اخلاق و آداب خلاصہ دین اسلام
﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۷ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۸ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۹ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۱۰﴾ (الشمس:7۔9)
’’اور نفس کی قسم! اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا، پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیز گاری اس کے دل میں ڈال دی۔ یقینًا کامیاب ہو گیا جس نے اسے پاک کر لیا۔اور یقینًا نامراد ہو گیا جس نے اسے مٹی میں دبا دیا۔‘‘
گذشتہ خطبات میں اخلاق و آداب کی ضرورت واہمیت کی بات ہو رہی تھی، جس میں ہم نے یہ جانا کہ اخلاق و آداب انسانی زندگی کے ہر ہر شعبے، ہر ہر معاملے اور حتی کہ تمام حرکات و سکنات کے لیے ضروری ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ موضوع ایک نہایت ہی وسیع موضوع ہے اور اس میں ایسی وسعت ہے کہ پورے کے پورے دین کو شامل اور محیط ہے، بلکہ اس کی وسعت اور شمولیت سے بڑھ کر اسے خلاصہ دین اور مقصد بعثت نبوی سے تعلیم قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((إِنَّمَا بُعِثْتُ لِا تَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاق)) (مجمع الزوائد: 9/18 السلسلة الصحيحة:45)
’’میں صرف اور صرف مکارم اخلاق کی تکمیل اور اتمام کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
یعنی آپ سے ہم کو (دنیا میں اچھے اخلاق جہاں کہیں بھی موجود تھے مگر اپنی ادھوری شکل میں تھے، انہیں ان کی مکمل شکل میں اور جہاں کہیں مفقود تھے وہاں انہیں نئے سرے سے متعارف کروا کر ) تمام کے تمام اخلاق اپنی مکمل شکل میں لوگوں تک پہنچانے کے لیے بھیجاگیا ہے۔
گویا کہ پورے کا پورا دین مجموعہ اخلاق ہے اور حسن اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور خود آپ ﷺ اخلاق کے سبب سے بلند مرتبے پر فائز ہیں، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيمٍ ) (القلم:4)
’’اور بے شک آپ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں ۔‘‘
تو دین کو جہاں سے بھی شروع کریں، اس کے جس پہلو کا بھی ذکر کریں، سراسر اخلاق ہی اخلاق ہے، اس کے کوئی چند مخصوص اقوال و افعال کا نام اخلاق نہیں، بلکہ سارے کا سارا دین ہی اخلاق ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت سعد بن ہشام بن عامر رحمہ اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آئے اور عرض کیا: ((يَا أَمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنبِئِينِي عَنْ خُلْقِ رَسُولِ اللهِﷺ))
’’اے ام المؤمنین! مجھے رسول اللہﷺ کے اخلاق کے بارے میں کچھ بتائیے؟‘‘
((قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟))
’’تو انہوں نے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟‘‘
((قلت: بلى))
’’تو حضرت سعد کہتے ہیں، میں نے کہا: ہاں کیوں نہیں۔‘‘
((قَالَتْ: فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ ﷺ كَانَ الْقُرْآنَ)) (مسلم:746)
’’تو انہوں نے فرمایا: نبی ﷺکا اخلاق قرآن ہی تھا۔‘‘
تو یوں تو پورا دین ہی اخلاق ہے، اس کا تعلق عقیدے سے ہو، عبادات سے ہو، معاملات سے ہو، ہر ایک چیز میں اخلاق اور آداب لازم ہیں۔
البتہ اخلاق و آداب کو علماء کرام نے ایک لحاظ سے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے اور وہ ہیں۔
1- الادب مع الله .
2۔ الادب مع الرسول
3۔ الادب مع الخلق .
