اخلاص نیت

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْىُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّاَ لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَاءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلُوةَ وَيُؤْتُو الرَّكُوةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴾ (سورة البينه: 5)
سب تعریف اللہ کے لئے ہے ہم سب اس کی خوبی بیان کرتے ہیں اور اس سے مدد اور معافی چاہتے ہیں اور اسی پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اور اپنے نفسوں کی برائی اور اپنے کاموں کی برائی سے اللہ ہی کی پناہ چاہتے ہیں کیونکہ جس کو خدا راہ پر لگا دے اس کو کوئی بے راہ کرنے والا نہیں اور جس کو بے راہ کر دے اسے کوئی راہ بتانے والا نہیں ہے ہم سب اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ہی ایک سچا معبود ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے وہ ایک اکیلا ہے اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اللہ کی کتاب سب کتابوں سے بہتر ہے اور محمدﷺ کا طریقہ سب طریقوں سے اچھا ہے اور سب کاموں سے برے کام دین میں نئے کام ہیں اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ کی طرف لے جانے والی ہے۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود سے اور اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔ “ (اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص رکھیں ایک طرف ہو کر اور نماز قائم رکھیں اور زکوۃ ادا کریں یہی مضبوط دین ہے۔)
یعنی اللہ تعالی نے تمام نبیوں اور رسولوں کو یہی حکم دیا تھا کہ اخلاص کے ساتھ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔
عربی لغت میں اخلاص کے معنی خالص کرنے کے ہیں اور اسلامی محاورہ میں اس نیک کام کو کہتے ہیں جو صرف اللہ تعالی کی خوشنودی ہی کے لیے کیا جائے ریا و نمود اور اپنی دنیاوی غرض اور طلب شہرت یا طلب معاوضہ اور حصول منفعت وغیرہ کے لیے ہرگز نہ ہو اسی کو احسان بھی کہتے ہیں حدیث شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علی نے نبیﷺ سے پوچھا:
(فَاخْبِرُ نِي عَنِ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يرَاكَ).
(صحیح بخاری کتاب الايمان باب سؤال جبرائيل النبي على الإيمان…. (رقم الحديث: 50)
صحیح مسلم: كتاب الإيمان باب الإيمان ما هو ؟ و بيان خصاله – (رقم الحديث: 97)
مجھے احسان کے متعلق بتائیے تو رسول اللہ صل العالم نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگر تم نہیں دیکھتے تو وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے۔
ہر عبادت کا دار و مدار اسی احسان اور اخلاص پر ہے ایمان اور دیگر اسلامی ارکان کی قبولیت اسی اخلاص پر موقوف ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ (سورة الزمر: 2)
(یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت دل سے اور خلوص اعتقاد سے کرو۔)
عبادت قلبی، بدنی، روحانی، مالی اور ہر قسم کی اطاعت میں اخلاص رکن اعظم ہے ایمان میں بھی اخلاص پہلا رکن ہے اگر ایمان میں اخلاص نہیں تو وہ نفاق ہے قرآن مجید میں مشرکین و منافقین کو اس لیے برا کہا گیا ہے کہ وہ نیک کاموں میں ریا و نمود کے طور پر دوسروں کو بھی شریک کر لیا کرتے تھے (لا الہ الاللہ) کا یہی مطلب ہے کہ اللہ ہی سچا معبود ہے اور ہم سب اس کے بندے اور غلام ہیں تو بندگی اور غلامی کا یہی تقاضا ہے کہ جو بھی نیک کام کرے وہ صرف اپنے معبود آقا کے لیے ہو اس میں اس کی مرضی مقصود ہو اور اس کے علاوہ اور کسی کو خوش کرنا مقصود نہ ہو۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں اخلاص کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے اور سب رسولوں کو اس کام کے لیے مبعوث کیا گیا تھا جیسا کہ فرمایا:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (سورة الأنبياء: 25)
