حرمت مكۃ المكرمہ
﴿وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠﴾ (الحج:25)
’’فريضۂ حج اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے، حج کے احکام و مسائل سے تو اکثر لوگ، بالخصوص حجاج کرام واقف ہوتے ہی ہیں اور ہونا بھی چاہیے، کیونکہ ضروری معلومات کے بغیر سنت کے مطابق حج کرنا مشکل ہوتا ہے اور حج اگر سنت کے مطابق نہ ہوگا تو اس کی قبولیت بھی یقینًا مشکوک ہوگی ، لہٰذا ہر عازم حج کے لیے حج سے متعلقہ بنیادی ضروری معلومات حاصل کرنا ضروری ہے، باقی اگر کوئی وہاں اچانک اور بڑا مسئلہ در پیش آجائے تو وہاں ہر زبان میں رہنمائی کرنے والے علماء کرام موجود ہوتے ہیں، ان سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔
تو حج سے متعلقہ بنیادی باتوں میں سے کچھ باتیں ایسی بھی ہیں کہ جن پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ، حالانکہ ان کا جاننا صرف حاجی ہی نہیں بلکہ غیر حاجی کے لیے بھی ضروری ہے، اس لیے آج کچھ ان باتوں کا ذکر بھی کیا جائے گا ان شاء اللہ، اور وہ ہیں حرمین کا ادب و احترام کوئی شاید کہے کہ کون مسلمان اور کون حاجی ایسا ہو سکتا ہے جس کے دل میں حرمین کاادب و احترام نہ ہوا یہ بات ایک حد تک تو درست ہے، یقینًا ہر مسلمان کے دل میں حرمین کا تقدس اور ادب و احترام بھر پور انداز میں موجود ہوتا ہے، بلکہ بعض تو ادب و احترام میں ایسے حد سے گزر جاتے ہیں کہ ادب، ادب نہیں رہتا بلکہ بے ادبی اور معصیت بن جاتا ہے۔ تو آئیے آج حرم مکی کے اس ادب و احترام کے بارے میں جانتے ہیں جو اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد ادب ہے، وہ ادب پوری دنیا میں کسی اور قطعہ زمین کو حاصل نہیں ہے، صرف اور صرف مکہ المکرمہ کو حاصل ہے۔ تو اس سے پہلے کہ ان آداب کا ذکر کریں ، ذرا ادب و احترام کی ضرورت و اہمیت کو سمجھ لیتے ہیں۔
دنیا میں کسی بھی شعبے میں، کسی بھی معاملے میں، کسی بھی کام میں، چاہے وہ دین سے تعلق رکھتا ہو یا دنیا ہے، اس کے کچھ مخصوص آداب ہوتے ہیں، انہی آداب کے مطابق اگر وہ کام سرانجام دیا جائے تو درست اور صحیح قرار پاتا ہے، اور نہ رد کر دیا جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات آداب ملحوظ نہ رکھنے کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ مکة المکرمہ کہ جہاں اللہ تعالی نے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بیت اللہ مقرر فرمایا:
﴿اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَۚ۹۶﴾ (آل عمران:96)
’’اللہ تعالی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، وہی ہے جو مکہ میں ہے جو تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے۔‘‘
وہاں اللہ تعالی نے اس گھر کو، اس سے ملحقہ مسجد الحرام کو اور پورے شہر مکہ کو ایک ایسا مقام عطا فرمایا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
فرمایا:
﴿ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ ِ۟الْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِ ؕ ﴾ ( الحج:25)
’’اور وہ حرمت والی مسجد جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے مساوی کر دیا ہے، وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں ، سب کا حصہ مساوی ہے۔‘‘
یعنی بلا تفریق ہر شخص رات اور دن کے کسی بھی حصے میں عبادت کر سکتا ہے، کسی کے لیے کسی مسلمان کو روکنے کی اجازت نہیں۔
﴿وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠۲۵﴾ (الحج:25)
’’ جو بھی وہاں قلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے، ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘
الحاد کا لفظی معنی تو ہے کج روی، اگر چہ اس کا معنی شرک قتل اور ذخیر و اندوزی بھی بیان کیا گیا ہے، مگر اس سے مراد ہر قسم کا گناہ لیا گیا ہے، وہ بڑا ہو یا چھوٹا ، یعنی ہر اس شخص کو عذاب الیم کی شدید وعید سنائی جارہی ہے جو حرم مکتہ میں کسی قسم کے گناہ اور برائی کا ارادہ بھی کرے۔
