حکمت ایک قابل رشک نعمت ہے
﴿یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ۲۶۹﴾ (البقرة:269)
’’جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ، اور جس کو حکمت ملی ، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی ۔‘‘
گفتگو میں گذشتہ جمعوں میں حکمت کی ضرورت واہمیت جاننے کی کوشش کی گئی ، آج کی گا اس حوالے سے مزید کچھ جاننے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ ۔ کیونکہ جب تک کسی چیز کی اہمیت سمجھ میں نہیں آتی اور انسان اُس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا تو دل میں اس کی رغبت پیدا نہیں ہوتی ، ذوق اور شوق پیدا نہیں ہوتا، چنانچہ انسان اس کے حصول کے لیے حرکت میں نہیں آتا ، سعی وجد جہد نہیں کرتا، تو گویا کسی کام کے کرنے سے پہلے اس کی ضرورت و اہمیت سمجھنا اور دل میں اس کا ذوق و شوق اور رغبت پیدا ہونا ضروری ہے۔
قرآن پاک میں اہل ایمان کو نیکی اور عمل صالح کا جابجا حکم دیا گیا ہے اور ایسے ہی انبیاء و رسل علیہم السلام کو بھی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا: ((أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا .))
’’اے لوگو! اللہ تعالی پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے۔‘‘
((وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ ))
’’ اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن کا رسل علیہم ا لسلام کو حکم دیا ہے۔‘‘
فَقَالَ: ﴿يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيْمٌ ﴾ (المؤمنون:51)
’’اللہ تعالی نے انبیاء ورسل علیہم السلام کو حکم دیتے ہوئے فرمایا اے پیغمبرو! کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اُس کو خوب جانتا ہوں ۔‘‘
وَقَالَ تَعَالَى: ﴿يٰأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ﴾ (البقرة:172)
’’اور اہل ایمان کو فرمایا: اے ایمان والو! جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘
(صحیح مسلم:1015)
چنانچہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو جن باتوں کا حکم دیا انہی باتوں کا انبیاء و رسل علیہم السلام سلام کو بھی حکم دیا ہے، بلکہ انبیاء ورسل علیہم السلام کو کچھ اضافی نیکیوں کا بھی حکم دیا ، جیسا کہ اشراق کی نماز تہجد ، وتر اور قربانی و غیرہ آپ سے کام پر فرض تھیں ، مگر امت پر فرض نہیں ہیں۔ تو جہاں اللہ تعالی نے نیکیوں کا حکم دیا وہاں اُن کی رغبت اور ذوق و شوق پیدا کرنے کے لیے اُن کے فضائل کا ذکر کیا ان کا اجر وثواب بتلایا، تاکہ لوگوں کے دلوں میں وہ اعمال بجالانے کی ہمت ، عزم اور جذ بہ پیدا ہو۔ آئے کچھ ایسے ہی حکمت کی ضرورت واہمیت کو سمجھنے اور دل میں اس کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لیے کچھ مزید اس پر گفتگو کرتے ہیں۔
حکمت کی ضرورت واہمیت کو سمجھنے کے لیے کچھ باتوں کا گذشتہ جمعوں میں ذکر ہوا، جیسا کہ اللہ تعالی کا حکمت کو خیر کثیر قرار دینا ،
﴿وَمَن يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا﴾
’’جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دے دی گئی‘‘
اور اسی طرح حکمت کی تعلیم دینا انبیاء علیہم السلام کا فرض منصبی بتلانا، ﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ﴾ ’’ آپ ﷺ لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح حکمت کی اہمیت کے حوالے سے ایک آپ ﷺکا یہ فرمان ہے: فرمایا: ((لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثنتين . )
