حیا، معنی ، مفہوم اور قدرو منزلت

﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝﴾ (الشمس:9، 10)
یوں تو اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر ہر پہلو اور ہر ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے، چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ سے لے کر بڑے سے بڑے مسئلہ تک کے لیے اصول وقوانین اور قواعد وضوابط وضع کرتا ہے، مگر شریعت اسلامیہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ دین اسلام زیادہ تر ان پانچ امور کے گرد گھومتا ہے، عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق و آداب اور حدود و عقوبات ۔
ان پانچوں امور کے باہم مربوط اور لازم و ملزوم ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں سے ہر ایک کی اپنی ایک مستقل حیثیت بھی ہے اور خاص اہمیت بھی ہے۔ تزکیہ نفس کے حوالے سے بات کریں تو اخلاق و آداب کے احکام اس سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔
اخلاق سے مراد عمومًا گفتگو کے آداب لیا جاتا ہے، مگر حقیقتًا لفظ اخلاق ایک جامع لفظ ہے، جو زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے، اس میں گفتگو بھی شامل ہے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور رہنے بہنے کے طور طریقے اور آداب بھی شامل ہیں۔ بلکہ اخلاقیات کا ایک بہت ہی اہم پہلو کہ جسے شاید بھی اخلاق میں شامل سمجھا ہی نہیں جاتا حالانکہ وہ اخلاق و آداب کی بنیاد اور جڑ ہے اور وہ ہے حیا۔
انسان کی ایک خوبصورت ترین صفت حیا پر گفتگو کرنے سے پہلے اسلام میں اخلاق کی اہمیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں، حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّمَا بُعِثتُ لِاُتَمِّمَ مَكَارِمَ الاَخْلَاقِ))( البيهقي: 191/10، رقم:20571)
’’میں صرف اخلاق کریمہ کی تکمیل اور اتمام کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔‘‘
اب اندازہ کہیے کہ لفظ اخلاق کسی قدر جامع لفظ ہے، اس میں پورے کا پورا دین سمودیا گیا ہے، اس میں عقائد بھی ہیں عبادات بھی، معاملات بھی ہیں اور حدود و عقوبات بھی یعنی زندگی کا کوئی پہلو اور کوئی شعبہ اس سے خالی اور مستقلی نہیں ۔
یہاں پورے دین کو اخلاق میں سمودیا اور پھر اخلاق کا خلاصہ حیا کو قرار دیا، فرمایا:
((إِنَّ لِكُلِّ دِيْنٍ خُلُقًا، وَخُلُقَ الْإِسْلَامِ الحَيَاءُ))
’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے ۔‘‘
یعنی ہر دین کو ماننے والوں پر کوئی نہ کوئی خاص صفت اور خوبی غالب ہوتی ہے جو ان کے مزاج پر غالب ہوتی ہے، جو ان کی خصوصیت اور پہچان ہوتی ہے اور اہل اسلام کی وہ خوبی حیا ہے۔
دنیا میں کوئی فرد اور کوئی معاشرہ اس خوبی کے بغیر حقیقی عزت اور احترام نہیں پا سکتا، حیا کے بغیر اگر کوئی شخص اپنے آپ کو عزت دار سمجھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے بہت عزت و احترام حاصل ہے تو یہ محض دھوکہ ہے، وہ ایک مصنوعی اور کھوکھلی عزت ہے، یا ان لوگوں کی طرف سے دی جانے والی عزت ہے جو حیا کی ضرورت اور اس کی قدر وقیمت سے اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے: (ابو تمام)
يَعِيْشُ الْمَرْءُ مَا اسْتِحَيَا بِخَيْرٍ
وَيَبْقَى الْعُودُ مَا بَقِي اللِّحَاءُ
فَلَا وَاللهِ مَا فِي الْعَيْشِ خَيْرٌ
وَلَا الدُّنْيَا إِذَا ذَهَبَ الحِيَاءُ
إِذَا لَمْ تَخْشَ عَاقِبَةَ اللَّيَالِي
وَلَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا تَشَاءُ
’’انسان زندگی میں جب تک شرم وحیا اختیار کیے رہتا ہے خیر و عافیت اور عزت و وقار سے زندگی گزارتا ہے، حیاء انسان کے لیے ایسے ہی ہے جیسے درخت کے لیے اس کا چھلکا۔ درخت پر جب تک اس کا چھلکا رہتا ہے، درخت تروتازہ رہتا ہے جب چھلکا اتر جاتا ہے تو وہ درخت مر جھانے لگتا ہے۔‘‘