اور آپ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف یہی حکم بھیجا، کہ میرے سوا کوئی سچا معبود نہیں لہذا تم سب میری عبادت کرو۔)
اخلاص بہت بڑی چیز ہے جس نے اخلاص حاصل کر لیا۔ اس نے نفس پر قابو پالیا۔ اور جس نے نفس پر قابو پالیا ، اس نے اللہ کو راضی کر لیا ، در حقیقت انسان کا بہت بڑا دشمن خود اس کا نفس ہے یہی برائیوں کی طرف لے جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات انسان اپنے نفس کی خود پوجا کرتا ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿اَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ﴾ (سورة الفرقان : 43)
(تم نے اس کو بھی دیکھا کہ جس نے اپنی خواہشوں کو معبود بنالیا ہے۔)
یہ نفس ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرنا کرانا چاہتا ہے اور اللہ تعالی اپنی مرضی کے مطابق کرانا چاہتا ہے۔ تو جب انسان ہر کام کو اللہ کے لیے اور اللہ کی مرضی کے مطابق کرے گا تو گویا نفس کی خواہش کو اس نے کچل دیا۔ اسی نفس کشی کا نام عبادت واطاعت ہے پس اخلاص ہی سے ضبط نفس کی صفت و حقیقت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ بہت بڑی چیز ہے سب عبادتوں میں رکن اعظم اور جز ولا ینفک ہے بغیر اخلاص کے کوئی عبادت اللہ کے نزدیک مقبول نہیں ہے اس لئے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ﴾ (سورة الزمر: 11تا 15)
(آپ فرما دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اطاعت گزاری کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کروں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں پہلا فرمانبردار بنوں کہہ دیجئے کہ میں ڈرتا ہوں اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں بڑے دن کے عذاب سے فرما دیجئے کہ اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں اپنی اطاعت گزاری کو اس کے لیے خالص کر کئے تو تم اسے نافرمانو! اللہ کو چھوڑ کر جس کی چاہو عبادت کرو۔)
اس سے معلوم ہوا کہ ہر قلبی لسانی و مالی عبادت و اطاعت کا رکن اعظم اخلاص ہی ہے جو خالص اللہ ہی کے لیے ہو اس میں کسی قسم کی ظاہری و باطنی بت پرستی و نفسانی خواہشات کو دخل نہ ہو بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہو اور بس۔ ہم جو کام کرتے ہیں اس کی دو صورتیں ہیں ایک مادی جو ہمارے جسمانی اعضاء کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے اور دوسری روحانی، جس کا تخیل مارے دل کے ارادہ، نیت اور کام کی اندرونی غرض وغایت سے تیار ہوتا ہے۔ کام کی بقا اور برکت دین و دنیا دونوں میں اس روحانی پیکر کے حسن وقیع اور ضعف وقوت کی بناء پر ہوتی ہے انسانی اعمال کی پوری تاریخ اس دھونی کے ثبوت میں ہے اس لئے اس اخلاص کے بغیر اسلام میں نہ تو بادت قبول ہوتی ہے اور نہ اخلاق و معاملات عبادت کا درجہ پاتے ہیں اس لیے ضرورت ہے ، کہ ہر کام کے شروع کرتے وقت ہم اپنی نیت کو غیر خانہ غرض وغایت سے پاک وصاف رکھیں اس نکتہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے۔
((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالبَاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ قَانَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَو إِلَى امْرَأَةٍ يَنكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ)).