’’حسد صرف دو چیزوں میں ہے۔‘‘
((رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ))
’’ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے مال دیا، تو اُس نے اُس کو راہ حق میں ہلاک کرنے اور لٹا دینے پر لگا دیا۔‘‘
((وَآخَرُ آتَاهُ اللهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا))(صحيح البخاری:7141)
’’اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالی نے حکمت عطا کی اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
حسد صرف دو چیزوں میں جائز ہے، یہاں حسد سے مراد رشک ہے، کیونکہ حسد اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے کسی صورت میں اور کسی چیز میں جائز نہیں ہے، کیونکہ حسد کا مطلب ہے: خواہش کرنا کہ کوئی مخصوص نعمت اور خوبی جو فلاں کے پاس ہے کہ جس سے حسد کیا جا رہا ہے چھن جائے اور اُسے (یعنی حسد کرنے والے کو ) مل جائے اور یہ نہایت ہی گھٹیا اور کمینہ یکنا ہے اور دوسرے یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور فیصلے پر اعتراض ، اس سے انکار ہے اور اس کا شکوہ ہے لہٰذا حسد کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
یہاں لفظ حسد استعار تًا استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ لوگ اس سے مانوس وما لوف اور واقف ہیں۔ رشک میں یہ خواہش تو شامل ہے کہ ایسی نعمت رشک کرنے والے کو بھی مل جائے ، مگر یہ خواہش ہرگز نہیں ہوتی کہ فلاں شخص سے چھن جائے۔ اصل میں کوئی ایسی خواہش کرنا سرے سے جائز ہی نہیں جس سے اللہ تعالی نے کسی دوسرے کو خصوصی طور پر نوازا ہو اور فضیلت دی ہو۔ بالخصوص کوئی ایسی نعمت، خوبی، حیثیت اور مقام و مرتبہ کہ جس سے اللہ تعالی نے کسی دوسرے کو نوازا ہو شرعا و قدرا ممکن ہی نہ ہو، جیسا کہ کوئی عورت خواہش کرے کہ وہ مرد ہو جائے اور کوئی مرد خواہش کرے کہ وہ عورت ہو، یا کوئی خواہش کرے کہ کاش وہ کسی امیر آدمی کے یا کسی نیک آدمی کے گھر پیدا ہوتا، یا کوئی خواہش کرے کہ وہ صحابی ہوتا، تو ایسی خواہشات سرے سے ہی جائز نہیں چہ جائیکہ آدمی کسی سے حسد کرے جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا:
((يَا رَسُولَ اللهِ يَغْزُو الرِّجَالُ وَلَا نَغْزُو، وَإِنَّمَا لَنَا نِصْفُ الميراث))
’’اے اللہ کے رسول ﷺ! مرد لوگ جہاد کرتے ہیں اور ہم جہاد نہیں کرتیں اور ایک حدیث میں ہے کہ ہم شہید نہیں ہوتیں، اور ہمارا وراثت میں بھی صرف آدھا حصہ ہے۔‘‘
((فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿وَلَا تَتَمَنُّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ﴾ (النساء:32) (صحيح
الترمذي (الألباني: اسناده صحیح):3022)
’’تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو کچھ اللہ تعالی نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے، اس کی تمنا نہ کرو۔‘‘
﴿وَسْئَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلِهِ﴾ (النساء:32)
’’اور اللہ تعالی سے اُس کے فضل کی دعا مانگتے رہو۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے: آپ ﷺنے فرمایا:
((سَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ.)) ’’اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو‘‘
((فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ أَنْ يُسأَلَ))
’’اور اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ اُس سے سوال کیا جائے ، دعا مانگی جائے ۔‘‘
