حفظان صحت کے لیے احتیاطی تدابیر شریعت کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا (النساء : 71)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے بچائو کا سامان پکڑو، پھر دستوں کی صورت میں نکلو، یا اکٹھے ہو کر نکلو۔
اگرچہ اس آیت مبارکہ کا تعلق جہاد فی سبیل اللہ سے ہے لیکن خُذُوا حِذْرَكُمْ (اپنے بچائو کا سامان پکڑو) کے معنی و مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے اس میں دوران جنگ دشمن سے بچاؤ کے حکم کے ساتھ ساتھ ہر اس چیز سے بچنے کا حکم ہے جو کسی بھی شکل میں انسانی جان کیلئے خطرہ بن سکتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا (بخاری)
آپ کے جسم اور آپ کی آنکھوں کا بھی آپ پر حق ہے( کہ انہیں آرام پہنچایا جائے )
اسلامی شریعت میں متعدد مرتبہ انسانی جسم کی حفاظت پرزور دیا گیا ہے معمول کی موسمیاتی تبدیلی، گرمی، سردی اور جنگ سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مختلف اسباب کا بطور نعمت تذکرہ کیا ہے
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ (النحل : 81)
اور اللہ نے تمھارے لیے ان چیزوں سے جو اس نے پیدا کیں، سائے بنا دیے اور تمھارے لیے پہاڑوں میں سے چھپنے کی جگہیں بنائیں اور تمھارے لیے کچھ قمیصیں بنائیں جو تمھیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ قمیصیں جو تمھیں تمھاری لڑائی میں بچاتی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے، تاکہ تم فرماں بردار بن جاؤ۔
بلکہ اس سلسلے میں غفلت بھرتنے کو سخت ناپسند کیا گیا ہے
جیسے فرمایا
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة : 195)
اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو
اور بعض حالات میں تو یہ غفلت حرام کے دائرے میں چلی جاتی ہے
یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں خودکشی حرام قرار دی گئی ہے
فرمایا
(وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ)
اپنے ہی نفسوں کو قتل مت کرو
حفظان صحت کیلئے شرعی احکامات میں تبدیلی
اسلام میں حفظان صحت کااس قدر اہتمام ہے کہ انسانی صحت کے مدنظر بعض شرعی احکامات میں تبدیلی پیدا کردی گئی ہے
پہلی مثال
مثال کے طور پر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا فرض ہے لیکن اگر کسی کی صحت اجازت نہ دیتی ہو یا کھڑے ہونے سے کسی تکلیف کا اندیشہ ہو تو بیٹھ کر حتی کہ پہلو کے بل لیٹ کر نماز ادا کرنے کی رخصت موجود ہے
صحیح بخاری میں 1117 نمبر حدیث میں بیان ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا
كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ
کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا۔ اس لیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
دوسری مثال
اسی طرح ہر عاقل و بالغ پر ماہ رمضان کے روزےفرض ہیں لیکن اگر کسی کو ضروری سفر پر نکلنا ہے تو اللہ تعالیٰ نے دوران سفر پیش آنے والی بہت سی ممکنہ مشکلات سے بچانے کے لیے روزہ ترک کرنے کی اجازت دے کر حفظان صحت کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے
فرمایا
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (البقرة : 184)
پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے
تیسری مثال
حفظان صحت کے لیے غسل کی بجائے تیمم کا حکم
اگر ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے پر بیمار ہوجانے یا پہلے سے بیمار ہو اوربیماری میں اضافہ ہوجانے کا سبب ہو تو اس صورت حال میں شرعی لحاظ سے غسل کی بجائے تیمم کرنا کافی ہوگا جو غسل اور وضو دونوں کے لئے کفایت کرے گا
قرآن میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں
وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (النساء:43)
ترجمہ: اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو ، بے شک اللہ تعالی معاف کرنے والا ،بخشنے والا ہے ۔
اس آیت میں بیمار اور مسافرکو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے ۔ بیمار سے وہ آدمی مراد ہے جسے وضو اور غسل سے نقصان یا بیماری میں اضافہ کا اندیشہ ہو۔ اس بیمار میں وہ مقیم بھی داخل ہے جس نے رات میں بیوی سے جماع کیا یا اسے احتلام ہوگیا ، گرم پانی میسر نہیں، ٹھنڈے پانی سے غسل باعث ضرر یا ضرر میں اضافہ کا سبب ہے