(صحیح بخاری: کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدأ الوحي في رسول اللهﷺ، (حديث نمبر1) و صحیح مسلم: كتاب الإمارة باب قولهﷺ انما الاعمال ….(حدیث (4927)
’’ سب کاموں کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کرلی ہے پس جو حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کرے تو اس کی ہجرت اس کام کے لیے ہے۔‘‘
یعنی نیک کاموں کی صحت اور اختیار نیت پر موقوف ہے اگر نیت اچھی ہے اور وہ کام صرف خدا ہی کے لیے ہے تو وہ مقبول ہے اگر نیت اچھی نہیں ہے اور اس کام کی بنیاد اخلاص پر نہیں ہے تو وہ مردود سے ہجرت کا بہت بڑا درجہ ہے اگر اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہو تو ثواب ہے اور اگر حصول زر یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو تو بس اس کے لیے ہجرت ہے اللہ تعالی کے لیے نہیں ۔ اس اخلاص کو تقوی کے ساتھ بھی تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿لَن يَّنَالَ اللهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ﴾ (سورة الحج:37)
( اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دلوں کی پر ہیز گاری پہنچتی ہے۔)
وہ کھاتا پیتا نہیں ہے وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز ہے وہ صرف تمہارے دلوں کے تقوی اور اخلاص کو دیکھتا ہے کہ یہ کام کسی ارادہ اور نیت سے کیا ہے اگر دلوں میں اخلاص اور تقویٰ ہے تو خوشی ورنہ نہیں جیسیا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
(إنَّ الله تَعَالَى لَا يَسْطُرُ إِلى أَحْسَامِكُمْ وَلَا إِلَى صُورِكُمْ وَلَكِن یَنظُرُ إِلٰى قُلُوبِكُمْ)
صحيح مسلم: كتاب البر و الصلة باب تحريم ظلم المسلم و خذله و احتقاره و دمه و عرضه و ماله (رقم الحديث: 6542)
’’اللہ تعالی تمہارے جسموں اور صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
کہ تمہارے دلوں میں اخلاص ہے یا نہیں ، اگر اخلاص ہے ، تو وہ عمل مقبول اور خدا خوش ہے اور اگر اخلاص نہیں تو خدا نا خوش ہے دراصل ایمان واخلاص دونوں ایک ہی ہیں کیونکہ لا الہ الا اللہ ایمان ہے اور اس میں ہر غیر مخلصانہ کام کی نفی ہے اس لیے یہی اخلاص بھی ہے، رسول اللہ کی عالم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ
(يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيْمَانُ قَالَ الْإِخْلَاصُ)
(شعب الإيمان للبيهقى (342/5 رقم الحديث 6857)
’’اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اخلاص۔‘‘
اخلاص والوں ہی کی برکت سے دنیا قائم ہے اور ان ہی کی برکت سے لوگوں کی امداد ہوتی ہے۔ رسولﷺ نے فرمایا کہ
(إِنَّمَا يَنصُرُ اللهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ بِضَعِيفَهَا بِدَعْوَتِهِمْ وَصَلَاتِهِمْ وَاخْلَاصِهِمْ).
’’اللہ تعالی امداد کرتا ہے اس امت کی ان کے ضعیفوں کی دعاؤں ، ان کی نمازوں اور ان کے اخلاص کی برکت سے۔‘‘
(سنن نسائي: كتاب الجهاد باب الاستنصار بالضعيف، رقم الحديث 3180)
خلوص نیت کے ساتھ کام کرنے سے دین و دنیا دونوں جہاں میں سرخ روئی حاصل ہوتی ہے ۔ دنیا میں ہر شخص ان سے محبت کرتا ہے اور بغیر شہرت چاہے شہرت نصیب ہو جاتی ہے وہ سب کے حسن شمار ہوتے ہیں۔ ان کے اخلاص کے سرچشمے سے لوگ فیض یاب ہوتے ہیں ان کے خلوص کے روشن چراغ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کے خلوص کے فیض و برکت سے سخت سے سخت فتنے دب جاتے ہیں آفتیں اور مصیبتیں دور ہو جاتی ہیں۔
خالص عملوں کے وسیلہ سے اگر آئی ہوئی مصیبت کے دور کرنے کے لیے دعا کی جائے تو اللہ تعالی اخلاص والے حملوں کی برکت سے اس مصیبت کو ہٹا دیتا ہے اس کا اندازہ ذیل کی سچی حکایت سے کر سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ کہ پہلے زمانے کے تین آدمی جا رہے تھے رات کا وقت ہوا۔ ادھر بارش ہونے لگی تو ان تینوں نے بارش سے بچنے کے لیے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی۔ اتفاقا اوپر سے پتھر کی ایک چٹان گری جس سے غار کا منہ بند ہو گیا تو ان لوگوں نے کہا:
(لَا يُنجیْكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ تَعَالَى لِصَالِحٍ أَعْمَالِكُمْ )