فَلَا وَاللهِ مَا فِي الْعَيْشِ خَيْرٌ
وَلَا الدُّنْيَا إِذَا ذَهَبَ الحِيَاءُ
’’ زندگی میں اگر حیا نہیں ہے تو کوئی خیر نہیں ہے اور اگر حیا نہ ہو تو دنیا میں بھی کوئی خیر نہیں ہے۔‘‘
إِذَا لَمْ تَخْشَ عَاقِبَةَ اللَّيَالِي
وَلَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا تَشَاءُ
’’ اور انجام ایام ولیانی کا اگر ڈر خوف اور پرواہ نہ ہو، اور اگر حیا باقی نہ رہے تو پھر جو چا ہو کر گزرو۔‘‘
یعنی گردشِ ایام کا ڈر اور مطلق حیا ہی انسان کو برائی اور اخلاق ذمیمہ سے روتی ہے اور اگر یہ باقی نہ رہے تو پھر کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اور جیسا کہ حدیث میں بھی ہے، آپ سے ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعُ مَا شِئْتَ)) (بخاری:3484)
’’اگر تم میں حیا باقی نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو، یعنی پھر کچھ بھی کر سکتے ہو۔‘‘
حیاء انسان کی فطرت میں موجود ہے، آدم وحواء علیما السلام نے جب درخت کا پھل کھا لیا تو ان کے ستر کھل گئے۔
﴿ فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ؗ ﴾ (طه:121)
’’چنانچہ ان دونوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا، پس ان کے ستر کھل گئے۔‘‘
﴿ وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ﴾
’’اور دو درخت کے پتوں سے اپنے ستر ڈھالنے لگے ۔‘‘
تو شرم و حیا انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میں ہے اور جیسا کہ حدیث میں ہے:
آپ ﷺنے المنذر بن عائ الاشج رضی اللہ تعال یعنہ سے فرمایا:
((إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا الله))
’’تم میں دو صفتیں ہیں جنہیں اللہ تعالی پسند کرتا ہے۔‘‘
قال: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا هُمَا
’’انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! دو کیا ہیں ؟‘‘
((قَالَ: اَلحِلْمُ وَالْحَيَاءُ))
’’آپ ﷺنے فرمایا: بردباری اور حیا ۔‘‘
((قَالَ الأَشحَّ يَا رَسُولَ اللهِ أَشَئٌ اِسْتَفَدْتُهُ فِي الإسلام أو شَيْءٌ جُبِلْتُ عَلَيْه))
’’عائذ الاشج نے کہا: اے اللہ کے رسول کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جو میں نے اسلام سے حاصل کی ہے یا وہ میری فطرت میں موجود ہے ؟‘‘
((قَالَ: لا بَلْ شَيْءٌ جُبِلْتَ عَلَيْهِ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا نہیں بلکہ وہ تمہاری فطرت میں ہے۔‘‘
((فَقَالَ الاَشَجُّ: اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِي جَبَلَنِي عَلَى مَا يُحِبُّ)) مسند احمد، ج1، ص:205، رقم:17862)
’’تو اشج نے کہا: تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے کہ جس نے ایک ایسی چیز پر میری فطرت بنائی جسے وہ پسند کرتا ہے۔‘‘
یہ حیا جبلی اور فطری حیا ہے، مگر ایک قسم کی حیاء اکتسابی بھی ہے جو کہ انسان اللہ تعالی کی معرفت سے حاصل کرتا ہے، یعنی یہ علم حاصل کر کے کہ اللہ تعالی علیم ہے، سمیع اور بصیر ہے، رقیب اور شہید ہے۔ ہر چیز کو، ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ تو یہ جان کر انسان اللہ تعالی سے حیا کرتے ہوئے برائی سے باز رہتا ہے۔
جیسے عقل فطری طور پر انسان میں موجود ہوتی ہے، کسی میں کم اور کسی میں زیادہ مگر علم اور تجربات سے بھی کچھ عقل میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح حیا بھی فطری طور پر انسان میں موجود ہوتی ہے، پھر کچھ لوگ اس فطری حیا سے بھی بے نیاز ہو کر جانوروں کی سی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور کچھ علم حاصل کر کے اپنی اس فطری حیا میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ شرعی علم اور اللہ تعالی کی معرفت سے حیا میں اضافہ ہوتا ہے، وہ حیا لوگوں سے ہو یا اللہ تعالی سے، اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔
مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ یوں تو بہت مالدار آدمی تھے کہ ان کے واللہ بہت زیادہ دولت چھوڑ گئے تھے، جس کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ میرے مال میں ایک پیسہ بھی حرام تو در کنار مشکوک بھی نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیم و تعلم کے لیے فراغت حاصل کرنے کی خاطر کسی سے مضاربت پر تجارت کی غرض سے کثیر رقم دی تو وہ غائب ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد بعد امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگردوں نے اس کا پتا لگا کر کہا کہ وہ شخص اس وقت (آمل) شہر میں موجود ہے، چلئے اور اس سے اپنی رقم کا تقاضا کیجیے۔ فرمایا نہیں ؟ میں اسے خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا، یعنی اپنا حق اس سے ما نگتے ہوئے بھی شرم محسوس کی۔
لوگوں سے حیا کئی طرح سے ہوتی ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کوئی غلط کام کرتے ہوئے شرم محسوس کرے۔ اور اللہ تعالی سے حیا کرتا بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ اللہ تعالی کے علیم وبصیر ہونے کا عقیدہ و ایمان اور تصور اتنا گہرا ہو کہ انسان کو گناہ کی جرأت نہ ہو۔
حدیث میں ہے حضرت سعید بن یزید الازدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((إِنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ أَوْصِنِى))
’’انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ کوئی وصیت فرمائیے؟‘‘
قَالَ: ((أُوْصِيْكَ أَنْ تَسْتَحِي مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ كَمَا تَسْتَحِي مِن الرَّجُلِ الصَّالِحَ مِنْ قَوْمِكَ)) معجم (الكبير للطبراني ، ج:1 ، ص:69 ، رقم: 5539)

’’آپ ﷺنے فرمایا: میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالی سے اس طرح حیا کرو جس طرح اپنی قوم کے کسی ایک آدمی سے حیا کرتے ہو۔‘‘
اور آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ لوگ کسی نیک آدمی کے سامنے کوئی غلط کام کرتے ہوئے کس قدر شرم محسوس کرتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو زیادہ جرات اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ زور و شور سے معصیت کا ارتکاب کرنے لگیں، مگر وہ، وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ہاں حیا کا لیول زیرو ہو چکا ہو۔
اللہ تعالی کی معرفت سے حیا بڑھتی ہے اور گناہوں سے حیا کم ہوتی ہے جیسا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

((مِنْ عُقُوبَاتِ الْمَعَاصِي ذَهَابَ الْحَيَاءِ الَّذِي هُوَ مَادَّةُ حَيَاةِ الْقَلْبِ، وَهُوَ أَصْلُ كُلِّ خَيْرٍ))
’’گناہوں کی سزاؤں میں سے حیا کا ختم ہونا بھی ہے، اور حیا کہ جس سے دل کی زندگی ہے اور جو ہر خیر اور بھلائی کی اصل اور بنیاد ہے۔‘‘
((فَمَنْ لَا حَيَاءَ لَهُ، لَيْسَ مَعَهُ مِنَ الإِنْسَانِيَّةِ إِلَّا اللَّحْمِ وَالدَّمِ وَصُوْرَتُهُمَا الظَّاهِرَةُ)) (مفتاح دار السعادة: 227)

’’اور جس میں حیا نہیں، اس کے پاس انسانیت میں سے صرف گوشت اور خون ہے اور ان کی ظاہری شکل وصورت ہے اور بس۔‘‘
تو جس طرح انسان، انسان سے حیا کرتا ہے، اللہ تعالی اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
سلف صالحین رحمہم اللہ تعالیٰ سے کس طرح حیا کرتے ، امام اسود بن یزید (التابعی) رحمہ اللہ کا جب وقت وفات قریب آیا تو رونے لگے۔
((ولما احتضر الأسود بن يزيد بكٰي))
’’جب اسود بن یزید جنے کا وقت وفات قریب آیا تو رونے لگے۔‘‘
((فقيل له وما الجزع))
’’ان سے کیا گیا کہ یہ قلق واضطراب اور جزع فزع کیونکر ہے؟‘‘
((قال: مالي لا اجزع ومن احق بذلك منى.))
’’انہوں نے کہا: میں جزع فزع کیوں نہ کروں مجھ سے زیادہ اس کا حق دارکون ہے؟‘‘
((والله لو أُتِيْتُ بالمغفرة من الله عز وجل لأهمني الحياء منه مما قد صنعت .))
