اخلاق و آداب انسان کی بنیاد معاشرتی ضرورت

﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۝۷ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۝۸ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝۱۰﴾(الشمس:7۔10)
گذشتہ جمعے اخلاق و آداب کی ضرورت و اہمیت پر بات ہو رہی تھی جس میں ہم نے عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں یہ جانا کہ اخلاق و آداب انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ کوئی شخص اور کوئی قوم اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، زندگی کا کوئی شعبہ اور پہلو مستثنی نہیں ہے، اندازہ کیجئے جب قضائے حاجت تک کے آداب کی بھی تعلیم دی گئی ہو، تو پھر اور کون سا
پہلو اس سے میرا ہو سکتا ہے!
اخلاق و آداب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اخلاقیات کے خزینے سے ایک خلق دیا ہے، اور حیا کی اہمیت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے کہ:
((إِذَا لَمْ تَسْتَحِي فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)) (صحيح البخاری:6120)
’’اگر تمھیں حیا نہ آئے تو پھر جو چاہو کرو ۔‘‘
یعنی اگر کسی میں حیا باقی نہ رہے تو پھر اس سے ہر کمرے کام کی توقع کی جاسکتی ہے۔
کیونکہ ایک حیا ہی برائی میں مانع ہوتی ہے، اور جب حیا ختم ہو جائے تو پھر برائی کے راستے کی تمام رکا نہیں ختم ہو جاتی ہیں، حیا کے بغیر زندگی کس قدر بے ڈھنگی ہوتی ہے شاعر کہتا ہے:
فلَا وَاللَّهِ مَا فِي الْعَيْشِ خَيْرٌ
ولا الدُّنْيَا إِذَا ذَهَبَ الْحَيَاءُ
’’واللہ! اگر حیا نہ ہو تو زندگی میں کوئی خیر ہے اور نہ دنیا میں ۔‘‘
تو مجموعی طور پر اخلاقیات ایک اتنی بڑی حقیقت ہیں کہ قوموں کے عروج وزوال میں سب سے بڑا اور نمایاں کردار اخلاقیات کا ہی ہوتا ہے۔
چنانچہ شاعر کہتا ہے:
إِنَّمَا الْأُمَمُ الْأَخْلَاقُ مَا بَقِيَتْ
فَإِن هُمُوْ ذَهَبَتْ أَخْلَاقُهُمْ ذَهَبُوا
’’ قو میں اپنے اخلاق کی بدولت زندہ رہتی ہیں، اگر اخلاق ختم ہوئے تو قو میں بھی نیست و نابود ہو گئیں۔‘‘
اس وقت انسانی معاشرے میں اخلاق و آداب کا جس طرح دیوالیہ ہو چکا ہے، وہ کسی پر مخفی نہیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں وہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
عمومی طور پر غیر مسلم اقوام کا جو حال ہے وہ تو سب پر عیاں ہے مگر افسوس یہ ہے کہ می طور پر غیر ہم اقوام کا جو حال ہے وہ تو سب امت مسلمہ کی بھی ایک کثیر تعداد ہو بہو ان کے نقش قدم پر چلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
مسلمان قوم کہ جس کی ذمہ داری میں شامل ہے لوگوں کی رہنمائی کرنا، ان کی اصلاح کرنا:
﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ﴾ (آل عمران:110)
’’دنیا میں تم ہی وہ بہترین امت ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو۔‘‘
مگر افسوس کہ آج وہ خود اس قدر بھنگی ہوئی ہے کہ اُس کی حالت قابل رحم ہے، وہ رہنمائی کرنے کے بجائے خود کسی رہنما کی تلاش میں ہے۔