غور فرمایا آپ نے کہ حرم مکی کے ادب و احترام کا کیا عالم ہے کہ محض گناہ کا ارادہ بھی کرنے پر عذاب الیم کا مستحق ٹھہرایا جاتا ہے، یعنی اگر چہ گناہ کا ارتکاب نہ بھی کرے، صرف ارادہ ہی کرے تو تب بھی عذاب الیم سے دو چار کیا جائے گا۔ اسلام کے نیکی اور گناہ پر ثواب و عقاب کے مسلمہ اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی انسان گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو تب تک اس کا گناہ لکھا نہیں جاتا جب تک وہ اس کا ارتکاب نہیں کر لیتا، جیسا کہ حدیث میں ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((إِذَا هَمَّ عَبْدِى بِسَيِّئَةٍ فَلَا تَكْتُبُوهَا عَلَيْهِ))
’’میرا بندہ اگر کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا گناہ نہ لکھا جائے ۔‘‘
((فَإِن عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا سَيِّئَةٍ)) (مسلم ، كتاب الإيمان:128)
’’اور اگر وہ برائی کا ارتکاب کر بیٹھے تو پھر ایک گناہ لکھ دینا ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً))
’’ کوئی بندو اگر برائی کا ارادہ کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا تو اللہ تعالی کے ہاں اس کی ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔‘‘
((فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ سَيِّئَةً وَّاحِدَةً))
’’اوراور اگر وہ برائی کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے تو اس کا ایک گناہ لکھا جاتا ہے۔‘‘
تو گناہ کی نیت اور ارادے پر سزا کے حوالے سے اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ گناہ کی محض نیت اور ارادے پر سزا نہیں دی جاتی ، البتہ اگر کوئی گناہ کا پختہ اور مصمم ارادہ کرتا ہے تو وہ گناہ اس کا لکھا جائے گا جیسا کہ مختلف احادیث سے ظاہر ہوتا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے:
آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ))(بخاري ، كتاب الإيمان:31)
’’جب دو مسلمان تلواروں سے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے۔‘‘
((فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ هَذَا الْقَاتِلُ ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟))
’’صحابی کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ تو رہا قاتل مقتول کا کیا معاملہ ہے؟‘‘
((قَالَ: إِنَّهُ كَانَ حَرِيصاً عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ)) (بخاري ، كتاب الايمان:31)
’’فرمایا: وہ اپنے مد مقابل کو قتل کرنے کا شدید خواہش مند تھا ۔‘‘
تو یہاں صرف اس کی خواہش اور نیت کی وجہ سے نہیں بلکہ پختہ ارادے کی وجہ سے اسے جہنم کا مستحق قرار دیا گیا۔
اسی طرح اور بہت سی مثالوں میں سے ایک اصحاب الفیل کا واقعہ بھی ہے، ابر ہے اور اس کے لشکر کو جونشان عبرت بنا کے رکھ دیا گیا تو وہ کس جرم کی پاداش میں تھا؟ وہ بیت اللہ کی تخریب کی نیت اور عزمِ مصمم تھا۔
بیت اللہ کو گرانے کے پختہ ارادے کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ
﴿فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ۠۵﴾(الفيل:5)
’’انہیں جانوروں کا کھایا ہوا بھو سا بنا کے رکھ دیا گیا۔‘‘
مگر یہاں بیت اللہ ، مسجد الحرام اور پورے مکہ المکرمہ کی حرمت ، تقدس اور ادب و احترام کا معاملہ اس سے مختلف ہے، بعض علماء کرام کے نزدیک مکتہ المکرمہ کے تقدس کو پامال کرنے ، بے حرمتی کرنے اور بے ادبی کرنے کی نیت کے پختہ ارادے اور عزم مصمم ہونے کی بھی شرط نہیں ہے، بلکہ مکہ المکرمہ میں کسی قسم کی برائی کرنے کا محض ارادہ ہی آدمی کو عذاب الیم کا مستحق بنا دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
((مَا مِنْ بَلَدٍ يُؤَاخَذُ الْعَبْدُ فِيهِ بِالْهِمَّةِ قَبْلَ الْعَمَلِ إِلَّا مَكَّةَ.))
