حسن معاملہ اور حرمت سود

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاكْتُبُوْهُ ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ ۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْـًٔا ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰی ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا ؕ وَ لَا تَسْـَٔمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤی اَجَلِهٖ ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤی اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝۲۸۲ وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ ؕ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ ؕ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ؕ وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠۝۲﴾(البقرة: 282 – 283)
اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل کے ساتھ لکھے۔ کاتب کو چاہے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے خدا نے اُسے سکھایا ہے وہ بھی لکھ دے۔ اور جس کے ذمہ حق ہے وہ لکھوائے اور اپنے اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے۔ اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں۔ جس شخص کے ذمہ حق ہے اگر وہ نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہوا تو اسکا ولی سر پرست عدل کے ساتھ لکھوا دئے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لؤا اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرو تا کہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے۔ گواہوں کو چاہیے کہ جب وہ بلائے جائیں تو انکار نہ کریں۔ قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں سستی نہ کرو خدا کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی زیادہ درست رکھنے والی ہے اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے ہاں یہ بات اور ہے کہ تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اسکے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے۔ اللہ سے رواللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے۔ اور اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔ ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے پر امانت ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالی سے ڈرتا ر ہے جو اسکا رب ہے۔ اور گواہی کو نہ چھپاؤ جو اسے چھپالے وہ گنہ گار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔‘‘
ان آیتوں میں اللہ تعالی نے معاملات کے احکام بیان کئے ہیں یعنی جب لین دین اور خرید و فروخت اور ادھار کا معاملہ کیا جائے تو معاملے کی صفائی کے لیے لکھ لیا جائے اور اس پر دو منصف گواہوں کی گواہی بھی ٹھہرا لی جائے ۔ ہاں اگر نقدا نقدی معاملہ کیا جائے اور دست بدست ہو تو نہ لکھنے میں اور گواہ نہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر قرض لینے کی ضرورت پیش آجائے اور کوئی دینے کے لیے تیار نہ ہو تو مقروض کو کوئی چیز رہن رکھ دینی چاہئے تاکہ اسے اطمینان ہو جائے یہ سب اس لئے ہے تاکہ معاملہ صاف رہے۔ کسی قسم کا جھگڑا فسادنہ ہو۔ کیونکہ زیادہ تر بد معاملگی کی وجہ سے یہ نوبت آ جاتی ہے۔ تجارت اور سوداگری میں معاملہ کو صاف رکھنے سے بڑی ترقی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں چندا جمالی باتیں ہم بیان کر رہے ہیں تا کہ ان پر عمل کرنے کی وجہ سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
1۔ ترقی و کامیابی کا راستہ ایمان داری اور دیانت داری میں مضمر ہے۔ اس لئے اسلام نے اس کی بڑی تاکید کی ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا
﴿إِنَّ اللَّهَ يَا مُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا أَلَامَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا﴾ (النساء: 58)
’’اللہ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو۔‘‘
2۔ اس امانت داری کے ساتھ ساتھ محنت جفا کشی استقلال و استقامت بھی ضروری ہے ۔ وہ شخص کامیاب نہیں ہو سکتا جس کے کاروبار میں سخت سے سخت پریشانیاں نہ پیش آئیں۔ لیکن آزمائشوں میں ثابت قدم رہنا مشکلوں کے دور ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