((وَإِنَّ أَفْضَلَ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الفَرَجِ مِنَ اللهِ))
(مسند البزار:6297)
’’اور سب سے افضل عبادت اللہ تعالی کی طرف سے وسعت و کشادگی کا انتظار ہے۔‘‘
یعنی کسی تنگی، تکلیف، کمی اور محرومی پر اللہ تعالی سے اُس کے فضل کا سوال کرنا اور پھر گھبراہٹ اور بے چینی کا اظہار نہ کرتا کہ کب مصیبت ملے گی اللہ کا فضل ہوگا بلکہ اللہ تعالی کی مدد کا انتظار کرنا سب سے افضل عبادت ہے۔
اندازہ کریں ایسی نیکی کی خواہش کرنا بھی منع ہے جسے اللہ تعالی نے کسی حکمت کی بنا پر کسی کو اُس سے محروم رکھا ہو، جیسا کہ کسی عورت کے جہاد کرنے اور شہید ہونے کی خواہش جو کہ یقینًا ایک نیک خواہش ہے، مگر چونکہ اللہ تعالی نے حکمت کے تحت اُس کو اُس سے محروم رکھا ہے اور اسے متقی قرار دیا ہے، اس لیے وہ نیک خواہش بھی جائز نہیں ہے۔
اس کے بجائے اللہ تعالی نے عورت کو آسان کاموں کے بدلے اتنا بڑا انعام دینے کا وعدہ فرمایا ہے کہ جو ہر ایک مرد کو بھی نصیب نہیں ہو سکتا اور وہ یہ ہے کہ حدیث میں ہے،آپ ﷺ نے فرمایا:
((اِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا ، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَصَّنَتْ فرجها، وأطاعت بعلها، دخَلَتْ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَتْ)) (صحيح الترغيب (للألباني):2411)
’’جب عورت پانچ نمازیں پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے، شرمگاہ کی حفاظت کرلے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرنے، (جائز کاموں میں)۔ تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ۔‘‘
جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جس کو اس بات کی اجازت اور اختیار دیا جائے گا کہ جس دروازے میں سے چاہے داخل ہو جائے یہ بہت بڑا اعزاز ہے، جو ایک سوال کے جواب میں بھری مجلس میں سے صرف حضرت ابوبکر الصدیق بنی اللہ کو اس اعزاز اور شرف کی خوشخبری دی گئی ہے۔
اسی طرح عورت کے لیے حج کو جہاد کے قائم مقام قرار دیا، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں:
((اِسْتَاْذَنْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْجِهَادِ))
’’کہ میں نے آپ ﷺسے جہاد کی اجازت طلب کی ۔‘‘
((فَقَالَ: جِهَادُ كُنَّ الْحَجُّ)) (صحيح البخاري:2875)
’’تو فرمایا: تمہارا جہاد حج ہے۔‘‘
بلکہ ایک حدیث میں عورت کے لیے حج کو افضل جہاد قرار دیا:
((لٰكِنَّ أَفْضَلُ الْجِهَادِ حَجَّ مَبْرُوْرٌ)) (صحيح البخاری ، کتاب الحج:1520)
’’لیکن افضل جہاد حج مبرور ہے۔‘‘
تو ایسی کوئی نیک خواہش کرنا بھی جائز نہیں کہ جس سے اللہ تعالی نے خصوصی طور پر کسی کو نوازا ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے ، حضرت عبدالرحمن بن جبیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں:
((قَالَ: جَلَسْنَا إِلَى الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ يَوْمًا فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ))
’’ہم ایک روز حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ تعالی عنہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا ۔‘‘
((فَقَالَ: طُوبٰى لِهَاتين العينين اللَّتَيْنِ رَأَتَا رَسُولَ اللهِ))
’’اور کہا: کتنی خوش نصیب ہیں یہ دو آنکھیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔‘‘
((وَاللهِ لَوَدِدْنَا أَنَّا رَأَيْنَا مَا رَأَيْتَ وَ شَهِدْنَا مَا شَهِدْتَ))
