ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ اِذِ ابْتَلٰۤی اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ۝۱۲۴﴾ [البقرة:124]
’’جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا عرض کرنے لگے: اور میری اولاد کو۔ فرمایا میرا وعدہ ظالموں۔ کو سے نہیں۔‘‘
یہ دنیا دار الامتحان اور دارالابتلاء ہے۔ یہاں ہر کوئی امتحان اور آزمائش میں ہے۔ امیر ہو یا غریب حاکم ہو یا محکوم۔ سکھی ہو یا دُکھی تندرست ہو یا بیمار خوبصورت ہو یا بد صورت ہر کوئی آزمائش میں ہے۔
سورۃ الانبیاء میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿﴾ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً ؕ وَاليْنَا تُرْجَعُونَ﴾ [الأنبياء:35]
’’یعنی ہم اچھی اور بری دونوں طرح کی آزمائشوں میں مبتلاء کرتے ہیں۔‘‘
کبھی مصائب و آلام سے دو چار کر کے اور کبھی دنیا کے وسائل فراواں سے بہرہ ور کر کے، کبھی صحت و فراوانی کے ذریعے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے کبھی تونگری دے کر اور بھی فقر وفاقہ میں مبتلاء کر کے ہم آزماتے ہیں:
تا کہ ہم دیکھیں کہ شکر گزاری کون کرتے ہیں اور ناشکری کون؟ صبر کون کرتا ہے اور بے صبری کون؟ پھر تم ہماری طرف ہی لوٹ کے آؤ گے تو ہم صبر و شکر کرنے والوں کو اجر عظیم اور جنات نعیم سے نوازیں گے اور ناشکروں اور بے صبروں کو خسران مبین اور عذاب الیم میں جھونک دیں گے۔
بہرحال دونوں طرح کی آزمائش ہوتی ہے بنو اسرائیل کی تاریخ پڑھیے قرآن بیان کرتا ہے پہلے وہ فرعونیوں کے ظلم و تشدد کی چکی میں پس رہے تھے اس وقت بھی آزمائش میں تھے پھر انہیں فرعونیوں کے ظلم سے نجات دی گئی۔
بادشاہتوں سے نوازا گیا۔ اور یہ بھی امتحان ہی تھا۔ اور حقیقت ہے خیر و بھلائی والی آزمائش تنگی اور شر والی آزمائش سے بھی سخت ہوتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کہا کرتے تھے۔
ہمیں رسول اللہ ﷺ کے دور میں صعوبتوں اور تکلیفوں کے ذریعے آزمایا گیا ہم کامیاب ہو گئے لیکن بعد میں ہمیں آسائشوں اور نعمتوں کے ذریعے آزمایا گیا تو ہم پوری طرح کامیاب نہ ہوئے۔[جامع الترمذی، ابواب صفة القيامة، باب، رقم: 2582]
الغرض آزمائش اور امتحان یہ دنیا کی زندگی جز ولا ینفک ہے کوئی فرد و بشر اس سے مستثنی نہیں۔ جامع الترمذی میں ہے:
’’سب سے بڑی آزمائش انبیاء کرام علیہم السلام کو پیش آئی ہیں۔‘‘[جامع الترمذي، كتاب الزهد، باب ما جاء في الصبر على البلاء، رقم: 2398]
اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے آزمائش میں کامیابی میں نمونہ بنیں۔ نیز آزمائشوں کے ذریعے ان کے درجات بلند کیے جاتے ہیں۔
تو آج کے خطبہ میں ایک عظیم پیغمبر جد الانبیاء خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چند آزمائشیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اور یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا ایک بہت بڑا پہلو ہے۔ جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
﴿ وَ اِذِ ابْتَلٰۤی اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ﴾ [البقرة:124]
’’ وہ وقت یاد کرو جب حضرت ابراہیم میے کو ان کے رب نے چند بڑی بڑی باتوں میں آزمایا۔‘‘
پھر خود اللہ رب العزت نے یہ گواہی دی ہے ﴿ فَاَتَمَّهُنَّ ﴾ کہ ابراہیم علیہ السلام ان آزمائشوں میں اعلیٰ درجے کے کامیاب ثابت ہوئے اور وہ تمام امتحانات انتہائی مشکل اور بھاری تھے۔ وہ آزمائشیں انتہائی سخت اور دشوار تھیں۔ جس گھر میں آنکھ کھولی وہ شرک کا گہوارہ اور بت گری کا مرکز تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ آزر صرف بت پرست ہی نہیں تھا بلکہ بت گر بھی تھا۔ بت بنا بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے گھر سے ہی دعوت توحید کا آغاز فرمایا سورہ مریم میں تفصیل موجود ہے۔ بڑے پیارے انداز میں ادب واحترام کے ساتھ اپنے باپ کو دعوت توحید دی