3۔ اس کے ساتھ ساتھ خوش اخلاقی بھی بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ بد خلق اور بد معاملہ آدمی سے لوگ معاملہ کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسلئے وہ تجارت کے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ خوش اخلاقی تمام مشکل کاموں کو آسان بنادیتی ہے۔ اور خلیق آدمی سے سب لوگ محبت بھی زیادہ کرتے ہیں اور اس کی امانت اور ہمدردی بھی کرتے ہیں۔
مثل مشہور ہے ’’زبان شیریں ملک گیری ۔‘‘
حدیث میں خوش خلق آدمی کی بڑی تعریف آئی ہے۔ تاجر کے لیے خوش خلق ہونا بہت ضروری ہے۔ خلیق تاجر کی تجارت نفع بخش اور کامیاب ہوتی ہے۔ اور بد خلق کی تجارت فیل ہو جاتی ہے جس کا تجربہ بار ہا ہو چکا ہے۔
4۔ تاجر کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس معاملہ میں اس کی نیت اچھی ہو۔ اور دوسروں کی خیر خواہی اور ہمدردی و اعانت مقصود ہو صرف اپنا ہی فائدہ مقصود نظر نہ ہو۔ اسلام میں اس کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُحِبُّ لِاَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ).[1]
’’خدا کی قسم کوئی بندہ ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔‘‘
5۔ سچائی بھی بہت ضروری ہے جھوٹ و فریب ہرگز نہ ہو۔ خصوصاً معاملات میں کبھی اور کسی حالت میں بھی جھوٹ ہرگز نہ بولا جائے ۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(اَلْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَالَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَ وَبَيَّنَا بُورِكَ فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَمَا وَكَذَبَا مُحقَّتْ بَرَكَةُ بَيْعهما).[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]بخاري: کتاب الايمان باب من الإيمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه: 13)
[2]بخاری: کتاب البیوع باب اذا بین البیعان و لم یکتما و نصحا:2079۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیعنے والے اور خریدار کو اختیار ہے۔ جب تک دونوں الگ نہ ہوں دونوں سچ بولیں۔ اور اپنی اپنی چیزوں کے عیب کو ظاہر کر دیں تو دونوں کی خرید و فروخت میں برکت ہوگی ۔ اگر عیب پوشی کریں اور جھوٹ بولیں تو ان کو تجارت میں برکت نہ ہوگی۔‘‘
شرعی اعتبار سے صداقت اور معاملہ کی صفائی تو ضروری ہے ہی لیکن دنیاوی حیثیت سے بھی سچائی بہت ضروری ہے۔ صاف اور سچے معاملے والے کے ساتھ لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی تجارت کامیاب ہوتی ہے اور اس سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ فریبی، دھوکہ باز کے ساتھ لوگ معاملہ نہیں کرتے ۔ اس کی تجارت کامیاب نہیں ہوتی ۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
(مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا)[1]
’’جو ہم کو فریب دے دو ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘
بددیانتی اور خیانت بہت بری چیز ہے۔ دین و دنیا میں خیانت کرنے والے کے لئے بڑی رسوائی ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے خطبہ میں اس کا بیان آچکا ہے۔
6۔ قول و قرار کی پابندی ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿أَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾ (بنی اسرائيل : 34)
’’عہد و قرار کو پورا کرو کیونکہ اس کی باز پرس ہوگی۔‘‘
عہد شکنی بہت بری چیز ہے خصوصًا تاجروں کے لئے تو قول و قرار کی پابندی بہت ضروری ہے۔ کیونکہ تجارت کا دار و مدار اعتماد باہمی پر موقوف ہے جو تاجر قول و قرار کا پابند نہیں ہے اس کی تجارت فیل ہو جاتی ہے ۔ اس کی تفصیلی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔
7۔ صاف معاملگی بہت ضروری ہے۔ جس کا معاملہ صاف رہتا ہے وہ اچھا سمجھا جاتا ہے اور جو کاروبار کرتا ہے اس میں برکت اور ترقی ہوتی ہے۔ بد معاملہ شخص ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے ۔ دھوکہ خیانت مکرو فریب اور ضررو نقصان کا ہرگز خیال نہیں ہونا چاہئے۔
8۔ عجلت اور جلد بازی سے بچنا چاہئے۔ کیونکہ تاجر کے لئے عجلت ایک خطر ناک چیز ہے اطمینان اور استقلال و استقامت ضروری ہے۔ تاجر کا فرض ہے کہ کاروبار کے ہر شعبہ کے لئے ایک نظام مقرر کر دے۔ ہر عمل کے لئے ایک وقت اور ہر چیز کے لئے ایک جگہ قرار دے لے۔ غرض نظام وضابطگی کے ساتھ تجارت کرنے سے تو تجارت میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الإيمان باب قول التي مكة من غشنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائدہ ہوتا ہے اور اس کے لئے بے ضابتگی نقصان دہ ہے۔