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
احتَلمتُ في ليلةٍ باردةٍ في غزوةِ ذاتِ السُّلاسلِ فأشفَقتُ إنِ اغتَسَلتُ أن أَهْلِكَ فتيمَّمتُ، ثمَّ صلَّيتُ بأصحابي الصُّبحَ فذَكَروا ذلِكَ للنَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ: يا عَمرو صلَّيتَ بأصحابِكَ وأنتَ جنُبٌ ؟ فأخبرتُهُ بالَّذي مَنعَني منَ الاغتِسالِ وقُلتُ إنِّي سَمِعْتُ اللَّهَ يقولُ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ) فضحِكَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ولم يَقُلْ شيئًا (صحيح أبي داود:334)
غزوہ ذات سلاسل میں مجھے ایک ٹھنڈی رات احتلام ہو گیا ، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہو جاؤں گا ، چنانچہ میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی ، انہوں نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :اے عمرو ! کیا تو نے جنبی ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جماعت کرائی تھی ؟ میں نے بتایا کہ کس وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا تھا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اللہ کا فرمان سنا ہے «ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما»(اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، اللہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور کچھ نہ کہا ۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
وفي هذا الحديث جواز التيمم لمن يتوقع من استعمال الماء الهلاك سواء كان لأجل برد أو غيره ، وجواز صلاة المتيمم بالمتوضئين .( فتح الباري 1 / 454 ) .
اس حديث ميں اس كا جواز پايا جاتا ہے كہ سردى وغيرہ كى بنا پر اگر پانى استعمال كرنے سے ہلاكت كا خدشہ ہو تو تیمم كيا جا سكتا ہے، اور اسى طرح تيمم كرنے والا شخص وضوء كرنے والوں كى امامت بھى كروا سكتا ہے
حالانکہ دوسری جگہ مریض کو پانی میں نہانے کا حکم دیا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«الحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَأَطْفِئُوهَا بِالْمَاءِ» (بخاري 5723)
بخار جہنم کی بھاپ میں سے ہے پس اس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ ۔
اور خود بھی آخری ایام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بخار کوہلکا کرنے کے لیے غسل کرتے رہے
ایک طرف مریض کو پانی سے دور رکھتے ہوئے وجوب غسل کے باوجود تیمم کی اجازت ہے تو دوسری طرف بخار کو بجھانے کے لیے بار بار غسل کی ترغیب ہے الغرض اسلام نے مرض اور مریض کی وقتی حالت کے مطابق طب کے دائرے میں اتنی وسعت پیدا کی ہے کہ حفظان صحت کا کوئی بھی جائز ذریعہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں ہے
چوتھی مثال
اسی طرح دین اسلام میں سخت سردی اور بارش کی رات گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے بلکہ اس اجازت کی یاد دہانی کے لیے مؤذن کو پابند کیا گیا ہے کہ اگر کبھی ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو آپ «أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ» کی منادی کریں
صحیح بخاری کی 666نمبر حدیث میں ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ، يَقُولُ: «أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ»
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔
غور کیجئے کہ خرابئِ صحت کے اندیشہ سےبارش اور سردی کی شدت کی وجہ سے گھروں میں ٹھہرے رہنے کا اعلان ہے تو فضا میں پھیلی ہوئی جان لیوا وائرس کی موجودگی میں گھروں سے غیرضروری باہر نکلنا شریعت کی نظر میں کیسے پسندیدہ ہوسکتا ہے
ایک اور زاویہ سے دیکھیں یہ وہی بارش ہے کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود نہایا کرتے تھے اور محبت بھرے انداز میں فرماتے لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى:”کیونکہ وہ نئی نئی (سیدھی) اپنے رب عزوجل کی طرف سے آرہی ہے۔”مسلم مگر جب اسی کو مضر صحت محسوس کیا تو نہانا تو دور گھر سے نکلنا بھی روا نہ رکھا
دین اسلام میں ایڈوانس احتیاط کی چند مثالیں