(ربيع الأبرار ونصوص الاخبار: ج :1، ص:246)
’’کوئی شہر ایسا نہیں ہے کہ جہاں کسی معصیت پر عمل درآمد سے پہلے محض نیت پر اس کا مواخذہ کیا جاتا ہو سوائے مکہ المکرمہ کے‘‘
اسی طرح فرماتے ہیں:
((لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَرَادَ فِيهِ بِالْحَادٍ بِظُلْمٍ وَهُوَ بِعَدَنِ أَبِينَ لَأَذَاقَهُ اللهُ مِنَ الْعَذَابِ الأَلِيْمِ)) (تفسير ابن كثير/ سورة الحج، مسند احمد:1/428، رقم:4071)
’’اگر کوئی شخص مکتہ المکرمہ میں کسی ظالمانہ کاروائی کا ارادہ کرے، چاہے وہ عدن ابین (یمن کے ایک شہر کا نام) کے مقام پر ہی ہو اللہ تعالی اسے عذاب الیم سے دو چار کریں گے۔‘‘
یعنی مکہ المکرمہ میں کسی برائی اور گناہ کا ارادہ کرنے پر عذاب الیم کا مستحق ہونے کے لیے مکۃ المکرمہ میں موجود ہونا بھی شرط نہیں ہے۔
مکہ المکرمہ میں کسی گناہ اور برائی کا ارادہ کرنے کی تین صورتیں ہیں۔
1۔ ایک یہ کہ مکہ المکرمہ میں کسی برائی کا ارادہ کرنے والا کسی اور جگہ بیٹھ کر ارادہ کرتا ہے، کسی دوسرے شہر، یا دوسرے ملک میں بیٹھ کر ارادہ کرتا ہے، لیکن مکہ المکرمہ میں آکر وہ گناہ نہیں کرتا جس کا ارادہ کیا ہوتا ہے، تو بھی وہ عذاب الیم کی وعید کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گناہ کی نیت تو حدود حرم کے اندر رہتے ہوئے کی ، مگر گناہ حرم کی حدود سے باہر جا کر کیا مثلاً: مکہ المکرمہ میں بیٹھ کر وہ اپنے ملک میں فون پر بات کرتے ہوئے کسی سے کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں مجھے واپس آلینے دو میں اس کی ہڈی پسلی ایک کرتا ہوں، یا جس طرح بھی کوئی کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اب یہ دوسری صورت بہت گھمبیر صورت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ہم میں سے کوئی شخص اس سے بچ پاتا ہے کہ نہیں، کیونکہ یہ اک نہایت ہی خوفناک صورت ہے، اور وہ یوں کہ: ہم میں سے جو لوگ کسی حرام کام میں ملوث ہیں، وہ جب حج کرنے جاتے ہیں تو واپس آکر بھی اس کام میں ملوث رہتے ہیں، بلکہ بعض تو وہاں بیٹھ کر بھی فون پر انسٹرکشنز دے رہے ہوتے ہیں کہ بیئر کے اتنے باکس کھول کر ذرا فرج میں رکھ دینا اور ہاں وہ گھر کا مورگیج پے کیاکہ نہیں! وہ بھی وقت پر پے کر دینا، اس طرح کی اور بہت سی باتیں ہو سکتی ہیں۔
اور اگر وہ فون پر ایسی باتیں نہ بھی کرتا ہو، تو اس کی نیت تو یہی ہوتی ہے کہ واپس جا کر مورگیج پے کرنا ہے، یا یہ کہ حج اپنی جگہ پر مگر وہ لاٹو اور بیئر کا کا روبار تو نہیں چھوڑ سکتا، یا سود پر لیا ہوا مکان تو نہیں چھوڑ سکتا۔ ایسے حج کی اسلام میں کیا حیثیت ہے ضرور کسی عالم سے پوچھنا چاہیے۔
3۔ اور تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کسی گناہ کا ارادہ اور اس کا ارتکاب دونوں حرم کی حدود کے اندر ہی کیسے ہوں اور یہ سب سے سنگین گناہ ہے۔ تاہم ان تینوں صورتوں میں وہ عذاب الیم کا مستحق ٹھہرایا جاتا ہے۔
تو جب مکہ المکرمہ کے ادب و احترام کا یہ عالم ہو تو ہمیں یقینًا ایک ایک بات کا خیال کرنا ہوگا ، پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا تاکہ نہیں ایسا نہ ہو پچھلے گناہ معاف کروانے گئے مگر اپنے کندھوں پر نئے گناہوں کا بوجھ لاد کر واپس لوٹے ۔
حرمت مکہ کے بعض مسائل تو عام کتابوں میں ملتے ہیں، حج و عمرہ کی تقریبًا ہر کتاب میں ملتے ہیں اور ہر حاجی ان سے آگاہ ہوتا ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ان کا خیال بھی نہیں رکھتے۔
