حرمت قرآن

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹﴾ [ص:29]
’’(یہ) عظیم الشان بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تا کہ وہ اس کی آیات میں تدبر و تفکر کریں اور عقل والے نصیحت پکڑیں۔‘‘
آج کا یہ خطبہ جمعہ موقعہ و مناسبت کی وجہ سے حرمت قرآن کے عنوان پر پڑھایا جائے گا اور اس کا سبب کسی عام و خاص پر مخفی اور پوشیدہ نہیں کہ امریکی دہشت گردوں یہود و نصاری نے اللہ رب العزت کی نازل کردہ آخری کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی کی ہے۔ اور ایسا شرمناک انداز اختیار کیا ہے کہ اسے بیان کرتے ہوئے بھی جھجھک محسوس ہوتی ہے دل کانپنے لگتا ہے اور زبان رکنے لگتی ہے۔
بہر حال قرآن مجید کے ساتھ امریکی دہشت گردوں کا یہ سلوک اس قدر مذموم و مردود ہے کہ اس کی جتنی بھی خدمت کی جائے کم ہے۔ اور اللہ کا قانون مہلت ہے جب تک کسی کو وہ مہلت دینے کا فیصلہ کر لے تب تلک اس کے بڑے سے بڑے جرم پر بھی وہ گرفت نہیں کرتا۔ لیکن جب مہلت ختم ہوتی ہے تو پھر نمرود، فرعون، ہامان اور قارون کا وہ انجام ہوتا ہے کہ ان کی نسل بھی کاٹ دی جاتی ہے اور ان پر برستی لعنتیں دنیا دیکھتی ہے۔ ان شاء اللہ
ہمیں پختہ یقین ہے کہ جب موجودہ دور کے فرعونوں کی مہلت ختم ہو گی تو ان گستاخان قرآن کا انجام قیامت تک کے لیے عبرت و موعظت ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
لیکن اس حساس موقع پر میں ایک انتہائی حساس مضمون چھیڑنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ یہود و نصاری تو کافر ہیں۔ قرآن کے منکر ہیں، پیغمبروں کے گستاخ ہیں۔ اللہ کے دشمن ہیں۔ ان کا تو کام ہی قرآن کی گستاخی اور توہین ہے۔
لیکن آج ہم قرآن پر ایمان کا دعوی کرنے والے قرآن کو سچی کتاب ماننے والے قرآن کو اللہ کا کلام ماننے والے جن مختلف طریقوں سے قرآن کی بے حرمتی کر رہے ہیں اس بے حرمتی کا ذمہ دار کون ہے؟
آج ہمارے دلوں میں قرآن پڑھنے کی بجائے ناول اور افسانے پڑھنے کا شوق پیدا ہو چکا ہے تو ہم قرآن پڑھنے کی بجائے لطیفے کہانیاں اور ڈائجسٹ پڑھتے ہیں، ہم قرآن سننے کی بجائے قرآن کی بے حرمتی کرنے والوں کی تیار کردہ فلموں، ڈراموں اور گانے بجانے کو سننے کے حریص ہیں۔
جبکہ قرآن نے مؤمنوں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ﴾
’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر (قرآن وسنت) سے مطمئن ہوتے ہیں خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔‘‘
اور کہیں ان الفاظ میں مؤمنوں کی صفات بیان کی ہیں:
﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚ﴾ [الأنفال:2]
’’مومن تو صرف وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب ان پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ (آیتیں) انہیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔‘‘
لیکن آج ہم قرآن کے درس قرآن کے ترجمے اور قرآن پر عمل سے اعراض کناں ہیں اور کافروں کے بچھائے ہوئے فحاشی و عریانی کے جال میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔
آج اللہ کی قسم! تہجد اور سحری کے مبارک وقت بھی ہمارے گھروں سے گانے بجانے اور فلم ڈرامے کی آواز آتی ہے ضحی اور اشراق کے وقت بھی طبلے اور ساز کی آواز گونچتی ہے۔ کیا ہم قرآن کی بے حرمتی نہیں کر رہے۔ کیا ہم نے قرآن کریم کو پس پشت نہیں ڈالا ہوا۔ کیا ہم نے قرآن مجید کو اخبار اور جریدے سے بھی کم حیثیت نہیں دے رکھی کہ اخبار پڑھنے میں ناغہ نہ ہو۔ لیکن قرآن کی تلاوت پورے مہینے میں ایک دفع بھی نہ ہو۔
بتاؤ! کیا یہ سب کچھ قرآن سے محبت ہے یا قرآن کی بے حرمتی ہے؟
وہ لوگ جنہوں نے قرآن مجید کے صحیح مقام کو پہچانا اور صحابہ و تابعین ہونے کا شرف حاصل کیا۔ وہ تو حرمت قرآن کے اس طرح قائل تھے کہ ان کا پڑھنا قرآن تھا ان کا سننا قرآن تھا ان کا عمل قرآن تھا ان کے گھروں سے قیام اللیل میں تلاوت قرآن کی ایسی پرسوز آواز گونجتی تھی کہ کافر بھی سننے پر مجبور ہو جاتے تھے اور حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کئی دفعہ رات صرف اس لیے مدینے کی گلیوں میں چلتے کہ میں اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا قرآن سنوں، پھر آپ آواز آہستہ یا بلند کرنے کے متعلق تربیت بھی دیتے تھے۔
صحیح البخاری میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں کل تین افراد تھے اور ان تینوں نے رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا ایک قیام پورا کرتا تو دوسرے کو جگا کر اس کا قیام شروع کروا دیتا۔ دوسرا فارغ ہوتا تیسرے کو جگا کر اس کا قیام شروع کروا دیتا اس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں ساری رات قیام اللیل میں قرآن کی آواز گونجتی رہتی تھی۔[صحيح البخاري، كتاب الأطعمة، باب، رقم: 5441]
وہ لوگ صحیح معنوں میں حرمتِ قرآن کے قائل و فاعل تھے۔ اسی لیے ان پر اللہ کی زمین وسیع ہوتی گئی آسمان وزمین کی طرف سے خیر و برکت کے دروازے کھلتے گئے۔ فتح و کامیابی ان کا مقدر بنتی گئی۔ اور وہ پوری دنیا میں ایسے غالب ہوئے کہ کسی مشرک نجس اور کافر پلید میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی جرات ہی نہ رہی۔
قرآن وسنت میں شرم و حیاء مؤمن کا زیور قرار دیا گیا ہے اور شرم و حیاء ایمان کا بہت بڑا رکن بتایا گیا ہے اور بے حیائی پھیلانے والوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ سورۂ نور پڑھیے اعلان ہوتا ہے۔
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۱۹﴾ [النور:19]
اللہ ہمیں قرآن کریم کی سچی محبت عطاء فرمائے اور ہمیں ہر طرح کی قرآن کی بے حرمتی سے بچائے ۔ آمین!
