حرمتِ اذیت مسلم
﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠۵۸﴾ (الاحزاب:58)
گذشتہ گفتگو میں ہم نے یہ جانا کہ زندگی گزارنا انسان کی زندگی کا ایک بہت بڑا اور نہایت ہی اہم کام ہے، بالخصوص اجتماعی زندگی ، یعنی گوشہ نشینی کی زندگی نہیں ، معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر نہیں بلکہ لوگوں کے بیچ میں رہتے ہوئے زندگی گزارنا یقینًا ایک مشکل ترین کام ہے، جو کہ تکلیفوں اور مصیبتوں سے بھرا ہوا ہے۔
اس حقیقت کو حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے، آپﷺ نے فرمایا: ((الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلٰى آذاهم)) (سنن ابن ماجه ، کتاب الفتن: 4032)
’’ وہ مسلمان جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر اور گھل مل کر رہتا ہے اور اُن کی اذیتیں برداشت کرتا ہے اُن پر صبر کرتا ہے زیادہ اجر رکھتا ہے اُس مسلمان سے جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتا اور اُن کی تکلیفیں نہیں سہتا ۔‘‘
مطلب یہ کہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کا اک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو تکلیفوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر چہ معاشرے سے الگ ہو کر گوشہ نشینی اور تنہائی کی زندگی بھی گزاری جاسکتی ہے، مگر ترجیح اس کو دی گئی ہے، ترغیب اس کی دی گئی ہے کہ لوگ آپس میں مل جل کر رہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بہت سے مادی اور معنوی فوائد و منافع ہیں، نیکی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کیا جاتا ہے، متعدد اجتماعی عبادات ادا ہوتی ہیں، نماز پنجگانہ نماز عیدین، صلاة الكسوف اور صلاة الاستسقاء وغیرہ۔ اسی طرح دیگر کئی ایک فوائد ہیں، البتہ اگر ایمان کے نقصان کا ڈر ہو تو پھر نہ صرف یہ کہ گوشہ نشینی کی زندگی گزاری جا سکتی ہے بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ اپنے ایمان کو بچانے کے لیے جنگل میں چلے جائیں اور اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں یا جہاں کہیں جگہ ملتی ہے پناہ لے لیں،
مگر فتنے سے دور رہیں۔
تو اس دنیا کی زندگی میں انسانی معاشرے میں رہتے ہوئے مکمل طور پر لوگوں کی اذیتوں سے بچنا نا ممکن ہے، چاہے آدمی کی معاشرے میں کوئی بھی حیثیت ہو، نبی ہو، ولی ہو، عالم ہو، عالمی ہو، امیر ہو، غریب ہو، تکلیف اور اذیت کا ہر حال میں سامنا کرنا پڑتا ہے، کہ یہ ایک
آزمائش ہے، امتحان ہے ہر انسان کو اس سے لامحالہ گزر رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی کو تکلیف اور اذیت پہنچانا حرام نہیں رہا، یا کوئی بڑی بات نہیں رہی، بلکہ بے قصور اور بے سبب اذیت ایک صریح جرم ہے۔
اب اذیت کی بے شمار قسموں میں سے ایک معمولی سی اذیت کو دیکھیں۔ معمولی ان معنوں میں کہ لوگ اسے یا تو گناہ ہی نہیں سمجھتے یا معمولی سا گناہ سمجھتے ہیں۔
تو ایک معمولی سی بات سمجھی جانے والی اذیت کہ جس کے بارے میں حدیث میں آتا ہے، آپ ﷺنے فرمایا:((أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ))
’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟‘‘
قَالُوا: ((اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ))
’’صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولﷺ ) ہی بہتر جانتے ہیں ۔‘‘
قال: ((ذِكرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ))
’’فرمایا: تمھارا اپنے کسی مسلمان بھائی کا اس انداز سے ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو، غیبت ہے۔‘‘
((قیْلَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقْولُ))
’’عرض کیا گیا کہ اگر وہ بات واقعتا میرے بھائی میں پائی جاتی ہو، جو میں اُس کے بارے میں کہتا ہوں ؟‘‘
قَالَ: ((إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ ، فَقَدْ إِغْتَبْتَهُ))
’’فرمایا: اگر وہ بات واقعی اس میں موجود ہو جس کا ذکر تم کر رہے ہو تو تم نے اس کی غیت کی ہے۔‘‘
((وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَهُ)) (صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة:2589)
’’اور اگر وہ بات اس میں نہ ہو تو پھر تم نے اس پر بہتان لگایا ہے ۔‘‘