مثلاً حدیث میں ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ))
فتح مکہ کے روز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی پیدائش کے دن سے ہی اس شہر کو محترم ٹھہرایا ہے اور وہ اللہ تعالی کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک محترم رہے گا۔‘‘
( وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَهارٍ فَهُوَ حَرامُ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ))
’’مجھ سے پہلے کسی کے لیے اس شہر میں قتال حلال نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی بھر کے لیے حلال ٹھہرایا گیا۔ پس وہ اللہ تعالی کی ٹھہرائی گئی حرمت کے تحت قیامت تک کے لیے حرمت والا رہے گا۔‘‘
((لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطْ لَقَطْتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلاهُ))
’’لہٰذا اس کا کوئی کانٹا نہ تو ڑا جائے ، نہ اس میں شکار کو بھگایا جائے ، نہ گری پڑی چیز اٹھائی جائے ، ہوائے اس شخص کے جو اس کا اعلان کرے اور اس کی خودرو سبز گھاس نہ کائی جائے ۔ ‘‘
((فَقَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِم))
’’حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا اذخر گھاس کی اجازت ہے؟ کہ یہ لوگوں کے چولہوں میں جلانے اور گھروں کی چھتوں میں ڈالنے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔‘‘
((قَالَ إِلَّا الْإِذْخِر)) (بخاري ، كتاب الجزية والموادعة:3189)
’’فرمایا: اذخر کی اجازت ہے۔‘‘
اب یہ بہت واضح احکام ہیں اور تقریبًا ہر حج و عمرہ کی کتاب میں موجود ہوتے ہیں، مگر دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ بعض سادہ لوح قسم کے لوگ وہاں سے گری پڑی چیزیں اٹھا کے لے آتے ہیں۔ اور ایک صاحب نے مجھے خود بتایا کہ وہ وہاں سے ایک گھڑی لائے ہیں جو وہاں انہیں گری پڑی ملی تھی۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حرم مکہ میں نیکیوں کا جہاں ثواب زیادہ ہے، وہاں معصیتوں کا گناہ بھی زیادہ ہے۔
چنانچہ امام رجب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((وَكَانَ جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ يَتَّقُونَ سُكْنَى الحَرَمِ ، خَشْيَةَ إِرْتِكَابِ الذُّنُوبِ فِيهِ، مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ العَاصِ وَكَذَلِكَ كَانَ عُمَرُ بْن عَبْدِ الْعَزِيزِ يَفْعَلُ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ: الخَطِيئَةُ فِيهِ أَعْظَمُ))
’’اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں سے متعدد لوگ حرم میں رہائش اختیار کرنے سے اجتناب کرتے تھے، کسی گناہ کے سرزد ہو جانے کے ڈر سے ، ان میں سے ابن عباس اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے، اور ایسے ہی عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی کرتے تھے ، اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کہا کرتے تھے کہ اس میں غلطی کا سرزد ہونا بہت بڑا جرم ہے ۔‘‘
((وَرُوِي عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: لأَنْ أَخْطَى سَبْعِينَ خَطِيئَة يَعْنِي بِغَيْرِ مَكَّةَ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُخْطِئُ خَطِيئَةً وَاحِدَةً بِمَكَّةَ)) (جامع العلوم والحكم / الحديث السابع والثلاثون)