اشی وقت انسانی معاشر ہ صرف اس حد تک ہی بے راہ روی کا شکار نہیں کہ اس نے اخلاقیات کو پس پشت ڈال رکھا ہے، بلکہ اس سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور ایک انتہا پر جاتھہرا ہے حتی کہ احساس زیاں ہیں ختم ہو گیا ہے، بد اخلاقی کو بد اخلاقی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایک قدم اس سے بھی آگے ہے کہ اس بد تہذیبی کو تہذیب سمجھا جانے لگا ہے اس سے بڑھ کر کسی قوم کی اخلاقی پستی کیا ہوگی کہ اگر کوئی شخص بد زبان، بداخلاق اور بد کردار ثابت ہو چکا ہو اور اس شخص کو کسی ملک کا صدر یا وزیر اعظم بنادیا جائے ، تو اس صورت میں وہ اخلاقی پستی ایک شخص اور فرد کی نہیں ہوگی بلکہ پوری قوم کی ہوگی جو ایک ایسے شخص کو اپنا لیڈر اور رہنما دیکھنا چاہتی ہو۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ کسی بدکردار شخص کو یہ جرات کیونکر ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک رہنما کے طور پر پیش کر سکے یہاں تک کہ وہ اپنے اوپر لگے بدکرداری کے الزامات کو صاف کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو؟
وہ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی جسارت اس لیے کر پاتا ہے کہ اس کو معلوم ہے کہ معاشرہ اس جیسی ذہنیت رکھنے والے لوگوں سے بھرا پڑا ہے، جو بد کردار کو بد کردار نہیں سمجھتے، بد اخلاق کو بد اخلاق نہیں سمجھتے ، ان کے ہاں اخلاقیات کی کوئی قدر و قیمت نہیں، ان کے ہاں آداب کا کوئی لحاظ نہیں ، ان کے ہاں حیا کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر معاشرے کی بے راہ روی، بدنصیبی اور بدبختی کا ایک سبب یہ ہے کہ مصلحین ناپید ہو چکے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ، کوئی رہنمائی کرنے والا اور اصلاح کرنے والا نہیں، کوئی اُن کو یہ بتانے والا نہیں ہے کہ اُن کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے! اور کسی کو زندگی میں یہ معلوم نہ ہو سکے کہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو پھر اس پر یہ حقیقت تب منکشف ہوتی ہے جب موت کی جان کی حق لے کر پہنچتی ہے۔
﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ (ق:19)
’’موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی۔‘‘
﴿ذٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ﴾
’’یہی ہے جس سے تو بد کتا پھرتا تھا۔‘‘
﴿لَقَدْ كُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۝۲۲﴾ (ق:22)
’’اسی چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے ۔‘‘
آج تجھے اچھی طرح معلوم ہو گیا ہے کہ تیرا اصل مسئلہ کیا تھا، وہیں ، کہ تو نے زندگی میں جسے نظر انداز کر رکھا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑے دھوکے میں ہے، اپنے آپ کو بھی دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے اور دوسروں کو بھی، لوگوں کی ہمدردی اور خیر خواہی کا دم بھرتے ہو اور اپنی خبر نہیں، یہ خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے!
