ہجرتِ مدینہ
اہم عناصرِ خطبہ :
1۔ ہجرت کا مفہوم
2۔ ہجرت کے فضائل قرآن وحدیث میں
3۔ ہجرت کا حکم قیامت تک باقی ہے
4۔ ہجرتِ مدینہ : اسباب و واقعات
پہلا خطبہ
برادران اسلام ! نئے ہجری سال کے آغاز کے موقعہ پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج کے خطبہ میں ہم ہجرتِ مدینہ کا عظیم الشان واقعہ قدرے تفصیل سے بیان کریں کیونکہ اسی واقعہ سے اسلامی تاریخ کی ابتداء کی گئی، لیکن اس کی تفصیلات میں جانے سے پہلے آئیے یہ معلوم کرلیں کہ ہجرت کسے کہتے ہیں اور قرآن وحدیث میں اس کے کیا فضائل ہیں؟
ہجرت کا مفہوم
’’ الھجرۃ ‘‘ ’ھجر‘سے ہے جس کا معنی ہے : چھوڑنا ۔ عرب کہتے ہیں :
’’ھَاجَرَ الْقَوْمُ مِنْ دَارٍ إلیٰ دَارٍ‘‘
یعنی فلاں قوم ایک علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقے میں چلی گئی ، جیسا کہ مہاجر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ چلے گئے ۔
اور ارشادِ باری ہے :﴿وَاھْجُرُوْھُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ
’’ اور انھیں بستروں میں چھوڑ دو ۔ ‘‘
’’ الہجرۃ ‘‘ کی شرعی تعریف بیشتر علماء نے یوں کی ہے :
’’ ترك دار الکفر والخروج منہا إلیٰ دار الإسلام‘‘
یعنی ’’ دار الکفر کو چھوڑ کر دار الإسلام میں چلے جانا ۔‘‘
جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی تعریف یوں کی ہے :
’’ اَلْہِجْرَۃُ فِی الشَّرْع تَرْكَ مَا نَہَی اللّٰہُ عَنْہُ ‘‘
یعنی شریعت میں ہجرت سے مراد ہر ایسے کام کو چھوڑنا ہے جس سے ﷲ تعالیٰ نے منع کردیا ہے ۔
غالبًا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہجرت کی یہ تعریف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے لی ہے :
(( اَلْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَی اللّٰہُ عَنْہُ ))
’’مہاجر وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کے منع کردہ کاموں کو چھوڑ دے ۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ’’ ہجرت ‘‘ باطنی اور ظاہری دونوں ہجرتوں کو شامل ہے۔ باطنی ہجرت سے مقصود یہ ہے کہ انسان تمام ایسے کاموں کو چھوڑ دے جنہیں شیطان اور نفسِ انسانی خوب مزین کرکے اس کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ظاہری ہجرت سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے دین کو کفر اور فتنوں سے بچا کر کسی ایسی جگہ پر چلا جائے جہاں وہ پر امن طور پراسلامی تعلیمات پر عمل کرسکے ۔
امام العز بن عبد السلام رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ اَلْھِجْرَۃُ ھِجْرَتَانِ : ہِجْرَۃُ الأوْطَانِ وَہِجْرَۃُ الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ، وَأَفْضَلُہُمَا ہِجْرَۃُ الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ، لِمَا فِیْہَا مِنْ إِرْضَائِ الرَّحْمٰنِ وَإِرْغَامِ النَّفْسِ وَالشَّیْطَانِ ‘‘
یعنی ’’ہجرت کی دو اقسام ہیں : ترکِ وطن کرنا ، گناہ اور زیادتی کو چھوڑنا۔ ان میں سے دوسری ہجرت افضل ہے کیونکہ اس سے رحمن راضی ہوتا ہے اور نفس اور شیطان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ ‘‘
ہجرت کے فضائل
ہجرت کے فضائل اور اس کے اجر وثواب کے متعلق قرآنی آیات اور احادیث ِ نبویہ موجود ہیں ، سب سے پہلے چند قرآنی آیات سماعت فرمائیں۔
1۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ
’’وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دئیے گئے اور جنہیں میری راہ میں ایذا دی گئی اور جنھوں نے جہاد کیا اور شہید کئے گئے میں ضرور بالضرور ان کی برائیاں ان سے دور کردوں گا اور یقینا انھیں ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ یہ ہے ثواب اﷲ کی طرف سے ۔ اور اﷲ تعالیٰ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے ۔‘‘
2۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ‎﴿٢٠﴾يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ ‎﴿٢١﴾‏ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ‎﴿٢٢﴾
’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اﷲ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اﷲ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں ۔ انھیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضامندی کی اور جنتوں کی ۔ ان کے لئے وہاں دوامی نعمت ہے ، وہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ، اﷲ کے پاس یقینا بہت بڑا اجر ہے ۔‘‘
3۔ اسی طرح اللہ کا فرمان ہے :
﴿وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
’’جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اﷲ کی راہ میں ترکِ وطن کیا ہے ہم انھیں بہتر سے بہتر ٹھکانہ دنیا میں عطا کریں گے اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے ، کاش کہ لوگ اس سے واقف ہوتے ۔ ‘‘
4۔ فرمایا:
﴿ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِن بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
’’ جن لوگوں نے فتنوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی ، پھر جہاد کیااور صبر کا ثبوت دیا ، بے شک تیرا رب ان باتوں کے بعد انھیں بخشنے والا اور ان پر مہربانیاں کرنے والا ہے ۔‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’ یہ وہ لوگ تھے جو مکہ میں کمزور تھے اور اپنی قوم میں حقیر سمجھے جاتے تھے ، انھوں نے کئی آزمائشیں جھیلیں ، پھر انھیں ہجرت کے ذریعے فتنوں سے چھٹکارا پانے کا موقع ملا ۔ چنانچہ انھوں نے اپنا وطن ، اپنے گھر والے اور اپنے اموال کو محض اﷲ کی رضا اور اس کی مغفرت کے حصول کی خاطر خیر باد کہہ دیا اور مدینہ منورہ میں آکر مومنوں کی لڑی میں جڑ گئے ۔ پھر انھوں نے کافروں کے خلاف جہاد کیا اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ۔ انہی کے بارے میں ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان اعمالِ جلیلہ کے بعد ﷲ تعالیٰ یقینا ان کے گناہ معاف کرنے والا ہے اور قیامت کے دن ان پر رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘
5۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ‎﴿٥٨﴾
’’اور جن لوگوں نے اﷲ کی راہ میں ترکِ وطن کیا ، پھر وہ شہید کردئے گئے یا وہ وفات پاگئے ، اﷲ انھیں بہترین رزق عطا فرمائے گا اور بے شک اﷲ تعالیٰ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔‘‘
6۔ نیز فرمایا :
﴿وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ‎﴿١٠٠﴾‏
’’جو شخص اﷲ کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی ۔ اور جو آدمی اپنے گھر سے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف نکل کھڑا ہوا ، پھر اسے موت نے آلیا تو اس کا اجر یقینا اﷲ تعالیٰ کے ذمے ثابت ہوگیا ۔ اور ﷲ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔‘‘
مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس میں ہجرت کی طرف ترغیب دلائی گئی ہے اور رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر ہجرت کرنے والے شخص سے ﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اپنا گھر بار چھوڑنے کے بعد اسے یقینا زمین میں اور بہت ساری قیام گاہیں مل جائیں گی جہاں وہ پُر امن اور کشادگی سے زندگی بسر کرسکے گا ۔ اور اگر دورانِ ہجرت ہی اس کی موت نے اسے آلیا تو یقینا اﷲ تعالیٰ اسے اجر وثواب سے محروم نہیں کرے گا ۔
اور اب ہجرت کی فضیلت میں چنداحادیث ِ نبویہ بھی سماعت فرمالیں۔
1۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ جب ان کے دل میں اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی محبت پیدا کی تو وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول ! اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے ، میں آپ کی بیعت کرنے آیا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست ِ مبارک آگے بڑھایا تو انھوں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا : میں بیعت کرنے سے پہلے یہ شرط لگانا چاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میرے گناہ معاف فرمادے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا،وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ))
’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے ، ہجرت سابقہ خطاؤں کو مٹا دیتی ہے اور حج گذشتہ کوتاہیوں کو معاف کردیتا ہے ۔‘‘
2۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت أبو فاطمۃ الضمری رضی اﷲ عنہ سے فرمایا تھا :
(عَلَیْکَ بِالْہِجْرَۃِ فَإِنَّہُ لَا مَثِیْلَ لَہَا)
’’تم ہجرت ضرور کرو ، کیونکہ ( اجر وثواب میں ) اس جیسا کوئی عمل نہیں۔‘‘
3۔ ارشادِ نبوی ہے :
(أَنَا زَعِیْمٌ لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَأَسْلَمَ وَہَاجَرَ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّةِ،وَبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّةِ،وَبَیْتٍ فِیْ أَعْلٰی غُرَفِ الْجَنَّةِ…الحدیث )
’’میں اس شخص کو جنت کے ادنیٰ درجہ میں ، جنت کے درمیانے درجہ میں اور جنت کے اعلیٰ درجہ میں ایک ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو مجھ پر ایمان لایا ، اسلام قبول کیا اور اس نے ہجرت کی ۔‘‘
4۔ حضرت عبد ﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا:
( أَتَعْلَمُ أَوَّلَ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةِ مِنْ أُمَّتِیْ ؟)
’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میری امت میں سے کونسے لوگ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگے ؟ ‘‘
تو انھوں نے کہا :اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ علم ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ مہاجر ہونگے جو قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آئیں گے اور دروازہ کھولنے کی درخواست کریں گے۔جنت کے نگہبان فرشتے ان سے پوچھیں گے : کیا تمہارا حساب ہوچکا ؟ وہ کہیں گے : ہمارے کس عمل کا حساب ہونا تھا ! ہم تو ساری زندگی تلواریں اپنے کندھوں پر اٹھا کر ﷲ کے راستے میں پھرتے رہے یہاں تک کہ ہماری موت آگئی ۔ پھر ان کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ دوسرے لوگوں کے داخل ہونے سے چالیس سال پہلے اس میں جا کر قیلولہ کریں گے ۔‘‘
5۔حضرت جابررضی ﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی ﷲ عنہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیشکش کی کہ آپ دوس قبیلے کے مضبوط قلعہ میں آجائیں جہاں آپ کی حفاظت کی جائے گی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیش کش کو مسترد کردیاکیونکہ یہ شرف انصارِ مدینہ کو ملنے والا تھا ۔ پھر جب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تو حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اﷲ عنہ اور ان کے ساتھ ان کی قوم کا ایک اور شخص بھی ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچ گئے لیکن مدینہ منورہ کی آب وہوا انھیں موافق نہ آئی۔ حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اﷲ عنہ کا ساتھی بیمار ہوگیا جس کی وجہ سے وہ پریشان رہنے لگا ۔ ایک دن اچانک اس نے اپنا تیز دھار آلہ اٹھایا اور اپنی انگلیوں کے پورے کاٹ دئے جس سے اس کے ہاتھوں سے خون بہنے لگا، یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔ اس کے بعد حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بہت اچھی شکل وصورت میں ہے لیکن اس کے ہاتھوں کو ڈھانپا گیا ہے ۔ انھوں نے اس سے پوچھا : تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی وجہ سے ﷲ تعالیٰ نے میری مغفرت کردی ہے ۔ انھوں نے پوچھا : کیا وجہ ہے کہ تیرے ہاتھوں کو ڈھانپا گیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : مجھے کہا گیا ہے کہ جس چیز کو تو نے خود بگاڑا اسے ہم ٹھیک نہیں کریں گے۔
حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ نے یہ خواب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اللّٰھُمَّ وَلِیَدَیْہِ فَاغْفِرْ))
’’ اے اﷲ ! اس کے ہاتھوں کو بھی بخش دے ۔‘‘
6۔ حضرت ابوسعید الخدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُہَاجِرِیْنَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِیَائِہِمْ بِمِقْدَارِ خَمْسِ مِائَةِ سَنَة))
’’ فقراء مہاجرین اغنیاء مہاجرین سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہونگے ۔ ‘‘
7۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ ایک دن ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورج طلوع ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( سَیَأْتِیْ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ نُوْرُہُمْ کَضَوْءِ الشَّمْس))
’’قیامت کے روز میری امت کے کچھ لوگ آئیں گے جن کا نور سورج کی روشنی کی مانند ہوگا ۔‘‘
ہم نے پوچھا : اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون لوگ ہونگے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ فقراء مہاجرین ۔‘‘
عزیزان گرامی ! آپ نے ہجرت کے فضائل میں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کو سماعت فرمایا۔ ان سے یقینا آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہجرت کی کیا قدر و منزلت ہے اور اسلام میں اس کا کیا مقام ہے !