10۔ اپنے گاہکوں سے نہایت خوش خلقی، صبر وتحمل اور مہربانی سے پیش آنا چاہئے۔ بدخلقی اور بدزبانی سے گاہک بدک جاتا ہے۔ جس سے تجارت کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(رَحِمَ اللهُ عَبْدًا سَمْحَا إِذَا بَاعَ سَمْحًا إِذَا اشْتَرَى سَمْحًا إِذَا اقْتَضَى)[1]
’’جو شخص بیعنے خریدنے اور تقاضا کرنے میں نرمی کرتا ہے۔ اللہ کی مہربانی اس کے شامل حال رہتی۔
11۔ دنیا و آخرت کا کوئی کام بغیر محنت و مشقت کے نہیں ہوتا اور تاجروں کے لئے تو اس کی بہت ضرورت ہے۔ محنتی تاجر بہت جلد ترقی کر لیتا ہے
12۔ یوں تو ہر شخص کے لئے کفایت شعاری ضروری ہے۔ لیکن ایک تاجر کے لئے یہ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ اس سے تجارت کو ترقی حاصل ہوتی ہے، جو شخص آمدنی سے زیادہ خرچ کرتا ہے وہ چند دنوں میں دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ اس لئے حد کی بڑی تاکید آئی ہے۔ اقتصاد کو نصف معیشت ٹھہرایا گیا ہے۔ آمد و خرچ کا پورا حساب لکھنا چاہئے ۔ اور اگر لکھنا جانتا ہے تو ہر ضروری چیز کو لکھ لیا کرے تاکہ حساب میں سہولت ہو۔
13۔ بیچنے اور خریدنے والے اپنی اپنی رضا مندی سے معاملہ کو طے کریں۔ اگر ایک نے خوشی سے لیا لیکن بیعنے والے نے خوشی سے نہیں بیعا ہے۔ بلکہ زبردستی کر کے اس سے یہ کام لیا گیا ہے تو یہ کام صحیح نہیں۔ اس لئے کہ سوداگری میں دونوں طرف سے رضا مندی کا ہونا ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا يَتَفَرَّقَنَّ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ)[2]
’’دونوں رضا مندی سے جدا ہوں۔ بغیر رضا مندی کے الگ ہونا جائز نہیں‘‘
14۔ ایجاب و قبول بھی ضروری ہے۔ ایک نے کہا میں نے بیعا ہے دوسرے نے کہا میں نے خریدا ہے اگر ایک طرف سے ایجاب ہو اور دوسری طرف سے قبول نہیں اور اگر قبول ہے تو ایجاب نہیں ہے تو اس قسم کا معاملہ جائز نہیں ہے۔
15۔ جو چیز خریدی جا رہی ہو اس کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ موجود نہیں ہے اور اس کے سپرد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، كتاب البيوع باب السهولة والسماحة في الشراء و البيع: (2076)
[2] ابوداود، كتاب الاجارة باب في خيار المتبايعين (289/3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنے پر قادر نہیں ہے تو ایسا معاملہ درست نہیں۔ رسول ﷺ نے فرمایا:
(لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِندَكَ)[1]
’’جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو مت بیعو۔‘‘
جس چیز میں فریب ہو اس کو غرر کہتے ہیں ۔ اسی لئے آپ نے بیع غرر کو جائز نہیں فرمایا۔
16۔ ۔ جب اصول کے مطابق ہر طرح سے یہ معاملہ ہو گیا تو بلا کسی شرعی خیار کے اس کا توڑنا جائز نہیں ہو گا۔ خیار کی چار قسمیں (1) خیار مجلس (2) خیار رویه (3) خیار شرط (4) خیار عیب۔
17۔ مول بھاؤ پوری دیانت داری اور امانت داری سے کرنا چاہئے ۔ بھاؤ پر بھاؤ لگانا درست نہیں ہے۔ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ناپ تول میں کمی بیشی حرام ہے۔ ضرورت کے وقت اللہ روکنا اور نہ بیچنا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنِ احْتَكَرَ طَعَامًا فَهُوَ خَاطِئي)[3]
’’جس نے غلہ کی ذخیرہ اندوزی کی وہ مجرم ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلہ اور ضرورت کی چیزوں کو گرانی کی نیت سے خرید کر روک رکھنا اور قحط یا بہت تکلیف کے وقت زیادہ گراں کر کے بیچنا منع ہے۔
بیع سلم یعنی پیشگی قیمت دے کر کوئی چیز خرید لینا جملہ شرائط کے مطابق جائز ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَّعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ).[4]
’’جو بیع سلم کرے وہ ناپ تول اور مدت کو معین کرے تاکہ بعد میں کسی قسم کا اختلاف نہ پیدا ہو۔‘‘
یہ بیع سلف غلے میں کھانے پینے کی صورت میں جائز ہے۔ اس معاملے میں سود نہیں ہے رہن رکھنا درست ہے جیسا کہ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیتوں میں آ چکا ہے۔ رسول اللہﷺ نے رہن رکھا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی بنیا سے ادھار غلہ خریدا تھا۔
(وَرَهِنَهُ دِرْعًا لَهُ مِنْ حَدِيدٍ)[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب البيوع باب ما جاء في كراهية بيع ما ليس عندك 236/2.
