حکمت کا انسان کی زندگی پر اثر
﴿یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا ؕ﴾( البقرة:269)
عید سے پہلے حکمت کا موضوع چل رہا تھا، حکمت کی تعریف اور اس کی ضرورت واہمیت ہم پہلے جان چکے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس کو خیر کثیر قرار دیا ہے اور مشاہدات کی روشنی میں ہم سب جانتے ہیں کہ حکمت کی ضرورت زندگی کے ہر موڑ پر، ہر معاملے اور ہر شعبے میں پڑتی ہے، لہذا حکمت کے بارے میں کچھ مزید جاننے کی ضرورت ہے۔ حکمت، دور اندیشی ، معاملہ فہمی اور بصیرت انسان کی اک نہایت ہی خوبصورت صفت اور خوبی ہے اور اس کا سرمایہ حیات ہے، اک بہت بڑی دولت اور نعمت ہے، مگر بد قسمتی سے جس قدر یہ بڑی انسان کی خوبی اور صفت ہے اور جس قدر معاشرے میں اس کی اشد ضرورت ہے، اس قدر انسان اس سے محروم و نا آشنا ہے اور ناقد را ہے۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے، آپ نے گذشتہ خطبات میں بھی سن رکھا ہے کہ حکمت اللہ تعالی کی عطا اور اس کی عنایت ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے عطا کر دیتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا انعام اور احسان ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اسے حکمت کی صورت میں خیر کثیر عطا فرما دیتا ہے۔
حکمت انسان کو دو طرح سے حاصل ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے کسی انسان کی فطرت اور جبلت میں ودیعت کر دے اور دوسرے یہ کہ انسان اسے اپنی محنت و کوشش سے حاصل کرے۔
جو حکمت یا کوئی بھی خوبی اور صفت جو انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میں ہوتی ہے، انسان کے نفس میں ثابت اور ٹھوس ہوتی ہے ، اس کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہوتی ہے، وہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی انسان سے الگ نہیں ہوتی، مگر جو حکمت یا کوئی اور صفت جو انسان نے اپنی محنت سے حاصل کی ہوتی ہے وہ یسا اوقات کٹھن مواقع پر ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور انسان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، تاہم بہر صورت اس نعمت پر اللہ تعالی کا ڈھیروں شکر ادا کرنا چاہیے۔ حدیث میں ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:
((قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: أَتَتْكُمْ وَفَوْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ ، وَمَا نَرَى أَحَدًا))
’’ فرماتے ہیں، ایک بار ہم آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپﷺ نے فرمایا: عبد القیس کے وفد تمہارے پاس آئے ہیں، جبکہ ہم کسی کو دیکھ نہیں رہے تھے‘‘
((فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ جَاءُوَا))
’’ابھی ہم اس حالت میں تھے کہ وہ آپہنچے۔‘‘
((فَنَزَلُوا فَاتَوا رَسُولَ اللهِﷺ ))
’’وہ اپنی سواریوں سے اترے اور سیدھے آپ سے کلام کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔‘‘
((وَبَقِيَ الْأَشَجُّ العَصَرِيُّ))
’’جبکہ الاشج العصری ان کی قوم کا سردار پیچھے رہ گیا ۔‘‘
((فَجَاءَ بعد))
’’وہ بعد میں آیا۔‘‘
((فَنَزَلَ مَنْزِلًا فَأَنَاخَ رَاحِلَتَهُ وَوَضَعَ ثِيَابَهُ جَانِبًا ثُمَّ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ))
’’وہ آیا اور اپنی رہائش گاہ پر پہنچا، اونٹنی بھائی، کپڑے بدلے اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا أَشَجَّ إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللهُ: الْحِلْمَ وَالتُّوءَ دَةَ))
’’تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: اے اشج تم میں دو ایسی صفتیں ہیں جنہیں اللہ تعالی پسند کرتا ہے۔ (۱) حلم و بردباری اور (۲) ٹھہراؤ۔‘‘
((قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَشَيْءٌ جُبِلْتُ عَلَيْهِ ، أَمْ شَيْءٌ حَدَثَ))
’’تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا یہ صفات اور یہ عادتیں میری فطرت اور جبلت میں ڈالی گئی ہیں، یا علم و تجربے سے حاصل ہوئی ہیں؟‘‘
((قَالَ رَسُولُ اللَّهِ بَلْ شَيْءٍ جُبِلْتَ عَلَيْهِ)) ابن ماجة، كتاب الزهد، باب الحلم:4221- ضعيف)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: بلکہ تمہاری جبلت میں ودیعت کی گئی ہیں۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے، انہوں نے کہا: ((الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَبَلَنِي عَلَى مَا يُحِبُّ اللهُ وَرَسُولُهُ )) (الأدب المفرد: 605)
’’تو انہوں نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے میری ایسی جبلت بنائی جسے اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں ۔‘‘
تو اصل میں حکمت تو وہی ہے، جو وہی اور عطائی ہو، جو انسان کی فطرت میں ہو، جیسے خداداد صلاحیت کہتے ہیں، اگر چہ انسان کچھ حد تک اہل علم و حکمت کی صحبت میں بیٹھ کر بھی حاصل کر سکتا۔
حکمت حاصل کرنے کے خواہش مند حضرات کے لیے لازمی ہے کہ وہ حکمت کے ارکان کو سامنے رکھیں کہ جن کے بغیر حکمت حاصل نہیں ہو سکتی اور وہ ہیں، علم ، حلم و بردباری اور ٹھہراؤ، اور ان چیزوں کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ ان کی اضداد کو بھی پہچانیں، اور وہ ہیں: جہالت، غصہ اور جلد بازی، یعنی علم کی ضد ہے جہالت ، حلم و بردباری کی ضد ہے: غصہ اور ٹھہراؤ کی ضد ہے: جلد بازی۔
یعنی اگر کوئی محنت و کوشش سے حکمت حاصل کرنا چاہے تو اسے قرآن وحدیث کا علم کثیر حاصل کرنا ہوگا اور جہالت سے جان چھڑانا ہوگی ، اسی طرح حلم و بردباری اختیار کرنا ہوگی اور حصے کو نکال پھینکنا ہوگا، اسے اپنی طبیعت میں ٹھہراؤ پیدا کرنا ہوگا، سیج اور آہستگی سے کام انجام دینے کی عادت ڈالنا ہوگی اور جلد بازی کو دفع کرنا ہوگا کہ جاہل، غضب ناک اور جلد باز ہرگز ہرگز حکمت حاصل نہیں کر سکتا۔ حکمت کی حقیقت کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے اس کے چند عملی نمونے ملاحظہ کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ حکیم ہے، اپنے افعال میں حکیم ہے تخلیق اور تدبیر میں حکیم ہے، اس کی ہر بات سراسر حکمت ہے، قرآن پاک پڑھیں، کائنات پر غور و فکر کر کے دیکھیں ، آپ کو ہر طرف حکمت ہی حکمت نظر آئے گی۔ آپ سے کلام کے اقوال و افعال بھی سراسر حکمت ہیں کہ اللہ تعالی نے اس کی گواہی دی ہے۔
﴿وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ﴾ (النجم:3۔4)
’’ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے ، یہ تو ایک وہی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
تو آپ ﷺکے حکیمانہ طرز عمل اور فیصلوں کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں: خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کے وقت حجر اسود کو اس کے مقام پر رکھتے وقت قریش میں تنازعہ کھڑا ہوا کہ یہ شرف اور سعادت کسی کو حاصل ہو۔ قریش مکہ نے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کا ارادہ کیا اور سبب اس کا یہ تھا کہ ایک تو کعبہ کی دیوار انسانی قد سے تھوڑی ہی اونچی تھی اور اس پر چھت بھی نہیں تھی ، اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ چوروں نے اس کے اندر رکھا ہوا خزانہ بھی چرا لیا تھا اور پھر اس کی تعمیر پر ایک زمانہ بھی گزر چکا تھا، عمارت خستگی کا شکار ہو چکی تھی اور اسی سال ایک زور دار سیلاب بھی آیا تھا۔ جس کی وجہ سے خانہ کعبہ کی دیواروں کے گرنے کا خطرہ بھی تھا، چنانچہ انہوں نے از سر نو تعمیر کعبہ کا فیصلہ کیا، نئی تعمیر کے لیے ضروری تھا کہ پرانی عمارت کو ڈھایا جائے ، مگر کسی کو بیت اللہ کی دیواریں گرانے کی جرات نہیں ہو رہی تھی، بالآخر ولید بن مغیرہ مخزدی نے ابتدا کی، جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں آئی تو پھر باقی سب لوگ بھی اس میں شریک ہو گئے ۔ قواعد ابراہیم تک پہنچ کر تعمیر کا آغاز کیا، جب عمارت حجر اسود کی جگہ بلند ہو چکی تو جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کہ حجر اسود اس کی جگہ پر کون رکھے گا ، تقریبا چار پانچ روز تک یہ اختلافات جاری رہا اور خطر و تھا کہ بہت بڑا خون خرابہ ہو جائے گا۔
بالآخر ابو امیہ مخزومی نے یہ کہہ کر فیصلے کا ایک راستہ نکالا کہ مسجد الحرام کے دروازے سے جو شخص پہلے داخل ہوا سے اپنے جھگڑے کا حکم مان لیں۔ لوگوں نے تجویز منظور کر لی۔
اللہ کی مشیت کہ سب سے پہلے آپﷺ داخل ہوئے اور آپ ﷺکو دیکھ کر تو سب لوگ بے ساختہ پکارا تھے۔
((هَذَا الأَمِينُ، رَضِيْنَاهُ، هٰذَا مُحَمَّدٌ))(الرحيق المختوم، ص: 16)
’’یہ امین ہیں، ہم ان پر راضی ہیں، یہ محمدﷺ ہیں‘‘
اور پھر آپﷺ نے جو فیصلہ فرمایا، وہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ آپﷺ نے ان سے ایک چادر طلب کی، اس پر حجر اسود رکھا اور جو قبائل حجر اسود کے رکھنے پر آپس میں جھگڑ رہے تھے، ان کے سرداروں سے فرمایا کہ آپ سب حضرات چادر کا کنارہ پکڑ کر اوپر اٹھائیں ۔ جب چادر حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئی ، تو آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی مقررہ جگہ پر رکھ دیا اور یہ نہایت ہی حکیمانہ فیصلہ تھا، اس پر تمام قبائل راضی ہو گئے ۔
اس کے علاوہ آپ سے علم کی حیات مبارکہ میں ایسے بہت سے مواقع آئے کہ جہاں کوئی ٹھنڈے سے ٹھنڈے مزاج کا آدمی بھی فورا بھڑک اٹھے اور انتظام یا سزا سے کم پر راضی نہ ہو، مگر آپ ﷺکا حمل، بردباری اور حکمت وہاں بھی غالب رہی۔ ان میں سے ایک واقعہ فتح مکہ کا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے قریش مکہ نے کس طرح آپﷺ کو اور آپ ﷺکے صحابہ کو تکلیفیں پہنچا میں کہ وہ واقعات سن کر آدمی کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایسے لوگوں پر جب کسی مخالف کو غلبہ حاصل ہو جائے تو اس کی سوچ کیا ہو سکتی ہے۔ اندازہ کریں جب ایک صحابی رسولﷺ کا خون انتقام کے لیے یوں جوش مار رہا ہو کہ:
((اليوم يوم الملحمة)) (بخاري:4280)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ آج تو قتل عام کا دن ہے آج بدلے اور انتظام کا دان ہے۔
مگر اس کے برعکس آپﷺ نے نہایت رحم ولی کا معاملہ فرمایا، قریش مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
((يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ مَا تَرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ بِكُمْ ؟))
’’اے قریش کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے جارہا ہوں؟‘‘
((قَالُوا خَيْرًا ، أَخٌ كَرِيمٌ وَابْنُ أَخٍ كَرِيمٍ))
’’تو انہوں نے کہا: اچھا، آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔‘‘
تو آپ ﷺنے فرمایا:
((فَإِنِّي أَقُولُ لَكُمْ كَمَا قَالَ يُوسُفُ لِإِخْوَتِهِ: وَلَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ إِذْهَبُوا فَأَنتُمُ الطَّلَقَاءُ)) (الرحيق المختوم، ص:372)
’’تو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو حضرت یوسف عالیم نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ: وَلَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ، آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم آزاد ہو۔‘‘