تو معنی یہ ہوا کہ کسی کی غیبت کرنے سے، اس پر اترام اور بہتان لگانے سے آدمی کو اذیت پہنچتی ہے، اور یہ اذیت کہ جسے لوگ ایک معمولی بات سمجھتے ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا شمار کبائر میں ہوتا ہے، یعنی کبیر و گناہ ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
﴿وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا﴾ (الحجرات:12)
’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔‘‘
اور ایک مقام پر ہے۔
﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠۵۸﴾ (الاحزاب:58)
’’اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں، انھوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے ۔‘‘
اور حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((لَمَّا عُرِجَ بِي مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ، يَخْمِشُونَ وُجُوهَهُم وَصُدُورَهُم))
’’فرمایا: جب مجھے معراج کرایا گیا، تو میرا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔‘‘
((فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ))
’’میں نے پوچھا: اے جبریل (علیہ السلام) یہ کون لوگ ہیں؟‘‘
((قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لِحُوْمَ النَّاسِ وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِم))
(سنن ابی داود، کتاب الادب، باب في الغيبة:4878)
’’تو فرمایا: کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزتوں سے کھیلتے ہیں۔‘‘
تو جب یہ معمولی بات کبھی جانے والے اذیت اللہ تعالی کے ہاں اس قدر سنگین اور بڑا جرم ہے تو کوئی اور اس سے بڑی اذیت کسی طرح جائز ہو سکتی ہے اور کس طرح نظر انداز کی جا سکتی ہے۔
اذیت کی چھوٹی بڑی یقینًا بے شمار شکلیں اور صورتیں ہیں، ان میں سے چند معروف اور معاشرے میں سرایت کر جانے والی اذیتوں کی نشاندہی کرنے اور ان کے بارے میں جاننے سے پہلے اذیت کی ممانعت ، اس کی حرمت اور اُس کی سنگینی کے بارے میں ذرا جان لیتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ حقیقت جان لیں کہ اللہ تعالی کو اپنی تمام مخلوقات، بالخصوص انسان بہت پسند اور محبوب ہے اور انسان اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں سے ایک خاص مخلوق ہے۔ انسان کو دیگر مخلوقات پر جو فضیلت ، شرف اور اعزاز حاصل ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ان چار مخلوقات میں سے ایک ہے جنھیں اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((خَلَقَ الله أربعة أَشْيَاءَ بِيَدِهِ))
’’اللہ تعالی نے چار چیزوں کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے۔‘‘
((العرش وَآدَمَ وَالْقَلَمِ، وَعَدْنَ ))
’’عرش ، آدم علیہ السلام، قلم اور جنت عدن ‘‘
((وَقَالَ لِسَائِرِ خَلْقِهِ: كُنْ فَكَانَ)) (شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة ، رقم:730)
’’پھر باقی تمام مخلوقات کو کن کہا اور وہ ہوگئیں، وجود میں آگئیں ۔‘‘
اور انسان کو اپنے ہاتھ سے پیدا کرنے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی کیا ہے، فرمایا:
﴿قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ؕ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ۷۵﴾ (ص:75)
’’کہا: اے ابلیس! تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی، جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے، تو بڑا بن رہا ہے، یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟‘‘
تو انسان اللہ تعالی کی افضل واشرف مخلوقات میں سے ایک ہے چنانچہ اللہ تعالی انسان سے، بالخصوص مسلمان سے اور مسلمانوں میں سے نیک متقی اور پرہیز گار بندوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔
لہذا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تکلیف اور اذیت کو بھی پسند نہیں کرتا، حتی کہ ایک ایسی تکلیف جس سے گزرنا ہر انسان کے لیے لازمی اور ضروری ہے اور اس کے فوائد بھی ہیں، پھر بھی اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی ناگواری کی وجہ سے، اسے اُس تکلیف سے گزارتے ہوئے تردد
ہوتا ہے۔
حدیث قدی ہے، مشہور حدیث ہے، اللہ فرماتے ہیں:
((مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ))
’’جس نے میرے کسی ولی سے، دوست سے دشمنی کی، میرا اُس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔‘‘
