اخلاق مصطفی ﷺ
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ [القلم: 4]
آج کے خطبہ میں ان شاء اللہ اخلاق مصطفیﷺ کے عنوان پر گفتگو ہو گی امام الانبیاء خاتم المرسلین سید ولد آدم ناطق وحی، شافع محشر، نبی التوبة، نبي الرحمة، نبی مکرم، جناب محمد رسول اللہﷺ کا اخلاق اس قدر عمدہ اعلیٰ اور شاندار تھا کہ آپ کے اخلاق وسیرت کی تعریف اور ثناء رب ارض و سماء نے اپنی کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں کی ہے سورۃ القلم کی ابتداء میں قسم اٹھا کر فرمایا:
﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْم﴾ [القلم:4]
’’اے (محجوب پیغمبر!) آپ کا اخلاق بڑی عظمت والا ہے۔‘‘
نیز یاد رکھئے! خلق اخلاق کا مفہوم وہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں، بلکہ انسان کی تمام عادتیں سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا بولنا سننا، کھانا، پینا، کاروبار، تجارت، صنعت و حرفت، محنت و مزدوری، لین دین، معاملات، خوشی غمی، انفرادی زندگی، ازدواجی زندگی، اجتماعی زندگی سب اخلاق میں شامل ہے۔
یوں سمجھئے اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں آپ کی سیرت کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک پہلو کو عظمت اور فضیلت والا قرار دیا ہے۔ اور آپﷺ کا خلق و اخلاق عظمت والا، شان والا اور تمام لوگوں سے اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم اٹھائیے حضرت سعد بن ہشام نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا ام المؤمنین! مجھے رسول اللہﷺ کا اخلاق تو بتاؤ۔ تو صدیقہ کائنات ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہا جواب ارشاد فرماتی ہیں:
(كَانَ خُلْقَهُ الْقُرْآنُ) [صحیح مسلم كتاب صلاة المسافرين باب جامع صلاة الليل رقم 1739 و مسند احمد (91/6) (24645) و شعب الايمان (206/1) صحيح]
’’رسول اللهﷺ کا اخلاق قرآن کریم تھا۔‘‘
غور فرمائیے! آپ کا اخلاق کیوں نہ عظمت والا ہو، آپ کا اخلاق و کردار، آپ کی سیرت و عادات، وہ ساری خوبیاں اور خصلتیں آپ میں موجود تھیں اور جو ناپسندیدہ عادات وافعال چھوڑنے کا قرآن نے حکم دیا آپ ان تمام بری عادتوں بری خصلتوں اور ناپسندیدہ اعمال سے مبرا اور پاک تھے اس لیے کائنات کا رب قسمیں اٹھا کے اعلان کرتا ہے:
﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾ [القلم: 4]
مضمون تو بہت طویل ہے لیکن میں مختصر انداز میں اخلاق مصطفی ﷺ کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
یاد رکھیے اتین ہی چیزیں ہیں جن سے کسی انسان کے خلق اخلاق کا پتہ چلتا ہے:
1۔ زبان 2۔ دل 3۔ دیگر اعضاء بدن
رسول اللہ ﷺ زبان میں بھی سب سے پاکیزہ دل کے اعتبار سے بھی سب سے ستھرے اور باقی اعضاء مبارکہ کے حوالے سے بھی سب سے بڑھ کر اچھے اخلاق والے تھے۔
1۔ زبان
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
(لَمْ يَكُنُ رَسُولُ اللهِ لا فَاحِشًا وَلَا لَعَّانًا وَلَا سَبَّابًا كَانَ يَقُولُ عِنْدَ الْمَعْتَبَةِ: مَالَهُ تَرِبَ جَبِينُهُ) [صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب صفة النبيﷺ (3559)]
’’کہ رسول اللہ ﷺ نہ فحش گو تھے نہ لعنت کرنے والے تھے اور نہ ہی گالی گلوچ کرتے تھے آپ ﷺ ناراضگی کے وقت فرمایا کرتے اسے کیا ہے؟ اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں آپﷺ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! کیا آپ مشرکین پر بد دعا فرما ئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(أنِّي لَمْ ابْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً)
’’مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اور بخاری و مسلم کی روایت ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی (اس دوران) آپﷺ نے مجھے کبھی اُف تک نہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا؟[صحيح مسلم، كتاب البر والصلة باب النهي عن لعن الدواب وغيرها، رقم: 6613]
