حبِ نبوی

(اخوت اور بھائی چارے کی اہمیت، مسلمانوں کے باہمی حقوق)

کان الناس أمة واحدة فبعث الله النبيين مبشرين ومنذرين وأنزل معهم الكتاب بالحق ليحكم بين الناس فيما اختلفوا فيه وما اختلف فيه إلا الذين أوتوه من بعد ما جاءتهم البينات بغيا بينهم فهدى الله ءامنوا لما اختفلوا فيه من الحق بإذنه والله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم

تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے۔ تمام انبیاء اور ان کی قوموں کو ایک جیسے حالات پیش آئے۔ تمام انبياء توحيد کی دعوت پیش کرتے رہے، قوم انکار کرتی رہی۔ ﴿ ولقد بعثنا في كل أمة رسولا أن اعبدوا الله واجتنبوا الطاغوت ﴾ … سورة النحل

﴿ وما أرسلنا من قبلك من رسول إلا نوحي إليه أنه لا إله إلا أنا فاعبدون ﴾ … سورة الأنبياء

سورۃ الشعراء میں نبیوں کی ایک جیسی دعوت …. تمام نبیوں نے اپنی قوموں کیلئے ایک جیسی خیر خواہی کی، انہیں آگ سے بچانے کی کوشش کی۔

لیکن قوموں نے انکار کیا۔ برا بھلا کہا، دعوت کی راہ روڑے اٹکائے۔ گالیاں دیں، جسمانی تکلیفیں پہنچائیں، قتل کی سازشیں کیں اور کئی انبیاء ورسل کو شہید بھی کر دیا۔

كلما جاء أمة رسولها كذبوه … سورة المؤمنون

أَلَم يَأتِكُم نَبَؤُا۟ الَّذينَ مِن قَبلِكُم قَومِ نوحٍ وَعادٍ وَثَمودَ ۛ وَالَّذينَ مِن بَعدِهِم ۛ لا يَعلَمُهُم إِلَّا اللَّهُ ۚ جاءَتهُم رُ‌سُلُهُم بِالبَيِّنـٰتِ فَرَ‌دّوا أَيدِيَهُم فى أَفو‌ٰهِهِم وَقالوا إِنّا كَفَر‌نا بِما أُر‌سِلتُم بِهِ وَإِنّا لَفى شَكٍّ مِمّا تَدعونَنا إِلَيهِ مُر‌يبٍ ٩ … إبراهيم

يٰحسرة على العباد ما يأتيهم من رسول إلا كانوا به يستهزءون * ألم يروا كم أهلكنا قبلهم من القرون …

﴿ لَقَد أَخَذنا ميثـٰقَ بَنى إِسر‌ٰ‌ءيلَ وَأَر‌سَلنا إِلَيهِم رُ‌سُلًا ۖ كُلَّما جاءَهُم رَ‌سولٌ بِما لا تَهوىٰ أَنفُسُهُم فَر‌يقًا كَذَّبوا وَفَر‌يقًا يَقتُلونَ ٧٠ ﴾ … سورة المائدة

نبی کریمﷺ کو دلاسہ: قد نعلم إنه ليحزنك الذي يقولون فإنهم لا يكذبونك

اللہ اپنے رسولوں کی کی گستاخی کا انتقام لیتے ہیں: ﴿ إنا كَفَيناك المستهزئين الذين يجعلون مع الله إلها آخر فسوف يعلمون﴾

فسيكفيكهم الله إنه السميع العليم … والله يعصمك من الناس إن الله لا يهدي القوم الكافرين

ایسے ہی قرآنِ کریم نے تمسخر اُڑانے والے ایک شخص اخنس بن شریق کو سورئہ قلم میں عُتُلٍّ اور زَنِیْمٌ (متکبر اور نطفہ حرام) قرار دیتے ہوئے روزِ قیامت اس کی سونڈ سے گرفت کرنے کی وعید دی ہے۔

ولقد استهزئ برسل من قبلك فأمليت للذين كفروا ثم أخذتهم فكيف كان عقاب … سورة الرعد

قرآن کریم میں بیان کردہ قصوں سے نصیحت: ﴿ وكلّا نقص عليك من أنباء الرسول ما نثبت به فؤادك وجاءك في هذه الحق وموعظة وذكرىٰ للمؤمنين ﴾ … سورة هود