سب سے پہلے، سب سے بنیادی اور سب سے اہم اخلاق و آداب تو یقینًا اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ ہیں، مگر ہم اس وقت صرف الادب مع التخلق کے حوالے سے بات کر رہے ہیں اور اس میں انسان بھی ہیں اور دیگر جاندار مخلوقات بھی شامل ہیں۔
لہٰذا فی الحال اس سے متعلق ہی گفتگو کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اخلاق اور آداب کے فرق کو سمجھتے ہیں، اخلاق سے مراد وہ عادات و اطوار ہیں جو یا تو انسان کی فطرت اور جبلت میں موجود ہوتی ہیں، یا انہیں محنت و ریاضت کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، حتی کہ وہ اس کی عادت ثانیہ بن جاتے ہیں جیسا کہ حلم و بردباری ہے، حیا ہے، خوش اخلاقی ہے، سخاوت ہے وغیرہ۔
جبکہ آداب وہ مسنون اقوال و اعمال ہیں جو انسان کسی بات اور عمل کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لیے ادا کرتا اور اپناتا ہے، جیسا کہ طہارت کے آداب، کھانے پینے کے آداب مجلس کے آداب گفتگو کے آداب وغیرہ۔
اخلاق کا لفظ عادات کے معنوں میں جانوروں کے لیے بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار صحابہ کرام کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو حدیبیہ کے مقام پر اوٹنی رک گئی۔
لوگوں نے کہا:
((خَلَاتِ الْقَصْوَاهُ خَلَاتِ الْقَصْوَاءُ .))
’’قصواء بیٹھ گئی ، قصواء رک گئی ۔‘‘
تو آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا خَلَاتِ الْقَصْوَاهُ وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلْقِ، وَلٰكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيْل)) (صحيح البخاری:2731)
’’فرمایا: قصواء خود نہیں رکی اور نہ ہی یہ اُس کی عادت ہے، بلکہ اسے ہاتھی کوروکنے والے نے روکا ہے۔‘
آپ ﷺکو معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالی نہیں چاہتے کہ آپ اس وقت مکہ میں داخل تو ہوں تا کہ مشرکین کے ساتھ اس وقت کسی قسم کا ٹکراؤ نہ ہو۔
تو اس فرمان میں آپﷺ نے اونٹنی کے لیے خلق کا لفظ استعمال فرمایا، کہ یہ اس کے اخلاق اور اس کی عادت نہیں ہے۔
تو اگر ہم اخلاق کے متعلق گفتگو کرنا چاہیں اور جاننا چاہیں کہ ایک مسلمان کے اخلاق کیسے ہونے چاہیں اور یہ کہ ہم اپنے اخلاق کی اصلاح کیسے کر سکتے ہیں تو اُس کے لیے اس حقیقت کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ اخلاق وہ عادات ہیں جو پیدائشی طور پر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میں موجود ہوتے ہیں اور وہ عموماً برے اخلاق ہی ہوتے ہیں، الا ماشاء اللہ یعنی انسان کے امتحان اور آزمائش کی خاطر وہ منفی اخلاق اس کی فطرت میں رکھ دیئے جاتے ہیں، انہیں خامیاں، کو تاہیاں اور آلائشیں کہہ سکتے ہیں، بہت کم ایسا ہوتا کہ کسی انسان میں ان خامیوں کی جگہ خوبیاں ہوں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اپنی ان خامیوں کو خوبیوں میں بدل کر دکھائے۔
وہ خامیاں کسی میں ذرا ہلکے درجے کی ہو سکتی ہیں اور کسی میں شدت کے ساتھ اور کسی میں کسی ایک خامی کی جگہ کوئی خوبی بھی ہو سکتی ہے، مگر عموما اور اکثر و بیشتر لوگوں میں خامیاں ہی ہوتی ہیں، سوائے انبیاء اسلام کے اور اُن میں سے بھی بالخصوص رسول کریمﷺ کے، کہ اس حوالے سے اللہ تعالی نے آپ ﷺکے ساتھ خصوصی معاملہ فرمایا ہے حالانکہ انبیاء علیہم السلام اللہ تعالی کی خصوصی عنایت سے پہلے ہی معصوم ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود جبریل علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم پر آپ ﷺ کا سینہ چاک کر کے دل باہر نکالا، اور ایک طشت میں رکھ کر زمزم کے پانی سے دھویا۔