[2] بخاري« كتاب البيوع باب بيع الغررو حبل الحبلة.
[3] مسلم، ترمذی، ابو داود.
[4] بخاري« کتاب السلم* باب السلم في كيل معلوم (2239)
[5] بخاري« کتاب البیوع باب شراء النبيﷺ بالنسيئة (2068)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ نے یہودی کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔
وہ زرہ آپ کے انتقال کے وقت تک گروی رہی۔
(الظَّهْرُ يُرْكَبَ بِنَفْقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفْقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُوْنًا وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَ يَشْرَبُ النَّفَقَةُ)[1]
’’سواری کے جانور پر بقدر اس کے خرچ کے سواری کی جائے جبکہ وہ گروی رکھا ہوا ہو دودھیلے جانور کا دودھ پیا جائے بقدر اس کے خرچ کے جبکہ دوران رکھا ہوا ہو سوار ہو نیوالے اور دودھ پینے والے کے ذمہ اس کا خرچ ہے۔‘‘
یعنی جب کوئی سواری کا جانور یا دودھ والا جانور مرہون ہو۔ اور اس کو مرتہن دانہ گھاس چارہ و غیرہ کھلاتا ہے اور اس کی حفاظت و پرورش کرتا ہے تو مرتہن بقدر اپنے خرچ کے اس پر سوار بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس کا دودھ بھی پی سکتا ہے۔ لیکن اپنے خرچ سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکتا۔ جو خرچ سے زیادہ ہو وہ راہن کو واپس کرے۔ اگر خرچ سے زیادہ نفع حاصل کرے گا تو وہ سود اور حرام ہے۔ اس لئے کہ قرض کے بدلہ میں جو نفع اٹھایا جائے گا وہ سود میں داخل ہے۔ فائدہ نقصان راہن کا ہے یعنی اس جانور سے اگر بچہ پیدا ہو یا جانور مر جائے تو وہ بھی راہن جانور کے مالک کا ہوگا۔
اشیائے منقولہ جیسے زیور، گائے، بیل، گھوڑا، اونٹ وغیر ہ اور اشیائے غیر منقولہ جیسے زمین مکان وغیرہ کا رہن رکھنا جائز ہے مگر مرتہن کو اپنے خرچ سے زیادہ نفع لینا جائز نہیں ہے نیز بعض لوگ جو اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کو رہن رکھ دیتے ہیں یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
شفع کے سلسلے میں بھی یہ ضروری ہے کہ جس کا حق ہے اس کو دینا چاہیے اس میں بدمعاملگی کرنا خیانت ہے شفع کے معنی ملانے اور جوڑنے کے ہیں اور شرعی محاورہ میں شریک کا وہ حصہ ہے جو دوسرے شریک کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ ایک شرعی حق کہ جو شریک اور شفعہ کے درمیان میں ہوتا ہے۔ کسی عوض مسمی کے بدلے میں دینا جیسے دو آدمی ایک زمین میں شریک اپنے حصے کی زمین بیچنا چاہتا ہے تو دوسرے شریک کو شرعی حق پہنچتا ہے کہ یہی خریدے بغیر اس شریک کی اجازت کے دوسرے کو خریدنے کا حق نہیں ہے۔ جو قیمت دوسرا اجنبی شخص دے سکتا ہے اتنی ہی قیمت دے کر یہ شفیع اپنے شریک سے اس کے حصے کی زمین خرید کر اپنے حصے کی زمین کے ساتھ ملائے اور شریک کو شفیع کی موجودگی میں اس کے ساتھ شرعا بیچنا پڑے گا اگر یہ موجود نہیں ہے تو اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الرهن باب الرهن مركوب و محلوب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
قضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشَّفْعَةِ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِفَتْ الطَّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ)[1]
’’رسول اللہﷺ نے شفعہ کا حکم دیا ہے۔ ہر اس چیز میں جس کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ جب حد بند ہو جائے اور ہر ایک کا راستہ الگ الگ ہو جائے تو پھر شفعہ نہ رہے گا۔‘‘