’’اس بڑی چٹان سے نجات پانے اور بچنے کا سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہیں کہ تم اپنے نیک اور خالص عملوں کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے دعا کرو۔‘
تو ان میں سے ایک نے کہا: خدایا ! میرا گزارہ صرف بکریوں پر تھا ۔ بکریاں چراتا تھا ۔ اور ان ہی کے دودھ سے تمام گھر والوں کی پرورش کرتا تھا چونکہ میرے ماں باپ بہت بوڑھے ہو چکے تھے اس لیے میں ان سے پہلے کسی گھر والے کو دودھ نہیں پلاتا تھا۔ بلکہ پہلے ان کو پلاتا، پھر بال بچوں کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک روز مجھے درختوں کے پتے لینے کے لیے دور جانا پڑا۔ اور میں اتنی دیر سے واپس آیا کہ والدین سو چکے تھے میں نے حسب دستور دودھ دوہا، والدین کے حصہ کا دورہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ دونوں چونکہ سو گئے تھے ادب کی وجہ سے جگانا مناسب نہ سمجھا اور بغیر ان کے پلائے کسی گھر والے کو پلانا مناسب بھی نہیں ہے سمجھتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ دودھ کا کٹورا لیے میں ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا کہ جب ان کی آنکھ خود بخود کھلے گی، تو دودھ پیش خدمت کروں گا اس انتظار میں صبح ہوگئی اور میرے بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے مگر ان کی میں نے کچھ پروانہ کی جب دین کو بیدار ہوئے تو دودھ پیا۔
(اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجُهِكَ فَفَرِّجُ عَنَّامًا نَحْنُ فِيهِ)
’’اے اللہ! میں نے اس کام کو تیری خوشنودی اور تیری مرضی کے لیے کیا ہو تو اس چٹان کو ہٹا‘‘
چنانچہ اس اخلاص عمل کی وجہ سے فور اور چٹان ہٹ گئی لیکن وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے اس لیے دوسرے کی باری آئی ، اور دوسرے نے کہا کہ: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھ کو اپنے چچا کی لڑکی سے بہت محبت تھی اور میں اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا تھا وہ بچتی رہی اور میرے قبضے میں نہیں آئی یہاں تک کہ ایک سال قحط سالی کے زمانے میں معاشی حالت خراب ہو گئی تو بہت مجبور ہو کر وہ میرے پاس آئی اور قرض کی درخواست کی، میں نے اس کو ایک سو میں دینا ر اس شرط پر دیے کہ وہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے اور میری مراد پوری کر دے وہ اس کام پر رضا مند ہوگئی جب میں ہر طرح اس پر قابو پا چکا اور اس برے کام کے لیے بالکل آمادہ ہو گیا تو اس نے کہا ’’اتق الله‘‘ ’’الله سے ڈر جا‘‘ اور ناحق اس مہر کو مت توڑ، یہ تیرے لیے حلال نہیں۔ میں اس سے ہٹ گیا حالانکہ مجھے اس سے محبت تھی اور ان اشرفیوں کو بھی بلا معاوضہ چھوڑ دیا۔
اللَّهُمَّ إِنْ كُنتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ)
’’الھی اگر میں نے اس کام کو محض تیری رضا مندی کے لیے کیا ہو تو اس مصیبت کو ہم سے دور کردے جس میں ہم گھرے ہوئے ہیں۔‘‘
چنانچه و چٹان کچھ اور ہٹ گئی۔ لیکن نکلنے کے قابل راستہ نہ ہو سکا اس لیے تیسرے کی باری آئی اس نے اے اللہ! میں نے ایک مرتبہ مزدورں سے کچھ کام لیا سوائے ایک کے سب کی مزدوری دے دی وہ اپنی مزدوری کو چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو زراعت پر لگا دیا اور اس سے بہت ترقی ہوگئی بہت مدت کے بعد وہ مزدور آیا اور اپنی مزدوری طلب کی، میں نے اس سے کہا کہ یہ سب کچھ اونٹ، گائے، بیل، بکریاں اور غلام و غیر سب تیرے ہیں سب لے جا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر میں نے کہا:میں مذاق نہیں کرتا۔ جب اس کو یقین آگیا تب وہ سب کچھ لے کر چلا گیا ۔
(اللَّهُمَّ إِن كُنتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ)
’’اے اللہ! اگر میں نے اس کام کو تیری رضا مندی کے لیے کیا ہو تو اس چٹان کو ہٹا دے تا کہ ہم باہر نکل جائیں۔‘‘
چنانچه وہ چٹان اور ہٹ گئی اور سب باہر آگئے۔
(صحیح بخاری: کتاب احاديث الانبياء، باب حاديث الغار (رقم الحديث: 3465) صحيح مسلم: كتاب الذكر و الدعاء باب قصة اصحاب الغار الثلاثة و التوسل بصالح الاعمال: رقم الحديث:6949)