صحیح مسلم میں ہے: آپﷺ جب رات کے وقت اپنے گھر تشریف لاتے تو بڑی آہستہ آواز میں سلام کہتے تھے تاکہ جو بیدار ہے وہ سن کر جواب دے اور جو سویا ہوا ہے اس کی نیند خراب نہ ہو۔[صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب حسن خلقه (2309)]
کیسا عظیم اخلاق ہے کہ آپ اپنی زبان سے کلمہ سلام کہتے ہوئے بھی اس بات کو ملحوظ رکھتے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ ہم تو زبان سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی شدید قسم کی تکلیفیں اور اذیتیں دیتے ہیں گالیاں دیتے ہیں، غیبتیں کرتے ہیں، برے القاب سے مخاطب کرتے ہیں۔
غزوہ حنین سے واپسی پر ایک جگہ دیہاتی قسم کے کچھ لوگ آپ ﷺ سے چمٹ کر سوال کرنے گئے حتی کہ آپ میں بھی ایوان سے بچتے بچتے بیری کے ایک درخت سے جا لگے اور آپ ﷺ کی چادر مبارک درخت کے کانٹوں کے ساتھ اٹک گئی تو آپ ﷺ نے (ناراض اور غضبناک ہونے کی بجائے بڑے پیار بھرے انداز میں) فرمایا: ’’لوگو! مجھے میری چادر تو دے دو اگر میرے پاس اس درخت کے کانٹوں کی تعداد میں اونٹ ہوتے تو میں وہ سارے اونٹ تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا اور تم مجھے بخیل، جھوٹا اور بزدل ہرگز نہ پاتے۔‘‘[صحيح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما كان النبيﷺ يعطى المؤلفة الخ]
خادم رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ کے اوپر سخت کنارے والی نجرانی چادر تھی ایک دیہاتی آیا اس نے چادر کو پکڑ کر زور سے کھینچا حتی کہ میں نے نبیﷺ کی گردن مبارک کی چوڑائی میں چادر کے کنارے کا نشان دیکھا، پھر وہ دیہاتی کہنے لگا: میرے لیے اللہ کے اس مال میں سے حکم جاری کیجئے جو آپ کے پاس ہے تو آپ ﷺ نے (ناراض ہونے کی بجائے) اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور مسکرا دئیے اور پھر اس کے لیے وافر عطیے کا آرڈر جاری فرمایا۔[صحيح البخاري، كتاب فرض الخمس و كتاب اللباس، باب البرود و الحبرة والشملة (5809)]
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں حنین کے دن رسول اللہ ﷺ نے مال تقسیم کرنے میں (کسی ضروری مصلحت کے تحت) بعض لوگوں کو ترجیح دی۔ آپ نے اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیئے عینیہ کو بھی سو اونٹ دیئے اسی طرح عرب کے کچھ سرداروں کو ترجیحی بنیادوں پر مال دیا۔ تو ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! اس تقسیم کے ذریعے اللہ کا چہرہ نہیں ڈھونڈا گیا اور اس تقسیم میں عدل و انصاف نہیں کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں نے جب اس شخص کی بات سنی تو کہا کہ میں یہ خبر ضرور نبی ﷺ کو پہنچاؤں گا۔ چنانچہ میں دربار نبوت میں حاضر ہوا اور ساری خبر سنادی۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جب اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کرے گا تو کون عدل کرے گا؟ اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے۔ انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر ہی کیا تھا لہذا میں بھی صبر ہی کرتا ہوں)‘‘ [صحيح البخاري، كتاب فرض الخمس، باب ماكان النبيﷺ يعطى]
ان احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ غصے اور ناراضگی کے مواقع پر بھی آپ کی زبان مبارک بڑی پاکیزہ شیریں شائستہ اور اعلیٰ تھی۔
2۔ دل:
آپ ﷺ کی دلی خوبیاں دلی جذبات و احساسات اور تمام دلی خصلتیں انتہائی باکمال اور بے مثال لا جواب انوکھی منفرد اور اعلیٰ تھیں۔ چند مثالیں عرض کرتا ہوں۔
شجاعت