اور یہ شفعہ زمین مکان، باغ اور غیر منقول چیزوں میں ہے بغیر شریک کی اجازت کے دوسرے کے ہاتھ بیچنا جائز نہیں، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں۔
قضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالشَّفْعَةِ فِي كُلِّ شِرْكَةٍ لَمْ تُقْسَمُ رَبْعَةٍ أَوْ حَائِطٍ لَّا يَحِلُّ لَهُ أَنْ یَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ فَإِنْ شَاءَ أَخَذَ وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ فَإِذَا بَاعَ وَلَمْ يُؤْذِنْهُ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ)[2]
’’رسول الله ﷺ نے شفعہ کا حکم دیا ہر مشترک زمین میں جو کہ تقسیم نہ کی گئی ہو خواہ گھر ہو یا باغ ہو۔ اس کو بیچنا حلال نہیں ہے یہاں تک کہ اپنے شریک کو آگاہ کر دے بس اس کے بعد اگر وہ چاہے تو خرید لے اگر نہ چاہے تو چھوڑ دے یعنی نہ خریدے اور اگر بغیر شریک کی اطلاع کے اس نے فروخت کر دیا تو بھی شفیع شریک حقدار ہے۔ شریک کو شرکت کی وجہ سے شفعہ کا زیادہ حق ہے۔“
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اَلْجَارُ أَحَقُّ بِشُفَعَتِهِ يُنْتَظرُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهَا وَاحِدًا)[3]
’’پڑوسی اپنے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے جبکہ دونوں کا ایک ہی راستہ ہوا گر وہ موجود نہیں تو اس کا انتظار کیا جائے۔‘‘
شفعہ کا حق باطل کرنے کے لیے حیلہ بہانا کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر بہانا بازی سے کسی کا حق باطل کر دیا تو قیامت کے دن حق تلفی کی وجہ سے سخت باز پرس ہوگی۔ اور حق شفعہ کا فروخت کرنا کرانا بھی جائز نہیں ہے۔
ناجائز سوداگری سے بچنا چاہئے۔ یعنی بعض ایسی چیزیں ہیں جن کی تجارت شرعا جائز نہیں ہے۔ یہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الشفعة، باب الشفعة فيما لم يقسم فاذا وقعت الحدود فلا شفعة والحديث:
:2257)
[2] مسلم: كتاب المساقاة باب الشفعة۔
[3] ترمذی: کتاب الاحكام باب الشفعة للغائب:292؍2۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممانعت کبھی حرمت، کبھی کراہت اور کبھی شرط باطل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں جیسے بغیر شکار کئے ہوئے دریا اور تالاب کی مچھلیوں کا بیچنا جائز نہیں، پکڑ لینے اور شکار کر لینے کے بعد جائز ہے۔ اس طرح سے کسی جانور کے پیٹ کا بچہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے بیچنا درست نہیں ہے۔ پیدا ہو جانے کے بعد درست ہے جانور کے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے دوہنے سے پہلے اس کا بیچنا اور خرید نامنع ہے دودھ نکالنے کے بعد جائز ہے یا درختوں کے کچے پھلوں کو توڑنے سے پہلے بیچنا منع ہے۔ پکنے کے بعد جائز ہے جیسے آم کا بور آتے ہی جس میں پھل ابھی تک نہیں آیا یا چھوٹے چھوٹے پھل آئے ہیں لیکن کھانے کے قابل نہیں تو ان کا بیچنا جائز نہیں، کیونکہ ان سب میں غرر اور ضرر ہے۔
(نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ)[1]
’’رسول اللہ ﷺ نے کنکری پھینکنے کی بیع اور دھوکہ و نقصان دینے والے معاملہ سے منع فرمایا ہے۔‘‘