ایسے بہت سے واقعات میں سے ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے ، حدیث میں ہے کہ:
((إِنَّ فَتًى شَابًّا أَتَى النَّبِيَّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنذَنْ لِي بِالزِّنَا))
’’ایک نو جوان آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول سے مجھے زنا کی اجازت دیجئے‘‘
((فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ فَزَجَرُوهُ، وَقَالُوا مَهْ مَهْ))
’’لوگوں نے اس کو ڈانٹا اور کہا: خاموش ہو جاؤ، خاموش ہو جاؤ!‘‘
((فَقَالَ: أَدْنُهُ ، فَدَنَا مِنْهُ قَرِيبًا ))
’’آپ ﷺنے فرمایا: قریب ہو جاؤ، چنانچہ وہ آپ ﷺکے قریب ہو گیا۔‘‘
((قَالَ: فَجَلَسَ))
’’پس وہ قریب ہو کر بیٹھ گیا۔‘‘
((قَالَ: أَتُحِبُّهُ لأُمِّكَ))
’’تو آپ ﷺنے اس سے فرمایا: کیا تو اپنی ماں کے لیے یہ پسند کرتا ہے؟‘‘
((قَالَ لَا وَاللهِ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَ كَ))
’’کہنے لگا: اللہ کی قسم! بالکل نہیں ۔ اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔‘‘
((قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ))
’’فرمایا: ایسے ہی لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے پسند نہیں کرتے ۔‘‘
((قَالَ: أَفْتَحِبُّهُ لِاِبْنَتِكَ ؟))
’’فرمایا: تو کیا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘
((قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَ كَ))
’’کہنے لگا: اللہ کی قسم بالکل نہیں ، اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔‘‘
((قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِبَنَاتِهِمْ))
’’فرمایا: ایسے ہی لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے ۔‘‘
((قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لاخْتِكَ؟))
’’فرمایا: کیا تو اپنی بہن کے لیے یہ پسند کرتا ہے؟‘‘
((قَالَ لَا وَاللهِ ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَ كَ))
’’کہا: اللہ کی قسم، بالکل نہیں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔‘‘
فرمایا: ایسے ہی لوگ بھی اپنی بہنوں کے لیے یہ پسند نہیں کرتے۔
((قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ؟))
’’فرمایا: کیا تو اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘
((قَالَ لَا وَاللهِ، جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَ كَ))
’’کہا: اللہ کی قسم ، بالکل نہیں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔‘‘
((قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِعَمَّاتِهِمْ))
’’فرمایا: ایسے ہی لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لیے پسند نہیں کرتے ۔‘‘
((قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟))
’’فرمایا: کیا تو اپنی خالہ کے لیے یہ پسند کرتا ہے؟‘‘
((قَالَ لَا وَاللهِ، جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَ كَ))
’’کہا: اللہ کی قسم ، بالکل نہیں۔ اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔‘‘
((قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِخَالَاتِهِمْ))
’’فرمایا: ایسے ہی لوگ بھی اپنی خالاؤں کے لیے پسند نہیں کرتے ۔‘‘
((قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ وَطَهِّرْ قَلْبَهُ وَحَصِّنْ فَرجَهُ))
’’پھر آپ ﷺنے اس پر ہاتھ رکھا اور اس کے لیے دعاء فرمائی: اے اللہ! اس کا گناہ معاف فرمادے اس کا دل پاک کر دے اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔‘‘