مشروب میں مکھی گر جائے تو کیا کریں
صحیح بخاری میں 5782 نمبر روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ، ثُمَّ لِيَطْرَحْهُ، فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ شِفَاءً، وَفِي الآخَرِ دَاءً»
جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں پڑجائے تو پوری مکھی کو برتن میں ڈبو دے اور پھر اسے نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں شفا ہے اور دوسرے میں بیماری ہے ۔
سبحان اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی شاندار ایڈوانس احتیاطی تدبیر علاج بالضد کے ذریعے بیان کی ہے ۔صرف مشروب میں مکھی گری ہے ابھی تک انسان نے اسے پیا ہے نہ ہی بیمار ہوا ہے لیکن ممکنہ بیماری کا پیشگی تدارک بتا دیا کہ اگر یوں احتیاطی تدبیر کریں گے تو بیماری سے بچ سکتے ہیں
کتا برتن میں منہ ڈال دے تو کیا کریں
شریعت میں پیشگی احتیاطی تدبیر کی ایک بہترین مثال یہ حدیث ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
«طَهُورُ إِنَاءِ أَحَدِكُمْ إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِيهِ، أَنْ يَغْسِلَهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ» (مسلم 652 )
:’’جب تم میں سے کسی کے برتن میں سے کتا پی لے تو اس کی پاکیزگی یہ ہے کہ اسے سات دفعہ دھوئے۔‘‘
جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کون سی کوئی بیماری ہے ہم کیوں احتیاطی تدابیر اختیار کریں ہمیں ایس او پیز پر عمل کرنے اور ماسک وغیرہ پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ان کےسمجھنے کے لیے یہ حدیث بہترین ہے کہ کتے کے برتن میں منہ ڈالتے ہی کون سی بیماری شروع ہو جاتی ہے مگر اسلام ہے کہ پیشگی احتیاط کا حکم دے رہا ہے
پیٹ بھر کر مت کھائیں
چونکہ شکم سیری کئی امراض کا سب ہے اس لیے شریعت میں برائی کو شروع میں ہی دبانے کے فارمولے کے مطابق اسے ناپسند کیا گیا بلکہ اس صورت میں پیٹ کو بدترین برتن قرار دیا گیا اور یہ ایک بہترین احتیاطی تدبیر ہے
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا
«مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ. بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ» (ترمذی 2380)
:’کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برانہیں بھرا، آدمی کے لیے چندلقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کوسیدھارکھیں اوراگرزیادہ ہی کھاناضروری ہوتو پیٹ کاایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے ، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے
برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے مت پیئیں
سبحان اللہ، انسانی صحت کی حفاظت کے لیے دین اسلام کتنا حساس واقع ہوا ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نقصان سے بچانے کے لیے برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سے منع کر دیا
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، وَأَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَابِ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر، 3722)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔
” ثلمة ” سے مراد برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ ہے
مطلب یہ ہے کہ اگر پینے کا برتن کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو تو اس جگہ سے منہ لگا کر پانی نہ پیو،
اس میں بہت سی حکمتیں پنہاں ہیں
اس جگہ ہونٹوں کی گرفت اچھی نہیں ہو گی
وہاں سے مشروب نکل کر چہرے اور کپڑوں پر گرے گاجو کہ تکلیف اور اذیت کا سبب بنے گا
ٹوٹی ہوئی جگہ سے برتن کی دھلائی اچھی طرح سے نہیں ہو پاتی اور اسکا پانی وغیرہ صاف نہیں رہتا،اور وہاں مٹی وغیرہ لگی رہ جاتی ہے اس صورت میں پاکیزگی وصفائی کا تقاضا بھی یہی ہے اس جگہ منہ نہ لگایا جائے،
ٹوٹی ہوئی جگہ سے مشروب پیتے وقت چوٹ بھی لگ سکتی ہے
ٹوٹی ہوئی جگہ سے کوئی کچرا یا برتن کا ذرہ پیٹ میں داخل ہو سکتا ہے
کھجور کی گرمی سے بچنے کا نبوی فارمولا
کھجور ایک بہترین مزیدار اور مقوی پھل ہے
لیکن اس کا سائیڈ ایفکٹ یہ ہے کہ یہ جسم میں گرمی پیدا کرتا ہے
