علم کی اہمیت و فضیلت
ارشاد ربانی ہے: ﴿ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (سورہ زمر آیت: 9)
ترجمہ: بتاؤ تو علم اور بے علم والے کیا برابر کے ہیں؟
دوسری جگہ فرمایا: ﴿يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾ (سورہ مجادلہ: آیت:11)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔
عن أبي مُعَاوِيَة رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (متفق عليه)
(صحيح البخاري، كتاب العلم باب من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين، صحيح مسلم، کتاب الزكاة، باب النهي عن المسألة.)
معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جس شخص سے بھلائی و خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔
وَعَن أَبي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطلُبُ فِيهِ عِلْمًا، مَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِن طَرْقِ الجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتِهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ العَالِم لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَات وَالأَرْضِ وَالحَيْتَانُ فِي جَوفِ الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ العَالِمِ عَلَى الْعْابِدِ كَفَضْلِ القَمَرِ لَيْلةَ الْبَدْرِ عَلٰى سَائِرِ الكَوَاكِبِ، وَإِنَّ العُلَمَاء وَرَثَة الأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، وَرَّثُوا العِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرِ (اخرجه أبو داود والترمذي) (سنن ابوداود، کتاب فضل العلم، سنن ترمذى، أبواب العلم عن رسول الله ، باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة، وصححه الألباني في صحيح سنن أبي داود رقم (3641)
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جو شخص کسی راستے میں حصول علم کی خاطر چلا ہو تو اللہ تعالی اسے جنت کی راہوں میں سے ایک راہ پر چلائے گا۔ اور بلا شبہ فرشتے طالب علم کے عمل سے راضی ہو کر اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں، اور صاحب علم کے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز بخشش طلب کرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی۔ اور بلا شبہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کہ چودہویں کے چاند کی سب ستاروں پر ہوتی ہے، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کوئی درہم و دینار ورثے میں نہیں چھوڑا ہے۔ البتہ انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے۔ جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے بڑا نصیبہ ( وافر حصہ) پا لیا۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِن ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُولَهُ . (اخرجه مسلم)
(صحيح مسلم، كتاب الوصية. ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب انسان کی وفات ہو جاتی ہے تو اس کے سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین اعمال کے: صدقہ جاریہ، یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک اولاد جوان کے لئے دعا کرے۔
تشریح:
دین میں شرعی علم کی اہمیت و عظمت بہت زیادہ ہے اللہ تعالی نے شرعی علم سیکھنے کے لئے ابھارا اور اس کی ترغیب دی ہے اور اہل علم کو دوسروں پر فوقیت بخشی ہے اور حصول علم کو قربت الہی اور دخول جنت کا سبب بتایا ہے ۔ کیونکہ علم سیکھنے اور سکھلانے سے اللہ تعالی کی معرفت اس کے اوامر و نواہی اور دین پر قائم ہونے کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ پس علماء اسی بنا پر انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء نے لوگوں کو علم شرعی کا وارث بنایا پس جنہوں نے علوم شرعیہ سیکھا وہی انبیاء کے وارث ہوئے اور جب اللہ تعالی کسی بندے سے بھلائی چاہتا ہے تو اس کے لئے دین کے امور کو سیکھنا آسان کر دیتا ہے۔
فوائد:
٭ علم اور علماء کی اہمیت، کیونکہ یہی لوگ انبیاء کے وارثین میں سے ہیں۔
٭ دین میں فقاہت کا پایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے لئے بھلائی
چاہتا ہے۔
٭ حصول علم دخول جنت کے اسباب میں سے ہے۔
٭ انسان کی بہترین وراثت نفع بخش علم ہے کیونکہ اس کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