لقد كان في قصصهم عبرة لأولى الألباب … سورة يوسف

فأخذه الله نكال الآخرة والأولى * إن في ذلك لعبرة لمن يخشى … سورة النازعات

سرکش لوگ ان قصوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے: كَذ‌ٰلِكَ ما أَتَى الَّذينَ مِن قَبلِهِم مِن رَ‌سولٍ إِلّا قالوا ساحِرٌ‌ أَو مَجنونٌ ﴿٥٢﴾ أَتَواصَوا بِهِ ۚ بَل هُم قَومٌ طاغونَ ﴿٥٣﴾ فَتَوَلَّ عَنهُم فَما أَنتَ بِمَلومٍ ﴿٥٤﴾

ہمارا کردار: قرآنِ کریم کی رو سے روز ِمحشر ہر اُمتی کو نبی اکرمﷺ کی شہادت اپنے حق میں پیش کرنا ہوگی۔ جس دن سورج سوا نیزے پر ہوگا، اس حالت میں حوضِ کوثر پرساقی ٔکوثر کا سامنا کرنا ہوگا، آپؐ کی شفاعت سے قبل تمام انسانیت رحم کے لئے بلک رہی ہوگی، حتیٰ کہ نبی کریمﷺ اللہ کے ہاں سفارش کریں گے، اور حساب وکتاب کا آغاز ہوگا۔ ہمیں آپؐ کے حق کو اسلئے ادا کرنے میں کوشاں ہوجانا چاہئے تاکہ آپ کے حضور روزِ قیامت سرخرو ہو سکیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ قرآنی آیت ان کافر کارٹونسٹوں کی طرح ہماری بدعملی کا بھی مصداق ٹھہر جائے:

فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّة بشهيد وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هؤلاء شهيدا یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بهم الْاَرْضَ وَلاَیَکْتُمُوْنَ الله حَدِیٍثًا

جب ذاتِ نبویؐ پر ہر طرف سے طعن وتشنیع اور ناکردہ الزاموں کی تہمتیں لگائی جارہی ہوں اور محمد ِاحمدﷺ کو اپنی ہر شے سے محبوب رکھنے کا دعویٰ کرنے والا مسلم ان سنگین حالات میں سکون اور اطمینان سے بیٹھا رہے، یہ تصور ہی انتہائی خوفناک ہے۔ ہمیں اس مسئولیت اور شرمندگی کو آج ہی محسوس کرکے اپنے قول وفعل سے ان جوازات سے خاتمے کے لئے کمربندہوجانے کا عزمِ صمیم کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں یہ اہانت بھرے رویے ختم ہوکر رہ جائیں اور کسی کو پیغمبر انسانیت کی ناموس پر حرف اُٹھانے کی جرا ت نہ رہے۔ جب آپﷺ کے سامنے آپ کی اہانت کی جاتی تو آپ اپنے صحابہؓ سے بے اختیار یہ مطالبہ کیا کرتے کہ ’’کون ہے جو میرے اس دشمن کا جواب دے…؟‘‘ یہ مطالبہ ایک بار آپﷺنے کعب بن اشرف کے بارے میں کیا۔ حضرت زبیرؓ ،حضرت خالدؓ بن ولیداور حضرت حسانؓ سے بھی آپ نے ایسے مطالبے کئے :

مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فإنه قَدْ آذٰی اﷲَ وَرَسُوله؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بن مسلمة فقال: یا رسو! أتُحِبُّ أَنْ أقتله قَالَ نَعَمْ مسلم

فَقَالَ: مَنْ یَّکْفِینِي عَدُوِّي؟ فَقَالَ الزُّبَیرُ: أَنَا مصنف عبد الرزاق

مَنْ یَّکْفِینِي عَدُوِّي؟ فَخَرَجَ إليها خالد بن الولید فقتلها مصنف عبد الرزاق

یا حَسَّان أجِبْ عن رَّسُوْل اﷲ،اللهم أيده بروح القدس صحیح مسلم:

اللہ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لی اور یہ کام فرشتوں کی بجائے انسانوں سے لیا، اسی طرح آپ کی ناموس کی حفاظت بھی ہمیں ہی کرنی ہوگی۔

2. اپنے دین اسلام پر والہانہ عمل: نبی کریمﷺ کا سیدنا حمزہ سے مطالبہ

3.اسلامی اخوت اور اپنے اتحاد واتفاق کو زندہ کرنا ہماری ہماری قوت اور شان وشوکت میں اضافہ ہو اور کسی کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہو۔

4. دین اسلام کو، آپ کی سیرت کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دینا …

5. ہر سطح پر احتجاج ریکارڈ کرانا 6. مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا۔ 7. ایسے بد بختوں کے خلاف مال خرچ کرنا