اس لیے آج کافروں کی اس شرمناک حرکت میں ہماری قرآن سے غفلت اور دوری کا پورا پورا حصہ ہے۔ ہمیں مؤمن و مسلمان ہونے کی حیثیت سے قرآن مجید سے ناطہ توڑنا زیب نہیں دیتا تھا لیکن ہم نے ناطہ توڑ ڈالا ہمیں عقیدہ و عمل اخلاق و کردار قرآن کریم کے مطابق بنانا تھا لیکن ہم نے قرآن مجید کی تعلیمات کو نظر انداز کر کے کافروں، مشرکوں صلیبیوں، ہندوؤں اور مجوسیوں کی نقلیں اتاریں، ہم نے اپنی خوشی وغمی، عقل و شکل لباس و حجامت، تعلیم و تعلم، حکومت و سیاست، خلوت و جلوت، سب کچھ قرآن مجید کے بر خلاف اور برعکس بنا لیا۔
اللہ تعالی نے تو ہم پر یہ انعام فرمایا تھا کہ ساری کتابوں سے افضل کتاب ہمیں عطاء فرمائی اور قیامت کی دیواروں تک اس کی حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا، لیکن ہم نے کیا کیا ہم نے اس کتاب کو سنہری غلاف میں لپیٹ کر اونچی جگہ سجا لیا۔ نہ کھولا نہ پڑھا۔ نہ سمجھا۔ نہ عمل کیا۔ ہاں کبھی کبھار قسم اٹھانے کے لیے سر پہ رکھ لیا۔ ہم نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اس عظیم الشان کتاب کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ آؤ ذرا حقوق القرآن کا خاکہ آپ کے سامنے رکھوں:
پہلا حق
اس پر ایمان رکھنا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اللہ کا کلام ہے جس طرح آسمان سے اترا۔ اسی طرح آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۛۖۚ فِیْهِ ۛۚ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ [البقرة:2]
دوسراحق:
اجر و ثواب کے لیے اس کی تلاوت کرنا اور سننا یہ اس کتاب کا ہمارے ذمے حق ہے کہ ہم مہینے میں ایک دفعہ ضرور پورا قرآن پڑھیں۔ ہر نماز سے پہلے یا بعد تین چار رکوع پڑھ لیے جائیں تو آسانی سے یومیہ ایک پارہ پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ انتہائی آسمان حق ہے (یعنی اجر وثواب اور بلندی درجات کے لیے اس کی تلاوت کرنا) لیکن آج یہ عمل بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے۔
تیسرا حق:
قرآن کریم کا ترجمہ و مفہوم سمجھنا اس کی آیات میں تدبر و تفکر کرنا ارشاد باری تعالی ہے:
﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا۝۲۴﴾ [محمد:24]
’’ کیا یہ قرآن میں تدبر و تفکر نہیں کرتے یا دلوں پر تالے لگے ہیں؟۔‘‘
چوتھا حق:
قرآن مجید پر عمل کرنا اس کے مطابق زندگی بسر کرنا: ارشاد: رہی تعالی ہے:
﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ [يوسف:2]
’’یقینًا ہم نے یہ عربی قرآن اتارا ہے تا کہ تم (اسے) سمجھو (اور اس پر عمل کرو)۔‘‘
پانچواں حق:
دوسروں کو اس کی دعوت دینا۔ اسے دنیا میں عام کرنا اور اسے دنیا میں نافذ اور غالب کرنے کے لیے دعوت و جہاد کے میدان میں اترنا۔
یہ قرآن کریم کے بڑے بڑے بنیادی حقوق ہیں، آؤ اگر کافروں نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے تو اس کا ایک ہی علاج ہے کہ قرآن کے تمام حقوق اچھی طرح ادا کرو اپنا سارا طرز زندگی قرآن کے مطابق بناؤ قرآن کی بکثرت تلاوت کرو قرآن کو دنیا پر غالب کرنے کے لیے قربانیوں کا جذبہ پیدا کرو۔ دیکھنا کافراپنی موت آپ مر جائیں گئے۔ نیز یاد رکھیے! قرآن کی بے حرمتی کرنے سے قرآن کی شان و عظمت میں تو فرق نہیں آئے گا۔ لیکن بے حرمتی کرنے والوں کی اپنی دنیا و آخرت ضرور تباہ ہوگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