ہجرت قیامت تک باقی ہے
ہجرت کا حکم فتح مکہ کے بعد ختم نہیں ہوا بلکہ یہ قیامت تک باقی اورجاری وساری ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا تَنْقَطِعُ الْہِجْرَۃُ حَتّٰی تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ ، وَلاَ تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا))
’’ ہجرت منقطع نہیں ہوگی یہاں تک کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جائے ، اور توبہ کا دروازہ بند نہیں ہو گا یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے ۔‘‘
اور جہاں تک حدیث ( لاَ ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ ) ’’ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ‘‘ کا تعلق ہے تو اس سے مقصود یہ ہے کہ جب مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعددار الإسلام میں شامل ہوگیا تو اس کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد ہجرت کی نفی کردی ۔تاہم اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ سرے سے ہجرت کا حکم ہی ختم کردیا گیا۔
جبکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی ایک اور توجیہ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہجرت کی جو فضیلت فتحِ مکہ سے پہلے تھی اور جس طرح مسلمانوں نے ظلم وستم برداشت کرنے کے بعد انتہائی خستہ حالی میں ہجرت کی ، وہ فضیلت مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعد ختم ہوگئی کیونکہ فتح مکہ کے بعد اسلام غالب ہوگیا اور مسلمان مضبوط اور طاقتور ہوگئے ۔ جبکہ فتحِ مکہ سے پہلے وہ مظلوم اور انتہائی کمزور تھے ۔ لہٰذا وہ خاص فضیلت والی ہجرت تو اس حدیث کے مطابق فتح مکہ کے بعدختم ہوگئی تاہم عمومی طور پر ہجرت کا حکم باقی ہے اور وہ قیامت تک جاری رہے گی۔
ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں
اوائل ِ اسلام میں جن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا اہل ِ مکہ نے ان پر بہت ظلم وستم کیا اور انھیں مختلف قسم کی سزائیں اور ایذائیں دیں۔ ایسی سزائیں کہ جن کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ مسلمان کمزور تھے اور کفار طاقتور ، کمزور مسلمان اسلام کی خاطر سب کچھ برداشت کرتے رہے ، آخر کار رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہجرت کے تین واقعات پیش آئے :
1۔ حبشہ کی طرف پہلی ہجرت : یہ نبوت کے پانچویں سال میں ہوئی ۔ ۱۲ مرد اور ۴ خواتین پیدل چل کر سمندر کے کنارے پہنچے ، وہاں سے ایک کشتی کرائے پر لی اور حبشہ وارد ہوئے جہاں انھیں معزز مہمانوں کی طرح رکھا گیا۔
2۔ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت : پہلی مرتبہ ہجرت کرکے جو مسلمان حبشہ پہنچے تھے انھیں خبر ملی کہ اہلِ مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔ چنانچہ ان میں سے کئی لوگ مکہ مکرمہ واپس آگئے لیکن یہاں آکر انھیں معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی ، اس لئے انھوں نے اور ان کے ساتھ کئی اور مسلمانوں نے حبشہ کی طرف دوبارہ ہجرت کی ۔ ان کی تعداد ۸۰ سے متجاوز تھی ۔
3۔ ہجرتِ مدینہ طیبہ
ہجرتِ مدینہ طیبہ کے واقعات جس ترتیب سے پیش آئے وہ کچھ یوں ہیں ۔
عقبہ کے مقام پر اہلِ مدینہ کی پہلی بیعت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ موسم حج کے دوران مکہ مکرمہ میںآئے ہوئے مختلف قبائل سے ملاقاتیں کرتے اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دیتے ۔ چنانچہ نبوت کے گیارہویں سال کے موسمِ حج میں اہلِ یثرب کے چھ افراد نے اسلام قبول کرلیا ۔ یہ حضرات جب یثرب (مدینہ منورہ ) کو واپس لوٹے تو انھوں نے وہاں لوگوں کو اسلام کا تعارف پیش کیا اورانھیں اس کے محاسن سے آگاہ کیا ۔ چنانچہ اگلے سال یعنی ۱۲نبوی میں مدینہ منورہ سے بارہ افراد مکہ مکرمہ آئے اور انھوں نے منی میں عقبہ کے مقام پر رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست ِ مبارک پر بیعت کی۔
اِس بیعت کا حال انہی بارہ افراد میں سے ایک حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ تم اس بات پر میری بیعت کرو کہ تم ( میرے مدینہ میں پہنچنے کے بعد ) میری ہر اس بات سے حفاظت کرو گے جس سے تم اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں کی حفاظت کرتے ہو ۔ ‘‘
اِس بیعت کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بارہ افراد کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو بھی مدینہ طیبہ روانہ کیا جو اسلام کے پہلے داعی بنے۔ انھوں نے مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بھر پور انداز سے اسلام کی دعوت کو پھیلایا جس کے نتیجہ میں لوگ کثرت سے اسلام قبول کرنے لگے ، حتی کہ مدینہ طیبہ کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جس میں کسی ایک فرد نے بھی اسلام قبول نہ کیا ہو ۔ ان کی دعوت کا سب سے دلچسپ واقعہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ، حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور ان کے پورے قبیلہ (بنی عبد الأشھل ) کے قبولِ اسلام کا واقعہ ہے جو سیرت کی کتب میں موجود ہے ۔
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تقریبا سال بھر مدینہ منورہ میں رہے اور مسلسل لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے رہے ۔ پھر ۱۳ ؁ نبوی کے موسم حج سے قبل آپ مکہ مکرمہ واپس لوٹ گئے اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ مدینہ کے اسلام قبول کرنے کی خوشخبری سنائی ۔
یاد رہے کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ وہ صحابی ٔ رسول ہیں جو جنگِ اُحد میں شہید ہوئے اور جب ان کی تکفین وتدفین کا وقت آیا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کابیان ہے کہ انھیں ان کے کفن کے لئے صرف ایک ہی چادر ملی جو اس قدر چھوٹی تھی کہ اس سے اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور اگر پاؤں ڈھانپے جاتے تو سر ننگا ہوجاتا ۔ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ان کے سر کو ڈھانپ دو اور پاؤں پر اذخر (گھاس) کے پتے ڈال دو ۔ ‘‘
عقبہ کے مقام پر اہلِ مدینہ کی دوسری بیعت
۱۳ ؁ نبوی کے موسمِ حج میں اہلِ یثرب میں سے ستر سے زیادہ مسلمان مناسک ِ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے ۔ ان کے ذہنوں میں ایک ہی بات گردش کررہی تھی کہ آخر کب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے پہاڑوں میں اذیت دی جاتی رہے گی ؟ چنانچہ ان کے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان خفیہ روابط کے بعد طے پایا کہ وہ ایامِ تشریق کے وسط میں عقبہ کے مقام پر آپ سے ملاقات کریں گے ۔ بنا بریں اہلِ یثرب کے ۷۳ مرد اور دو خواتین رات کی تاریکی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ سب سے پہلے انھوں نے گفتگو شروع کی اور کہا :
اے خزرج کی جماعت ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاجو مقام ہم میں ہے وہ تمہیں معلوم ہے ۔اور ہم نے ان کی جس طرح حفاظت کی ہے وہ بھی تم جانتے ہو۔ وہ اپنی قوم میں باعزت ہیں اور اپنے شہر میں بالکل محفوظ ہیں ۔ لیکن انھیں تمہارے پاس آنے پر اصرار ہے ۔ لہٰذا اگر تم ان کی حفاظت کرسکتے ہو توٹھیک ہے اور تمہیں اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی ، لیکن اگر تم نے انھیں رسوا کرنا ہے تو انھیں آج ہی چھوڑ دو کیونکہ وہ اپنی قوم میں اب بھی محفوظ ہیں ۔‘‘
اس پر حضرت کعب رضی اﷲ عنہ نے انتہائی اعتماد کے ساتھ کہا :
’’ ہم نے آپ کی گفتگو سن لی ہے ، اب اے اﷲ کے رسول ! آپ خود ہی فیصلہ کرلیں۔ ‘‘
ان کے یہ الفاظ واضح طور پر بتا رہے تھے کہ اہلِ یثرب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں ، چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
بیعت کے الفاظ کے متعلق مسند احمد میں حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اے اﷲ کے رسول ! ہم کس چیز پر آپ کی بیعت کریں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ :
1۔ چُستی اور سُستی دونوں حالتوں میں میری بات سنوگے اور اطاعت کروگے۔
2۔ خوشحالی اور تنگدستی دونوں حالتوں میں خرچ کروگے ۔
3۔ نیکی کا حکم دوگے اور برائی سے روکو گے ۔
4۔ اﷲ کے لئے اٹھ کھڑے ہوگے اور اس کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہ لاؤگے۔