’’واللہ اگر اللہ تعالی کی طرف سے مجھے مغفرت حاصل بھی ہو جائے تو مجھے پھر بھی حیا دامن گیر رہے گی، ان لغزشوں کی وجہ سے جو جو مجھ سے سرزد ہوئیں۔‘‘
اسی طرح ابو حامد الخلقانی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس آئے اور کہا کہ ان اشعار کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں:
اذا ما قال لي ربي
أما استحيت تعصيني
وتخفي الذنب من خلقي
وبالعصیان تاتینی
’’اگر میرے رب نے مجھ سے کہا کہ تجھے میری نافرمانی کرتے ہوئے شرم نہ آئی! میری مخلوق سے تو گناہ چھپاتا رہا، مگر میرے پاس گناہ لے کر آتا رہا؟‘‘
( (فقال: أعد على))
’’تو فرمایا: پھر سے کہو‘‘
((فاعادها عليه))
’’’تو انہوں نے وہ اشعاران پرد ہرائے۔‘‘
((فدخل الامام احمد داره وجعل يرددها و یبکی))
’’تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے گھر میں داخل ہوئے، اور وہ شعر دہراتے جار ہے تھے اور روتے جارہے تھے۔‘‘
اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین شدید حیاہ والے تھے اور ہر معاملے میں شدید حیاء رکھتے تھے، بالخصوص آپ ﷺ سے ان کی حیاء کا عالم یہ تھا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعابی عنہ آپ ﷺ سے اپنی حیاء کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((فَوَاللهِ إِنْ كُنتُ لَأَشَدَّ النَّاسِ حَيَاءً مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَمَا مَلَاْتُ عَيْنِي مِنْ رَسُولِ اللهِﷺ وَلَا رَاجِعْتُهُ بِمَا أُرِيدُ حَتّٰى لَحِقَ بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ ، حَيَاءً مِنْهُ))
’’اللہ کی قسم ! میں سب لوگوں سے زیادہ آپ سے کم سے حیاہ کرنے والا ہوں ، چنانچہ میں نے کبھی آنکھ بھر کر آپﷺ پر نظر نہیں ڈالی اور نہ کبھی اپنی کسی ضرورت کے حوالے سے آپﷺ سے بحث و تکرار کی ہے، آپ ﷺ سے حیاء کرتے ہوئے حتی کہ آپﷺ اللہ عزوجل سے جاملے ۔ ‘‘
اور انبیاء علیہم السلام کی حیاء تو ایک مثالی حیاء تھی جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں حدیث میں ہے کہ
((إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا سِتِّيرًا حَيِیًّا لا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ إِسْتِحْيَاءً منه))
’’اور موسی علیہ السلام بڑے پردہ پوش اور حیاء دار تھے، حیاء کی وجہ سے انہوں نے اپنے جسم کو یوں ڈھانپ رکھا ہوتا کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی دیکھا نہ جاسکتا ۔‘‘
((فَأَذَاهُ من آذاهُ مِن بَنِي إِسْرَائِيل))
’’تو بنی اسرائیل کے لوگوں نے انہیں اذیت دی۔‘‘
((فَقَالُوا: مَا يَسْتَتِرُ هٰذَا التَّسَتُّرُ إِلَّا مِن عَيْبٍ بِجِلدِهِ، إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أَدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ))
’’انہوں نے کہا کہ یہ جو یوں اپنے آپ کو ڈھانپ کے رکھتا ہے تو جسم میں کسی عیب اور نقص کی وجہ سے ہی ہے، یا تو اس کو برص (پھل بہری ) ہے، یا ان کے خصیتین بوڑھے ہڑھے ہیں یا کوئی اور بیماری ہے۔‘‘
((وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبْرِئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى ، فَخَلَا يَوْمًا وَحْدَهُ، فَوَضَع ثِيَابَهُ عَلَى الْحَجَرِ، ثُمَّ اغْتَسَلَ))
’’اور اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ موسی علیہ السلام کو ان کے الزامات سے بری کیا جائے ، پس ایک دن موسی علیہ السلام ا کیلئے غسل کرنے کے لیے آئے ، اور اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ کر غسل کرنے لگے۔‘‘
((فلما فرغ، أقبل على ثيابه ليأخذها، وإن الحجر عدا بثوبه فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الحَجَرَ فَجَعَلَ يَقُولُ: ثَوبِي حَجَرُ، ثَوبِي حَجَرُ،))
’’جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لیے بڑھے، لیکن پھر ان کے پتھروں سمیت بھاگنے لگا، موسی علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پھر کے پیچھے دوڑے، یہ کہتے ہوئے کہ پھر میرے کپڑے دے دے۔‘‘
((حَتّٰى اِنْتَهٰى إِلٰى مَلَاءٍ مِّنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللهُ وَأَبْرَاَهُ مِمَّا يَقُولُونَ))
’’حتی کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے اور ان سب نے آپ کو ننگا دیکھ لیا، اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالی نے ان کی تہمت سے ان کی براءت کردی۔‘‘
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ۝﴾ (الاحزاب:69) (بخاری:3404)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنھوں نے موسی کو تکلیف دی تو اللہ نے اسے پاک ثابت کر دیا اس سے جو انھوں نے کہا اور وہ اللہ کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔‘‘
……………..