اختلاف امت اور قتال

عَنْ ثَوبَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنْ أُمَّتِي سَيَبْلُعُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وأُعْطِيْتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، وإنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَةِ، وَأَن لَّا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيْحَ بَيْضَتَهُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّى إِذا قَضَيتُ قَضَاء فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ، وَإِنِّي أَعْطيتك لامتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنفُسِهِمْ يَسْتَبِيْحُ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا أَوْقَالَ: مَنْ بَينَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكونَ بَعْضُهُم يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِى بَعْضُهُمْ بَعْضًا، (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: كتاب الفتن، وأشراط الساعة، باب هلاك هذه الأمة بعضهم البعض.)
ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کو لپیٹ لیا (یعنی سب زمین کو سمیٹ کر میرے سامنے کر دیا) تو میں نے اس کا پورب اور پچھم دیکھا۔ اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک کی زمین میرے لئے لپیٹ دی گئی ہے اور مجھ کو سرخ اور سفید دو خزانے ملے اور میں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کرے اور اس پر کسی غیر کو دشمن بنا کر غالب نہ کرے کہ ان کا جتھا نوٹ جائے اور ان کی جڑ کٹ جائے (یعنی بالکل نیست ونا بود ہو جائیں)۔ میرے پروردگار نے فرمایا اے محمد! میں جب کوئی حکم کر دیتا ہوں پھر وہ نہیں پلٹتا اور میں نے یہ تیری دعائیں قبول کیں۔ میں تیری امت کو عام قحط سے نہ ہلاک کروں گا نہ ان پر کسی دشمن کو جو ان میں سے نہ ہو ایسا غالب کروں گا جو ان کی جڑ کاٹ دے اگرچہ زمین کے تمام لوگ اکٹھے ہو جائیں (مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے پر ان کو بالکل تباہ نہ کر سکیں گے) یہاں تک کہ خود مسلمان ایک دوسرے کو ہلاک کریں گیا ور ایک دوسرے کوقید کریں گے۔
عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقْبَلَ ذَاتَ يَومٍ مِنَ الْعَالِيَةِ حَتّٰى إِذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِيْ مُعَاوَيَةَ دَخَلَ فَرَكَعَ فِيْهِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيْلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْنَا فَقَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِيْ وَاحِدَةً، سَأَلْتُ رَبِّي أَلَّا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَن لَّا يُهْلِكَ أُمتِيْ بِالْغَرْقِ فَأَعْطَانِيْهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَّا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيْهَا، (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض)
سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک دن عالیہ سے آئے عالیہ وہ گاؤں ہے جو مدینہ کے باہر ہے) اور آپ بھی معاویہ کی مسجد سے گزرے تو اس میں داخل ہوئے اور دور کعتیں پڑھیں ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے بڑی دیر تک اپنے پروردگار سے دعا کی پھر ہمارے پاس آئے اور فرمایا میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں لیکن اس نے دو دعا ئیں قبول کیں اور ایک قبول نہ کی۔ میں نے اپنے رب سے یہ دعا کی کہ میری امت کو بلاک نہ کرے قحط سے (یعنی ساری امت کو عام قحط سے) تو اللہ تعالی نے یہ دعا قبول کی اور میں نے یہ دعا کی کہ میری امت کو (یعنی ساری امت کو) پانی میں ڈبو کر ہلاک نہ کرے تو یہ بھی دعا قبول کی اور میں نے یہ دعا کی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے نہ لڑیں تو اس کو قبول نہیں کیا۔
تشریح:
اسلام نے مسلمانوں کو قتل و خوں ریزی اور اختلاف سے منع کیا ہے۔ اختلاف کی صورت میں قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ کی پیروی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ اختلاف اور مل و خوں ریزی شیطان کی دین ہے اور شیطان مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے وہ چاہتا ہے کہ ان میں ہمیشہ اختلاف رہے اور وہ کبھی متحد نہ ہونے پائیں کیونکہ متحد ہونے کی صورت میں وہ ہمیشہ دشمنوں پر غالب رہیں گے۔ اللہ تعالی ہمیں اختلافات سے محفوظ رکھے۔
فوائد:
٭ رسول اکرم ﷺ نے اپنے بعد امت کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کی پیشین گوئی کی ہے۔
٭ مسلمانوں کا متحد ہونا دشمنوں پر غالب ہونے کا ذریعہ ہے۔
٭٭٭٭