5۔ اور جب میں تمہارے پاس آجاؤں گا تو تم میری مدد کروگے اور میری اس طرح حفاظت کروگے جیسا کہ تم اپنی جانوں ، اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی حفاظت کرتے ہو۔ یاد رکھو ! اس کے بدلے میں تمہارے لئے جنت ہے۔‘‘
اس کے بعدتمام مسلمانوں نے ایک ایک کرکے بیعت کی۔ بیعت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے بارہ افراد کو نقیب مقرر کیا جو اس معاہدے کو عملی طور پر نافذ کرنے کے ذمہ دار تھے ۔
ہجرت کا آغاز
عقبہ کے مقام پر اہلِ یثرب کی دوسری بیعت کے بعد مسلمانوں کے لئے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا راستہ کھل گیا ، کیونکہ اہلِ یثرب دین اسلام کے لئے جان ومال قربان کردینے کا معاہدہ کرچکے تھے اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مظلوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہر طرح سے مدد کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا چکے تھے۔ مکہ مکرمہ کے ستم زدہ مسلمانوں کو اب ایک پر امن اسلامی وطن تو نظر آرہا تھا لیکن وہاں تک پہنچنا اتنا آسان نہ تھا ، کیونکہ مشرکین مکہ نے بھی انھیں مکہ سے نکلنے کی مہلت نہ دینے کا عزم کر رکھا تھا ۔ تاہم اﷲ رب العزت مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دینے اور اسلام کو غالب کرنے کا ارادہ فرما چکا تھا ، چنانچہ وہی ہوا جس کا اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمالیا تھا ۔
مسلمانوں نے ہجرت کا آغاز کیا اور اپنے آبائی وطن ، اپنے عزیز رشتہ داروں اور اپنے مال ومتاع کوچھوڑ کر سوئے مدینہ طیبہ روانہ ہوئے ۔مشرکین ِ مکہ نے ان کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور ان پر ظلم وتشدد کیا ۔لیکن ظلم وتشدد اور رکاوٹوں کے باوجود مسلمان یکے بعد دیگرے ہجرت کرتے رہے ۔ اور ابھی بیعتِ عقبہ کے بعد دو ماہ اور چند ایام کا عرصہ ہی گذرا تھا کہ مکہ مکرمہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا ، سوائے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور ان کے اہل وعیال اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے جو ابھی تک مکہ مکرمہ ہی میں موجود تھے ۔ اسی طرح وہ مسلمان جنہیں مشرکین نے زبردستی مکہ مکرمہ میں روک رکھا تھا وہ بھی ہجرت نہیں کرسکے تھے ۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت کے لئے تیار تھے ، لیکن اس انتظار میں تھے کہ کب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت دی جاتی ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا :
’’ مجھے وہ شہر خواب میں دکھایا گیا ہے جس کی طرف تم نے ہجرت کرنی ہے ، اس میں کھجور کے درخت بہت زیادہ ہیں اور وہ سیاہ پتھروں والی دو زمینوں کے درمیان واقع ہے ۔ ‘‘
چنانچہ بہت سارے مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرلی، حتی کہ جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی وہ بھی واپس آگئے اور سوئے مدینہ منورہ چلے گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے بھی مدینہ منورہ کے لئے تیاری کرلی تھی لیکن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کہا : ’’ابھی رُک جاؤ ، ہوسکتا ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت دے دی جائے ۔‘‘ تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کہا : میرا باپ آپ پر قربان ہو ، کیا آپ کو اس کی امید ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ ہاں ‘‘ تو ابوبکر رضی اﷲ عنہ رک گئے تاکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ انھوں نے دوسواریوں کو اس سفر کے لئے خوب تیار کر لیا ۔
دار الندوۃ میں قریش کی پارلیمنٹ کا اجلاس
مشرکین ِ مکہ نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان یکے بعد دیگرے مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف جا رہے ہیں تو وہ سخت پریشان ہوئے ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) انتہائی مؤثر شخصیت کے مالک ہیں اور آپ کے ساتھی صبر وتحمل کے پیکر اور بڑے باہمت ہیں ۔ اور آپ کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جغرافیائی اعتبار سے مدینہ منورہ کو کتنی اہمیت حاصل ہے ! مدینہ ان کے تجارتی راستے پر واقع تھا اور انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ اگر مدینہ مسلمانوں کا مرکز بن جاتا ہے تو ان کے تجارتی اہداف شدید خطرات سے دوچار ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ ان خطرات کا سد ِ باب کرنے کے لئے مشرکین نے (دار الندوۃ ) میں ایک تاریخی اجتماع منعقد کیا جس میں تمام قبائلِ قریش کے سرداران اکٹھے ہوئے اور اس بارے میں سوچ بچار کرنے لگے کہ اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ کس طرح کیا جائے جس سے خود ان کا اپنا وجود خطرے میں تھا ۔اس اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں ابوجہل ، جبیر بن مطعم ، عتبہ ، شیبہ ، ابو البختری اور امیہ بن خلف وغیرہ شامل تھے ۔ ابھی اس اجلاس کی کاروائی شروع نہیں ہوئی تھی کہ دار الندوۃ کے دروازے پر ابلیس بھی ایک بوڑھے شیخ کی صورت میں آپہنچا ، سردارانِ قریش نے پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا : میں اہلِ نجد کا ایک شیخ ہوں۔ مجھے معلوم ہوا تھاکہ تم کسی اہم فیصلہ کیلئے جمع ہورہے ہو تو میں نے دل میں کہاکہ میں بھی اس اجتماع میں حاضر ہوجاتا ہوں ، ہوسکتا ہے کہ میں تمہیں کوئی اہم مشورہ دے سکوں !
انھوں نے اسے اجازت دے دی اور وہ اندر جاکر بیٹھ گیا ۔ اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے خلاف مختلف تجاویز پر تبصرہ ہونے لگا۔
ایک تجویز یہ سامنے آئی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جلا وطن کردیا جائے لیکن نجدی شیخ ( ابلیس ) نے اسے رد کردیا ۔
پھر دوسری تجویز یہ پیش کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پابند ِ سلاسل کرکے ان پر دروازہ بند کردیا جائے اور پھر ان کی موت کا انتظار کیا جائے لیکن ابلیس نے اسے بھی رد کردیا ۔
بالآخر سب سے بڑے مجرم ابوحہل نے ایک ایسی تجویز پیش کی جس پر سب نے اتفاق کرلیا اور ابلیس نے بھی اس کی تائید کی ، اس نے کہا :
میری رائے یہ ہے کہ ہم ہر قبیلے میں سے ایک مضبوط اور معزز نوجوان کا انتخاب کریں ، پھر ہر ایک کو ایک تیز دھار تلوار سونپ دیں ، پھر وہ سب مل کر اس کے پاس جائیں اور ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام کردیں ،
اس طرح اس سے ہماری جان چھوٹ جائے گی اور اس کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہوجائے گا ۔ بنو عبد مناف ان تمام سے جنگ کرنے سے عاجز ہوں گے اور دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے ۔ چنانچہ ہم سب مل کر انھیں دیت ادا کردیں گے ۔
نجدی شیخ (ابلیس ) نے اس رائے کو بہت سراہا اور پارلیمنٹ کے تمام ارکان نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی اور اسے فوری طور پر واجب العمل قرار دیکر اجلاس برخاست ہوگیا ۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ظالمانہ منصوبہ تیار ہوگیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں آگاہ کر دیااور انھیں بتلایا کہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ لہٰذا آج رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں ۔
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور ہجرت کا آخری پروگرام طے کیا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ، اچانک کسی نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اطلاع دی کہ دیکھو ! وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھے ہوئے آرہے ہیں ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے اس وقت کبھی ہمارے پاس نہیں آیا کرتے تھے ، تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا :
’’ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضروری امر کی بنا ء پر ہی اس وقت آرہے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی ، حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اجازت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ کے پاس جو دوسرے لوگ ہیں انھیں کسی اور کمرے میں بھیج دو ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ اے اﷲ کے رسول ! یہ آپ کے گھر والے ہی تو ہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ،کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہجرت کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہاں ‘‘ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کہا : تو لیجئے ان دو سواریوں میں سے ایک آپ لے لیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن میں یہ سواری قیمت کے عوض لوں گا ۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : پھر ہم نے دونوں کا سامانِ سفر جلدی سے تیار کیا اور ایک تھیلے میں رکھ دیا ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنی پیٹی کا ایک حصہ کاٹ کر تھیلے کا منہ باندھ دیا ۔اسی لئے انھیں’’ذات النطاقین‘‘ کہا جاتا تھا ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے اور رات کے آنے کا انتظار کرنے لگے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گھیراؤ
ادھر قریش کے مجرموں کو دن بھر سکون نہ آیا اور وہ ’’دار الندوہ ‘‘ میں کئے گئے فیصلے پر عملدر آمد کے لئے پروگرام بناتے رہے۔ انھوں نے اس غرض سے گیارہ نوجوانوں کا انتخاب کیا جن میں ابوجہل ، ابولہب ، اور امیہ بن خلف وغیرہ شامل تھے ۔ان شیطانوں نے رات کا اندھیرا پڑتے ہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئیں اوریہ بیک وقت ان پر حملہ آور ہوکر ان کا خاتمہ کردیں ۔جب آدھی رات گذر چکی تو فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ۔ مجرموں کو یقین تھا کہ آج کے بعد محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ماننے والوں کا نام ونشان ہی باقی نہیں رہے گا ، لیکن اﷲ تعالیٰ ‘ جو کہ زمین وآسمان کی بادشاہت کا مالک ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے ‘ وہ غالب ہے اور اس پر کوئی طاقت غالب نہیں آسکتی ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ‎﴿٣٠﴾
’’اور یاد کیجئے جب کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں ، یا آپ کو قتل کرڈالیں یا آپ کو جلا وطن کردیں۔ وہ تو اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اﷲ اپنی تدبیر کررہا تھا ۔اور سب سے مستحکم تدبیر والا اﷲ ہی ہے ۔‘‘
چنانچہ عین فیصلے کی گھڑی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کہا :
’’ تم میری چادر لپیٹ کر میرے بستر پر سو جاؤ اور فکر مند نہ ہونا ، تمھیں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے ، اپنی مٹھی میں مٹی اٹھائی اورباہر کھڑے مجرموں میں سے ہر ایک کے سر پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالی ۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی بصارت چھین لی تھی جس سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سے قاصر تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی یہ آیت پڑھتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے :
﴿وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ‎﴿٩﴾
’’اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے اور ایک آڑ ان کے پیچھے کردی جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا۔ تو وہ دیکھ نہیں سکتے تھے ۔‘‘
پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف لے گئے ، وہاں سے انھیں اپنے ساتھ لے کر غارِ ثور جا پہنچے ، غارِ ثور مکہ مکرمہ سے یمن کی جانب ہے نہ کہ مدینہ منورہ کی جانب ۔شایداس میں یہ حکمت پنہاں تھی کہ کفارِ قریش کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا علم ہوگا تو وہ یقینا مدینہ کی طرف جانے والے راستوں پر آپ کا پیچھا کریں گے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بچنے کے لئے اپنا رُخ ابتدائے سفر سے ہی تبدیل کرلیا تاکہ کفار بآسانی آپ کا پیچھا نہ کرسکیں ۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غارِ ثور میں
دونوں مسافر رات کے اندھیرے میں ایک کٹھن اور انتہائی مشکل راستہ طے کرکے غارِ ثور تک پہنچے ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر رُکنے کے لئے کہا اور خود اندر چلے گئے ۔ اندر جاکر اسے صاف کیا ، اس کی ایک جانب ایک سوراخ دیکھا تو اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس کا منہ بند کردیا ۔ ابھی دو سوراخ اور بھی تھے جن میں انھوں نے اپنے پاؤں رکھ دئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر تشریف لانے کے لئے کہا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے اور اپنے یارِ غار حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی گود میں سر رکھ کر سوگئے ۔ اس دوران حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے پاؤں پر کسی زہریلے جانور نے کاٹا لیکن آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کی خاطر بالکل حرکت نہ کی۔ البتہ آپ کے آنسو نہ رُک سکے ۔ چند آنسو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھی گرے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے رونے کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! کسی چیز نے مجھے کاٹ لیا ہے ۔ تو آپ اٹھے اور جس جگہ پر زہریلے جانور نے کاٹا تھا وہاں آپ نے اپنا لُعابِ مبارک لگایا ۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا درد جاتا رہا ۔
اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ’’ پھر نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اﷲ عنہ ایک غار میں جا پہنچے جو جبل ِ ثور میں واقع ہے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین راتیں ٹھہرے رہے ۔ رات کو ان کے پاس حضرت عبد اﷲ بن ابی بکر رضی اﷲ عنہ بھی پہنچ جاتے ، یہ ایک ذہین اور سمجھ دار نوجوان تھے ، دن بھر قریش کے ساتھ رہتے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو خبر سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے ۔ پھر رات کا سایہ پڑتے ہی غارِ ثور میں پہنچ جاتے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری رپورٹ سنا دیتے۔ پھر سحری کے وقت غار سے نکل کر مکہ پہنچ جاتے اور قریش یہی سمجھتے کہ اس نوجوان نے مکہ ہی میں رات گذاری ہے ۔اس کے علاوہ عامر بن فہیرہ ‘ جو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے غلام تھے ‘دن کے وقت بکریاں چراتے رہتے اور شام ہوتے ہی بکریاں غار ثور کی طرف ہانک کر لے جاتے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو بکریوں کا دودھ پیش کرتے اور صبح کی روشنی پھیلنے سے پہلے ہی وہاں سے چلے جاتے ۔‘‘
قریش غارِ ثور کے دہانے پر
نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر سے نکلنے کے بعد ایک شخص ان مجرموں کے پاس سے گذرا جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ۔ اس نے ان سے پوچھا : تم کس کا انتظار کررہے ہو ؟ انھوں نے کہا : محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا : اس نے کہا : تم رُسوا ہوچکے ہو اور خسارہ پاچکے ہو ! ﷲ کی قسم ! وہ تمہارے درمیان سے نکل کر جاچکے ہیں اور وہی تمہارے سروں پر مٹی ڈال کر گئے ہیں ۔ چنانچہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ آرام کررہے ہیں ۔ انھوں نے صبح ہونے کا انتظار کیا اور جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ بیدار ہوئے تو مجرموں نے ان سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے کہا : مجھے کوئی علم نہیں۔ مجرموں نے انھیں مارا پیٹالیکن وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی معلومات لینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر وہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے گھر آئے ، دروازہ کھٹکھٹایا ، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہما در وازے پر آئیں ۔ مجرموں نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا : مجھے ان کے متعلق کوئی خبر نہیں ہے ۔ ظالم ابوجہل نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور انھیں طمانچہ دے مارا جس سے ان کے کان کا زیور نیچے گرگیا ۔