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (اخلاق اور شکل کے لحاظ سے تمام لوگوں سے) بڑھ کر حسین تھے۔ تمام لوگوں سے زیادہ سخی اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ (دشمن کی آواز سن کر) گھبرا گئے۔ لوگ آواز کی جانب لپکے وہاں انہوں نے نبی ﷺ کو موجود پایا۔ آپ ﷺتمام لوگوں سے پہلے آواز کی جانب پہنچ گئے تھے اور آپ فرما رہے تھے ڈرو نہیں ڈرو نہیں آپ ﷺ ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اس پر زین نہ تھی۔ اور آپ کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی پھر آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس گھوڑے کو نہایت تیز رفتار پایا ہے۔[صحيح البخاری (2820) وصحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب في شجاعة النبي ﷺ و تقدمہ للحرب (6006) والترمذى (1687) و ابن ماجه (2772)]
کیسی شجاعت و بہادری ہے کہ آپ سارے لوگوں سے قبل خطرے والی آواز کی طرف پہنچے۔
اسی طرح غزوہ احد اور غزوہ حنین میں جب مسلمانوں نے وقتی شکست کھائی اور میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ ﷺ تنہا ڈٹے رہے۔ دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے حتی کہ آپ کی یہ شجاعت و بہادری دیکھ کر بھاگنے والے بھی پلٹ آئے اور اللہ نے شکست فتح میں تبدیل کر دی۔
سخاوت:
نبی اکرم ﷺ کا قلب اطہر جذبہ جود و سخاء سے اس قدر معمور تھا کہ آپ ﷺ کو مال غنیمت میں سے جو خمس (پانچواں حصہ) ملتا تھا آپ وہ بھی زیادہ تر لوگوں میں بانٹ دیتے اور خالی چادر فضاء میں لہرا کر کہتے: ’’یااللہ گواہ ہو جا محمد (ﷺ) نے سب کچھ تیری راہ میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور خالی چادر لے کر گھر جا رہا ہے۔‘‘
اور آپ ﷺ خود فرمایا کرتے تھے:
’’بعض لوگ سائل بن کر آ جاتے ہیں اور میں انہیں پہچانتا ہوں کہ وہ حقدار نہیں لیکن میں اس کے باوجود انہیں دے دیتا ہوں۔‘‘
لوگوں نے عرض کیا: جب آپ انہیں حقدار نہیں سمجھتے تو آپ انہیں کیوں دیتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’وہ سوال سے باز نہیں آتے اور اللہ میرے لیے بخل کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
حضرت جابررضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے کبھی بھی کسی مانگنے والے کو نفی میں جواب نہیں دیا (ہاں اگر پاس مال ہوتا تو دے دیتے اور اگر نہ ہوتا تو پھر بھی دینے کا وعدہ فرما لیتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء رقم: 6034 و مسلم رقم 6018]
تقوی:
آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
(أَمَا وَاللَّهِ إِنِّى أَحْشَاكُمْ لِلَّهِ وَاتْقَاكُمْ)[صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب الترغيب في النكاح رقم 5063 و مسلم رقم 3403]
’’خبردار! میں تم سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا اور تقوی اختیار کرنے والا ہوں۔‘‘
معلوم ہوا آپ ﷺ تقوی و پرہیز گاری میں تمام لوگوں میں سے سرفہرست ہے۔
خیر خواهی و همدردی:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز ادا کر لیتے تو اہل مدینہ کے خدام (غلام اور لونڈیاں) اپنے برتنوں میں پانی لے کر آپ ﷺ کے ہاں پانچ جاتے جو شخص بھی برتن لے کر آتا آپ کی (برکت کے لیے) اس میں اپنا ہاتھ ڈبوتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ سردی (کے موسم) میں صبح سویرے ہی پانی کے برتن لے آتے (پھر بھی) آپﷺ (برکت کے لیے) اپنا ہاتھ پانی میں ڈال دیتے۔[صحيح مسلم، كتاب الفضائل باب قريم من الناس و بتركهم به، رقم: 6044]
غور فرمائیے! آپ ﷺ دوسروں کی بھلائی اور فائدے کی خاطر خود تکلیف برداشت کر لیتے تھے اور آپ ﷺ کی یہی ہمدردی و خیر خواہی دعوت دین میں کار فرما تھی کہ آپ کی یہ گالیاں دینے والوں، ظلم و تشدد کرنے والوں اور طرح طرح کی اذیتیں دینے والوں کی بھی ہمدردی کرتے اور انہیں دین کی بات سمجھاتے تھے۔
حياء:
بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ پردے میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ با حیا تھے۔ جب آپ کسی مکروہ کام کو دیکھتے تو ہم اسے آپ ﷺ کے چہرے (کے اثرات) سے پہچان لیتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب صفة النبي بور (3562)]