جاہلیت کے زمانے میں بعض لوگ اس طرح کرتے تھے کہ خریدنے والا فروخت کرنے والے سے کہتا کہ میں تمہاری چیز پر کنکری پھینکتا ہوں ۔ جس چیز پر میری کنکری پڑے گی۔ اس کو تمہیں دینا پڑے گا خواہ وہ کتنی ہی قیمتی چیز کیوں نہ ہو بیعنے والا اس کو تسلیم کر لیتا یا خود بیعنے والا خریدنے والے سے کہتا کہ جس چیز پر تمہاری کنکری پڑے گی اس کو نہیں لینا پڑے گا خواد وہ چیز معمولی ہو یا قیمتی ہو یہ ایک قسم کی جوئے بازی تھی اس لئے شریعت نے اس قسم کی سٹے بازی کو اور ایسی خرید و فروخت سے منع کر دیا ہے۔ اسی طرح دو تین سال پیشتر پھلوں کے پیدا ہونے اور پکنے سے پہلے سے پہچنا جائز نہیں۔ اس لئے کہ اس میں خریدار کو نقصان کا احتمال ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(نَهٰى عَنْ بَيْعِ السِّنِينَ وَأَمَرَ بِوَضْعِ الْجَوَائِحِ)[2]
’’چند سالوں کے بیع کرنے سے منع فرمایا۔ اور حکم دیا بقد ر نقصان کے کم کرنے کا۔‘‘
چند سالوں کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور بقدر نقصان قیمت میں کمی کر دینے کا حکم دیا ہے۔ یعنی چار چھ سال کا پھل اس کے وجود سے پہلے ہی خرید لیا۔ اور بعد میں اس باغ میں پھل نہیں آیا۔ یا ہوا آندھی وغیرہ کی وجہ سے آفت آئی۔ جن سے پھلوں میں بہت نقصان ہو گیا تو ایسی حالت میں بیعنے والے کو شرعاً حکم دیا گیا ہے کہ جتنا نقصان ہوا ہے اس کے حساب سے قیمت کم کر دے تا کہ خریدار کو نقصان نہ ہو۔ اس قسم کے معاملات میں عموما اختلاف اور جھگڑا ہوتا ہے اس لئے اس قسم کے معاملہ سے منع کر دیا گیا ہے اس کو شرعی محاورہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب البيوع، باب بطلان بيع الحصاة مسلم کتاب المساقاة باب وضع الحوائج
[2] مسلم: کتاب المساقاۃ، باب وضع الجوائح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بیع معاومہ پانچ سنین کہتے ہیں اسی طرح سے جو پھل درختوں کی شاخوں پر لگے ہوتے ہیں ان کو خشک پھلوں کے بدلہ میں خرید نا نا جائز ہے جیسے تازہ کھجور جو درخت پر لگی ہوئی ہے اس کو دس پانچ من خشک کھجوروں کے بدلے میں خرید لے اس لئے کہ ایک جنس ہونے کی وجہ سے کمی و بیشی کا احتمال ہے جو سود کے حکم میں ہے اس کو شرعی زبان میں مزابنہ کہتے ہیں۔ اسی طرح جو غلہ ابھی کھیتوں میں ہے کٹ کر اور صاف ہو کر نہیں آیا اس کو پرانے غلے کے بدلہ میں بیچنا خرید نا جائز نہیں ہے۔ جیسے کھیتوں میں گیہوں کی کھیتی کھڑی ہے اور اس کو پکنے اور تیار ہونے میں کافی دیر ہے اس کھیتی کو پرانے غلہ یا جنس کے بدلہ میں خرید نا پینا منع ہے کیونکہ اس میں کمی و بیشی اور سود کا احتمال ہے۔
اس کو محاقلہ کہتے ہیں مخابرہ اور مزارعت کی بعض صورتوں میں ممانعت ہے۔
بخاری و مسلم [1]میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزابنہ اور محاقلہ و غیرہ سے منع فرمایا ہے اور معاملہ میں شرط بھی منع ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا يَحِلُّ سَلْفٌ وَبَيْعٌ وَلَا شَرْطَانِ فِي الْبَيْعِ وَلَا رِبْحَ مَا لَمْ يُضْمَنُ وَلَا بَيْعَ مَا لَيْسَ عندک) [2]
’’نہیں حلال ہے قرض اور بیع اور ایک بیع میں دو شرطین بھی حلال نہیں۔ جس کا ضمان نہیں دیا گیا اس سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے اور جو چیز تمہارے پاس نہ ہوا اس کا بیچنا بھی جائز نہیں۔‘‘