لمبی حدیث ہے، حدیث کے آخر میں فرمایا:
((وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ ، تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسٍ الْمُؤْمِنِ ، يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَ تَهُ)) (صحيح البخاري کتاب الرقاق:6502)
’’اور مجھے کبھی کسی چیز میں تردو نہیں ہوا جو میں کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ بندۂ مؤمن کی روح قبض کرتے وقت ہوتا ہے۔‘‘
((يكره الموت وأنا أكره مَسَاءَ تَهُ))
’’وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اُس کی اس ناگواری اور کراہت کی تکلیف کو نا پسند کرتا ہوں ۔‘‘
یہاں تردد مخلوق والا نہیں، کوئی انسان جب کسی کام میں تردد کرتا ہے، ہچکچاتا ہے کہ کروں یا نہ کروں، تو وہ اس لیے تردد کرتا ہے کہ نہ جانے یہ کام کرنے سے فائدہ ہو یا نقصان، یا یہ کام کر پاؤں گا یا نہیں، مگر اللہ تعالی بندۂ مؤمن کی روح قبض کرتے وقت اس پر شفقت اور رحمت کرتے ہوئے تردد کرتا ہے اور ان معنوں میں تردد کرتا ہے کہ اُس کی ناگواری اور کراہت کو نا پسند کرتے ہوئے روح قبض کرتا ہے۔ اور موت کو ہر انسان نا پسند کرتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے، مگر موت کی ناپسندیدگی کے ساتھ ساتھ اُس کی ایک تکلیف بھی ہے، جو کہ بہت شدید ہوتی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، کہ جب حضرت عمرو بن العاص بنی اللہ پر موت کی بے ہوشیاں اور سکرات طاری ہو ئیں، تو اُن کے بیٹے حضرت عبداللہ نے کہا:
((يَا أَبْنَاهُ إِنَّكَ كُنْتَ تَقُولُ لَيْتَنِي أَلْقَى رَجُلًا عَاقِلَا عِنْدَ نُزُولِ المَوْتِ حَتَّى يَصِفَ لِي مَا يَجِدُهُ وَأَنْتَ ذَلِكَ الرَّجُلُ ، فَصِفْ لي الموت))
’’اے ابا جان! آپ (یہ) کہا کرتے تھے کہ کاش مجھے کوئی سمجھ دار آدمی ملے جو موت نازل ہونے کی کیفیت کو بیان کر سکے ، اور آپ(رضی اللہ تعالی عنہ) وہ شخص ہیں تو مجھے موت کی کیفیت بیان کیجیے ۔‘‘
((قَالَ: يَا بُنَيَّ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ جِبَالَ الدُّنْيَا عَلَى صَدْرِي، وَكَأَنِّي أَتَنفُسُ مِنْ سَمِّ إِبْرَةٍ ، وَكَأَنَّ عُصْنَ شَوْكِ يُجَرُّ بِهِ مِنْ قَدَمَيَّ إِلَى هامتي)) (شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور ، ص:32)
’’فرمایا: بیٹا! اللہ کی قسم! کیفیت ایسی ہے گویا کہ دنیا کے سارے پہاڑ میرے سینے پر ہیں اور میں گویا سوئی کے ناکے سے سانس لے رہا ہوں اور گویا کہ کانٹوں کی ایک شاخ میرے پاؤں سے سر کی طرف کھینچی جا رہی ہے ۔‘‘
تو موت کی ناپسندیدگی کے ساتھ ساتھ اس کی ایک سختی اور تکلیف بھی ہے، اور اللہ تعالی بندہ مومن کی کراہت و ناگواری اور اس کی تکلیف اور اذیت کو ناپسند کرتا ہے۔ تو جب اللہ تعالی بندۂ مؤمن کو خود کسی ایسی تکلیف سے دوچار کرنا بھی پسند نہیں کرتا کہ جو حق ہو، ضروری اور لازمی ہو، تو پھر کوئی دوسرا اس کو تکلیف پہنچائے اللہ تعالی کو کیسے پسند ہوگا۔ چنانچہ اسلام نے نہایت سختی سے کسی مسلمان کو، بالخصوص کسی نیک اور متقی انسان کو تکلیف اور اذیت پہنچانے کی ممانعت اور حرمت بیان فرمائی ہے۔ اندازہ کیجئے ، آپ ﷺنے قسم کھا کر ارشاد فرمایا، فرمایا:
((وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ))
’’اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہے، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہے۔‘‘
(( قِيْلَ: ((وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ))
’’عرض کیا گیا: کون اے اللہ کے رسول ﷺ؟‘‘
قَالَ: ((الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ )) (صحيح البخاري ، كتاب الأدب:6016)
’’فرمایا: وہ کہ جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘
ایک دوسرے انداز سے اذیت پہنچانے کی ممانعت کا حکم ملاحظہ فرمائیں: لہسن کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا، اس لیے کہ اس کی ایک بد بو ہوتی ہے، اور اس سے دوسرے نمازیوں کو اذیت پہنچتی ہے، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا وَلَا يُؤْذِينَا يريح الثوم)) (صحيح مسلم ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة:563)
’’جو شخص اس پودے سے کچھ کھائے تو ہماری مسجد میں نہ آئے اور نہ ہمیں لہسن کی بد بو سے تکلیف دے۔‘‘
