حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿ هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ ؗ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ۝۱۹﴾ [الحج: 19)

آج کے خطبہ میں داماد رسول، ابن عم النبی، خلیفہ رابع، حضرت ابوتراب علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب بیان کرنا چاہتا ہوں۔

وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جنہیں عشرہ مبشرہ میں چوتھا درجہ، خلافت راشدہ میں چوتھا نمبر، اور (السابقون الاولون) میں سے ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہے اور آپ کو رسولﷺ کی زیر کفالت پرورش پانے اور اہل بیت میں شامل ہونے کی خصوصی سعادت حاصل ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بکثرت موجود ہیں۔ جن میں سے چند نمایاں اور ممتاز قسم کی فضیلتیں اور خصوصیات عرض کرتا ہوں۔

غزوات اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کارنا ہے:

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ  دور نبوی کے چند معرکوں میں زبر دست قسم کے کارنامے سر انجام دیئے:

1۔ غزوة بدر:

بدر جیسے عظیم الشان تاریخی معرکے کی ابتداء میں کافروں کی طرف سے تین سردار شیبہ بن ربیعہ عقبہ اور ولید بن عقبہ میدان میں آئے تو مسلمانوں کی طرف سے حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہم مقابلہ کے لیے نکلے، زور دار مقابلہ ہوا، تینوں کافر سردار قتل ہوئے۔ اللہ رب العزت کو حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہم یہ کافر سرداروں سے دلیرانہ مقابلہ اس قدر پسند آیا کہ قرآن حکیم میں نقشہ کھینچ دیا:

﴿ هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ ﴾ [الحج: 19)

’’یہ دو لڑنے والے گروہ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے لیے جھگڑا کیا۔‘‘

 ایک گروه: یعنی حضرت علی و حضرت حمزه و حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہم اپنے رب کی توحید ماننے والا اور دوسرا گروہ اپنے رب کی توحید کا انکار کرنے والا۔[صحيح البخاري، كتاب المغازی، باب قتل ابي جهل (3965)]

2۔ غزوة خيبر:

جب رسول اللہ ﷺ جنگ خیبر کے لیے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھیں خراب تھیں۔ اس لیے آپ سلام کے ساتھ نہ جا سکے، بعد میں خیال آیا اللہ کے رسول جہاد کے لیے نکلیں اور میں پیچھے رہ جاؤں؟ (یہ بات اچھی نہیں) لہٰذا بعد میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ روانہ ہو گئے اور رسول اللہﷺ سے جا ملے۔

معرکہ، خیبر شروع ہوا۔ کئی دن تک حرب و ضرب کا سلسلہ جاری رہا آخر ایک رات رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحِ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّه اللہُ وَرَسُولُهُ) [صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوه خیبر (420) و مسلم (2406)]

’’و میں کل ایسے شخص کو جھنڈا (جہادی پرچم) دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں اور اللہ اس کے ہاتھ پر فتح نصیب کرے گا۔‘‘

ہر کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی۔ یہ اعزاز مجھے حاصل ہو۔ صبح ہوئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’علی حیدر کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا: ان کی آنکھیں خراب ہیں، دکھ رہی ہیں۔ آپ ﷺ نے جناب سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو لے کر آئے۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھوں میں لعاب مبارک ڈالا اور صحت کی دعا دی (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسی وقت تندرست ہو گئے) گویا بیمار ہی نہیں تھے۔ آپ نے انہیں جہادی پرچم دیا اور نصیحت فرمائی: ”جاؤ ان کے میدان میں پڑاؤ ڈالو انہیں اسلام کی دعوت دو (اگر اسلام قبول کر لیں) تو انہیں فرائض کی تعلیم دو۔ اللہ کی قسم! اگر آپ کی دعوت پر ایک شخص کو بھی اللہ ہدایت دے دے تو آپ کے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘

 حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ گئے ہدایت نبوی کے مطابق انہیں اسلام کی دعوت دی (لیکن یہود خیبر نے اسلام قبول نہ کیا) یہودیوں کا سپہ سالار مرحب یہ اشعار پڑھتے ہوئے میدان میں آیا:

