ۔
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَوَ غَیْرَ ذَلِک ؟ )) ’’یا اس کے علاوہ کچھ اور ‘‘ یعنی تمھاری حالت کچھ اورہوگی۔
پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( تَتَنَافَسُونَ ثُمَّ تَتَحَاسَدُونَ ثُمَّ تَتَدَابَرُونَ ثُمَّ تَتَبَاغَضُونَ أَوْ نَحْوَ ذٰلِک ))
’’ تم ( ان خزانوں کے حصول کیلئے ) ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے ، پھر ایک دوسرے سے حسد کرو گے ، پھر ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرو گے ۔ پھر ایک دوسرے سے بغض رکھو گے ۔ یا اس طرح کی دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔ ‘‘ صحیح مسلم :2962
اہل علم کا کہنا ہے کہ ’ تنافس ‘ سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص ان خزانوں کی طرف لپکے گا کہ کہیں کوئی اور اُس سے پہلے اُن خزانوں کو حاصل نہ کر لے ۔ اور یہ حسد کا پہلا درجہ ہے اور یہیں سے حسد کی ابتدا ہوتی ہے ۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( سَیُصِیْبُ أُمَّتِی دَائُ الْأُمَمِ )) ’’ عنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری لگ جائے گی ۔ ‘‘
تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : (( وَمَا دَائُ الْأُمَمِ )) ’’ پہلی امتوں کی بیماری سے کیا مراد ہے ؟ ‘‘
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اَلْأَشِرُ ، وَالْبَطَرُ ، وَالتَّکَاثُرُ ، وَالتَّنَافُسُ فِی الدُّنْیَا ، وَالتَّبَاغُضُ ، وَالتَّحَاسُدُ حَتّٰی یَکُونَ الْبَغْیُ )) الحاکم ۔ بحوالہ السلسلۃ الصحیحۃ : 680
’’ نا شکری ، سرکشی ، زیادہ سے زیادہ مال ودولت جمع کرنے کی کوشش ، دنیا کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی ، ایک دوسرے سے بغض اور حسد ، یہاں تک کہ نوبت ظلم تک پہنچ جائے گی ۔ ‘‘
حسد کے نقصانات
حسد کے بہت سارے نقصانات ہیں جن سے حاسد دوچار ہوتا ہے ۔ ان میں سے اہم نقصانات یہ ہیں :
01. حاسد سے اللہ تعالی ناراض ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ اللہ رب العزت کی قضاء وقدر پر اور ارزاق کی تقسیم پر عدم رضا مندی کا اظہا رکرتا ہے ۔
شاعر کہتا ہے :
أَیَا حَاسِدًا لِیْ عَلٰی نِعْمَتِیْ أَتَدْرِیْ عَلٰی مَنْ أَسَأْتَ الْأَدَب
میری نعمت پر حسد کرنے والے شخص ! کیا تم جانتے ہو کہ تم نے کس کی بے ادبی کی ہے ؟
أَسَأْتَ عَلَی اللّٰہِ فِیْ حُکْمِِہٖ لِأَنَّکَ لَمْ تَرْضَ لِیْ مَا وَہَب
تم نے اللہ کے حکم کی بے ادبی کی ہے ۔ کیونکہ اس نے مجھے جو عطا کیا تم نے اسے نا پسند کیا
فَأَخْزَاکَ رَبِّیْ بِأَنْ زَادَنِیْ وَسَدَّ عَلَیْکَ وُجُوہَ الطَّلَب
چنانچہ میرے رب نے تمھیں رسوا کیا کہ اس نے مجھے اور زیادہ دیا اور تجھ پر اس نے طلب کے دروازے ہی بند کردئیے ۔
02. حسد کی وجہ سے حاسد کے دل میں حسرت وپشیمانی پیدا ہوتی ہے جو اس کے دل کو کھا جاتی ہے ۔ کیونکہ حاسد ہر وقت غمزدہ ، پریشان ، ڈپریشن کا شکار اور نفرت وکدورت میں جلتا رہتا ہے ۔ اور یہ چیزیں اس کے دل کو کھوکھلا کردیتی ہیں ۔
شاعر کہتا ہے :
اِصْبِرْ عَلٰی کَیْدِ الْحَسُودِ فَإِنَّ صَبْرَکَ قَاتِلُہُ
حسد کرنے والے کی سازش پر صبر کرتے رہو ۔ کیونکہ آپ کا صبر ہی اسے مارڈالے گا
اَلنَّارُ تَأْکُلُ بَعْضَہَا إِن لَّمْ تَجِدْ مَا تَأْکُلُہُ
آگ اپنے آپ کو ہی کھانا شروع کردیتی ہے ، اگر اسے کھانے کو اور کچھ نہ ملے ۔
03. حسد کی وجہ سے حاسد لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور وہ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔
اسی لئے کہا جاتا ہے : اَلْحَسُوْد لاَ یَسُوْد یعنی حسد کرنے والا شخص سیادت وقیادت کو حاصل نہیں کر سکتا۔