شریعت میں ہمیں اس کی طاقت سے فائدہ اٹھانے اور حدت کو کنٹرول کرنے کی احتیاط یوں بیان کی گئی ہے کہ
عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
«يَأْكُلُ الرُّطَبَ بِالقِثَّاءِ» (بخاري 5440)
تازہ کھجورککڑی کے ساتھ کھاتے دیکھا ہے
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا نے بیان کیا کہ
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ فَيَقُولُ نَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا (ابوداؤد 3836)
رسول اللہ ﷺ تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے اور فرماتے ” ہم اس ( کھجور ) کی گرمی کا اس ( تربوز ) کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں ۔ “
حضرت ام منذر سلمی بنت انصاریہ ؓسے روایت ہے ، انہوں نےکہا :
دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَعَلِيٌّ نَاقِهٌ مِنْ مَرَضٍ، وَلَنَا دَوَالِي مُعَلَّقَةٌ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْكُلُ مِنْهَا فَتَنَاوَلَ عَلِيٌّ لِيَأْكُلَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْ يَا عَلِيُّ إِنَّكَ نَاقِهٌ» قَالَتْ: فَصَنَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِلْقًا، وَشَعِيرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَا عَلِيُّ مِنْ هَذَا، فَأَصِبْ، فَإِنَّهُ أَنْفَعُ لَكَ» (ابن ماجہ 3442)
رسول اللہ ﷺ ہمائے ہاں تشریف لائے ۔ آپ کے ہمراہ حضرت علی بن ابی طالب بھی تھے ۔ حضرت علی بیماری کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے ۔ ہمائے ہاں نیم پختہ کھجوروں کے خوشے (رسی سے ) لٹک رہے تھے ۔ نبی ﷺ ان میں سے لے لےکر (کھجوریں ) کھا رہے تھے کہ حضرت علی نے بھی کھانے کے لیے کچھ کجھوریں لے لیں ۔
نبی ﷺ نے فرمایا: ’’علی ! رک جاؤ ۔ تم ابھی (بیماری سے اٹھے ہو ، اس لیے ) کم زور ہو ۔‘‘ ام منذر نے فرمایا : میں نے نبی ﷺ کے لیے چقندر اور جو پکائے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’علی ! اس میں سے کھاؤ ،یہ تمہارے لیے زیادہ مفید ہے ۔ ‘‘
سلق کا مطلب محمد فواد عبد الباقی نے کھائی جانے والی نباتات یعنی سبزیاں کیا ہے۔اور علامہ وحید الزمان خان نے اس لفظ کاترجمہ چقندر کیا ہے۔
زہر اور جادو سے بچنے کی احتیاط، عجوہ کھجور کھائیں پورا دن محفوظ گزاریں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«مَنِ اصْطَبَحَ بِسَبْعِ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ، لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ اليَوْمَ سَمٌّ، وَلاَ سِحْرٌ» (بخاری و مسلم)
جو شخص صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لے اسے اس دن زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ جادو ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
الْعَجْوَةُ مِنْ الْجَنَّةِ وَفِيهَا شِفَاءٌ مِنْ السُّمِّ (ترمذی 2066)
عجوہ ( کھجور) جنت کا پھل ہے ، اس میں زہر سے شفاء موجودہے
کلونجی استعمال کریں اور اپنے آپ کو بیماری سے محفوظ رکھیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبردی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما تے ہو ئے سنا
إِنَّ فِي الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ إِلَّا السَّامَ وَالسَّامُ الْمَوْتُ وَالْحَبَّةُ السَّوْدَاءُ الشُّونِيزُ (مسلم 5766)
،”شونیز سام (موت ) کے علاوہ ہر بیماری سے شفا ہے ۔” "سام :موت ہے اور حبہ سودا (سے مراد ) شونیز (زیرسیاہ)ہے۔
آنکھوں کی بیماری کا پیشگی علاج اور اثمد سرمہ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
«عَلَيْكُمْ بِالْإِثْمِدِ، فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ، وَيُنْبِتُ الشَّعَرَ» (ابن ماجہ 3495 وسندہ حسن)
: ’’اثمد سرمہ ( آنکھوں میں لگانا ) اپنےاوپر لازم کرلو کیونکہ وہ نظر کو تیز کرتا اور (پلکوں کے ) بال اگاتاہے ۔‘‘
اثمد ایک قسم کاسرمہ ہے۔علامہ وحید الزمان خان نے اسے اصفہانی سرمہ بتلایا ہے۔
سرمہ آنکھوں کی زینت کے علاوہ نظر کو قوت بھی بخشتا ہے۔
