اخلاق و آداب سے متصف ہونا کامیاب معاشرتی زندگی کا اک لازمہ

﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۝۷ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۝۸ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝۱۰﴾ (الشمس:7۔9)
چند جمعوں سے اخلاق و آداب کے حوالے سے بات ہو رہی تھی ، اخلاق و آداب انسان کی انفرادی زندگی کے لیے بھی ضروری ہیں اور اس کی اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔ اجتماعی زندگی کے لیے ضروری ہیں یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ انسان کا دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملہ رہتا ہے، اُن سے میل جول، لین دین، کاروبار، رشتہ داری اور دوستی یاری رہتی ہے، اس لیے اچھے اخلاق ہونا بھی ضروری ہے اور آداب کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔
مگر اس کی انفرادی زندگی کے لیے اخلاق و آداب کیونکر ضروری ہیں شاید یہ بات اکثر لوگوں کو سمجھ میں نہ آتی ہو، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاق و آداب کے بارے میں ہمارے ہاں تصور یہ پایا جاتا ہے کہ صرف دوسروں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اخلاق و آداب کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ اخلاق و آداب حقیقت میں زندگی جینے کے طریقوں اور سلیقوں کا نام ہے اور اس میں اس کی اجتماعی زندگی بھی ہے اور انفرادی زندگی بھی۔
اس میں جہاں باہمی معاملات شامل ہیں وہاں شخصی اور ذاتی معاملات بھی شامل ہیں، اس میں آدمی کا الجھنا بیٹھنا ، سونا جاگنا اور کھانا پینا ، حتی کہ قضائے حاجت کا معاملہ بھی شامل ہے، لہذا اخلاق و آداب کا جاننا اور سمجھتا اور ان پر عمل پیرا ہونا نہایت ضروری ہے۔
اخلاق و آداب کے موضوع پر گفتگو کرنا اور انھیں جانتا اور سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عموماً لوگ اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں اور انھیں دینی فرائض و واجبات اور مسائل سے بہٹ کر کوئی اضافی چیز سمجھتے ہیں، چنانچہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ دین کے مشکل سے مشکل کام تو کر لیتے ہیں جیسے تہجد پڑھنا، نفلی روزے رکھنا اور صدقہ خیرات کرنا وغیرہ مگر اخلاقیات میں وہ بالکل ناکام ہوتے ہیں، جبکہ اخلاق و آداب کا اللہ تعالی کے ہاں بھی بڑا مقام و مرتبہ ہے اور انسانی معاشرے میں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ بد اخلاق شخص کی معاشرے میں کوئی عزت ، کوئی حیثیت، کوئی احترام اور کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی ، ہر شخص ہر شخص اس سے دور بھی رکھا گیا اور نفرت کرتا ہے اور خود بھی وہ شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ لوگوں کی نظروں میں گر چکا ہے، چنانچہ وہ اس پر غمگين اور پریشان ہوتا اور اس اذیت کو محسوس کرتا ہے، بد اخلاقی کی وجہ سے اسے جس اذیت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یقینًا انتہائی تکلیف دہ امر ہوتا ہے، ایسے شخص سے عزت و احترام اور مدح و تعریف کے تمام نام چھین کر اسے دوسرے ناموں سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔ مثلا: اچھا آدمی، با اخلاق، رحم دل، خوش اخلاق، ہمدرد انسان، متقی، پرہیز گار اور تخی وغیرہ الفاظ اس سے چھین لیے جاتے ہیں اور ان کی جگہ بداخلاق، کنجوس اور بخیل، فتنے باز، دھو کے باز ، جھوٹا، مکار، بد دیانت، فسادی جیسے نام اس پر چسپاں کر دیئے جاتے ہیں۔
اندازہ کریں! بداخلاقی کی یہ کتنی بڑی سزا ہے کہ معاشرے میں اس کی کوئی عزت و حرمت ہی نہ ہو، حتی کہ اگر وہ آدمی دین دار بھی ہو مگر اخلاقیات سے عاری ہو تو پھر بھی معاشرے میں اس کی کوئی عزت اور حیثیت ہوتی ہے اور نہ ہی اللہ تعالی کے ہاں اس کی دین داری کی کوئی قدر کی جاتی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
((قِيلَ لِلنَّبِيِّ إِنَّ فُلانَةً تَقُوْمُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ ، وَتَفْعَلُ وَتَصَدَّقُ وَتُوْذِيْ جِيْرَانَها بِلِسَانِها ))
’’کسی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ہے یا فلاں عورت راتوں کو تہجد پڑھتی ہے، دن کو روزے رکھتی ہے، نیکیاں کرتی اور صدقہ خیرات بھی کرتی ہے ، مگر زبان سے پڑوسیوں کو اذیت دیتی ہے۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ لَا خَيْرَ فِيهَا ، هِيَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اس میں کوئی خیر نہیں ہے، وہ جہنمیوں میں سے ہے۔‘‘
((قَالُوا: وَفُلَانَةٌ تُصَلِّي المَكْتُوبَةَ وَتَصَدَّقُ بِأَلْوَارِ وَلَا تُؤْذِي أحدًا))
’’صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا: اور ایک عورت ہے وہ صرف فرض نمازیں پڑھتی ہے اور پنیر کے ٹکڑوں کا تھوڑا بہت صدقہ بھی کر لیتی ہے اور کسی کو اذیت نہیں دیتی‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ)) (الأدب المفرد ، کتاب الجار:119)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: وہ جنتیوں میں سے ہے۔‘‘
اخلاق و آداب کی اہمیت کو مزید جائیے ، حسن اخلاق کا اجر و انعام اور بداخلاقی کا انجام ملاحظہ کیجئے ، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَى وَ أَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا))
’’تم میں سے سب سے پسندیدہ اور محبوب شخصیتوں میں سے میرے نزدیک اور قیامت کے دن میری مجلس میں تم میں سے سب سے قریب وہ ہوں گے جو تم میں سے سب سے اچھے اخلاق والے ہوں گے۔‘‘
((وَ إِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَى وَابْعَدَكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْتَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ وَالْمُتَفَيهِقُونَ)) (ترمذي: 2018)
’’اور تم میں سے میرے نزدیک سب سے ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے دور وہ لوگ ہوں گے جو بک بک کرنے والے، لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے والے اور متکبرانہ انداز میں بات کرنے والے ہیں ۔‘‘
لہذا اسلام میں اخلاق و آداب کی اہمیت کے پیش نظر آگاہی کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے تا کہ ہم اپنے اخلاق درست کر سکیں۔ مگر اخلاق کی درستی کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ اخلاق کی درستی کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ اتنا آسان کام نہیں ہے کہ ادھر ہم نے حسن اخلاق کی فضیلت سنی اور ادھر ہمارے اخلاق درست ہو گئے بلکہ اس کے لیے صبر، تحمل اور برداشت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، تکلیف اٹھانا پڑتی ہے، تو ہین برداشت کرنا پڑتی ہے، فضیلت ، عزت، شرف اور بلند مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے بڑی جدو جہد کرنا پڑتی اور محنت درکار ہوتی ہے۔
جیسا کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
إذا كانت النفوس كبارًا
تعبت فِي مُرَادِهَا الْأَجسام
’’جب نفوس بلند ہمت اور ستاروں پر کمند ڈالنے والے ہوتے ہیں تو ان کے جسموں کو بڑی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔‘‘
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((أَنَا زَعِيمُ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا))
’’میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں محل کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرے۔‘‘
و ببيت في وسط الجنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مازحًا)))
’’اور اس شخص کے لیے جنت کے وسط میں محل کی ضمانت دیتا ہوں جو مزاح میں بھی جھوٹ سے بچے ۔‘‘
و ببيت فِي أعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسُنَ خُلْقَهُ)) (سنن ابی داود:4800)
’’اور اسے جنت میں اعلیٰ مقام پر محل کی ضمانت دیتا ہوں جس کے اخلاق اچھے ہوں ۔‘‘
یہ اتنا بڑا اجر وثواب یونہی نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ کام بہت بڑا اور بہت مشکل ہے۔
اور حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظم البلاء)) (ترمذي:2396)
’’یقینًا بڑا اجر، بڑی آزمائش اور مصیبت کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
آپ جانتے ہیں کہ فریقین جب آپس میں کسی بات پر جھگڑتے ہیں تو ان میں سے ایک اکثر و بیشتر غلط ہوتا ہے مگر پھر بھی جھگڑ رہا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جھگڑے سے بچنے اور خاموشی اختیار کرنے کو اپنی شکست سمجھتا ہے اور شکست میں شرمندگی ہوتی ہے۔ یعنی وہ غلطی پر ہونے کے باوجود اپنی شکست اور شرمندگی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر وہ حق پر ہو تو پھر تو اسے گویا لڑائی اور جھگڑے کا جواز مل جاتا ہے اور ہمت بڑھ جاتی ہے، وہ جھگڑے سے پیچھے کیسے ہٹ سکتا ہے!
یعنی ایسی صورت میں جھگڑے سے اجتناب کرنا بہت مشکل ہوتا ہے نفس پر بہت گراں گزرتا ہے، دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کا گویا موقع ضائع کر دینے کے مترادف ہوتا ہے تو ایسے موقع پر اپنی شکست ، تو ہین اور شرمندگی برداشت کرتے ہوئے جھگڑے سے اجتناب کرنا یقینًا بہت بڑا عمل ہوتا ہے، لہذا اسے اتنا بڑا اجر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مزاح کے وقت جھوٹ سے اجتناب کرنا اور حسن اخلاق اختیار کرنا، یہ دونوں کام بہت مشکل ہیں، لہذا اخلاق و آداب اختیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، البتہ انسان اگر ہے بلکہ وہ اس میں لذت محسوس کرتا ہے۔
لہذا اپنی شخصیت کو پہچانیں، اس کی قدر کا اندازہ لگائیں آپ کے نزدیک آپ کی شخصیت کا مقام و مرتبہ کیا ہے جب آپ نے اپنے نفس کی قدر پہچان لی تو پھر عفت اور شرمندگی کوئی معنے نہیں رکھتی، جب تک کوئی غلط کام کا ارتکاب نہ کیا ہو۔
امام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يُخَاطِبُنِي السَّفِيه بِكُل قبح
فأكْرَهُ أَنْ أَكُونَ لَهُ مُجِيبًا
’’نادان آدمی بد تہذیبی اور بداخلاقی سے پیش آتا ہے، مگر میں اسے جواب دینا نا پسند کرتا ہوں۔‘‘
يَزِيدُ سَفَاهَةٌ فَأَزِيدُ حِلْمًا
كَعُود زَادَهُ الإحراق طيبا
’’وہ اپنی نادانی اور حماقت میں بڑھتا جاتا ہے اور میں اپنی حلم و بردباری میں بڑھتا جاتا ہوں ، جیسا کہ عود جیسے جیسے جلتی ہے، تیسے تیسے اس کی خوشبو میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔‘‘
ایسے ہی چند دوسرے اشعار میں امام شافعی پہیہ اپنے نفس کی قدر و قیمت پہچاننے کی اہمیت کو یوں بیان کرتے ہیں:
علَىَّ ثِيَابٌ لَوْ تَبَاعُ جَمِيعُها
بفِلْسٍٍ لَكَانَ الْفِلْسُ مِنْهُنَّ أَكْثَرا
’’ میرے تن پر جو لباس ہے، اگر سارے کا سارا ایک پیسے میں فروخت کیا جائے تو وہ ایک پیسہ بھی قیمت میں زیادہ ہوگا۔‘‘
وفيهِنَّ نَفْسٌ لَوْ تُقَاسُ بِمِثْلِهَا
نفوسُ الْوَرَى كَانَتْ أَجَلَّ وَأَخْطَرا
’’اور اس لباس میں ایک ایسا نفس ہے کہ اگر اس کا اپنے جیسے دنیا کے تمام لوگوں کے نفوس سے مقارت کیا جائے تو وہ ان سب سے عظیم اور خطیر ہے ۔‘‘
اور پھر ایسے نفس کی انکساری کی ایک خوبصورت تشبیہ بیان کی ، فرمایا:
فَمَا ضَرَ نَصْلَ السَّيْفِ إِخْلَاقُ عَمْدِهِ
إِذَا كَانَ عَضَبًا حَيْثُ أَنْفَدْتَهُ بَرَّا
(حلية الأولياء وطبقات الاصفياء، ج 9، ص:131)
’’اور تلوار کے نیام اور غلاف کے بوسیدہ ہونے سے اس کی دھار کو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر وہ کاٹ دار ہو کہ جہاں چلا ئیں کاٹتی چلی جائے۔‘‘
یعنی اگر آپ اپنی شخصیت کی قدر و منزلت سے آگاہ ہیں تو پھر لڑائی جھگڑے سے اجتناب کے لیے خاموش رہنے ، پیچھے ہٹنے اور خفت برداشت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے کہ اس سے آپ کی شخصیت پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ اس کی عزت میں اضافہ ہی
ہوتا ہے۔
آخر میں اخلاق و آداب کی اہمیت کو ایک اور پہلو سے بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں: یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انسان کے اخلاق و آداب، اس کے طرز زندگی ، اس کی خوش اخلاقی یا بداخلاقی ، اس کے اخلاق حسنہ یا خصال سیئہ کا اثر ، نتیجہ اور انجام اس دنیا میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ظاہر ہوگا مگر ان کے علاوہ ایک تیسرا مقام بھی ہے جہاں انسان کو اپنے حسن اخلاق کا پھل ملتا ہے، یا اسے اپنی بداخلاقی کا انجام بھگتنا پڑتا ہے اور وہ ہے عالم برزخ کا وقفہ، دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کا درمیانی وقفہ، یعنی آدمی کے فوت ہونے کے بعد سے لے کر قیامت تک کا درمیانی وقفہ، آدمی کے فوت ہونے کے بعد لوگ اس کے اخلاق و آداب اور عادات و اطوار کی تعریف کرتے ہیں یا اُس کی مذمت کرتے اور اس کی بداخلاقیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ آدمی فوت ہوا تو بات ختم ہوگئی ، اسے کسی کی تعریف و تنقیص سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر بات ایسے نہیں ہے، حقیقت میں اسے بھی فرق پڑتا ہے اور اس کے اعزاء واقارب اور دوست و احباب کو بھی سہنا پڑتا ہے یا انھیں خوشی ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم علینڈ کی دعا پر غور فرمائیے ، ان کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی جو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ذکر فرمائی ہے:
﴿وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ۝۸۴﴾ (الشعراء:84)
’’اور میرا ذکر خیر بعد والے لوگوں میں رکھ دے۔‘‘
یعنی جو لوگ میرے بعد قیامت تک آئیں وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں۔ لہذا یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے اور پلے باندھ لینی چاہیے کہ خوش اخلاقی انسان کو فوت ہونے کے بعد بھی فائدہ دیتی ہے، اور بداخلاقی اور بد زبانی مرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا کرتی ہے۔ جیسا کہ حدیث کے الفاظ مستریح اور مستراح منہ سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………….