آپ نے اس اخلاص عمل کے اثر کو دیکھا کہ اخلاص نے ان کی مصیبتوں کو دور کر دیا۔ اللہ تعالی اخلاص کو قبول فرماتا ہے۔ اور اس سے خوش ہوتا ہے۔ حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا وَ ابْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ)
(سنن نسائي: كتاب الجهاد، باب من غزا يلتمس الأجر والذكر، (رقم الحديث: 3142) طبراني الاوسط 69/2 رقم الحديث:1116)
’’اللہ تعالی اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کیلئے کیا گیا ہو اور اس کی رضا مندی چاہی گئی ہو۔‘‘
خالص اور سچی نیت پر ثواب ملتا ہے اگر چہ وہ کام نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص نیکی کا ارادہ کرے، اور وہ اس کام کو کسی وجہ سے نہ کر سکے تو ایک نیکی کا ثواب لکھا جاتا ہے اور جو اس کا ارادہ کرے اور پھراس کام کو کر بھی لے تو دس نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے بعض صورتوں میں سات سو نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ اور اگر گناہ کا ارادہ کیا اور اس برے کام کو خدا کے خوف سے نہیں کیا تو اللہ تعالی ایک نیکی کا ثواب لکھتا ہے اور اگر اس کام کو کر لیا تو صرف ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے۔
(صحیح بخاری:1117/2 کتاب التوحيد، باب قول الله تعالى يريدون أن يبدلوا… (رقم الحديث (7501).
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ نیک کام کا ارادہ کرنے سے بھی ایک نیکی کا ثواب مل جاتا ہے اگرچہ اس کام کو نہ کر سکے اور اگر کر لے تو اس سے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں مثلاً اگر تم آخر شب میں تہجد کا ارادہ کرو اور سچی نیت کر لو لیکن آخر شب میں بیدار نہ ہو سکو تو توجہ کا ثواب مل جائے گا۔
رسول اللہ کی الم نے فرمایا کہ
(مَنْ أتٰى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِى أَنْ يَّقُومَ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ حَتَّى أَصْبَحَ كُتِبَ لَهُ مَا نَوَى وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةٌ عَلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ)
(سنن نسائی: کتاب قيام الليل، باب من أتي فراشه وهو ينوي القيام فيها رقم الحدیث:1788)
’’جو اپنے بستر پر آیا کہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا لیکن وہ ہو گیا۔ اور صبح تک آنکھ نہ کھلی تو اس نے جو نیت کی تھی ۔ وہ لکھی گئی اور نیند (سونا) اس کے رب کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘
یہ اخلاص کی برکت ہے کہ تہجد کا ثواب بھی نامہ اعمال میں لکھا گیا۔ اور رات بھر ہوتے بھی رہے اور اگر اسی رات سونے کی حالت میں موت بھی آجائے تو تہجد پڑھنے والوں میں لکھے جائیں گے۔
رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ:
(إِنَّمَا يُبْعَثُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ) (ابن ماجة: ص 322 كتاب الزهد باب النية رقم الحديث 4229)
’’لوگ اپنی نیتوں پر قیامت کے دن اٹھائیں جائیں گے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبیﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: مدینہ میں کچھ لوگ ایسے رہ گئے تھے کہ وہ ہر موقع پر اس جنگ میں تمہارے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا: یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ سال ﷺ نے فرمایا: عذر کی وجہ سے وہ ر کے رہے ہیں ورنہ نیت کے اعتبار سے تمہارے ساتھ رہے ہیں اس لیے وہ بھی اس خلوص نیت کی وجہ سے مجاہدین میں شامل ہیں۔