پلکوں کے لئے لمبے بال آنکھوں کو خوبصورت بناتے ہیں۔ اور آنکھوں میں پڑ جانے والی اشیاء سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔اثمد استعمال کرنے سے یہ فوائد حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ارشاد نبوی ﷺ پر عمل کا ثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔
مضر صحت چیزیں کھانے سے منع کر دیا
اسلام دین فطرت ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں ہر وہ چیز حرام قرار دی گئی ہے جو صحت انسانی کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے
شراب، خنزير، مردار، خون، سانپ، بچھو، کتے اور درندہ قسم کے سبھی جانور محض اس لیے حرام ہیں کہ ان کے کھانے سے انسانی طبیعت اور صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں
فرمایا
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ (الأعراف : 157)
اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہےہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ (ترمذی 2045)
رسول اللہﷺ نے خبیث دوااستعمال کرنے سے منع فرمایا
وبائی علاقے کے متعلق احتیاط کی تعلیم
عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص ) کواسامہ بن زید ؓ سےیہ پوچھتے سنا تھاکہ طاعون کےبارے میں آپ نے آنحضرت ﷺ سےکیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نےفرمایا
الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ أَبُو النَّضْرِ لَا يُخْرِجْكُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْهُ
،طاعون ایک عذاب ہےجوپہلے بنی اسرائیل کےایک گروہ پربھیجا گیا تھا یا آپ نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے جب کسی جگہ کےمتعلق تم سنو(کہ وہاں طاعو ن پھیلا ہواہے) تووہاں نہ جاؤ۔ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہوتو وہاں سے مت نکلو۔ابوالنضر نےکہا یعنی بھاگنے کےسوااور کوئی غرض نہ ہو تومت نکلو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ» (بخاري 5771)
کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے
کوڑھ کا مریض اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احتیاط
عمرو بن شرید نے اپنے والد سے روایت کی ،کہا :
كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ» (مسلم 5822)
ثقیف کے وفد میں کو ڑھ کا ایک مریض بھی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیغام بھیجا :” ہم نے(بالواسطہ )تمھا ری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ»
چھوت لگنا ، بد شگونی لینا ، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسا بھاگتا رہ جیسا کہ شیر سے بھاگتا ہے
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ،نبی ﷺ نے فرمایا
«لَا تُدِيمُوا النَّظَرَ إِلَى الْمَجْذُومِينَ» (ابن ماجة صححہ الالبانی)
’’جذام کے مریضوں کو ٹکٹی باندھ کر نہ دیکھو۔‘
کسی مریض کو دیکھیں تو اس مرض سے بچنے کی تدبیر
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’
مَنْ رَأَى مُبْتَلًى فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا لَمْ يُصِبْهُ ذَلِكَ الْبَلَاءُ
جو شخص کسی شخص کو مصیبت میں مبتلا دیکھے پھر کہے:’الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہِ وَفَضَّلَنِی عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً لَمْ یُصِبْہُ ذَلِکَ الْبَلاَئُ ‘ تو اسے یہ بلا نہ پہنچے گی’۔
نوٹ:( سندمیں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہیں ، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۲۰۶، ۲۷۳۷،وتراجع الالبا نی ۲۲۸)
ذکر الہی کی پناہ میں آئیں
مختلف بیماریوں، جادو، جنات، دشمن اور چوری سے بچنے کے لیے اذکار کے ذریعے اللہ کی پناہ میں آئیں
جادو جنات سے بچنے کے لیے معوذتین اور سورہ بقرہ کی تلاوت کریں
چوری سے بچنے کے لیے آیت الکرسی پڑھیں
نظر بد سے بچنے کے لیے
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ (بخاري 3371)
میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہرنقصان پہنچانے والی نظر بد سے ۔
پروفیسر حماد لکھوی حفظه اللہ
سنیٹائزر کو لگانے کے باجود بھی لوگ کورونا کا شکار ہو رہـے ہیں
میرے نبی ﷺ کا بتایا گیا نسخہ استعمال کر کے دیکھ لو اب….!!!