((فَلَمْ يَكُن بَعدُ ، ذَلِكَ الْفَتَى يَلْتَفِتُ إِلَى شَيْءٍ))(مسند احمد:22211)
’’راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد، اس نوجوان نے پھر بھی ادھر ادھر نہیں جھا نکا۔‘‘
اس حدیث سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، مگر اس وقت یہ حدیث بیان کرنے کا مقصد آپ ﷺکے حکیمانہ طرز عمل کا ذکر کرنا ہے۔ آپ ﷺکی حیات مبارکہ کا تو ہر گوشہ حکیمانہ طرز عمل سے بھر پور ہے، مگر صالحین رحمہم اللہ نے جو ان حکیمانہ اقوال وافعال اور طرز زندگی کو اپنایا اور اپنی زندگی کا حصہ بنایا تو تاریخ نے اسے بھی ہمارے لیے محفوظ کر رکھا ہے، اس میں سے چند واقعات کا ذکر سنتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے:
((بَيْنَمَا الرَّشِيدُ هَارُونَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ إِذْ عَرَضَ لَهُ رَجُلٌ))
’’ایک بار خلیفہ ہارون رشید بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص ان سے مخاطب ہوا۔‘‘
فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُكَلِّمَكَ بِكَلَامٍ فِيْهِ غِلْظٌ، فَاحْتَمِلهُ لِي))
’’اور کہا: اے امیر المؤمنین! میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں، بات ذرا سخت ہے، برداشت کیجئے گا۔‘‘
((فقال: لا، ولا نعمة عين، ولا كرامة))
’’کہا، بالکل نہیں، میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا اور نہ ہی کوئی عزت و احترام دوں گا۔‘‘
((قَدْ بَعَثَ اللهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ إِلَى مَنْ هُوَ شَرٌّ مِنِّي فَأَمَرَهُ أَنْ يَّقُولَ لَهُ قَوْلًا لَّينا)) (المجالسة وجواهر العلم:993)
’’ اللہ تعالی نے ان کو بھیجا جو تم سے بہتر تھے، ایک ایسے شخص کی طرف جو مجھ سے زیاد و اتھا اور حکم دیا کہ:‘‘
﴿ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰی۴۴﴾ (طه:44)
’’موسی اور ہارون عیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے، یا ڈر جائے ۔‘‘
یعنی نہ تم موسیٰ و ہارون عیہ السلام سے اچھے ہو اور نہ میں فرعون سے زیادہ برا ہوں۔ اس لیے بات نرمی اور حکمت کے ساتھ ہونی چاہیے۔
اور آج کی اس گفتگو کی آخری حکمت بھری بات ملاحظہ فرمائیں:
حدیث میں ہے، سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ))
’’ایک مرتبہ رسول کریم ﷺحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو گھر میں نہیں پایا تو فرمایا: تمہارے چچیرے کہاں گئے؟‘‘
((فَقَالَتْ: كَانَ بيني وبينه شَيْء فَغَاضَنِي ، فخرج فلم يقل عندي))
’’تو انہوں نے کہا: میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی ، وہ مجھ پر غصہ ہو کر باہر چلے گئے اور میرے یہاں قیلولہ نہیں کیا۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ لانسان أَنظُرْ أَينَ هُوَ))
’’تو آپ ﷺنے ایک شخص سے کہا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں!‘‘
((فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ ))
’’وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں ۔‘‘
((فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ وَهُوَ مُضْطَجِعُ قَدْ سَقَطَ رِدَاءَهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ))
’’آپ ﷺمسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور گرد آلود ہوگئی تھی۔
((فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ قُمْ أَبَا تُرَابٍ قمْ أَبَا تُرَابٍ)) (بخاري:6280)
’’آپ ﷺاس سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے: ابوتراب (مٹی والے) اٹھوا ابوتراب! اٹھو ا بو تراب! ‘‘
اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
…………………