اس کے بعد قریش نے ہنگامی طور پر مکہ مکرمہ سے باہر جانے والے تمام راستوں پر سیکورٹی سخت کردی اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ میں سے ہر ایک کو زندہ یا مردہ حالت میں لانے والے شخص کے لئے سو سو اونٹ کے بہت بڑے انعام کا اعلان کردیا ۔
چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو پہاڑوں میں ، وادیوں میں ، غاروں میں اور گلی کوچوں میں انتہائی تیزی سے تلاش کیا جانے لگا ۔ قریش کے سراغ رساں افراد گھوڑوں اور اونٹوں پراور پاپیادہ سرگرم ہوگئے ۔ تلاش کرتے کرتے وہ اس غار کے دہانے پر جا پہنچے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ موجود تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں غار میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا ، میں نے اپناسر اوپر کواٹھایا تو مجھے تلاش کرنے والے لوگوں کے قدم نظر آئے ۔ میں نے کہا : اے ﷲ کے نبی ! اگر ان میں سے کسی شخص نے اپنی نظر نیچے جھکالی تو وہ یقینًا ہمیں دیکھ لے گا ۔
تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یَا أَبَا بَكر،مَا ظَنُّكَ بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُہُمَا))
’’اے ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا ﷲ ہے ۔‘‘

یقینی طور پریہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ دشمن چند قدموں کے فاصلے پر پہنچ کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اذیت نہ پہنچا سکے اور خائب وخاسر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔
فرمانِ الٰہی ہے:
﴿إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ‎﴿٤٠﴾
’’اگر تم ان کی مدد نہ کرو تو ﷲ ہی نے ان کی اس وقت مدد کی جبکہ انھیں کافروں نے ( وطن سے ) نکال دیا تھا ، دو میں سے دوسرا ، جب کہ وہ دونوں غار میں تھے ۔ جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے : غم نہ کر اﷲ ہمارے ساتھ ہے ۔ پس اللہ نے اپنی طرف سے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کی ان لشکروں سے مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔اس نے کافروں کا کلمہ پست کردیا اور بلند تو اﷲ کا کلمہ ہی ہے ۔ اﷲ غالب ہے حکمت والا ہے ۔‘‘
مدینہ منورہ کے راستے میں
مکہ مکرمہ میں جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی تلاش کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سمیت مدینہ منورہ کی طرف روانگی کے لئے تیار ہوگئے۔عبد اﷲ بن اریقط اللیثی سے جوکہ راستوں کے بارے میں بخوبی جانتا تھا یہ بات پہلے سے طے تھی کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی طرف سے خوب تیار کی ہوئی دو اونٹنیاں لے کر غارِ ثور پہنچے گاجہاں سے سفرِ مدینہ کا آغاز ہونا تھا۔ چنانچہ وہ حسبِ وعدہ تین راتوں کے بعد غارِ ثور پہنچ گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ، ان کے غلام عامر بن فہیرہ اور ان سب کے راہبر عبد اﷲ بن اریقط پر مشتمل یہ قافلہ ٔ ہجرت سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوا ۔ اس سفر کی روئیداد صحیح بخاری میں مروی ہے ۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ’’ اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر اپنے پیچھے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو بٹھا یا ہوا تھا ، حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ بوڑھے تھے اور پہچانے جاتے تھے جبکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جوان تھے اور پہچانے نہیں جاتے تھے۔ راستے میں کوئی شخص حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے ملتا تو وہ ان سے پوچھتا : ابوبکر! یہ کون ہیں جو آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ؟ تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ جواب دیتے :’’ یہ راستے کی طرف میری راہنمائی کرتے ہیں۔ ‘‘ سننے والا یہی گمان کرتا کہ شاید یہ سفر کے راستے کی راہنمائی کرنے والا شخص ہے حالانکہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا قصد یہ ہوتا کہ یہ خیر کے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں …سفر کے دوران حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا توانھیں اچانک معلوم ہوا کہ کوئی گھوڑ سوار ان کا تعاقب کررہا ہے ۔ انھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے کی طرف التفات فرمایا اور اسے بددعا دیتے ہوئے فرمایا : ’’اے اﷲ ! اسے پچھاڑ دے ۔‘‘
چنانچہ گھوڑے نے اسے نیچے گرادیا اور ہنہنانے لگا ۔ سوار نے کہا : اے اﷲ کے نبی ! مجھے آپ جو چاہیں حکم دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنی جگہ پر رک جاؤ اور کسی کو ہمارا تعاقب نہ کرنے دینا ۔‘‘ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ یہ گھوڑ سوار دن کے شروع میں اﷲ کے نبی کا دشمن تھا اور دن کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محافظ بن گیا۔
قصۂ سُراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ خود انہی کی زبانی
صحیح بخاری میں حضرت سُراقہ بن مالک رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس کفارِ قریش کے کئی نمائندے آئے اور انھوں نے بتایا کہ قریش نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو قتل کرنے یا زندہ پکڑ کر لانے والے شخص کے لئے بھاری انعام کا اعلان کیا ہے ۔ ایک دن میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا ، ایک شخص آیا اور کہنے لگا : میں نے ابھی ساحلِ سمندر پر کچھ سائے دیکھے ہیں ، میرا خیال ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھی ہیں ۔
سُراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں جان گیا کہ وہ وہی ہیں لیکن میں نے اس آدمی سے کہا : نہیں وہ کوئی اور ہونگے ! شاید تم نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے جو ابھی ہمارے سامنے یہاں سے گذرے تھے ۔
پھر میں مجلس میں کچھ دیر تک بیٹھا رہا ، اس کے بعد اٹھا اور گھر پہنچ کر میں نے اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ میرا گھوڑا لیکر ایک ٹیلے کے پیچھے میرا انتظار کرے ۔ میں نے اپنا تیر اٹھایا اور گھر کی پچھلی جانب سے نکل گیا ۔ پھر تیزی سے دوڑ کر اس ٹیلے تک جاپہنچا جہاں میری لونڈی میرا انتظار کر رہی تھی ۔ میں گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے ایک دم دوڑادیا ، حتی کہ میں جب ان کے قریب پہنچا تو میرے گھوڑے کے پاؤں پھسل گئے اور میں نیچے گرگیا ۔ میں اٹھا اور فال کے تیر اپنے تھیلے سے باہر نکالے ، پھر میں نے فال نکالا کہ کیا میں انھیں کوئی نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں ؟ تو قرعہ ’نہیں ‘ میں نکلا ۔ لیکن میں نے ان تیروں کی نافرمانی کی اور پھر گھوڑے پر سوار ہوگیا ۔میں ان کے اتنا قریب جاپہنچا کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کی آواز سنی ، حالانکہ وہ پیچھے کی جانب التفات نہیں فرمارہے تھے جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بار بار پیچھے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ اچانک میرے گھوڑے کے ہاتھ گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے ۔ میں نیچے گرگیا اور گھوڑے کو ڈانٹنے لگا ۔ گھوڑے نے بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ زمین سے باہر نکالے اور کھڑا ہوگیا ۔اس کے ہاتھوں کے ساتھ ہی آسمان کی طرف غبار آلود دھواں بلند ہوا ، چنانچہ میں نے پھر قرعہ نکالا اور پھر بھی وہی نتیجہ نکلا جو پہلے نکلا تھا ۔ اب میں نے انھیں امن کے ساتھ پکارا تو وہ رُک گئے ، میں گھوڑے پر سوار ہوا اور ان کے پاس پہنچ گیا ۔ میرے دل میں ایک بات آئی کہ جو کچھ آج میرے ساتھ ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امر ایک دن ضرور غالب آجائے گا ۔ میں نے ان سے کہا : آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنے یا قیدی بنانے پر انعام کا اعلان کررکھا ہے ۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کی خبریں بھی سنادیں اور میں نے زادِ راہ اور ساز وسامان کی پیشکش کی تو انھوں نے اسے ٹھکرادیا ۔