اب ایک حلال چیز بد بودار ہونے کی وجہ سے کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا گیا ہے، تو سگریٹ پی کر کہ جس کے حرام ہونے کے قرآن وحدیث میں دلائل موجود ہیں کہ جن کی بنیاد پر علماء کرام نے اس کے حرام ہونے کا فتوی دے رکھا ہے اسے پی کر مسجد میں آنا کیسے جائز ہو سکتا ہے، اس سے یقینًا نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے کچھ لوگ الا ئچی منہ میں رکھ کر آ جاتے ہیں، مگر سگریٹ کی بد بواتنی شدید ہوتی ہے، کہ الائچی کی خوشبو بھی بدبو میں بدل جاتی ہے۔
اذیت مسلم کی ممانعت کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجئے، حدیث میں مردوں کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے، کہ اس کے لواحقین کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔
چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:
((لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَتُؤْذُوا الْأَحْيَاء )) (ترمذی ، کتاب البر والصلة:1982)
’’مردوں کو برا بھلا مت کہو، کہ اس سے تم زندوں کو تکلیف پہنچاتے ہو۔‘‘
ایک اور طرح کی اذیت سے یوں منع فرمایا: فرمایا:
((اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ، قَالُوا، وَمَا اللَّعَانَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟))
’’دو لعنت کا باعث بننے والے کاموں سے بچو، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ کے رسول سے اہم وہ دو کونسے لعنت کے باعث بننے والے کام ہیں ۔‘‘
قَالَ: ((الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ .)) (صحیح مسلم ، كتاب الطهارة:269)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو لوگوں کے راستے میں یا ان کے سایے کی جگہ پاخانہ کرے۔‘‘
اذیت کی ممانعت کا ایک انوکھا پہلو ملاحظہ فرمائیے:
یوں تو جانوروں کو بھی مارنا اور اذیت پہنچانا منع ہے ، سوائے موذی جانوروں کے ، یا زیادہ سے زیادہ کسی جانور کو ضرورت کے مطابق مار سکتے ہیں مگر شدید ضرب نہ ہو کہ جس سے نشان پڑ جائے ، مگر ایک جانور کو حدیث میں مارنا تو دور کی بات ہے برا بھلا کہنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے، اور سبب اس کا یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ ایک دین کا کام کرتا ہے ، جیسا کہ فرمایا:
((لا تسبوا الدِّيْكَ فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلَاةِ)) (ابو داود، كتاب الأدب:5101)
’’مرغ کو برا بھلا مت کہو کیوں کہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے ۔‘‘
غور فرمائیے دین کے ساتھ نسبت و تعلق کتنی بڑی سعادت و خوش بختی کی بات ہے کہ انسان تو انسان رہے اگر کسی جانور کی نسبت بھی دین کے ساتھ ہو جائے تو اس کی بھی اللہ تعالی کے ہاں ایسی قدر وقیمت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی اسے بھی برا بھلا کہنے نہیں دیتے ، حالانکہ جانور کو تو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا ، اور دین کی نسبت سے اللہ تعالی کو جانور اتنے پسند ہوتے ہیں کہ بعض جانوروں کی قسم کھائی ہے ، جیسا کہ فرمایا:
﴿وَ الْعٰدِیٰتِ ضَبْحًاۙ۱﴾
’’قسم ہے ان گھوڑوں کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں۔‘‘
﴿ فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًاۙ۲﴾
’’پھر اپنی ٹابوں سے چنگاریاں جھاڑتے ہیں۔‘‘
﴿ فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًاۙ۳﴾
’’پھر صبح کے وقت دھاوا بولتے ہیں۔‘‘
﴿ فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًاۙ۴﴾
’’ پھر اس وقت گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‘‘
﴿ فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًاۙ﴾
’’اس کے ساتھ لشکر کے اندر گھس جاتے ہیں۔‘‘
ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ دین کی نسبت سے اللہ تعالی نے ایک گھوڑے کی کتنی قسمیں کھائیں اور پھر انسان تو آپ کو معلوم ہے کہ اس کی دین پر چلنے کی ہر ادا اللہ تعالی کو بہت پسند ہے ، حتی کہ روزے کی حالت میں اس کے منہ کی بد بو کستوری سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں دین سے اپنی نسبت استوار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!
…………………..