(قَدْ عَلِمَتْ خَيبْرُ أَنَّى مَرْحَب

 شَاكِي السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ

إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ

’’خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ جب لڑائی کی آگ بھڑکتی ہے تو میں ہتھیار بند بہادر اور جنگ آزمودہ ثابت ہوتا ہوں۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب میں یہ اشعار پڑھے:

(اَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهُ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيْهِ الْمَنْظَرَهْ

أُوْ فِيهِمْ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّندَرُة

’’ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا، جنگل کے شیر کی طرح جو بڑا رعب ناک نظر آتا ہے میں دشمن کو ٹوپے کے بدلے بڑے پیمانے میں بدلہ (اینٹ کا جواب پتھر سے) دیتا ہوں۔‘‘

پھر مقابلہ شروع ہوا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ہی ضرب میں مرحب کو جہنم رسید کر دیا۔ اور پھر اللہ تعالی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں پر خیبر کی فتح عطاء فرمائی۔[صحیح مسلم، كتاب الجهاد، باب غزوه قرد و غیرها (1807).]

مزید فضائل و مناقب:

صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت زرین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو پھاڑا اور جس نے ہر روح والی چیز کو پیدا کیا۔ نبی ﷺ نے مجھے تاکید کی کہ میرے ساتھ صرف کامل ایمان والا شخص ہی محبت کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی دوسرا شخص میرے ساتھ دشمنی نہیں کرے گا۔[صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب الدليل على أن حب الأنصار من الايمان (78)]

غور فرمائیے! حب علی رضی اللہ تعالی عنہ کی کسی قدرشان و فضیلت بیان کی گئی ہے لیکن یاد رکھیے! حب علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کھوکھلا دعوی کوئی حیثیت نہیں رکھتا، جس طرح آج کل کئی بدعقیدہ، بدعمل بدزبان اور بے دین لوگ حب علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کھوکھلے دعویدار بنے بیٹھے ہیں۔ صحیحین کی روایت ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میرے نزدیک تیرا مقام وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا البتہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب فضائل اصحاب النبي ﷺ، باب مناقب علی بن ابي طالب القرشی الھاشمی أبی الحسن (3706) و مسلم (2404) والترمذی (3724)]

 یہ بات رسول اکرم ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ منورہ پر عارضی طور پر نگران مقرر کرتے وقت کہی تھی کہ جس طرح حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں عارضی طور پر نگران بنے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺکی زندگی میں عارضی طور پر حکمران بنے۔ لہذا اس سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ بلا فصل ہونے پر استدلال کرنا بالکل غلط باطل اور جھوٹ ہے۔

مسلم شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حراء پہاڑ پر تھے۔ آپ کے ہمراہ ابوبکر، عمر علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہم بھی تھے۔ تو اچانک پھاڑ حرکت کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ساکن ہو جا تجھ پر اللہ کے پیغمبر یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب فضائل طلحة والزبير، رقم: 6247.]

جامع ترمذی میں لکھا ہے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا:

(أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بِنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَاصٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ) [جامع الترمذي، كتاب المناقب باب مناقب عبد الرحمن بن عوف، رقم: 3747]

’’ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے، علی رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے، طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے زبیر رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے اور عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔‘‘

بخاری و مسلم کی روایت ہے امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(أنتَ مِنِّی وَأَنَا مِنْكَ) [سنن الترمذي، كتاب المناقب، باب مناقب على بن ابي طالب (3724) و ابوداود (2700) و احمد (155/1) و بخاری (4210) و مسلم (3406)]

’’اے علی! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد گرامی میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  سے گہری محبت و مودت اور رشتہ و تعلق کا اظہار فرمایا ہے عربی لغت میں یہ کلمہ و جملہ گبری الفت اور مضبوط باہمی تعلق پر دلالت کرتا ہے۔ جس طرح جناب طالوت نے شہر عبور کرتے وقت کہا تھا:

﴿وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّى﴾ (البقرة:249)

’’اور جو اس نہر میں سے (سیر ہو کر) نہیں ہے گا وہ مجھ میں سے ہے۔‘‘

چند خصوصی خصائل و عادات:

رسول اللہ ﷺ پر پختہ ایمان:

 مشہور واقعہ ہے جب فتح مکہ کے موقع پر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کفار مکہ کی طرف خط لکھا تھا۔ (اور اس خط میں رسول اللہ ﷺ کی فتح مکہ کے لیے تیاری کی اطلاع اور خبر تھی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو مطلع کر دیا کہ ایک عورت ایک خط لے کر مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں ہے اور وہ روضہ خاخ نامی جگہ تک پہنچ چکی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اس عورت سے خط وصول کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ تعالی عنہ  کو روانہ کیا۔ انہوں نے روضہ خارج نامی جگہ میں ہی اس عورت کو جا پکڑا اور اسے کہا: تیرے پاس جو خط ہے وہ ہمارے حوالے کر دے عورت نے صاف انکار کر دیا، لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی بات پر اتنا پختہ یقین تھا کہ عورت کی بات پر بالکل لچک نہیں دکھلائی اور اسے ڈرا دھمکا کر اس سے خط وصول کر لیا اور رسول اللہﷺ  کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔[صحيح البخاري، كتاب المغازي، باب غزوة الفتح (4274) (3983) و مسلم (2494)]

خارجیوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا میری امت کے باہمی اختلاف کے دنوں میں ایک خارجی گروہ نکلے گا۔ پھر آپ نے ان کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا ان میں ایک شخص ہو گا سیاہ فام اس کا ایک بازو ہو گا، جس میں کلائی نہیں ہو گی بازو کا سرا عورت کے پستان کی مثل ہوگا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں یہ خارجی گروہ نکلا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کا قلع قمع کیا۔ لاشوں کا ڈھیر لگ گیا۔ حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا:

’’وہ بندہ ڈھونڈو۔ تلاش کیا گیا۔ نہ ملا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: نہ میں نے جھوٹ کہا اور نہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا۔ لہذا پھر تلاش کرو۔ (دوبار ایسا ہوا تیسری بار حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خود نکلے ایک جگہ کھڑے ہو کر فرمایا: یہ اوپر سے لاشیں اٹھاؤ۔ لاشیں اٹھائی گئیں۔ لاشوں کے نیچے سے وہ بندہ نکلا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا۔ ساری نشانیاں پوری ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرط خوشی سے اللہ اکبر کہا اور پھر فرمایا: ’’صدق اللہ‘‘ اللہ نے سچ کہا اور اس کے رسول﷜ﷺ نے بھی پہنچایا۔[صحیح مسلم، کتاب الزكوة، باب التحريض على قتل الخوارج، رقم: 2467.]

غور فرمائیے! حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کی ہر بات پر کتنا پختہ یقین رکھتے تھے۔

3۔ اظہار حق

ایک وفعہ ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا مجھے وہ باتیں بتلائیں جو رسول اللہ ﷺ نے صرف آپ کو بتلائی تھیں۔ آپ کے سوا کسی کو نہیں بتلائیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سخت غصے میں آگئے اور فرمایا مجھےﷺ نے کوئی ایسی خفیہ بات نہیں بتلائی جو دوسرے لوگوں سے چھپا کر رکھی ہو۔[صحیح مسلم، كتاب الأضاحي، باب تحريم الذبح لغير الله، رقم: 5124]

4۔ حیاء

دامادر سول ﷺ ہونے کی وجہ سے مذی والا مسئلہ خود نہیں پوچھا۔ بلکہ حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ مجھے یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر بتلاؤ۔[صحيح البخاري، كتاب الوضوء، باب من لم ير الوضوء – (178) و مسلم (303) وابوداود (206)]

معلوم ہو ا شرم و حیاء والی عمده خصلت حضرت علی رضی اللہ تعالی  عنہ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

5۔ کسر نفسی:

(ما أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ)[صحيح البخاري، كتاب فضائل اصحاب النبي، باب (3671) و ابوداود (4629)]

یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے حضرت محمد بن حنیفہ رحمۃ  اللہ علیہ کے اس سوال کے جواب میں کہی تھی کہ حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد امت میں سے آپ سب سے افضل ہیں؟ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ فرمایا: ’’میں تو عام مسلمانوں میں سے ایک مسلمان آدمی ہوں۔‘‘