(صحیح بخاری: کتاب الجهاد، باب من حبسه العذر عن الغزو، رقم الحديث: 2839) كتاب المغازي باب 2 رقم الحديث 4423)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خلوص نیت کی وجہ سے انسان بڑے بڑے در پے حاصل کر سکتا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ کہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے۔ ایک وہ بندہ جس کو اللہ تعالی نے مال اور علم دیا ہو اور وہ اس میں اللہ سے ڈرتا ہو۔ اور صلہ رحمی کرتا ہو اور جانتا ہو کہ اس مال و علم میں اللہ تعالی کا حق ہے ان دونوں کے حق ادا کرتا رہے تو یہ افضل المنازل سے مرتبے کے لوگوں میں سے ہے۔ دوسرا وہ ہے کہ جس کو اللہ نے علم تو دیا لیکن مال سے محروم ہو فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ اور اس کی نیت سچی ہو، کہتا ہو اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس طرح اللہ کے راستے میں خرچ کرتا جس طرح فلاں شخص خرچ کرتا ہے فَهُوَ بِنِیَّتِهِ فَأجْرُهُمَا سَوَاء﷩﷩ تو یہ اپنی خالص نیت کی وجہ سے اور پہلا شخص خرچ کرنے والا دونوں ثواب میں برابر ہیں۔ تیسر وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالی نے مال دیا ہو، اور علم نہیں دیا تو وہ اپنا مال بے قاعدگی کے ساتھ بے سمجھے بوجھے خرچ کرتا ہو، نہ اس میں خدا سے ڈرتا ہو اور نہ حق والوں کے حق ادا کر کے صلہ رحمی کرتا ہو۔ اور نہ اس میں اللہ تعالی ہی کے حق کو جانتا ہو بلکہ نڈر ہو کر شراب و کباب، کھیل تماشا اور ناچ گانوں میں اڑاتا ہو فَهٰذَا بِأَخْبَثِ الْمَنازِل تو یہ سب سے برے رہنے والا ہے۔ چوتھا وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالی نے نہ تو مال دیا ہو نہ علم ، وہ کہتا ہے اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں شخص (قسم سوم) کی طرح خرچ کرتا ۔ فهُوَ بِنِیَّتِہِ تو وہ اپنی بری نیت کی وجہ سے خود اور اس سے پہلا شخص دونوں گناہ میں برابر ہیں۔
(مسند احمد: 231/4 ترمذی 262/3، كتاب الزهد، باب ما جاء مثل الدنيا مثل اربعة نفر، رقم الحديث: 2325، ابن ماجة: كتاب الزهد، باب النية، رقم الحديث 4228)
پیارے بھائیو! تم ہر ایک کام میں اخلاص پیدا کرو جو کام بھی کرو پہلے نیت کو پاک وصاف کر لو۔ تاکہ تمہارا کام مقبول ہو اور تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ۔ ریا ونمود، نمائش اور دکھلاوے سے بچو۔ اس لیے کہ ریاکار سب سے پہلے دوزخ میں جائیں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے شہید کا فیصلہ کیا جائے گا میدان حشر میں خدا کے سامنے لایا جائے گا اللہ تعالٰی اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا۔ وہ پہچان لے گا۔ جب اللہ تعالی فرمائے گا( فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا )تم نے ان نعمتوں کے مقابلہ میں کیا عمل کیا؟ شہید جواب دے گا (قاتلت فيك حتى استشهدت) یعنی میں نے آپ کی راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ لیے میں شہید کر دیا کیا اللہ تعالی فرمائے گا: کذبت تو جھوٹ ہوتا ہے میری راہ میں میری خوشنودی کے لیے جہاد نہیں کیا ہے بلکہ اس لیے قتال و جہاد کیا ہے تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص کیسا بہادر اور پہلوان ہے فَقَدْ قیل پس یہ تو کہا گیا اور دنیا میں تیری بڑی تعریف و توصیف کی گئی۔ (ثم أمر به فسحبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى الْقِي فِي النَّارِ)
’’پس حکم دیا جائے گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے ۔‘‘ دوسرے قاری اور عالم کا حساب لیا جائے گا۔ جب وہ خدا کے سامنے پیش ہوگا اللہ تعالی اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا ۔ وہ پہچان لے گا پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا( فَمَا عَمِلْتَ فيها) ’’تم نے کیا عمل کیا ؟‘‘ ان نعمتوں کی کیا شکر گزاری کی؟ وہ جواب دے گا میں نے علم کو سیکھا اور سکھایا اور آپ کی رضا مندی کے لیے قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے یہ کام میرے لیے نہیں کیا بلکہ اس لیے کیا کہ لوگ تجھے عالم اور قاری کہیں (فقد قیل) پیس یہ تو کیا گیا اور تیرا مقصد پورا ہو گیا اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔
پھر ایک سخی کو لایا جائے گا۔ جس کو اللہ تعالی نے بہت ساری دولت اور ہر قسم کا مال دے رکھا تھا۔ وہ اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہوگا۔ اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا وہ پہچان لے گا ۔اللہ تعالی فرمائے گا پھر تم نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا سب تیری راہ میں خرچ کر دیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے بلکہ تو نے اس لیے خرچ کیا ہے تا کہ لوگ کہیں فلاں آدمی کتنا سخی ہے تجھے یہ کہا گیا پھر حکم دیا جائے گا اور منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