قرآن کہتا ہے:
﴿قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحريم:6)
’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ ۔‘‘
مگر مشاہدہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر ہے اور نہ اولاد کو، خود بھی بے راہ روی کا شکار ہیں اور اولاد کو اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے، معاشرے کے حوالے کر رکھا ہے، مگر لوگوں کے غم میں ٹسوے بہا رہے ہیں۔ اور یہ حالت محض کسی ایک فرد کی نہیں، بلکہ یہ عوام کا ایک مجموعی رجحان ہے۔ ہم سارا سارا دن ملکی حالات جاننے کی فکر اور بریکنگ نیوز کے انتظار میں رہتے ہیں کہ ملک میں کیا ہورہا ہے، گویا ہم ملکی حالات کی بہتری کے لیے بڑے فکرمند ہوتے ہیں، اگر چہ ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے کہ فکر مند ہونا بھی چاہیے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے یا اس سے بڑا مسئلہ بھی کوئی ہے؟
یقینًا اس سے بڑا مسئلہ بھی ہے اور جس کے مقابلے میں دنیا کے تمام مسئلے، تمام پریشانیاں، تمام فکر مندیاں صفر ہیں اور وہ ہے آخرت کا مسئلہ، جو موت کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اور پچاس ہزار سال تک جاری رہے گا اور ایک ایک لمحے اور ایک ایک ذرے کا حساب دینے کے بعد لوگ دو قسم کے گروہوں میں تقسیم ہو جا ئیں گے، چنانچہ دو قسم کے ٹھکانے اُن کے منتظر ہوں گے:
﴿فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيْر ) (الشورى:7)
’’ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک فریق جہنم میں ہوگا ۔‘‘
تیسرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا۔
تو کیا ہم نے اپنے اصلی حقیقی اور سب سے بڑے مسئلہ کو بھی کبھی اتنی ہی توجہ دی ہے اور اُس کے لیے اتنی ہی فکر مندی ظاہر کی ہے؟ حالانکہ اس مسئلے کو دنیا کے مسئلوں کے برابر نہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ فکر مندی اور توجہ کی ضرورت ہے ۔
ہم اس دور کے مسلمان معاشروں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم میں سے اکثریت کا یہ حال ہے کہ انھیں اپنے اصلی اور سب سے بڑے مسئلے کی قطعاً فکر نہیں ہے۔
جس شخص کو اپنے حقیقی اور سب سے بڑے مسئلے کی فکر ہو گیا وہ دنیا کے مسئلوں میں الجھا رہ سکتا ہے، کیا وہ کسی ناچ گانے والے کو اپنا آئیڈیل بنا سکتا ہے، کیا وہ اپنا مال ، اپنی صلاحیتیں اور قو تیں اس کے لیے صرف اور وقف کر سکتا ہے؟ یقینًا نہیں۔
کیونکہ اسے معلوم ہے کہ آدمی دنیا میں جس سے محبت کرتا ہے، جس کو ترجیح دیتا ہے، وہ قیامت کے دن اس کے ساتھ اٹھایا جائے گا، گویا کہ جو ٹھکانہ ناچ گانے والوں کا ہوگا وہی اس کا بھی ہوگا۔ قرآن کہتا ہے۔
﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ﴾ (النساء:140)
’’اور اللہ تعالی تمھارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے ۔‘‘
﴿ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ ۖؗ ﴾
’’کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو، تو اس مجمع میں اُن کے ساتھ نہ بیٹھو، جب تک کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اور باتیں نہ کرنے لگیں ۔‘‘
﴿ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ ؕ﴾
’’ور نہ تم بھی انہی جیسے ہوگے۔‘‘
﴿ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعَاۙ۝﴾(النساء:140)
’’یقینًا اللہ تعالی تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے۔ ‘‘
اور یہی حکم اس طرح کی خوشی اور شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کرنے والوں اور ان میں شریک ہونے والوں کا ہے کہ جہاں ناچ گانا ہو رہا ہو اور لوگ پھر بھی وہاں بیٹھے رہیں کہ کہیں میزبان ناراض نہ ہو جائے، یعنی معاذ اللہ، اللہ ناراض ہو جائے تو کوئی بات نہیں ، دوست اور رشتہ دار ناراض نہ ہوں۔
یہ اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے! یہ کوتاہ نظری اور نادانی نہیں تو اور کیا ہے! اور یاد رکھیں ناچ گانا سادہ گناہ نہیں ہے بلکہ تین گناہ ہے۔
اور وہ یوں کہ حدیث میں آتا ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ ))
’’میری تمام امت سے درگزر کیا جائے گا سوائے مجاہرین کے، سرعام اور علی الاعلان معصیت کرنے والوں کے ۔‘‘
((وَإِنَّ مِنَ الْمُجَاهَرَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا ثُمَّ يُصْبِحُ وقَدْ سَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ: يَا فُلَانُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ، كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتَرَهُ رَبُّهُ، وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ الله عنه )) (صحيح البخاري:6069)
’’علی الاعلان معصیت کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص رات کی تاریکی میں کوئی گناہ کرتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالی نے اس کی پردہ پوشی کر رکھی ہوتی ہے، مگر وہ خود لوگوں کو بتلاتا پھر رہا ہوتا ہے کہ اے فلاں! میں نے گذشتہ رات یہ یہ کچھ کیا ہے۔ رات کو اس کا رب اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور وہ خود صبح کو اللہ تعالی کے اس پردے کو چاک کر دیتا ہے۔‘‘
جب رات کی تاریکی میں کئے گئے گناہ کو لوگوں کے سامنے ذکر کرنا سر عام گناہ کرنا کہلاتا ہے، تو جو گناہ ہو ہی دن کی روشنی میں اور ہزاروں کے مجمع میں اور پھر اس کا گناہ پوری دنیا میں دیکھا جارہا ہو، تو اس کی سنگینی کا عالم کیا ہوگا۔ اور اس گناہ کی سنگینی بس اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی سنگینی کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کہ ملکی حالات سے متعلق ہے، جس کی ہمیں بہت فکر رہتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا۝۱۶﴾ (بنی اسرائیل:16)
’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، تو اُس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں فسق و فجور بر پا کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بہتی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔ ‘‘
تو یہ گناہ کتنا سنگین ہے، اور مستقبل کے ملکی حالات کی کسی طرح منظر کشی اور پیشین گوئی کرتا ہے، کند سے کند ذہن رکھنے والا شخص بھی آسانی اس کو سمجھ سکتا ہے۔
تو یہ گناہ سادہ نہیں، بلکہ مرکب در مرکب سنگین ہے، موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کی اخلاقی تباہی کا خفیہ نہیں بلکہ بر ملا اور علی الاعلان منصوبہ ہے۔
مگر افسوس ان سادہ لوح مسلمانوں پر ہے جو اس کے دام میں آگئے، اور شاید ان کا بھی اتنا قصور نہ ہو کہ فتنہ ہوتا ہی اتنا شدید ہے کہ بڑے بڑے اصحاب علم بھی اس میں پھنس جاتے ہیں، فتنوں کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی، یہ اللہ تعالی کا خاص فضل ہوتا ہے جو کسی پر ہو جائے ، ورنہ فتنوں کے سامنے بڑے بڑوں کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے، جیسا کہ
حدیث میں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
((وَضَعَ اللهُ فِي هٰذِهِ الْأُمَّةِ خَمْسٌ فِتَنٍ))
’’اللہ تعالی نے اس امت میں پانچ فتنے رکھے ہیں۔‘‘
چار فتنوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
((ثمَّ فِتْنَةٌ تَمُوجُ كَمَوجِ الْبَحْرِ))
’’پھر ایک تلاطم خیز فتنہ ہوگا سمندر کی موجود کی طرح تھیپڑے مارتا ہوا ۔‘‘
((وَهِيَ الَّتِي يُصْبِحُ النَّاسُ فِيهَا كَالْبَهَائِمِ)) (مصنف ابن ابي شيبة، كتاب الفتن:37157)
’’اور و وفتنہ ہوگا کہ لوگ اس میں جانوروں جیسے ہو جا ئیں گے۔ مطلب یہ کہ ان کی عقلیں کام نہیں کریں گی ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((تُنْزَعُ عُقُولُ أَكْثَرِ ذَلِكَ الزَّمَانِ)) (ابن ماجة:3959)
’’اس فتنے کے وقت اس دور کے اکثر لوگوں کی عقلیں سلب کر لی جائیں گی۔‘‘