’’اللہ کی قسم ہماری خواہش ہے کہ کاش ہم نے بھی وہ کچھ دیکھا ہوتا جو آپ نے دیکھا ہے اور ہم ان موقعوں پر موجود ہوتے جہاں آپ موجود تھے۔‘‘
((فَاسْتُغْضِبَ) حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ اس بات سے غضبناک ہو گئے ۔‘‘
(فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ: مَا قَالَ إِلا خيرًا)
’’حضرت عبدالرحمن بن جبیر کہتے ہیں میں بہت حیران ہوا، کہ اُس نے تو ایک اچھی بات ہی کی ہے۔‘‘
(ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ:)
’’تو حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے:‘
((مَا يَحْمِلُ الرَّجُلَ علٰى أن يتمنى محضرا غيَّبَهُ الله عنه))
’’آدمی کو کون سی چیز اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ کسی ایسے موقعے اور مشہد کی تمنا کرے جسے اللہ تعالی نے اُس سے پوشیدہ کر رکھا ہے!‘‘
((لا يَدْرِي لَوْ شَهِدَهُ كَيْفَ يَكُونُ فِيهِ))
’’جسے معلوم نہیں کہ اگر وہ وہاں موجود ہوتا تو وہ کس حال میں ہوتا ۔‘‘
’’وَاللهِ لَقَدْ حَضَرَ رَسُولَ اللهِ أَقْوَامٌ كَبَّهُمُ اللَّهُ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ فِي جَهَنَّم، لَمْ يُجِيْبُوه وَلَمْ يُصَدِّ قُوهُ))
’’اللہ کی قسم کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو آپ سے تعلیم کے دور مبارک میں حاضر تو تھے، مگر اللہ تعالی نے انہیں ان کے نتھنوں کے بل یعنی اوندھے منہ جہنم میں پھینک دیا، انہوں نے آپ سے کریم کی آواز پر لبیک نہ کہا اور آپﷺ کی تصدیق نہ کی ۔‘‘
((أَوَلَا تَحْمَدُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ أَخْرَجَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ إِلَّا رَبَّكُمْ، فَتُصَدِّقُونَ بِمَا جَاءَ بِهِ نَبِيُّكُمْ قَدْ كَفِيتُمُ
الْبَلَاءَ بِغَيْرِكُمْ ))
’’کیا تم اللہ تعالی کا شکر ادا نہیں کرتے کہ اُس نے تمہیں اُس مشکل سے ایسا نکالا کہ تم اپنے رب کے سوا کچھ نہیں جانتے یعنی تمہیں کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، دوسروں کی آزمائش تمہیں کفایت کر گئی ہے۔‘‘
((وَاللَّهِ لَقَدْ بُعِثَ النَّبِيُّ عَلٰى أَشَدَّ حَالٍ بُعِثَ عَلَيْهَا نَبِيٌّ قَطُّ))
’’اللہ کی قسم آپ سے ہم ان تمام حالات سے سخت ترین حالات میں مبعوث ہوئے جو کوئی نبی کسی ایسے حالات میں مبعوث کیا گیا ہو۔‘‘
((فِي فَتْرَةٍ وَجَاهِلِيَّةِ مَا يَرَوْنَ أَنَّ دِينًا أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانَ))
رسولوں علیہم السلام کی آمد کے ایک وقفے کے بعد اور دور جاہلیت میں جس معاشرے کے لوگ بت پرستی سے بہتر کوئی دین ہی نہ سمجھتے تھے:
((فَجَاءَ بِفُرْقَانِ فَرَّقَ بِهِ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ وَفَرَّقَ بِهِ بَيْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِهِ))
’’آپﷺ دینِ فرقان لے کر آئے جس نے حق و باطل میں تفریق کر دی اور حق و باطل کی بنیاد پر باپ اور بیٹے میں تفریق کر دی ۔‘‘
((حَتَّى إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيرَى وَالِدَهُ أَوْ وَلَدَهُ أَوْ أَخَاهُ كَافِرًا وَقَدْ فَتَحَ اللهُ قُفْلَ قَلْبِهِ بِالْإِيمَانِ وَيَعْلَمُ أَنَّهُ إِنْ هَلَكَ دَخَلَ النَّارَ))
’’حتی کہ آدمی جب دیکھتا کہ اُس کا والد یا بینا، یا بھائی حالت کفر پر ہے اور اگر اسی حالت میں مر گیا تو جہنم واصل ہوگا جب کہ اللہ تعالی نے خود اس کے دل کا تالا ایمان کے ذریعے کھول دیا ہے ۔‘‘