(ترمذی: 280/3 کتاب الزهد. باب ما جاء في الرياء رقم الحديث: 2382 ، ابن خزيمه:115/4 كتاب صدقة الفطر، باب التغليظ في الصدقة رقم الحديث:2482)
یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (أُولَئِكَ الثلاثة أَوَّلُ خَلْقِ اللَّهِ تُسْعَرْبِهِمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيمِةِ)
’’یہ تینوں سب سے پہلے دوزخ میں ڈالے جائیں گے اور قیامت کے دن جہنم سب سے پہلے انہی تینوں سے بھڑکائی جائے گی ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے شرک اصغر کا خوف ہے ۔ صحابہ تھا ہم نے عرض کیا شرک اصغر کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ریا اور دکھاوا۔‘‘ یعنی جو کام لوگوں کے دکھانے کے لیے کیا جائے وہ شرک اصغر ہے۔ (مستدرك حاكم : 4/1، كتاب الإيمان باب صفة اولياء الله….)
نبی کریمﷺ نے فرمایا: (مَنْ سَمَّع سَمَّعَ اللهُ بِهِ) جو شہرت اور سنانے کے لیے کوئی کام کرے تو قیامت کے دن اللہ اس کے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر فرمائے گا اور لوگوں کو سنا دے گا کہ یہ شخص ودنیا میں ریا کار تھا۔
(صحیح بخاری: 962/2 کتاب الرقاق باب الرياء والسمعة، رقم الحديث 6499، صحيح مسلم 412/2، كتاب الزهد باب تحريم الرياء، رقم الحديث 7477)
حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ (اَنَا اغْنَى الشَّرَكَاءِ عَنِ الشَّرك) میں سب شریکوں کے حصے سے بے نیاز ہوں جب کوئی ایسا کام کرتا ہے جس میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا ہے تو اس کو اور اس کے شریک کو اس کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں جو حشر شریک کا وہی اس کا بھی۔ (صحیح مسلم: 411/2 ، كتاب الزهد، باب …. رقم الحديث 7475)
﴿مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ، وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَالَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَّصِيبٍ﴾ (سورة الشورى:20)
(جو آخرت کی کھیتی چاہے تو ہم اس کی کھیتی میں زیادتی کر دیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہے تو ہم اسے دنیا میں دے دیتے ہیں اور اسے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ملے گا۔)
اور قرآن مجید میں اللہ تعالی دوسری جگہ فرماتا ہے:
﴿ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ۝۱۵ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ۖؗ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۶﴾ (هود: 15،16)
(جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتا ہے تو دنیا میں ہم اس کو پورا پورا بدلہ کمی کے بغیر دے دیتے ہیں ان لوگوں کے لیے آخرت میں سوائے دوزخ کے کچھ نہیں ہے اور ان کے سارے اعمال اکارت ہو گئے۔)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا گیا کہ اخلاص کیا ہے؟ تو فرمایا: اخلاص یہ ہے کہ انسان کی یہ چاہت نہ ہو کہ لوگ میری تعریف کریں بلکہ اس کا دلی منشا یہ ہو کہ اللہ تعالی اسے قبول فرما لے اور اسے پسند کرلے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبَّهُ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا.﴾ (سورة كهف: 110)
(جو اللہ تعالی سے ملنے کی توقع رکھتا ہو اسے نیک عمل کرنا چاہیے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے خالص اللہ تعالی ہی کے لیے عبادت ہونی چاہیے۔)
خلاصہ یہ کہ سارے عملوں کا دارو مدار نیت ہی پر ہے اگر نیت اچھی ہے تو عمل کا ثمرہ بھی اچھا ہوگا اور اگر نیت میں ہی کھوٹ ہے تو اس کا اجر بھی ویسا ہی ہوگا۔ اللہ تعالٰی ہم کو اخلاص عطا فرمائے اور ریا ونمود سے بچائے۔ (آمین)
(بَارَكَ اللهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ – وَنَفَعْنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