پہلے تو فتنوں کو سمجھنا مشکل اور پھر سمجھ لینے کے بعد بچنا مشکل۔ جیسا کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
((إِنْ نَاقَدْتَ ، نَاقَدُوْكَ))
’’اگر تم اصلاح کے لیے لوگوں کا نقد کرو گے، تو وہ تم پر تنقید کریں گے۔‘‘
((وَإِنْ تَرَكْتُهُمْ لَمْ يَتَرَكُوكَ))
’’اور اگر تم انھیں اُن کے حال پر چھوڑ بھی دو گے، تو دو تمھیں نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
((وَإِن هَرَبْتَ منِهْمُ ْأَدْرَكُوْكَ)) (العلل المتناهية: 2/732، مختصر تاریخ دمشق ، ج: 20، ص:37)
’’اور اگر تم ان سے بھا گو گے تو وہ تمھارا پیچھا کریں گے ۔‘‘
لہٰذا اگر اپنا ایمان بچانے اور اپنی آخرت بچانے کی فکر ہو، تو فتنوں کی احادیث کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
انسان کتنی جلدی اور کسی طرح غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر فتنے کا شکار ہو جاتا ہے، بڑے بڑے اصحاب عقل و دانش ، اصحاب شرف و فضیات اور تقوی و پرہیز گاری کے مینار ہے بس ہو جاتے ہیں اور فتنوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ایک چھوٹا سا واقعہ ملاحظہ کیجئے: کہ نبی کریمﷺ کی مجلس میں وفد بنو تمیم پر کسی ایک کو امیر مقرر کرنے کی طرف حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اشارہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی دوسرے آدمی کا نام تجویز کیا۔
تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
((إِنَّمَا أَرَدْتَ خِلَافِي))
’’تم نے تو بس میری مخالفت کرنا چاہی ہے ۔‘‘
فَقَالَ عُمَرُ: ((مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ))
’’تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تمھاری مخالفت کرنا مقصود نہ تھا۔‘‘
((فارتفعت أصواتهما عند النبيﷺ))
’’تو نبی کریمﷺ کی موجودگی میں ان کی آوازیں ایک دوسرے پر بلند ہونے لگیں۔‘‘
تو آیت نازل ہوئی: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ﴾ (الحجرات:2)
’’اے ایمان والو! نبی سے کریم کی آواز پر اپنی آوازیں بلند نہ کرو اور فرمایا کہ کہیں تمھارے عمل ضائع نہ ہو جا ئیں ۔‘‘ (صحیح البخاری: 7302)
تو راوی حدیث ابن ابی ملیکہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((كَادَ الْخَيِّرَانَ أَنْ يَهْلِكا)) (صحيح البخاري:7302)
’’قریب تھا کہ امت کے سب سے بہترین دو آدمی ہلاک ہو جاتے ۔‘‘
تو جب امت کے سب سے بہترین لوگوں کا یہ حال ہے کہ جو سو فیصد فتنوں سے بچنے کی کوشش بھی کرتے تھے، تو پھر فتنوں کے حوالے سے ہمارا حال کیا ہو سکتا ۔ ہے کہ جو ’’آبیل مجھے مار‘‘ کہتے ہیں اور بڑے شوق سے فتنوں میں کودتے ہیں ، لہذا فتنوں کی سنگینی کو سمجھیں اور ان سے بچنے کی کوشش کریں ورنہ دنیا بھی ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور آخرت بھی۔ فتنوں سے آپﷺ نے امت کو کسی طرح خبردار کیا ہے ان میں یہ ایک حدیث پھر سن لیں جو پہلے بھی کئی بار بیان کی جا چکی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
((سَتَكُونُ فِتَنَّ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ))
’’عنقریب ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ بیٹھا ہوا شخص کھڑے شخص سے بہتر ہوگا۔‘‘
((وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِّنَ الْمَاشِي))
’’کھڑا ہوا شخص چلنے والے سے بہتر ہوگا۔‘‘
((وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي))
’’اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔‘‘
((مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ))
’’جو شخص دور سے بھی جھانکے گا ان میں مبتلا ہو جائے گا، یعنی وہ فتنے اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔‘‘
((فَمَنْ وَجَدَ فِيهَا مَلْجَأَ أَوْ مَعَاذَا فَلْيَعُذْ بِهِ))(صحیح البخاری:7082- صحیح مسلم:2886)
’’اس وقت جس کو جہاں کوئی ٹھکانہ اور پناہ ملے پناہ حاصل کرلے ۔‘‘
…………………….