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس نے یہ دعا پڑھی:
بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِه شَیْئٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاء ِ وَھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم
ُ (اس اللہ کے نام کے ساتھ جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے)،
جس نے صبح کے وقت یہ دعا تین بار پڑھی تو ان شاء اللہ رات تک اس کو اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی،
اسی طرح جس نے شام کو یہ عمل کیا تو صبح تک ان شاء اللہ اس کو کوئی اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی۔
مسند احمد : 528
ایک رات کی بیماری سے بچنے کے لیے پورے سال کی احتیاط
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا
غَطُّوا الْإِنَاءَ وَأَوْكُوا السِّقَاءَ فَإِنَّ فِي السَّنَةِ لَيْلَةً يَنْزِلُ فِيهَا وَبَاءٌ لَا يَمُرُّ بِإِنَاءٍ لَيْسَ عَلَيْهِ غِطَاءٌ أَوْ سِقَاءٍ لَيْسَ عَلَيْهِ وِكَاءٌ إِلَّا نَزَلَ فِيهِ مِنْ ذَلِكَ الْوَبَاءِ (مسلم 5255)
:”برتن ڈھانک دو،مشکیزے کامنہ باندھ دو،کیونکہ سال میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جس میں وبا نازل ہوتی ہے۔پھر جس بھی ان ڈھکے برتن اور منہ کھلے مشکیزے کے پاس سے گزرتی ہے۔تو اس وبا میں سے(کچھ حصہ) اس میں اُتر جاتا ہے۔”
غور کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی خاطر کتنے فکر مند ہیں کہ ایک رات کی بیماری سے بچنے کے لیے سال بھر احتیاط کی تلقین کررہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ چار ماہ سے پھیلی ہوئی وباء سے حفاظت کے لیے خود احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں نہ ہی دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں بلکہ الٹا طنزیہ رویہ اپنانے میں اظہار توکل سمجھتے ہیں
پانی پینے میں احتیاطی طریقہ اور بیماری کا توڑ
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَنَفَّسُ فِي الشَّرَابِ ثَلَاثًا وَيَقُولُ إِنَّهُ أَرْوَى وَأَبْرَأُ وَأَمْرَأُ قَالَ أَنَسٌ فَأَنَا أَتَنَفَّسُ فِي الشَّرَابِ ثَلَاثًا (مسلم 5287)
:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پینے کی چیز میں تین مرتبہ سانس لیتے تھے اور فرماتے تھے:”یہ(طریقہ) زیادہ سیر کرنے والا،زیادہ محفوظ اور زیادہ مزیدار ہے۔
سونے سے پہلے آگ بجھائیں اور اپنا گھر جلنے سے بچائیں
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«خَمِّرُوا الآنِيَةَ، وَأَوْكُوا الأَسْقِيَةَ، وَأَجِيفُوا الأَبْوَابَ وَاكْفِتُوا صِبْيَانَكُمْ عِنْدَ العِشَاءِ، فَإِنَّ لِلْجِنِّ انْتِشَارًا وَخَطْفَةً، وَأَطْفِئُوا المَصَابِيحَ عِنْدَ الرُّقَادِ، فَإِنَّ الفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا اجْتَرَّتِ الفَتِيلَةَ فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ البَيْتِ» (بخاری 3316)
پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو ، مشکیزوں ( کے منھ ) کو باندھ لیا کرو ، دروازے بند کرلیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کرلیا کرو ، کیوں کہ شام ہوتے ہی جنات ( روئے زمین پر ) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھالیا کرو ، کیوں کہ موذی جانور ( چوہا ) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلادیتا ہے ۔
مڈیر کے بغیر چھت پر نہ سونے کی احتیاط
بغیر دیوار کی چھت پر ہر گز نہ سوئیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ بَاتَ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ لَيْسَ لَهُ حِجَارٌ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ . (ابو داؤد 5041)