(فلا تقر عينه)
’’تو یہ دیکھ کر اُس کی آنکھوں کو قرار نہ آتا‘‘
((وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ))
’’کیونکہ وہ جانتا کہ اُس کا عزیز اور پیارا جہنم میں ہوگا۔‘‘
((وَأَنَّهَا لِلَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ﴾ (الأدب المفرد:87)
’’یہی وہ بات ہے جس کے لیے اللہ فرماتے ہیں اور وہ لوگ جو دعا میں مانگا کرتے ہیں کہ: اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما‘‘
تو بات ہو رہی تھی کہ جب ایسی نیک تمنائیں اور رشک بھی جائز نہیں کہ جن سے اللہ تعالی نے خصوصی طور پر کسی کو نوازا ہو تو حسد کیونکر جائز ہو سکتا ہے۔ مگر غور کیجئے کہ پھر وہ کتنی عظیم چیز ہوگی کہ جس پر رشک جائز قرار دیا گیا ہے؟ اور وہ صرف دو چیزیں ہیں، جن کا کچھ دیر پہلے ذکر ہوا۔ ایک وہ شخص جو مال کو اللہ تعالی کی راہ میں لٹاتا ہے، خرچ کرنے کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ بلکہ ہلاک کرنے کا لفظ ارشاد فرمایا۔ اور دولت کو ہلاک کرنا یا لٹانا کیا ہوتا ہے؟ امید ہے آپ ضرور سمجھتے ہوں گے۔ اگر کوئی شخص سینکڑوں یا ہزاروں ڈالرز میں سے ایک ڈالر اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتا ہے، تو وہ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنا ہی کہلائے گا۔ مگر وہ اپنے مال کو اللہ تعالی کی راہ میں ہلاک کرنے پالٹانے والا نہیں کہلائے گا کہ جس پر رشک کیا جا سکے۔ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال لٹانے کا مفہوم آپ اپنے دل سے بھی پوچھ سکتے ہیں اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالی نے حکمت عطا کر رکھی ہو اور یہاں حکمت سے مراد علم ہے، اور وہ شخص علم و حکمت کے مطابق فیصلے کرتا ہو، اپنی ذات میں بھی اور لوگوں کے مابین بھی اور اس کی تعلیم دیتا ہو۔ جس کا مطلب ہے کہ ہر علم والے پر رشک نہیں کیا جاسکتا، جس طرح کسی صاحب مال کا اپنا مال اللہ کی راہ میں لٹانا مشکل ہے، ایسے ہی علم والوں کا اپنی ذات اور دوسروں کے درمیان علم کے مطابق عمل کرنا مشکل ہے اور ایسے لوگ نایاب ہیں جو با عمل بھی ہوں اور دوسروں کو خالص کتاب و سنت کی تعلیم بھی دیتے ہوں اور ڈنڈی نہ مارتے ہوں۔ حکمت کی اہمیت اور فضیات کا ذکر ہورہا تھا، حکمت کے چند نمونے ان شاء اللہ بعد میں ذکر کریں گے، فی الحال یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکمت کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ اختصار کے ساتھ چند کا ذکر کرتے ہیں، ان میں سے سب سے اولین ذریعہ دعا ہے، کہ اللہ تعالی سے اس کی نعمت اور فضل مانگنے کا حکم ہے اور حکمت اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل ہے ۔
﴿وَسْئَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلِهِ﴾ (النساء:32)
’’اللہ تعالی سے اس کے فضل کا سوال کرو۔‘‘
دوسرا ذریعہ حکماء اور دانشمند لوگوں کی صحبت اختیار کرنا، نادان، جاہل کم عقل اور فضول گفتگو کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے عمال کو نے تھے۔ خصوصی طور پر اہل حکمت لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کے لیے کہا کرتے تھے تیسرا ذریعہ حکمت و دانشمندی کی کتابیں پڑھنا اور اصحاب حکمت لوگوں کی سوانح حیات کا مطالعہ کرتا۔
چوتھا ذریعہ تجربہ کار لوگوں کے پاس بیٹھنا، جنہوں نے دنیا کے نشیب و فراز دیکھے ہوں اور حکمتوں کو پلے باندھ لیا ہو، مگر ان سب کے ساتھ دین سے تعلق ایک خصوصی شرط ہے۔
…………………………..