بس اتنا کہا کہ : ’’ ہمارے بارے میں کسی کو نہ بتانا ۔‘‘ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ وہ مجھے امن کی کوئی نشانی لکھ کردے دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا کہ وہ لکھ کردیں ۔ چنانچہ انھوں نے رنگے ہوئے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر مجھے امان لکھ کردی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوگئے ۔
خیمۂ امِ معبد میں
امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں ہشام بن حبیش بن خویلد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلۂ ہجرت امِ معبد کے دو خیموں کے پاس سے گذرا ۔ یہ عورت مسافروں کو کھلاتی پلاتی تھی۔ قافلۂ ہجرت نے امِ معبد سے گوشت اور کھجور خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انھیں اس کے پاس کچھ بھی نہ ملا ۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کو دیکھا تو ام معبد سے اس کے متعلق پوچھا۔ ام معبد نے کہا کہ یہ بکری انتہائی تھکی ماندی ہے اور بکریوں کے ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :کیا یہ دودھ دیتی ہے ؟ ام معبد نے کہا :نہیں یہ تو انتہائی لاغر وکمزور ہے ! آپ نے اس سے دودھ دوہنے کی اجازت طلب کی ۔اس نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ اگر اس میں دودھ ہے تو آپ اسے نکال سکتے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا ، بسم اﷲ پڑھی اور ﷲ تعالیٰ سے دعا مانگ کر اسے دوہنا شروع کردیا۔ بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے اور آپ ام معبد کے ایک برتن میں دودھ نکالنے لگے۔ برتن بھر گیا حتی کہ دودھ کی جھاگ اس کے منہ تک آگئی ۔ آپ نے سب سے پہلے ام معبد کو دودھ پلایا۔پھر اپنے ساتھیوں کو اور آخر میں خود سیر ہوکر دودھ پیا۔ پھر دوسری بار اسے دوہا تو پھر بھی برتن بھر گیا۔ اس کے بعد آپ آگے روانہ ہوگئے …الخ ‘‘ یاد رہے کہ اس کی سند میں بعض محدثین نے کلام کیا ہے۔ واﷲ اعلم
عزیزان گرامی ! یہ تھے مدینہ منورہ میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے تک کے ہجرت کے واقعات ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان واقعات کو سمجھنے اور ان سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔آمین
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! پہلے خطبہ میں آپ نے ہجرت کے فضائل اور ہجرتِ مدینہ کے متعلق تفصیل سے ہماری چند گذارشات کو سنا ۔ آئیے اب یہ بھی سماعت فرما لیں کہ مدینہ منورہ پہنچنے پر اہل ِ مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیسے کیا ؟
قباء میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام اور مدینہ میں استقبال
اہلِ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا بڑی بے تابی سے انتظار کررہے تھے۔ ان کے شوق کا عالم کیا تھا اِس کے بارے میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت سماعت فرمائیے ۔
ان کا بیان ہے کہ مدینہ منورہ جاتے ہوئے راستے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ سے ملاقات ہوئی جو مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام سے لوٹ رہے تھے ۔ تو حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو سفید کپڑے بطور ہدیہ پیش کئے۔ ادھر اہلِ مدینہ کو جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت کا علم ہوا تو وہ ہر صبح کو الحرّۃ کی طرف نکلتے اور دوپہر کی گرمی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہتے ۔ ایک دن وہ لمبے انتظار کے بعد واپس پلٹ کر اپنے گھروں میں پہنچے ہی تھے کہ ایک یہودی اپنی کسی ضرورت کے تحت ایک ٹیلے پر چڑھا ۔ اس نے اچانک سفید کپڑوں میں ملبوس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو دیکھا ۔ اس پر اس سے رہا نہ گیا اور بے قابو ہوکر اس نے بلند آواز سے اعلان کرتے ہوئے کہا:
اے عربوں کی جماعت ! یہ تمہارا بزرگ آگیا ہے جس کا تم انتظار کررہے تھے ۔
یہ سن کرمسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ انھوں نے اپنا اسلحہ اٹھایا اور ( الحرۃ )کے قریب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم استقبال کرنے والوں کے ساتھ دائیں طرف مڑ گئے اور بنی عمرو بن عوف میں اترے۔ یہ ربیع الأول کے مہینے میں سوموار کا دن تھا ۔ وہاں پر حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کھڑے ہوکر لوگوں کا استقبال کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے بیٹھے رہے ۔ انصارِ مدینہ میں سے جن لوگوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا وہ آتے اور حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو سلام کرتے ۔ جب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوپ لگنے لگی تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کیا ۔اس سے لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف ( قباء ) میں دس سے زیادہ راتوں تک ٹھہرے رہے ۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد (مسجد قباء ) کی بنیاد رکھی جس کے بارے میں قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ﴾
’’ جس مسجد کی اساس پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی وہ زیادہ حق رکھتی ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔‘‘
اُس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ۔ پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور لوگوں کے ساتھ چلنے لگے ، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری اس جگہ پربیٹھ گئی جہاں اب مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے ۔ وہاں اس وقت چند مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ جگہ در اصل سہیل رضی اللہ عنہ اور سہل رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھی جو کہ یتیم تھے اور حضرت اسعد بن زرارہ رضی اﷲ عنہ کی گود میں پرورش پاتے تھے ۔اس کو کھجوروں کے خشک کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری وہاں پر بیٹھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إن شاء اﷲ یہی ہماری منزل ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کا سودا کرنا چاہاتاکہ وہاں مسجد تعمیر کرسکیں ۔ بچوں نے کہا : نہیں ، اے اﷲ کے رسول ! ہم تو اسے آپ کیلئے ہبہ کریں گے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ ہبہ کے طور پر لینے سے انکار کردیا اور اسے ان سے خرید لیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں مسجد بنائی ۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے رہے ۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب (الحرّۃ کی ایک جانب ) اترے اور انصارِ مدینہ کو بلوایا ۔ چنانچہ وہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے ملے اور ان سے گذارش کی کہ اب آپ مکمل طور پرمحفوظ ہیں۔ لہٰذا آپ سوار ہوجائیں اور آپ جو بھی حکم دیں گے آپ کی اطاعت کی جائے گی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سوار ہوگئے اور انصارِ مدینہ مسلح ہوکر ان کے ساتھ چلنے لگے ۔ ادھر مدینہ منورہ میں اعلان ہوگیا کہ ’’ اﷲ کے نبی پہنچ گئے ہیں ۔‘‘ تو لوگ دیواروں اور چھتوں پر چڑھ کر بے تابی سے آپ کا انتظار کرنے لگے اور خوشی سے بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ ’’ اﷲ کے نبی پہنچ گئے ہیں ۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے چلتے آخر حضرت ابو ایوب رضی اﷲ عنہ کے گھر کے قریب اتر گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کس کا گھر زیادہ قریب ہے ؟ حضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ نے کہا : اے ﷲ کے نبی ! میرا گھر زیادہ قریب ہے ، یہ دیکھیں ! یہ ہے میرا گھر اور یہ ہے میرا دروازہ ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے ، اندر چلو اور ہمارے آرام کیلئے جگہ تیار کرو ۔ حضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ نے کہا : آپ دونوں اﷲ کی برکت سے تشریف لائیے۔
مستدرک حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ کے گھر کی دو منزلیں تھیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے گھر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نچلی منزل میں تشریف فرما ہوئے اور حضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ اپنی بیوی سمیت اوپر والی منزل میں تھے ۔ ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بات پر نا پسندیدگی ظاہر کی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہمارے لئے اور ہمارے پاس آنے والے لوگوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ ہم نیچے ہی رہیں ۔‘‘