﴿ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۝۴۱
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْـًٔا۝۴۲
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْۤ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا۝۴۳
یٰۤاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا۝۴۴
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا۝۴۵
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِیْ مَلِیًّا۝۴۶
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا۝۴۷
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ ۖؗ عَسٰۤی اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا﴾ [مريم: 41 تا 48]
’’اس کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان کر بے شک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں میرے مہربان باپ! آپ دیکھئے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا۔ میرے ابا جان! آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان تو رحم و کرم والے اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نا فرمان ہے۔ ابا جان! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الہی نہ آپڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔ اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا۔ جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رو۔ کہا اچھا تم پر سلام ہو۔ میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔ میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا۔‘‘
غور کیجئے! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کتنے با ادب شائشہ اور کھلے الفاظ میں اپنے باپ کو دعوت توحید دی اور دعوت میں کوئی لچک نہیں دکھلائی اور باپ کے ادب میں بھی فرق نہیں ڈالا۔ واشگاف الفاظ میں بتلایا کہ بت پرستی شرک ہے اور در حقیقت شیطان کی پوجا ہے اور یہ شرک موجب عذاب و موجبِ ہلاکت ہے لیکن انداز انتہائی پیارا اختیار فرمایا: ’’یٰابتِ یٰابتِ‘‘ پیارے ابا جان پیارے ابا جان کہہ کر اپنے باپ کو مخاطب کیا۔ لیکن باپ نے اتنی پیاری دعوت قبول کرنے کی بجائے دھمکیاں دیں تو یہ کتنی بڑی آزمائش ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خیر خواہی کرتے ہیں دعوت توحید دیتے ہیں۔ اور پورے ادب و احترام کے ساتھ بات کرتے ہیں لیکن باپ جھڑکتا ہے ڈانٹتا ہے ڈراتا دھمکاتا ہے۔ میں سنگسار کروں گا۔ میرے گھر سے نکل جاؤ۔
پھر ساری قوم مشرک تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خون کی پیاسی بنی ہوئی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السالم نے انداز بدل بدل کر سمجھانے کی کوشش کی ان کو سمجھانے کے لیے ان کے بت کدے میں جا کے ان کے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔
جس طرح سورۃ الانبیاء میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے:
﴿ فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ۝ قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ۝۵۹ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُؕ۝۶۰ قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ۝۶۱ قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُؕ۝۶۲ قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ۝۶۳ فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤی اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ۝۶۴ ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰی رُءُوْسِهِمْ ۚ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ۝۶۵ قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْـًٔا وَّ لَا یَضُرُّكُمْؕ۝۶۶ اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾[الأنبياء:58 تا 67]