’’اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں مکہ کے علاوہ کسی جگہ ستر غلطیاں کر بیٹھوں مجھے زیادہ پسند ہیں کہ مکہ میں کوئی ایک غلطی کر جاؤں ۔‘‘
مکہ مکرمہ کے تقدس، حرمت اور آداب کے حوالے سے بہت سی باتیں اور بہت سے احکام و مسائل ہیں، کم از کم حج و عمرہ کرنے والوں کو معلوم ہونے چاہئیں، تاکہ انجانے میں کسی معصیت کا شکار ہونے سے بچ جائیں اور اس کے دیگر فوائد بھی ہیں۔ مثلاً: مکۃ المکرمہ کی حدود کے اندر اندر جتنی بھی مساجد ہیں وہ سب مسجد الحرام کے ضمن میں ہی آتی ہیں، جیسا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بہت سے علماء کرام کا فتوی ہے، جن میں سے ایک شیخ ابن باز رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں۔
تاہم آخر میں عشرہ ذوالحجہ کے متعلق یاد دہانی بھی ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی قرآن و حدیث میں بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَ الْفَجْرِۙ۱ وَ لَیَالٍ عَشْرٍۙ۲﴾ ( الفجر:1تا 2)
’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی ۔‘‘
اور ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ اور حدیث میں ان کی فضیلت یوں بیان ہوتی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْ أَيَّامِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ الأيام العَشْرِ))
’’کسی بھی دن میں کیا ہو ا عمل صالح ، اللہ تعالی کو ان دس دنوں میں کیسے ہوئے عمل سے زیادہ پیارا نہیں ہے ۔‘‘
((فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ))
’’صحابہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيْلِ الله))
’’فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ۔‘‘
((إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذٰلِكَ بِشَيْءٍ)) (ترمذي ، كتاب الصوم:757)
’’فرمایا: البتہ ایسا شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکلا مگر کچھ واپس لے کر نہ آیا ۔‘‘
یعنی اللہ تعالی کی راہ میں اپنی جان بھی کھپا دی اور اپنا مال بھی خرچ کر دیا تو ایسے شخص کا حمل ان دس دنوں میں کیسے ہوئے عمل سے بہتر ہو سکتا ہے، تو ان دس دنوں کی فضیلت کو غنیمت جاننا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے چاہیں، اور نیک اعمال کیا ہیں؟
نیک اعمال کی فہرست بہت طویل ہے، البتہ چند معروف اعمال آپ کو بھی معلوم ہیں، نماز، روزه، صدقہ و خیرات ، تلاوت قرآن پاک اور تسبیح و تہلیل وغیرہ۔
ایک حدیث میں آپﷺ نے ان دنوں کی فضیلت بیان کرنے کے بعد کثرت سے تسبیح و تہلیل کی ترغیب فرمائی، فرمایا:
((فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ)) (مسند احمد: 7/224)
’’پس ان دنوں میں کثرت سے لا اله الا الله ، الله اكبر اور الحمد الله کہو‘‘
ان دنوں میں ایک اور بہت فضیلت والے عمل کی ترغیب دلائی اور وہ یہ ہے عرفہ کے دن کا روز وہ یعنی تو ذو الحجہ کا روزہ۔
حدیث میں ہے:
((وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمَ عَرَفَة))
’’اور آپ ﷺ سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا‘‘
((فَقَالَ يُكَفِّرُ السَّنَةِ الْمَاضِيَةِ وَالْبَاقِيَةِ)) (مسلم ، كتاب الصيام:1162)
’’تو آپﷺ نے فرمایا: وہ گذشتہ اور آئندہ سال کے گناہ دور کر دیتا ہے۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………….