اُدھر عبد اﷲ بن سلام ، جو اس وقت کھجوروں کے باغ میں پھل چن رہے تھے جلدی جلدی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سننے کے بعد کہنے لگے : ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں اور آپ حق لیکر آئے ہیں۔اور یہودیوں کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ان کا سردار اور ان کے سردار کا بیٹا ہوں ۔ اور ان میں سب سے بڑا عالم اور سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہوں ۔ لہٰذا آپ انھیں بلائیں اور اس سے پہلے کہ وہ میرے اسلام لانے کے بارے میں جانیں ان سے میرے بارے میں پوچھیں ، کیونکہ اگر انھیں میرے اسلام لانے کا علم ہوگیا تو وہ میرے بارے میں سچ نہیں بولیں گے ۔ چنانچہ ﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلوایا اور فرمایا :
’’ اے یہود کی جماعت ! اﷲ سے ڈرو ۔ اس اﷲ کی قسم جس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ! تمہیں یہ بات معلوم ہے کہ میں یقینًا اﷲ کا رسول ہوں اور تمھارے پاس حق لیکر آیا ہوں ، لہٰذا تم اسلام قبول کرلو۔‘‘
یہودیوں نے کہا : ہم اسے ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) نہیں جانتے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ بتاؤ کہ عبد اللہ بن سلام تم میں کیسا آدمی ہے ؟
کہنے لگے : وہ تو ہمارا سردار اور ہمارے سردار کا بیٹا ہے ۔ اور ہم میں سب سے بڑا عالم اور سب سے بڑے عالم کا فرزند ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ اسلام قبول کرچکا ہو تو ؟
انھوں نے کہا : ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی سوال دو مرتبہ دہرایا اور وہ بھی ایک ہی جواب دیتے رہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد ﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ سے فرمایا : ’’ اب تم ان کے سامنے آؤ ۔‘‘ چنانچہ وہ یہودیوں کے سامنے آئے اور کہنے لگے : ’’ اے یہود کی جماعت ! اﷲ سے ڈرو ۔ اور اس اﷲ کی قسم جس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ! تمہیں یہ بات معلوم ہے کہ یہ اﷲ کے رسول ہیں اور تمہارے پاس حق لیکر آئے ہیں ! تو انھوں نے کہا : نہیں ، تم جھوٹ بولتے ہو ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو چلے جانے کا حکم دیا ۔
اور حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں :
’’ مہاجرین میں سب سے پہلے ہمارے پاس حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبد اﷲ بن ام مکتوم رضیا ﷲ عنہ آئے اور یہ دونوں لوگوں کو قرآن مجید پڑھانے لگے ۔پھر حضرت عمار رضی اﷲ عنہ ، پھر حضرت بلال رضی اﷲ عنہ او ر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ آئے ، اس کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ چالیس سواروں کے ساتھ پہنچے ، پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر اس قدر خوشی کا اظہار کررہے تھے کہ شاید اتنی خوشی کا اظہار انھوں نے کبھی نہ کیا ہو ، حتی کہ میں نے عورتوں ، بچوں اور لونڈیوں تک کو دیکھا کہ وہ بھی یہ کہتی پھر رہی تھیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ چکے ہیں۔ ‘‘
اور حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے وہ دن دیکھا جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تھے ۔ وہ دن اتنا اچھا تھا کہ اس سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ روشن دن میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اور میں نے وہ دن بھی دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ۔ وہ دن اتنا غمناک تھا کہ اس سے زیادہ قبیح اور زیادہ تاریک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔‘‘
معزز حضرات!ہجرت کے واقعات آپ نے تفصیلا سماعت کئے، ان میں کئی عبرت کی باتیں اور متعدد سبق آموز چیزیں موجود ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ جب اللہ کے بندے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں،اس کے دین کی نصرت کرتے ہیں اور اس راستے میں آنے والی مشکلات پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی انھیں مشکل گھڑیوں میں اکیلا نہیں چھوڑتا بلکہ ان کا ساتھ دیتا ہے اور ان کیلئے مشکلات سے نکلنے کے راستے بنا دیتا ہے۔ جیسا کہ اس نے انتہائی مشکل گھڑیوں میں اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورانکے ماننے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ساتھ دیا ،انھیں اہلِ مکہ کی اذیتوں سے نجات دی اور انھیں مدینہ منورہ میں پر امن ٹھکانا نصیب فرمایا ۔
ہجرتِ مدینہ کا واقعہ یقینی طور پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا اہم ترین واقعہ تھا جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں پہلی اسلامی مملکت کی تشکیل عمل میں آئی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار سے جنگ کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں حق وباطل کے درمیان فرق واضح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہوئے وعدے پورے کردئے اور اسلام کو غلبہ اور بول بالا عطا کیا ۔
ہجرتِ مدینہ کی اسی اہمیت کے پیش ِ نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی تاریخ کا آغاز اسی یادگار واقعہ سے کیا ، لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمانوں نے اپنی اسلامی تاریخ کو بھلا دیا ہے اور وہ اس پر غیر اسلامی تاریخ کو ترجیح دینے لگے ہیں ۔ حالانکہ اسلام کے بہت سارے احکامات کا تعلق اسلامی مہینوں سے ہے ۔ مثلا ماہِ رمضان کے روزے ، فریضۂ حج ، زکاۃ کی فرضیت ، عاشوراء کا روزہ ، ہر اسلامی مہینے میں تین دن کے مسنون روزے ، شعبان کے روزے ، یومِ عرفہ کا روزہ اور عیدین وغیرہ ۔ اور اسلامی تاریخ امتِ مسلمہ کا تشخص ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اس کی اہمیت کو جانیں اور اپنے تشخص کو زندہ رکھیں ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
وفات سے تاریخ کو شمار کیا بلکہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری سے اس کا حساب کیا ۔ ‘‘
اس کا سبب یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمارے پاس خطوط آتے ہیں جن پر تاریخ درج نہیں ہوتی ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا ۔ بعض نے کہا : بعثت سے شمار کریں اور بعض نے کہا : ہجرت سے شمار کریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
(الہجرۃ فرقت بین الحق والباطل فأرخوا من الہجرۃ)
’’ ہجرت نے حق وباطل کے درمیان فرق کیا لہٰذا ہجرت ہی سے تاریخ کا حساب کریں ۔ یہ ۱۷ھ؁ کا واقعہ ہے ۔ ‘‘
جبکہ ابن سیرین کہتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے آیا تو اس نے کہا : میں نے یمن میں ایک چیز دیکھی ہے جسے تاریخ کہتے ہیں ۔ اس میں وہ سال و ماہ کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ تو بہت اچھی بات ہے، تم بھی تاریخ کا حساب کیا کرو ۔ چنانچہ جب انھوں نے اس کا عزم کرلیا تو بعض نے کہا : نبی کریم رضی اللہ عنہ کی ولادت سے ، کسی نے کہا : بعثت سے ، کسی نے کہا : ہجرت سے اور کسی نے کہا : وفات سے حساب کریں ۔ تو انھوں نے کہا : ہجرت سے اس کا حساب کریں ۔
جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ہجرتِ مدینہ کا واقعہ ماہِ ربیع الاول میں پیش آیا ، لیکن جب تاریخ کا آغازکیا گیا تو ماہِ محرم سے کیا گیا ۔ کیوں ؟ اس کا سبب بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یہ ہے کہ اصل میں ہجرت پر عزم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ محرم میں ہی کر لیا تھا کیونکہ مدینہ سے آئے ہوئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے آپ نے جو بیعت لی تھی وہ ذو الحج کے مہینے میں تھی ۔ اوریہی بیعت در حقیقت تمہید بنی ہجرتِ مدینہ کیلئے ۔ اس کے بعد چو پہلا مہینہ تھا وہ محرم کا ہی تھا ۔ اس لئے اسی مہینے سے تاریخ کو شمار کیا گیا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے ۔ آمین