علم دین

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ [المجادلة:11]
’’اللہ تعالی تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا اور اللہ تعالی (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبر دار ہے۔‘‘
دین کا علم حاصل کرنا، قرآن و سنت کی تعلیم کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا، دین کی سمجھ حاصل کرنا، اللہ رب العزت کے ہاں انتہائی عظیم عمل ہے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اس عمل کی بڑی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے اور اس کی زبردست ترغیب دی گئی ہے سب سے پہلے قرآن کریم کے چند مقامات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں سورۃ آل عمران میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ۝۱۸﴾ [ال عمران: 18]
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے توحید بیان کرتے ہوئے اپنے اور فرشتوں کے ساتھ علماء کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ انداز علماء کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر علماء سے بڑھ کر کوئی اور عزت و شرف والا ہوتا تو اللہ تعالی اس کا تذکرہ کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اور فرشتوں کے ساتھ علماء کا تذکرہ کر کے علم اور علماء کا مقام بیان کیا ہے۔ سورۃ طہ پڑھیے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ [طه: 114]
غور کیجئے اللہ رب العزت نے پورے قرآن میں صرف ایک چیز زیادہ مانگنے کا اپنے محبوب پیغمبر کو حکم دیا ہے اور وہ چیز دین کا علم ہے:
﴿وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ [طه: 114]
بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ علم کی بہت بڑی فضیلت کے لیے صرف یہ ایک آیت ہی کافی ہے۔ سورۃ العنکبوت میں اللہ رب العزت علم اور علماء کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں:
﴿ بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ۝۴۹﴾ [العنكبوت: 49]
’’بلکہ یہ (قرآن) تو روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالموں کے اور کوئی نہیں۔‘‘
اس سورت میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۚ وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۝۴۳﴾ [العنكبوت:43]
’’ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرمارہے ہیں انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔‘‘
سورۃ فاطر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا﴾ [فاطر: 28]
’’کہ اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔‘‘
کہ اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں دراصل جس قدر اللہ کی معرفت اور پہچان زیادہ ہو اسی قدر اللہ کا ڈر دل میں زیادہ ہوگا اور اللہ کی معرفت اور پہچان علم دین سے حاصل ہوتی ہے اس لیے فرمایا کہ علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
سورہ رعد میں فرمایا:
﴿ اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰی ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ۝۱۹﴾ [الرعد: 19]
’’کیا وہ ایک شخص جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اُتارا گیا ہے وہ حق ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔‘‘
غور کیجئے! دنیا کا علم رکھنے والے کو بینا اور بے علم اور جاہل کو نابینا اور اندھا کیا گیا ہے۔
سورة المجادلہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ [المجادلة:11]
’’اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتے ہیں اور اللہ تعالی ہر اس کام سے جو تم کر رہے ہو خوب خبر دار ہیں۔‘‘
اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتے ہیں۔ حقیقت ہے دین کا علم دنیا میں بھی بلندی مقام اور عزت و شرف کا ذریعہ ہے اور آخرت میں بھی درجات کی بلندی کا سبب ہے۔
یہ قرآن کریم کے چند مقامات ہیں جن میں خالق کائنات نے علم اور علماء کی فضیلت و منفعت بیان فرمائی ہے۔
احادیث:
وَ عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ((مَنْ يُّرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُّفَقِهُهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي) [صحيح البخاري، كتاب فرض الخمس، باب قوله تعالى: (وفان لله خمسه وللرسول) (3116)]
’’معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو دین اسلام کی سمجھ بھی عطا کرتا ہے اور بلا شبہ میں علم کو تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی (علم میں فہم) عطا کرتا ہے۔‘‘
اور دوسری حدیث میں فرمایا:
عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ الي الله عنهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: (النَّاسُ مَعَادِنُ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقَهُوا) [صحیح مسلم، كتاب البر والصلاة، باب الأرواح جنود مجندة، رقم: 6709]
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح کا نہیں ہیں، جو لوگ (دور) جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر میں بشرطیکہ ان میں فقاہت موجود ہو۔‘‘
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضی اللہ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: (لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا) [صحیح البخاري، كتاب العلم، باب الاغتباط في العلم والحكمة، رقم: 73]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: ’’صرف دو انسان ہیں جن پر حسد کرنا درست ہے۔ ایک وہ انسان جس کو اللہ نے مال عطا کیا اور اس کو راہ صواب میں خرچ کرنے پر مسلط کیا ہے اور ایک وہ انسان جس کو اللہ نے شریعت کا علم عطا کیا وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور تعلیم دیتا ہے۔‘‘
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رضی اللہ تعالی عنہ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ((إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلَهُ إِلَّا ثَلَاثَةٍ أَشْيَاءٍ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِه او ولدٍ صَالِحٍ يَدْعُوله)[صحیح مسلم، كتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد الميت (1631) وابوداؤد (2880)]
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تین اعمال کے سوا دیگر اعمال کا ثواب منقطع ہو جاتا ہے صدقہ جاریہ اور ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور نیک اولاد جو میت کے لیے دُعا کرتی ہے۔‘‘
(وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُوْنَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَهُ وَ غَشِيَّتُهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَ ذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ) [صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن الخ، رقم: 6853]
’’اور جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں درس و تدریس میں منہمک رہتے ہیں تو ان پر سکیت و طمانیت کا نزول ہوتا رہتا ہے اور رحمت الہی ان پر سایہ تمکن رہتی ہے اور فرشتے ان کا احاطہ کیئے رہتے ہیں اور اللہ تعالی ان کا تذکرہ اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتا ہے۔‘‘
کثیر بن قیس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں ابوالدرداء رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ان کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا: ابوالدرداء! میں تیرے پاس رسول اللہﷺ کے شہر سے ایک حدیث (سننے) کے لیے آیا ہوں میں کسی دوسرے کام سے نہیں آیا بلکہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اس حدیث کو رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ ابوالدرداء رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا تھا آپﷺ فرما رہے تھے:
(مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ الله طريقًا مِنْ طُرق الْجَنَّةِ وَ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رَضِيً لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَ إِنَّ الْعَالِمَ يَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَ إِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَ إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَم يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، وَإِنَّمَا وَرَثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ فَقَدْ أَخَدَ بِحّظٍّ وَافِرٍ) [جامع الترمذي، كتاب العلم، باب في فضل الفقه على العبادة (3182)]
’’کہ جو علم طلب کرنے کی راہ پر چلا تو اللہ تعالی اس کو جنت کی راہ پر چلائے گا اور فرشتے اپنے پروں کو طالب علم کی خوشنودی کے لیے بچھاتے ہیں اور عالم کے لیے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں اور عالم کو عابد پر فضیلت حاصل ہے جیسا کہ چودھویں رات کے چاند کو دیگر تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔ علماء انبیاء علم کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام دینار اور درہم کا ورثہ نہیں چھوڑتے بلکہ انہوں نے علم کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پس جس شخص نے اس سے (علم) حاصل کیا اس نے وافر حصہ لیا۔‘‘
ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ کے پاس دو انسانوں کا تذکرہ کیا گیا۔ ان میں ایک عابد اور دوسرا عالم تھا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
(فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلٰى أَدْنَاكُمْ)). ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهﷺ : ((إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَ أَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا، وَ حَتَّى الْحُوْتَ، لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ) [جامع الترمذي، كتاب العلم، باب في فضل الفقه على العبادة (2682)]
’’عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح تم میں سے ادنی درجہ کے انسان پر میری فضیلت ہے۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کے فرشتے آسمانوں اور زمین میں رہنے والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی (سمندر میں) بھی اس شخص کے لیے دعائیں کرتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِي رضی اللہ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: لَنْ يَّشْبِعُ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَيْرٍ يَسْمَعُهُ حَتَّى يَكُونَ مُنْتَهَاهُ الْجَنَّةَ)[جامع الترمذي، كتاب العلم، باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة، رقم: 2688.]
’’ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن علم کی باتیں سننے سے میر نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘
چند ترغیبی واقعات:
ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفے کے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: قرآن مجید کی کوئی آیت اور سورت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو کہ کہاں کہاں نازل ہوئی اور کس مسئلے کے بارے میں نازل ہوئی۔
اللہ اکبر! کتنے بڑے عالم تھے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ۔ لیکن مزید علم کی تڑپ دیکھئے۔ فرماتے ہیں: اگر مجھے پتہ چل جائے کہ کسی جگہ کوئی عالم ہے جس کے پاس کسی آیت کے متعلق وہ علم ہے جو مجھے نہیں تو اگر اس عالم تک اونٹ پہنچا سکتے ہوں تو میں وہاں جاؤں اور وہ علم لے کر آؤں۔
حضرت سلیط رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک قیمتی باغ ہبہ کیا وہ اس کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے۔ شام کے وقت جب شہر میں آتے لوگ بتلاتے کہ آج رسول اللہ ﷺ ہم نے اتنے مسئلے سمجھائے۔ آج اتنے مسئلے سمجھائے۔
حضرت سلیط رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ میں تو علم سے محروم ہو رہا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول مئی وہ باغ واپس لے لو مجھے ایسی چیز کی ضرورت نہیں جس نے مجھے آپ سے اور (دین کے علم سے) دور کر دیا ہے۔
جناب سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ جو بہت بڑے تابعی محدث اور مفسر تھے۔ ان کی والدہ محترمہ انہیں دین پڑھنے کے لیے روانہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں: بیٹا بے فکر ہو کر دین پڑھنا معاش کے فکر میں نہ پڑتا۔ میں چرخہ کات کے تیری ضرورتیں پوری کروں گی۔
آؤ! قرآن کریم اور سنت نبوی پڑھنے اور سیکھنے کے لیے اپنے بچوں میں سے ذہین اور فطین بچہ واقف کرو۔ اسے دین کا عالم با عمل بناؤ ۔ کل قیامت کے دن آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کو سب سے زیادہ نفع دینے والا وہی بچہ ہے جس نے دین پڑھا اور پڑھایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