6۔ ادب رسول ﷺ

حدیبیہ کے معاہدے میں تحریر کا کام کر رہے تھے۔ کافروں نے محمد رسول اللہ (ﷺ) لکھنے پر اعتراض کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’علی! محمد رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبد اللہ لکھ دو۔‘‘

تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ مجھ میں لفظ رسول اللہ کے مٹانے کی سکت نہیں ہے۔[الرحيق المختوم (مترجم) (ص /466)]

اللہ اکبر! حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے معاہدے کی تحریر سے لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹانا گوارا نہ کیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اس کی اجازت دے رہے تھے لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یہ کام میرے بس میں ہی نہیں۔ یہ کام مجھ سے ہو ہی نہیں سکتا، آخر کار خود رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ مٹائے اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ ﷤(ﷺ) لکھوایا۔

7۔ حب رسول ﷺ:

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی رکھی ہوئی کنیت ’’ابو تراب‘‘ بہت پسند آئی جب بھی کوئی آپ کو اس کنیت سے مخاطب کرتا تو بہت خوش ہوتے۔[صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب فضائل على رضی اللہ تعالی عنہ (6179) و بخاری (441) 6280)]

8۔ اتباع سنت:

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہر کام سنت کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے نماز پڑھائی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے پیچھے نماز پڑھی۔ نماز  کے بعد جناب عمران رضی  اللہ تعالی عنہ نے فرمایا آپ نے بالکل رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق نماز پڑھائی ہے۔[صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب يكبر وهو ينهض من السجدتين، رقم: 826]

لیکن آج جب علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کھوکھلا دعوی کرنے والوں کی اذان، کلمہ، وضوء اور نماز سب کچھ سنت کے برخلاف ہے۔

9۔ حدیث بیان کرنے میں انتہائی احتیاط:

فرمایا کرتے تھے جب میں رسول اللہ ﷺ علم کی حدیث بیان کرتا ہوں تو مجھے رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں آسمان سے گر جاؤں۔[صحيح البخاری، ابواب علامات النبوة، رقم: 3611]

 اور سنن ابی داؤد میں ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں مجھے جب بھی کوئی شخص حدیث سناتا ہے۔ میں اس سے قسم لیتا ہوں، لیکن مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث سنائی (اور میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے قسم نہیں لی) کیونکہ جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے سچ ہی فرمایا ہے۔[سنن ابی داؤد]

سبحان اللہ! اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ  سے محبت و عقیدت کا بھی پتہ چلتا ہے۔

10۔ قبروں اور تصویروں کے متعلق شریعت کا نفاذ:

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دن اپنے دور خلافت میں ابو الھیاج اسدی سے فرمایا:

’’کیا میں تمہیں اس کام پر مامور نہ کروں جس کام پر مجھے رسول اللہ ﷺ نے مامور کیا تھا وہ یہ کہ تم جو تصویر دیکھو اسے مٹا ڈالو اور جو اونچی قبر دیکھو اسے برابر اور پست کر دو‘‘[صحيح مسلم، كتاب الجنائز، باب الأمر بتسوية القبر، رقم: 2243]

لیکن آج حب علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کھوکھلے دعویدار قبروں کے پجاری اور تصویروں کے شوقین بنے بیٹھے ہیں۔

آخری بات:

اللہ کا شکر ہے ہم جہاں حضرت ابو بکر وعمر وعثمان علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب کے قائل ہیں وہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان و فضیلت کے بھی قائل ہیں۔ ہم جہاں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کی رفعت و عظمت کے معترف ہیں وہاں رسول اللہ ﷺ کی بیٹیوں اور نواسوں کی شان ورفعت کے بھی اقراری ہیں۔ اور ہم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت کا کھوکھلا دعوی نہیں کرتے بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے عقیدہ و عمل کو اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں جو عین قرآن وسنت کے مطابق تھا اور جو لوگ بے عمل بد عمل اور بدعقیدہ ہو کر محبت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا بلند بانگ دعوی کرتے ہیں ان کا دعوی کھوکھلا ہے وہ اپنے دعوی پر نظر ثانی کریں اور اپنا دعوی سچا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی ہمیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ و دیگر اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی سچی محبت عطاء فرمائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