04. حسد کی وجہ سے حاسد اور محسود کے درمیان دشمنی پیدا ہوتی ہے ۔ اور دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کے درمیان تعلقات خراب ہو جاتے ہیں ۔ اِس کی سب سے بڑی دلیل یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کا قصہ ہے ۔ برادران ِ یوسف اور یوسف کے مابین تعلقات تب بگڑنے لگے جب وہ اپنے بھائی یوسف سے حسد کرنے لگے اور انھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا :
﴿ لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَۃٌ ﴾ یوسف12 :8
’’ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کوہم سے زیادہ محبوب ہیں ۔ حالانکہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں ۔ ‘‘
یہ وہ حسد تھا جس کی وجہ سے برادران ِ یوسف نے یوسف کے خلاف سازش تیار کی اور آخر کار انھیں ایک کنویں میں پھینک دیا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ حسد کی وجہ سے دشمنی جنم لیتی ہے ۔ اور حتی کہ بھائیوں کے مابین بھی نفرتیں اور کدورتیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔
05. حسد کی وجہ سے دلوں میں نفاق پیدا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے حامی منافقوں کے دلوں میں اُس وقت نفاق کی شدت میں اضافہ ہوا جب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں سے حسد کرنے لگے ۔
06. حسد بڑے بڑے گناہوں کا سبب بنتا ہے ۔ حتی کہ ایک حاسد محسود کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ، جیسا کہ ہم قابیل اور ہابیل کا واقعہ ذکر کر چکے ہیں ۔
07. حسد کی وجہ سے بعض اوقات محسود کو نظر بد لگ جاتی ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اَلْعَیْنُ حَقٌّ ، وَلَوْ کَانَ شَیْیئٌ سَابِقَ الْقَدَرِ سَبَقَتْہُ الْعَیْنُ ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوْا ))
’’نظر بد برحق ہے۔اور اگر تقدیر سے کوئی چیز سبقت لے جانے والی ہوتی تو وہ نظربد ہے۔ اور جب تم میں
سے کسی ایک سے غسل کرنے کا مطالبہ کیا جائے (تاکہ غسل کے پانی سے وہ شخص غسل کرسکے جسے تمھاری نظر بد لگ گئی ہو) تو غسل کر لیا کرو۔‘‘ صحیح مسلم :2188
اور اگر کسی شخص کو حاسد کی نظر بد کاخطرہ ہو تو اسے معوذتین ( سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ) پڑھ کر اپنے اوپر دم کرنا چاہئے ۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم جنات اور انسانوں کی نظر بد سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرتے تھے- پھر جب معوذتین (الفلق، الناس) نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کو پڑھتے تھے اور باقی دعائیں آپ نے چھوڑ دی تھیں۔ جامع الترمذی:2059، سنن ابن ماجہ :3511۔ وصححہ الالبانی
اور اگر کوئی شخص کسی کی نظر بد کا شکار ہو جائے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھنی چاہئے :
(( بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ، وَاللّٰہُ یَشْفِیْکَ مِنْ کُلِّ دَائٍ یُّؤْذِیْکَ وَمِنْ کُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ اللّٰہُ یَشْفِیْکَ ، بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ)) صحیح مسلم:2186
’’میں اللہ کے نام کے ساتھ تجھے دم کرتا ہوں اور اللہ تجھے ہر تکلیف دہ بیماری اور ہر روح بد یا حسد کرنے والی آنکھ کی برائی سے شفادے گا۔میں اللہ کے نام کے ساتھ تجھے دم کرتا ہوں ۔‘‘
یایہ دعا پڑھیں:(( بِسْمِ اللّٰہِ یُبْرِیکَ، مِنْ کُلِّ دَائٍ یَّشْفِیْکَ، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ عَیْنٍ)) صحیح مسلم :2186
’’اللہ کے نام کے ساتھ! وہ (اللہ )تجھے ہر بیماری سے شفادے گا او رہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے اور ہر نظر بد کے شر سے۔ ‘‘
حسد کے جو نقصانات ہم نے ذکر کئے ہیں ، ان کے پیش نظر ہم سب کو اس سے توبہ کرنی چاہئے ۔ اگر ہمارے دلوں میں حسد ہے تو ہمیں فوری طور پر اپنے دلوں کو اس سے پاک کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔
سامعین گرامی !خطبہ کے آخر میں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ حاسد کے شر سے بچنے کے وسائل کونسے ہیں جنھیں اختیار کرنے سے ایک انسان اللہ تعالی کے فضل وکرم کے ساتھ حاسد کے شر سے بچ سکتا ہے ۔
01. پہلا وسیلہ ہے: حاسد کے شرسے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا
سورۃ الفلق کی آخری آیت میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
﴿ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِِذَا حَسَدَ ﴾ ’’ اور میں حاسد کے شر سے بھی ( اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں ) جب وہ حسد کرے ۔ ‘‘
02. دوسرا وسیلہ ہے : تقوی ۔ یعنی اللہ تعالی کا ایسا ڈر اور خوف جو انسان کو اس کی نافرمانی سے روک دے ۔ کیونکہ جو شخص اللہ تعالی سے ڈر کر اس کی نافرمانی ترک کردیتا ہے اور وہ اس کے احکامات پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے ہر قسم کے شر سے بچاتا ہے ۔
03. تیسرا وسیلہ ہے : اللہ تعالی پرتوکل اور بھروسہ کرنا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ﴾ الطلاق65 :3
’’ اور جو آدمی اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ اسے کافی ہو جاتا ہے ۔ ‘‘
یہ اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جو شر اور نقصان سے بچا سکے ۔ اور اسی لئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :﴿ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰنَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤمِنُوْن﴾ التوبۃ9 :51
’’ آپ کہہ دیجئے کہ ہم پر کوئی مصیبت ہرگز نہیں آئے گی سوائے اس کے جو اللہ تعالی نے ہمارے لئے لکھ دی ہے ۔ وہ ہمارا سرپرست ہے ۔ اور مومنوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہئے ۔ ‘‘
04. چوتھا وسیلہ ہے : صبر کرنا ۔ یعنی حاسد کے حسد پر صبر کرنا اور اسے ثابت قدمی سے برداشت کرنا ۔ جو شخص جتنا صابر ہوگا اتنا ہی وہ حاسد کے شر سے محفوظ رہے گا ۔ اور حاسد خود ہی اپنے حسد کی آگ میں جل جائے گا ۔
05. پانچواں وسیلہ یہ ہے کہ انسان حاسد کے بارے میں سوچنا ہی ترک کردے ۔ اور صرف اور صرف اللہ کی طرف متوجہ رہے کیونکہ اللہ ہی ہر قسم کے شر سے بچانے والا ہے ۔یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ کئی لوگ خواہ مخواہ ہی فکرمند رہتے ہیں اور اپنے لئے ٹینشن بنا لیتے ہیں ، حالانکہ ٹیشن بنا لینے سے آپ حاسدوں کے شرے سے نہیں بچ سکتے ۔جو چیز آپ کیلئے حاسدوں کے شر سے بچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں ، اس کی پناہ طلب کرتے رہیں ، خصوصا آخری دو سورتیں صبح وشام پابندی سے پڑھتے رہیں ، اپنے گناہوں پر اللہ تعالی سے معافی طلب کرتے رہیں تو اللہ تعالی آپ کو اپنی پناہ میں لے لے گا اور حاسدوں کے شر
سے محفوظ رکھے گا ۔
06. چھٹا وسیلہ ہے : صدقہ وخیرا ت کرنا ۔ کیونکہ اللہ تعالی صدقات وخیرات کرنے والے شخص کی خصوصی طور پر حفاظت کرتاہے اور اسے برے انجام سے بچاتا ہے ۔
07. ساتواں وسیلہ ہے : حاسد پر احسان کرنا اور اس سے حسن سلوک کرنا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ﴾ حم السجدۃ41 :34
’’ نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہو سکتیں ۔ آپ ( بدی کا ) ایسی بات سے دفاع کریں جو بہت اچھی ہو ۔ چنانچہ جس شخص کی آپ کے ساتھ عداوت تھی وہ آپ کا گہرا دوست بن جائے گا ۔ ‘‘
تاہم یہ کام ہے بہت مشکل ! اسی لئے اللہ تعالی نے اس کے بعد ارشاد فرمایا :
﴿وَمَا یُلَقّٰہَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ حم السجدۃ41 :35
’’ اور یہ صرف انھیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں ۔ اور یہ کسی بڑے خوش نصیب انسان کو ہی حاصل ہوتی ہے ۔ ‘‘
08. آٹھواں وسیلہ ہے : نعمتوں کو حاسدوں سے چھپانا
جیساکہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کا خواب سنا تو انھیں فرمایا :
﴿یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُئْ یَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا ﴾ یوسف12 :5
’’ اے میرے پیارے بیٹے ! یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتلانا ، ورنہ وہ تمھارے لئے بری تدبیریں سوچنے لگیں گے ۔ ‘‘
یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو خواب کے چھپانے کا حکم اسی لئے دیا تھا کہ کہیں ان کے بھائی ان سے حسد کرتے ہوئے ان کے خلاف سازشیں نہ تیار کریں ۔
اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اِسْتَعِیْنُوْا عَلٰی إِنْجَاحِ الْحَوَائِجِ بِالْکِتْمَانِ ، فَإِنَّ کُلَّ ذِیْ نِعْمَۃٍ مَحْسُوْدٌ ))
’’ تم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انھیں چھپاکر ( اللہ سے ) مدد طلب کیا کرو ۔ کیونکہ ہر نعمت والے
شخص سے حسد کیا جاتا ہے ۔ ‘‘ السلسلۃ الصحیحۃ :1453
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عموما ہر قسم کے شر سے اور خصوصا حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے ۔ اور ہمارے دلوں کو حسد وغیرہ سے پاک کردے ۔
دوسرا خطبہ
سامعین کرام ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبِ عَبْدٍ : اَلْإِیْمَانُ وَالْحَسَدُ )) صحیح الجامع للألبانی :7620
’’ کسی بندے کے دل میں دو چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں : ایمان اور حسد ۔‘‘
یعنی اگر بندے کے دل میں سچا ایمان ہو گا تو اس میں حسد نہیں ہوگا ۔ اور اگر اس کے دل میں حسد ہو گا تو وہ ایمان سے خالی ہوگا ۔
لہذا ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنا چاہئے کہ کہیں ان میں حسد تو نہیں پایا جاتا ! اگر پایا جاتا ہے تو پھر ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرنی ہوگی ۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا لَمْ یَتَحَاسَدُوْا)) الطبرانی بحوالہ السلسلۃ الصحیحۃ :3386
’’ لوگ برابر خیر وبھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے ۔ ‘‘
یعنی جب تک لوگ حسد سے بچے رہیں گے تب تک خیر وبھلائی کے ساتھ رہیں گے ۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ حسد سے نہیں بچیں گے تو خیر وبھلائی کے ساتھ نہیں رہ پائیں گے ۔
لہذا ہم اگر خیر وبھلائی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں حسد سے بہرصورت بچنا ہوگا ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔
آخر میں ہم ایک حدیث ذکر کرکے اپنا خطبہ ختم کرتے ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا :
(( أَیُّ النَّاسِ أَفْضَلُ ؟))
’’ لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے ؟ ‘‘
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( کُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ صَدُوقِ اللِّسَانِ))
’’ ہر وہ شخص جس میں دو صفات ہوں : وہ مخموم القلب ہو اور سچی زبان والا ہو ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے گزارش کی : سچی زبان والا تو ہم جانتے ہیں ۔ مخموم القلب سے کیا مراد ہے ؟
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( ہُوَ التَّقِیُّ النَّقِیُّ، لَا إِثْمَ فِیْہِ وَلَا بَغْیَ ، وَلَا غِلَّ وَلَا حَسَدَ )) سنن ابن ماجہ :4216۔ وصححہ الألبانی
’’ مخموم القلب وہ ہوتا ہے جس میں اللہ کا ڈر ہو ، پاک صاف ہو ، اس میں کوئی گناہ نہ ہو اور نہ ہی اس میں ظلم ہو۔ اور نہ اس میں خیانت ہو اور نہ ہی حسد ہو ۔ ‘‘
لہٰذا ہم بھی اگر سب سے بہتر بننا چاہتے ہوں تو ہمیں ان صفات کو اختیار کرنا پڑے گا ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو حسد ، بغض اور نفرت سے پاک کردے ۔ اور ہمارے دلوں میں تمام مسلمانوں کیلئے محبت پیدا کردے ۔