’’پس اس نے ان سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لیے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں کہنے لگے کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کس نے کیا ؟ (ہمارے خداؤں کا بیڑا غرق کس نے کیا) ایسا شخص تو یقینا ظالموں میں سے ہے بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا وہ ان کی مذمت کرتا رہتا ہے) جسے ابراہیم (علیہ السلام) کہا جاتا ہے سب نے کہا اچھا اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لاؤ تاکہ سب دیکھیں کہنے لگے! اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تو نے ہی ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے آپ نے جواب دیا بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے تم اپنے خداؤں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چاہتے ہوں۔ پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہو گئے اور کہنے لگے واقعی ظالم تو تم ہی ہو۔ پھر اپنے سروں کے مال اوندھے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولنے چالنے والے نہیں۔ اللہ کے خلیل نے اس وقت فرمایا افسوس! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں۔‘‘
سبحان اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کتنی جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ایک طرف آپ تن تنہا اور دوسری طرف پوری مشرک قوم اور خوب معلوم تھا کہ قوم کے دلوں میں ان بتوں اور مورتیوں کا کتنا بڑا تقدس ہے اس کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام جان ہتھیلی پر رکھ کر اس آزمائش میں کامیاب ہوئے۔ ذرا تصورات کی دنیا میں جا کر سوچیے! کہ یہ کتنا بڑا امتحان تھا۔ یہ کتنی کٹھن ابتلا تھی۔
ذرا غور کیجیے! یہ کتنی بڑی آزمائش تھی؟ کہ ابراہیم علیہ السلام نے قوم کی خیر خواہی کرتے ہوئے ہر طرح سے قوم کو شرک کی تاریکیوں سے نکالنا چاہا اور اس طرح انہیں جہنم سے بچانا چاہا۔ لیکن قوم ڈھٹائی کے ساتھ شرک اور کفر پہ اڑی رہی اور الٹا حضرت
ابراہیم علے کو آگ میں جلانے کی کوششیں کرنے لگے۔ وہ تو اللہ رب العزت نے اپنے امر سے اور کن فیکون کی قدرت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچایا اور ان کے لیے دشمنوں کی آسمان سے باتیں کرتی آگ کو گلزار بنا دیا:
﴿ قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰهِیْمَ﴾ [الأنبياء:69]
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہجرت جیسی آزمائش سے بھی گزرنا پڑا اللہ کے دین کے لیے ہجرت بہت بڑا امتحان ہے کہ انسان اپنا وطن علاقہ سب کچھ چھوڑ کر کسی اورعلاقے میں مقیم ہو جائے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت قرآن کریم میں بھی مذکور ہے اور کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔
صحیح البخاری میں حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعال یعنہ راوی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ علیہا السلام کو ساتھ لے کر سفر ہجرت کر رہے تھے راستے میں ایک جابر بادشاہ کے علاقے سے گزر ہوا اس جابر بادشاہ کو اطلاع دی گئی ایک ابراهیم نامی شخص اپنی خوبرو عورت کے ساتھ آپ کے علاقے میں داخل ہوا ہے۔ بادشاہ نے پیغام بھیجا۔ اس سے پوچھو کہ اس کے ساتھ کون ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا گیا۔ آپ نے جواب دیا یہ میری بہن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جابر بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے یہ گول جواب دیا۔ ساتھ اپنی بیوی کو بتلایا کہ میں نے ان لوگوں کو یہی کہا ہے کہ یہ میری بہن ہے اس لیے مجھے جھوٹا نہ کرنا۔ اور اللہ کی قسم اس وقت روئے زمین پر میرے اور تیرے سوا کوئی مومن نہیں اس لیے رشتہ ایمان میں ہم دونوں بہن بھائی ہیں۔ پھر بادشاہ نے حضرت سارہ علیہا السلام کو طلب کیا اور برے ارادے سے ان کی طرف بڑھا۔ جناب سارہ اٹھیں جلدی سے وضو کیا اور نماز شروع کر دی نماز میں دعا کی:
(اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلٰى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَىَّ الْكَافِرَ)
’’یااللہ اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کو شوہر کے سوا ہر کسی سے محفوظ رکھا ہے تو تو اس کا فر کو مجھ پہ مسلط نہ کرنا۔‘‘
پس وہ بادشاہ منہ کے بل گرا اور ایڑیاں رگڑنے لگا۔ تڑپنے لگا۔ جناب سارہ نے کہا یا اللہ اگر یہ مر گیا تو قتل کا الزام مجھ پر آئے گا۔ وہ بادشاہ ٹھیک ہو گیا (لیکن اسے ابھی عقل نہ آئی، وہ پھر برے ارادے سے آگے بڑھا پھر ایسا ہی ہوا (یعنی تین دفعہ وہ اٹھا اور تینوں دفعہ حضرت سارہ علیہا لسلام نے وضو کر کے نماز میں دعا کی تیسری بار کے بعد بادشاہ نے درباریوں سے کہا تم نے تو کوئی جن میرے پاس بھیج دیا ہے۔ اسے ابراہیم کے پاس واپس لے جاؤ۔ اور یہ ہاجرہ خدمت کے لیے ساتھ دے دو۔ جناب سارہ علیہا السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہاجرہ کو ساتھ لے کر آئیں اور کہا: دیکھو اللہ تعالی نے کافر کو منہ کے بل گرایا اور خدمت کے لیے ہاجرہ بھی دلوائی۔ پھر حضرت علیہ السلام نے جناب ہاجرہ علیہ السلام سے بھی نکاح کر لیا۔[صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب شراء المملوك من الحربي وعبد و عتقه، رقم: 1217]
پھر بعد میں اولاد کے حوالے سے چند سخت آزمائشیں در پیش ہوئیں۔ (ان شاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا)۔
بہر حال حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام آزمائشوں میں پورے اترے اور اللہ رب العزت سے بڑے انعامات پائے اللہ رب العزت نے وہ انعامات بیان کرتے ہوئے
کہیں ارشاد فرمایا:
﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّى﴾ [البقرة: 125]
’’لوگو! مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھو۔‘‘
کہیں ارشاد فرمایا:
﴿إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا﴾ [البقرة: 124]
’’(اے ابراہیم! میں تجھے تمام لوگوں کے لیے امام اور پیشوا بنانے والا ہوں۔‘‘
غور کیجئے یہ کتنا بڑا اعزاز واکرام اور فضل و انعام ہے کہ آزمائشوں میں کامیابی کے صلہ میں رب کائنات نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام لوگوں کا امام و مقتدا بنا دیا اور کہیں رب ارض و سماء نے ارشاد فرمایا:
﴿وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾ [النساء:125]
’’الله (رب العزت) نے ابراہیم کو خلیل بنا لیا ہے۔‘‘
یہ (مقام خلت) بہت بڑا اعزاز وانعام ہے جو دنیا بھر میں صرف دو شخصیتوں کو حاصل ہوا ہے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور دوسرے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو۔ تمام بنی نوع انسان میں کوئی تیسرا خلیل نہیں ہے۔
بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمائشوں میں کامیابی کے صلہ میں بہت سارے انعامات ملے۔ ان کا ذکر خیر قیامت تک کے لیے دنیا میں باقی رکھا گیا۔ انہیں دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں نیک و صالح اور چنا ہوا قرار دیا گیا۔ ان کے بعد ان کی ذریت میں نبوت ورسالت رکھ دی گئی آپ کے بعد جتنے انبیاء ورسل دنیا میں مبعوث کیے گئے۔ وہ سب آپ کی اولاد میں سے ہی مبعوث کیے گئے۔ آپ کی اولاد سے دو نسلیں چلیں: ایک بنو اسرائیل اس سے بے شمار پیغمبر مبعوث کیے گئے۔ اور دوسری بنو اسماعیل سے اس سے صرف ایک پیغمبر آیا۔ لیکن وہ تمام انبیاء و رسل السلام کا امام اور پوری اولاد آدم کا سردار بن کر آیا یعنی جناب محمد رسول اللہ ﷺ
شان ابراہیم علیہالسلام کے متعلق مزید تفصیل کے لیے سورۃ الانعام، سورہ ہود، سورہ مریم، سورہ ابراهيم) سورہ الانبياء، سورة الشعراء، سورة الصافات اور سورۃ ص وغیرہ پڑھیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