تو بات ہورہی تھی کہ اگر ہم اپنے اخلاق کی اصلاح کرنے کے حوالے سے کچھ جانتا چاہیں تو سب سے پہلے یہ جان لینا ہوگا کہ کسی عادت کو بدلنا آسان کام نہیں ہے، اور دوسرے یہ کہ اگر عادت کو بدلنے کی کوشش نہ کی جائے تو وہ مزید پختہ ہو جاتی ہے اور تیسرے یہ کہ عادت خود بخود نہیں بدلتی، بلکہ اس کے لیے بہت زیادہ محنت و مشقت کرنا پڑتی ہے۔ پہلے انسان کے اخلاق و عادات میں سے چند عادات پر نظر ڈالتے ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں کیا ہے: ان میں سے ایک یہ ہے:
﴿إِنَّهُ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا﴾ (الاحزاب:72)
’’انسان بے شک بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘
﴿وَ إِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ﴾ (العاديات:8)
’’انسان مال و دولت کی محبت میں بڑا سخت اور بری طرح مبتلا ہے۔‘‘
﴿وَكَانَ الْإِنْسَانُ قَتُوْرًا﴾ (الاسراء:100)
’’انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے یعنی بخیل ہے۔‘‘
﴿ اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ﴾ (يس:77)
’’کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑا لو بن کر کھڑا ہو گیا ۔‘‘
﴿وَكَانَ الإِنْسَانُ عَجُوْلًا﴾ (الاسراء:11)
’’اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے ۔‘‘
قرآن پاک میں ذکر کی گئی انسان کی عادات میں سے یہ چند عادات ہیں۔
یہ اور دیگر بری عادات کا انسان کی ذات اور معاشرے پر یقینًا ایک اثر ہوتا ہے، دلوں میں نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، خود غرضی اور لالچ رونما ہوتے ہیں، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ اختلافات ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنے اخلاق اچھے بنانے کے خواہش مند ہوں تو پھر سب سے پہلے ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ بری صفات ہم میں موجود ہیں، کیونکہ جب تک کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا کہ وہ بیمار ہے تو اپنے علاج کی کوشش نہیں کرے گا، اور دوسرے یہ کہ ہمیں اس تبدیلی کی ضرورت کو سمجھنا اور تسلیم کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر بری صفت آدمی کی شخصیت کو مجروح کرتی ہے، لوگوں کے نزدیک اسے مکروہ، بد بودار اور ناپسندیدہ بنا دیتی ہے ممکن ہے ظاہری طور پر کچھ لوگ اس کی بد زبانی کے ڈر سے، اس کی دولت اور اس کے عہدہ و منصب کی وجہ سے اس کی عزت کرتے ہوں مگر کسی بری صفت والے کو کوئی اچھا اور شریف آدمی ہرگز اچھا نہیں سمجھے گا، الا یہ کہ کوئی اس جیسا ہی ہو۔ کردی صفات کو اچھی صفات میں بدلنے کا فائدہ یہ ہے کہ ایک تو وہ لوگوں کے نزدیک معزز و محترم سمجھا جاتا ہے، اس کی عزت کی جاتی ہے اور دوسری طرف عبداللہ بھی اس کا اجر و ثواب ہے۔
اچھی صفات لباس کی مانند ہوتی ہیں، جس طرح لباس انسان کے ستر کو چھپانے کے لئے ، سردی اور گرمی سے بچنے کے لئے، تزئین و آرائش اور خوبصورتی کے لیے ہوتا ہے، اس کے جسمانی عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے، اسی طرح اچھی صفات اس کی شخصیت کو خوبصورت محبوب اور پسندیدہ بنا دیتی ہیں۔ اب دیکھئے جیسے ایک طرف بخل اور کنجوسی ایک بری صفت ہے، بخیل آدمی لوگوں کی نظروں میں ایک مکروہ شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، حتی کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی نا پسندیدہ شخصیت شمار کیا جاتا ہے جنہیں اس کے بخل سے کوئی واسطہ اور کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوسری طرف سخاوت اور فراخدلی ہے، ایسا شخص تمام لوگوں کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ شخصیت گردانا جاتا ہے حتی کہ کسی کو اس کی سخاوت کا فائدہ نہ بھی ہو تب بھی وہ اس کی تعریف اور اس کا احترام کرتے ہیں۔