جو شخص گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پتھر ( کی مڈیر ) نہ ہو ( یعنی کوئی چہار دیواری نہ ہو تو اس سے ( حفاظت کا ) ذمہ اٹھ گیا ( گرے یا بچے وہ جانے ) ۔
کیا یہ احتیاطی تدابیر توکل کے خلاف ہیں
توکل کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ بس انسان اللہ پر توکل کرکے بیٹھ جائے۔ اور ظاہری اسباب کی فکر ہی چھوڑ دے۔
اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسے کا مطلب یہ ہے کہ انسان شرعی حدود میں رہتے ہوئے دنیاوی اسباب کو بروئے کار لا کر کوشش کرے اور قانون الٰہی کی پابندی کرتے ہوئے محنت کرے۔لیکن ان اسباب اور کاوشوں کو صرف ذریعہ سمجھے کلی اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر کرتے ہوئے انجام اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے۔اسباب کو بروئے کار لائے بغیر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہرگز توکل نہیں۔
چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول!کیا میں اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کروں یا اس کو کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ)) ’’پہلے گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو۔‘‘
(طبرانی۔ بروایت ابوہریرہ (رض) بحوالہ الموافقات للشاطبی، ج ١ ص ٢٩٠)
اور کسی شاعر نے اس مفہوم کو یوں ادا کیا ہے :
توکل کے یہ معنی ہیں کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
اصل میں بیماری و شفاء کے تمام خزانے تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے مگر احتیاط کی حد تک انسان وسائل و اسباب کو کام میں لاسکتا ہے بلکہ اس کا مکلف ہے۔ لیکن ان اسباب کو موثر نہ سمجھے بلکہ اصل بھروسا اللہ تعالیٰ پر ہو۔ اسی کا نام توکل ہے۔ مقصد یہ کہ شفاء کے حصول کے لئے اسباب و وسائل کو کام میں لانا تو کل کے منافی نہیں ہے
توکل کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسباب خواہ معمولی ہی ہوں انھیں ضرور اختیار کرنا چاہیے۔سیدنا ایوب علیہ السلام نے اپنے مرض میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ ﴾’’اپنا پاؤں زمین پر مارو۔‘‘ اس سے پانی نکلے گا۔سوال یہ ہے کہ کیا زمین پر پاؤں مارنے سے پانی نکلتا ہے؟ ہرگز نہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھایا کہ اسباب خواہ کمزور اور معمولی بھی ہوں انھیں اختیار کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ اسباب کا محتاج نہیں لیکن بندہ اسباب اختیار کرنے کا پابند ہے۔
کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا تقدیر سے فرار ہے
جب شام کے علاقے میں طاعون کی بیماری پھیلی انہیں دنوں عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف جا رہے تھے ابھی سرحد پر پہنچے ہی تھے کہ وبا کا علم ہو گیا صحابہ نے واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا اور اس حوالے سے حدیث بھی سنائی حدیث سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوکر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس چلو ۔ صبح کوایسا ہی ہوا حضرت ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا
أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ؟
کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا
لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ؟ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ (بخاری)
کاش ! یہ بات کسی اورنے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف