اخلاق رسولﷺ
ارشاد ربانی ہے: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾ (سورة قلم، آیت: ۳)۔
ترجمہ: بیشک تو بڑے (عمده) اخلاق پر ہے۔
نیز فرمایا: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (سوره احزاب، آیت: 31)
ترجمہ: یقینا تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے۔
عَن أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ هُ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا. (متفق عليه)
(صحیح بخاري: كتاب الأدب، باب الكنية للصبي وقبل أن يولد للرحل، صحيح مسلم: كتاب الفضائل باب حسن خلقه)
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ اللہ حسن اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے۔
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيَّ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَكَانَ يَقُولُ: إِنَّ مِن خِيَارِكُم أَحْسَنُكُم اَخْلَاقًا (متفق عليه)
(صحيح بخاري: كتاب المناقب، باب صفة النبي، صحيح مسلم كتاب الفضائل، باب كثرة حياله)
عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نہ بدگو تھے نہ بد زبانی کرتے تھے (کہ منہ سے گالیاں نکالیں) بلکہ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے زیادہ بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔
وَعَن أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَا شَيْءٌ اَثْقَلَ فِي مِيْزَانِ الْمُؤْمِن يومَ القِيامَةِ مِنْ خلقٍ حَسَنٍ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُبْغِضُ الفَاحِشَ الَبَذِيْء. (رواه الترمذي).
(سنن الترمذي: أبواب البر والصلة عن رسول الله، باب ماجاء في حسن الخلق، قال حسن صحيح، وصححه الألباني في الصحيحة (876)
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھے تعلق سے زیادہ کوئی اور چیز بندے کے میزان میں قیامت کے دن وزنی نہیں ہوگا اور اللہ تعالی بخش گور بد خلق کو پسند نہیں کرتا ہے۔
وَعَن أبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أكثر مَا يُدْخِلُ النَّاسُ الجَنةَ قَالَ : تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الخُلْقِ . (أخرجه الترمذي)
(سنن ترمذی: أبواب البر والصلة عن رسول اللهﷺ، باب ما جاء في حسن الخلق، وقال هذا حديث صحيح غريب، وقال الألباني إسناده حسن في صحيح سنن الترمذي: (2004)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کسی چیز کے ذریعہ لوگ زیادہ جنت میں جائیں گے تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چیز اکثر جنت میں لے جانے کا سبب بنے گی وہ اللہ تعالیٰ کا ڈر اور حسن خلق ہے۔
وَعَن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يقول: إنَّ المُؤْمِنَ لَيُدْرِكْ بِحُسْنِ خُلْقِهِ دَرجة الصائم القائم . (اخرجه ابو داود).
(سنن ابوداؤد: كتاب الأدب، باب في حسن الخلق، وحسنه الألباني في المشكاة (5082).
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بیشک مومن اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے روزے دار اور قیام کرنے والے کے درجے میں ہوگا۔
تشریح:
اخلاق ’’خلق‘‘ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں، عادات ۔ حسن اخلاق سے مراد دو عادات ہیں جن کا اعتبار شریعت اسلامیہ نے کیا ہے اور عرف میں ان کو عمدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ایسا حسن اخلاق جو حقوق اللہ سے خالی ہو معتبر نہیں یا اگر کوئی حقوق اللہ تو ادا کرتا ہو لیکن حقوق العباد میں اس سے تقصیر ہو رہی ہو تب بھی برا ہے۔ ہر حال میں دونوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ رسول اکرمﷺ نے حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور اس کی ترغیب میں فرمایا کہ یہ قربت الہی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی شہادت دی ہے یہاں تک کہ ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس آتا اس حال میں کہ آپ کا ہے ناپسند ہوتے لیکن تھوڑی ہی دیر میں آپ کے اخلاق سے اس قدر متاثر ہو جاتا کہ آپ اس کی نظر میں سب سے محبوب بن جاتے۔ یہ آپ ﷺ کے حسن اخلاق کا کرشمہ ہی ہوتا تھا۔ اللہ تعالی ہمیں اسوہ رسولﷺ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور حسن اخلاق سے مزین کرے۔
فوائد:
٭ رسول اکرم ﷺ کا اخلاق بہت اونچا تھا۔
٭ حسن اخلاق دخول جنت اور رفع درجات کا سبب ہے۔
٭ مسلمانوں کا حسن اخلاق سے پیراستہ ہونا ان کے کمال ایمان کی دلیل ہے۔
٭ حسن اخلاق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں میں ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