اور امام الشافعی رحمہ اللہ نے تو اس کے اور بھی فوائد کا ذکر کیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
وَإِنْ كَثُرَتْ عُيُوبُكَ فِي الْبَرَايَا
وسرَّكَ أَنْ يَكُونَ لَهَا غِطَاءُ
’’اور اگر دنیا میں تمہارے عیوب اور خامیاں بہت زیادہ ہو جائیں اور تم چاہو کہ ان کی پردہ پوشی ہو جائے ۔‘‘
تَسَتَّرِ بِالسَّخَاءِ فَكُلُّ عَيْبٍ
يُغَطِّيْهِ كَمَا قِیْلَ السَّخَاءُ
’’تو پھر سخاوت کے ساتھ اپنے عیبوں کی پردہ پوشی کرو، کہ کہا جاتا ہے کہ سخاوت عیبوں کو ڈھانپ دیتی ہے ۔‘‘
اور حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں عموماً ایسے آدمی کی خامیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور یہ خوبی اس کی خامیوں پر چھا جاتی ہے۔
سخاوت کی یوں تو مختلف صورتیں اور شکلیں ہیں، جیسے: وقت کی سخاوت ، وعظ ونصیحت کی سخاوت ، علم کی سخاوت ، مگر معروف معنوں میں مال کی سخاوت کو ہی سخاوت کہا جاتا ہے۔ اور سخاوت کے شرف وفضیلت کا یہ عالم ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں:
((سَادَةُ النَّاسِ فِي الدُّنْيَا الأَسْخَيَاءُ ، وَفِي الْآخِرَةِ الأَتَّقِيَاءُ )) (شعب الايمان:10395)
’’دنیا میں لوگوں کے سرداریخی لوگ ہیں اور آخرت میں متقی ۔‘‘
سخاوت کی فضیلت میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا بس اتنی بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اپنے لیے جینا بھی کوئی جینا ہے یہ تو دوسری جاندار محلوقات ایسے جیتی ہیں بلکہ وہ بھی کچھ نہ کچھ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر سوچتی ہیں، تو آدمی کی اصل خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے ، ضروری نہیں کہ مال ہی کے ذریعے کسی کے کام آئے ، کسی اور طرح سے بھی کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں تو ضرور پہنچا ئیں اور عادت ڈالیں کسی کے کام آنے کی۔ اور جہاں تک مال و دولت کا تعلق ہے وہ تو حدیث میں ہے، کہ تمہیں صرف غریبوں کی وجہ سے دیا جاتا ہے:
((إِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ)) (سنن ابی داود:2594)
’’تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے صرف تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ سے۔‘‘
مگر اس چیز کو ہم نے نظر انداز کر رکھا ہے اور اپنی کوٹھیاں، کاریں اور بینک بیلنس دیکھے دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں، جبکہ ان کمزور مگر متقی اور پرہیز گار لوگوں کا امت پر احسان یہ ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّمَا يَنصُرُ اللهُ هٰذِهِ الْأُمَّةَ بِضَعِيفَهَا))
’’اللہ تعالی اس امت کی مدد کمتر ور لوگوں کے ذریعے کرتے ہیں ۔‘‘
((بدعوتهم وصلاتهم واخلاصهم)) (سنن نسائی:3178)
’’ان کی دعاؤں، نمازوں اور اخلاص کی بدولت ‘‘
آخر میں ایک عالم گیر اصول عرض کرتا چلوں ، فرمان الہی ہے:
﴿ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ ؕ﴾ (الرعد:17)