اس قرض اور بیع کی یہ صورت ہے کہ کوئی کہے کہ یہ بیل سو روپے میں اس شرط پر تیرے ہاتھ فروخت کرتا ہوں کہ ایک ہزار روپے مجھے قرض دو۔ وہ اس قرض سے فائدہ اٹھائے گا اور جس قرض سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو وہ سود میں داخل ہے اسلئے یہ جائز نہیں ہے اسی طرح سے کوئی دو شرطیں مقرر کرے۔ جیسے یہ کہے کہ اس کپڑے کو میں اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ میں دھلا دوں گا اور سلا بھی دوں گا یہ بھی درست نہیں ہے اور جو چیز اپنے قبضہ و تصرف میں نہ آئی ہوا سے اس سے نفع کمانے کی اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ اس زمانے میں عام طور پر یہ دستور دیکھا جاتا ہے کہ زبانی طور پر مال خرید لیتے ہیں۔ اور نہ اس کی قیمت دی ہے اور نہ اس کو اپنے قبضہ و تصرف میں لایا ہے اور نفع میں کسی کے ہاتھ فروخت کر دیا ہے اور اس نے کسی دوسرے کو اور اس نے کسی تیسرے کو اور مال اب تک کسی کے قبضہ میں نہیں آیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري كتاب البيوع باب بيع المحاضرة
[2] ابو داود: كتاب الاجارة، باب في الرجل يبیع ما ليس عنده 302/3، (3498)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روایت میں آپ ﷺنے فرمایا:
(مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ)[1]
’’جو کسی غلے کو خرید لے تو اس کو نہ بیچے یہاں تک کہ اس کو پورا لے لے یعنی قبضہ کرلے۔‘‘
بغیر قبضہ کئے دوسرے کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ بیعانہ لینا اور واپس نہ دینا جائز نہیں ہے۔ یعنی بعض لوگ وعدہ کی پختگی کے لئے کچھ رقم پیشگی لیتے ہیں کہ اگر وہ چیز لے لی گئی تو اس کی قیمت میں سے اتنی رقم کم وصول ہوگی نہیں تو یہ رقم واپس نہ ہو گئی اس کو محاورہ میں بیعانہ کہتے ہیں اگر کوئی بیعانہ کی رقم دے اور اس کے مطابق چیز نہ لے تو اس کو وعدہ خلافی کا گناہ ضرور ہے ۔
لیکن اس کے روپے کا مار بیٹھنا جائز نہیں ہے ۔ اسی بیع عربان کو اردو میں بیانہ اور رسائی کہتے ہیں۔
بعض لوگ تاجروں کے دلال ہوتے ہیں وہ خریداروں کو دھوکہ دینے کے لیے جھوٹ موٹ خریدار بن جاتے ہیں اور دام بڑھا دیتے ہیں تاکہ ناواقف گاہک دھوکے میں پھنس کر زیادہ قیمت دے دیں اس کو عربی زبان میں نخش کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ۔[3]
مرے ہوئے حلال جانوروں کے کچے چھڑے کو بغیر دباغت دیئے ہوئے فروخت کرنا درست نہیں ہے۔ دباغت کے بعد جائز ہے۔ راستے میں آنے والے قافلوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے مل کر ان کی چیزوں کو بازار کے بھاؤ سے سستا خریدنا منع ہے اگر کسی نے خرید لیا تو بازار میں آنے کے بعد مالک کو اختیار رہے گا چاہے اس معاملے کو
رکھے چاہے توڑ دے۔[4]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا تَلَّقُوا الرُّكْبَانَ لِبَيْعٍ وَلَا يَبِیعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا بَيِیْعُ حَاضِرٌ لِّبَادٍ وَلَا تَصُرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ)[5]
’’خریدنے کی نیت سے آنے والے قافلوں سے جا کر مت ملو۔ اور اپنے مسلمان بھائی کی خریدو فروخت پر خرید و فروخت مت کرو اور نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھاؤ اور نہ مصراۃ کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب البيوع، باب الكيل على البائع والمعطى: (2126)
[2] بخاري: کتاب البیوع باب في النحش (2102)
[3] بخاري: کتاب الزكاة، باب الصدقة على موالی ازواج النبي ﷺ (1492)
[4] مسلم: كتاب البيوع، باب تحريم بيع الرجل على بيع اخيه.