ہائے افسوس! اس قدر حیاء دار پیغمبر کا کلمہ پڑھنے والے آج بے حیائی اور فحاشی و عریانی کی دلدل میں ڈوب گئے اور شرم و حیاء کا دامن چھوڑ دیا اور اس میدان میں امیر و غریب حاکم و محکوم عوام و خواص اور مردوزن سب برابر نظر آ رہے ہیں اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
دل کی صفائی:
آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’مجھے لوگوں کی برائیاں نہ بتایا کرو۔ میں چاہتا ہوں کہ سب کے متعلق صاف دل لے کر تمہاری طرف آؤں۔‘‘[سنن ابی داؤد، کتاب الأدب باب في رفع الحديث من المجلس، رقم: 4860]
اور دل کی تمام قسم کی بری خصلتوں سے آپ کا دل مبرا اور پاک تھا۔ نہ حسد نہ بعض نہ کینہ نہ بزدلی نہ بخل نہ حرص و طمع ہاں آپ کا حرص و طمع خصوصی تھا۔ کیسا طمع، کیسا حرص ﴿ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ﴾ کہ لوگ ایمان لے آئیں، لوگ اپنی اصلاح کر لیں جہنم سے بچ جائیں۔ جنت میں چلے جائیں۔ پس آپ کے دل میں صرف یہی طمع تھا اور یہ طمع اس قدر زیادہ تھا کہ رب کائنات نے آپ کو بار بار تسلی دی کہ لوگوں کی گمراہی و ضلالت کا وبال قطعًا آپ پر نہیں پڑے گا لہٰذا آپ اتنے فکر مند نہ ہوں۔
3۔ دیگر اعضاء مبارکہ ہاتھ پاؤں وغیرہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے نہ کبھی کسی جاندار چیز کو (یعنی مرد کو) نہ کسی عورت کو اور نہ ہی کسی خادم کو اپنے ہاتھ کے ساتھ مارا البتہ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے (کوئی آپ ﷺ کے ہاتھوں مارا جاتا) اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی شخص سے بھی آپ کو کچھ تکلیف پہنچی ہو اور آپ ﷺ نے اس سے انتقام لیا ہو۔ البتہ جب اللہ تعالی کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو پھر آپ ﷺ اللہ تعالی کی رضا کے لیے انتقام لیتے تھے۔[صحيح البخاري كتاب المناقب باب صفة النبي بور، رقم: 3560 و مسلم 6045]
اللہ اکبر! خود تو کبھی کسی سے بدلہ نہ لیا، لیکن حیات مبارکہ کے آخری ایام میں اپنے آپ کو بدلے کے لیے پیش کر دیا اور فرمایا:
’’لوگو! میں نے جس کسی کو کسی قسم کی تکلیف دی ہو وہ آ کے مجھ سے بدلہ لے لے میں بدلہ دینے کے لیے حاضر ہوں۔‘‘[الرحيق المختوم من 745]
گھر والوں کی خدمت:
حضرت اسود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: آپ ﷺ اپنے گھر والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں (یعنی گھریلو کاموں میں گھر والوں کی معاونت کرنے میں) مشغول رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو آپﷺ نماز کے لیے چلے جاتے تھے۔[صحيح البخاري كتاب الاذان باب من كان في حاجة تعلم الخ رقم 676، و احمد (256/6) (6194) و ابن حبان (5675)]
آج اول تو ہم بداخلاق ہو چکے ہیں۔ ہمارے کردار و اخلاق میں بھلائی اور اچھائی نہیں رہی۔ اور اگر اخلاق کا کچھ حصہ ہمارے پاس ہے تو وہ بھی جزوی اور جانبدارانہ کسی کا اخلاق دوستوں کے لیے باقیوں کے لیے بداخلاقی کسی کا اخلاق بیوی کے لیے اور ماں باپ سے لڑائی کسی کا اخلاق رشتہ داروں کے لیے اجنبیوں سے ناراضگی۔ کسی کا اخلاق اپنے گھر والوں کے لیے باہر والوں سے غصہ اور کسی کا اخلاق باہر والوں سے اور گھر میں ایسے جیسے تمہ۔
لیکن امام الانبیاء، سید ولد آدم، ناطق وحی، شافع محشر، جناب محمد رسول اللهﷺ ایسے خلق عظیم کے مالک تھے کہ آپ کا اخلاق اپنوں بیگانوں دوستوں اجنبیوں گھر والوں اور باہر والوں سب کے لیے تھا اور آپ کا اخلاق تمام امور زندگی میں ہے مثال اور عمدہ تھا۔
آپ ﷺ اگر غصے کا اظہار کرتے تو وہ بھی برموقع، آپ اگر ناراض ہوتے تو وہ بھی انتہائی مناسب، آپ اگر ڈانٹتے تو وہ بھی انتہائی موزوں اور آپ اگر کبھی کوئی سخت بات کرتے تو وہ بھی ضرورت کے عین مطابق غرضیکہ آپ کی ہر اک ادا پیاری اور موقع کے مناسب و موافق تھی۔
اور ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ آپ ﷺ تو قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لیے بہترین اسوہ نمونہ اور مشتعل ہدایت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