’’جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے قائدے اور نفع کی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔‘‘
یعنی دنیا میں نام اسی کا رہتا ہے جو لوگوں کی ہمدردی اور خیر خواہی کی بات کرتا ہے، جو ان کے فائدے کی بات کرتا ہے، جو انھیں کسی بھی طریقے سے کوئی فائدہ پہنچاتا ہے، اور ایسے آخرت میں بھی یہ چیز بندۂ مؤمن کے نامہ اعمال میں ان شاء اللہ اک بھاری چیز ہوگی ہی کیونکہ لوگوں کی بھلائی کے کام بہت سی عبادات سے افضل ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((وَلَأَنْ أَمْشِي مَعَ أَخْ فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هٰذَا الْمَسْجِدِ يعني مسجِد الْمَدِينَةِ شَهْرًا)) (صحيح الترغيب والترهيب:2623)
’’میں اپنے کسی بھائی کے ساتھ اُس کے کام کے لیے چل کر جاؤں مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس مسجد میں، یعنی مسجد نبوی میں مہینہ بھر اعتکاف بیٹھوں۔‘‘
اس لیے مرنے کے بعد بھی اس کا نام زندہ رہتا ہے جو لوگوں کے کام آتا ہے، باقی جو لوگ کروڑوں اور اربوں کماتے ہیں، کوٹھیاں بناتے اور کارخانے لگاتے ہیں، فارم ہاؤسز بناتے ہیں، لوگوں پر رعب و دبدبہ جماتے ہیں، بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ سیلفیاں بناتے اور ان کی دعوتیں کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں تو یہ سب جھاگ ہے اور ایسے شخص کو دنیا میں کوئی یاد کرنے والا نہیں ہوتا، دنیا میں آئے، پیسے کمائے، کھائے، ہے اور مر گئے ۔ ہاں تو ہم نے اپنی ایک خامی کوتاہی اور آلائش کا ذکر کیا ہے اب دیکھئے ہم میں سے کتنے لوگ اپنے آپ میں تبدیلی کی ہمت پاتے ہیں۔ آپ کو یقینًا اندازہ ہو گیا ہوگا کہ انسان کی فطرت میں جو خامیاں، کوتا ہیاں اور آلائشیں ہیں انہیں خوبیوں میں تبدیل کرنا کتنا مشکل ہے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم اپنی ایک بری عادت تو تبدیل کر نہیں سکتے مگر پورے ملک کی تقدیر کو بدل دینے کا دعوی ہے، اپنے آپ کو تبدیل کر کے نمازی تو بنا نہیں سکتے مگر پوری قوم کی قسمت بدلنے کا نعرہ لگاتے ہیں، ٹھیک ہے برسوں کی بری عادت کو راتوں رات تبدیل نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کی ابتدا تو کریں، اپنے آپ سے کوئی عہد تو کریں ، وعظ ونصیحت کسی کام آئے گا اگر ہم اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش ہی نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ﴾ (التوبه:38)
’’تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ تعالی کی راہ میں نکلو تو زمین سے چمٹ کر رہ جاتے ہو، کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ہے۔‘‘
آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لینا زمین کے ساتھ چمٹ کر رہ جاتا ہے ، اور زمین کے ساتھ چمٹ کر رہ جانے کی اصطلاح اور محاورے پر غور کریں تو اس کا مطلب ہوگا کہ جس طرح کوئی شخص کسی کو پکڑ کر زمین سے اوپر اُٹھانا چاہتا ہو مگر وہ شخص اپنا سارا بوجھ زمین پر ڈال دے تا کہ اسے اوپر اٹھایا نہ جا سکے ، اسی طرح آخرت کے مقابلے میں دنیا کو پسند کرنے والا گویا دنیا کے ساتھ ہی چمٹ گیا ہے ، ورنہ اس کے دنیا کی دلدل سے نکلنے کے سامان تو بہت ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ﴾ (الاعراف:176)
’’اگر ہم چاہتے اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے ، مگر وہ تو زمین کی طرف جھک کر رہ گیا ، اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا ۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………..