[5] بخاري: كتاب البيوع، باب النهي للبائع أن لا يحفل الابل (2150)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی بائع اور مشتری دونوں ابھی مجلس سے الگ نہیں ہوئے کہ اس مجلس میں کوئی تیسرا شخص بائع سے یوں ا کہے کہ میں اس سے کم قیمت پر ایسا ہی مال یا اس قیمت پر اس سے اچھا مال دیتا ہوں تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ دودھ دینے والے جانور کے تھنوں میں دودھ روک کر جانور بیچنا تاکہ خریدار کو محسوس ہو کہ یہ جانور زیادہ دودھ دینے والا ہے یہ دھوکا ہے اس لئے منع ہے معلوم ہونے پر خریدار کو اس کے رکھنے نہ رکھنے کا اختیار ہوگا ۔[1]
اگر کوئی کسی درخت کے پھلوں کو بیچے اور یوں کہے کہ کچھ پھل نہیں پیچتا یا باغ فروخت کرے اور کہے کچھ درخت نہیں فروخت کرتا تو ایسا معاملہ جائز نہیں ہے کیونکہ استثناء کے تعین میں جھگڑے ہوں گے البتہ اگر ظاہر کر کے معین کر دے مثلا یوں کہے کہ میں اس باغ کو فروخت کرتا ہوں لیکن فلاں ایک درخت کو نہیں بیچتا ہوں تو اس طرح جائز ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
(نَهٰى عَنِ الثُنْيَا إِلَّا أَنْ يُعْلَمَ)[2]
رسول اللہ ﷺ نے بیع میں استثناء کرنے سے منع فرمادیا ہے مگر جب معلوم ہو کہ استثناء معلوم جائز ہے مجہول جائز نہیں ہے۔
کسی کی طبیعت بیچنے کو نہیں چاہتی تو اس سے زبردستی خریدنا جائز نہیں۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے مضطر اور مکرہ کے بیع سے منع فرمایا ہے۔
نرجانور کا کسی مادہ پر چڑھانے کی اجرت لینا دینا درست نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔[3]
بغیر مقرر کئے ہوئے انعام اور بخشش کے طور پر لینے دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔[4]
بیع عینہ درست نہیں ہے اس کی صورت یہ ہیں کہ ایک میعاد مقررہ پر اسباب و مکان اور زمین و غیره فروخت کر دے۔ پھر اس قیمت سے کم پر نقد دے کر خرید لے ۔ اس میں سود و بیاج ہے۔ اس لئے یہ جائز نہیں ہے۔ اور اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح سے وہ خرید و فروخت منع ہے جس میں سود لینا دینا پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب البيوع، باب النهي للبائع ان لا يحفل الابل (2150)
[2] ابو داود: كتاب البيوع باب في المنابذه (3399)
[3] بخاري: كتاب الاجارة باب عسب الفحل (2284)
[4] ترمذي: كتاب البيوع باب ما جاء في كراهية عسب الفحل (256/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