ایمان کی علامات
❄ صبر و شکر ❄ اللہ پر توکل❄ شرم و حیاء❄ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم 
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ [الانفال: 2]
ذی وقار سامعین!
ایمان ایک قیمتی چیز ہے اور اتنی قیمتی چیز ہے کہ ایمان ہے تو سب کچھ ہے ، اگر ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں ، ایمان میں ایسی قوت اور طاقت ہے کہ اگر انسان ایمان لے آیا ہے اور اس کو کوئی بھی نیک عمل کرنے کا موقع نہیں ملا تو وہ جنتی ہے ، سیدنا انس بن مالک  کہتے ہیں:
كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ
ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔ آپ ﷺ  اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسم ﷺ جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آنحضرت ﷺ باہر نکلے تو آپ نے فرمایا:  ”شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔ “ ] صحیح بخاری: 1356[
اسی طرح سیدنا براءبن عازب  کہتے ہیں:
أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالحَدِيدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ؟ قَالَ: «أَسْلِمْ، ثُمَّ قَاتِلْ»، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَاتَلَ، فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَمِلَ قَلِيلًا وَأُجِرَ كَثِيرًا»
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب زرہ پہنے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! میں پہلے جنگ میں شریک ہوجاؤں یا پہلے اسلام لاؤں ۔ آپ ﷺ  نے فرمایا: ”پہلے اسلام لاؤ پھر جنگ میں شریک ہونا۔“ چنانچہ وہ پہلے اسلام لائے اور اس کے بعد جنگ میں شہید ہوئے ۔ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: ”عمل کم کیا لیکن اجر بہت پایا۔“ ]صحیح بخاری: 2808[
ان دونوں روایا ت سے ایمان کی قیمت کا پتہ چلتا ہے ، اگر ایمان نہیں تو بڑے بڑے نیکی کے کام بھی اکارت جائیں گے اور تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ سیدہ عائشہ کہتی ہیں:
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ  ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ:” لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ "
میں نے پوچھا:اے اللہ کےرسولﷺ!ابن جدعان جاہلیت کےدور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپﷺ نے فرمایا:’’اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے، (کیونکہ) اس نے کسی ایک دن (بھی) یہ نہیں کہا تھا: میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا ۔‘‘  ] صحیح مسلم: 518[
ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل بھی قابلِ قبول نہیں ، اس لئے ہمیں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کیا ہم مومن ہیں؟ کیا ہم میں ایمان کی علامات موجود ہیں؟ ایمان کی علامات سے مراد وہ نشانیاں یا آثار ہیں جو کسی شخص کی زندگی میں ایمان کے پختہ ہونے کی علامت ہوتی ہیں۔ یہ علامات انسان کے عقیدہ، عمل اور اخلاق میں ظاہر ہوتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور اس کے دین پر یقین رکھتا ہے۔ ایمان کی علامات نہ صرف انسان کے دل میں موجود یقین کی نشاندہی کرتی ہیں، بلکہ اس کے عمل، رویے اور طرزِ زندگی سے بھی ظاہر ہوتی ہیں۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم ایمان کی چند علامات سمجھیں گے۔
1۔ اللہ تعالیٰ سے محبت:
ایمان کی سب سے پہلی علامت یہ ہے سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے کی جائے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ 
”اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اللہ سے محبت میں کہیں زیادہ ہیں۔“ [البقرہ: 165]
سیدنا انس بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:
ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لاَ يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ، بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ، مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ
”جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔“ [صحیح بخاری: 21]
سیدنا انس بیان کرتے ہیں:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ قَالَ وَمَا أَعْدَدْتَ لِلسَّاعَةِ قَالَ حُبَّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ أَنَسٌ فَمَا فَرِحْنَا بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحًا أَشَدَّ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ أَنَسٌ فَأَنَا أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ
”ایک شخص رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! قیامت کب ہو گی؟ آپ نے فرمایا: "تم نے اس کے لیے کیا تیار کیا ہے؟” اس نے کہا: اللہ اور اس کے رسولﷺکی محبت۔ آپﷺنے فرمایا: "تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم کو محبت ہو گی۔” حضرت انس نے کہا: اسلام قبول کرنے کے بعد ہمیں نبیﷺکے اس ارشاد سے بڑھ کر اور کسی بات سے اتنی خوشی نہیں ہوئی: "تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے تم کو محبت ہو گی۔” حضرت انس نے کہا: میں اللہ اور اس کے رسولﷺاور ابوبکر اور عمر  سے محبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں ان کے ساتھ ہوں گا، اگر چہ میں نے ان کی طرح عمل نہیں کیے۔ “  [صحیح مسلم: 6713]
2۔  رسول اللہﷺسے محبت:
ایمان کی دوسری علامت یہ ہے کہ ایک مومن اور مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محبت محمد رسول اللہﷺسے ہو ، اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ 
”کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“[التوبہ: 24]
 سیدنا انس سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا:
لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ 
”تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔“ [بخاری: 15]
     نبی کریمﷺسیدنا عمر کا ہاتھ پکڑے چل رہے تھے تو سیدنا عمر فاروق نے کہا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي
"یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری اپنی جان کے۔”
تو نبی ﷺ نے فرمایا:
 لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآنَ يَا عُمَرُ 
”نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔“ عمر  نے عرض کیا: ”پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔“ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔“ [صحیح بخاری: 6632]
جب کفارِ مکہ نے سیدنا خبیب بن عدی کو سولی پر چڑھایا اور تیر برسانے لگے تو کسی نے آواز لگائی: ”خبیب! اب تو دل کرتا ہو گا کہ کاش میری جگہ محمد (ﷺ) ہوتا!“ خبیب نے جواب دیا : ”عظمتوں والے رب کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ مجھے چبھنے والا کوئی کانٹا انہیں چبھ جائے۔“ [المعجم الكبير للطبراني : ٥٢٨٤، والقصة رواها البخاري]
3۔ صحابہ کرام  سے محبت:
ایمان کی تیسری علامت یہ ہے کہ صحابہ کرام سے سچی محبت و عقیدت ہو ، نبیﷺنے فرمایا:
آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ
”انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔“[صحیح بخاری: 17] 
اس لئے جو شخص صحابہ کرام کو نعوذ باللہ مرتد کہتا ہے ، یا اسے ان کےایمان میں  شک ہے تو بذتِ خودوہ شخص مومن نہیں ہے ، کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ پر ان کے ایمان کو بیان کیا ہے اور ان کے ایمان کو معیار اور کسوٹی بنایا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
”پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں (پڑے ہوئے) ہیں، پس عنقریب اللہ تجھے ان سے کافی ہوجائے گا اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“[البقرہ: 137]
دوسری جگہ فرمایا:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
”اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔“[البقرہ: 13]
اور نبی اکرمﷺنے فرمایا:
خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں ۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے(تبع تابعین)“ ] صحیحبخاری: 2651[
4۔ نماز کی ادائیگی:
ایمان کی چوتھی علامت عبادت گزار ہونا ہے ، عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز کی ادائیگی ہے، اللہ تعالیٰ نے  اپنے پاک کلام میں کامیاب مومنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ  
”یقیناً کامیاب ہوگئے مومن۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔“ [المؤمنون: 2-1]
سیدنا جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ 
 ’’ آدمی اور شرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز چھوڑنا ہے۔‘‘ [صحیح مسلم: 247]
5۔ حقوق العباد کی ادائیگی:
ایمان کی پانچویں علامت یہ ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی کی جائے ، نبی مکرمﷺفرماتے ہیں:
المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ 
”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان بچے رہیں۔“ ] صحیحبخاری: 10[
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حقوق العباد کتنے ضروری اور اہم ہیں ، ”حقوق العباد“ سے مراد وہ حقوق ہیں جو انسانوں پر ایک دوسرے کے لئے واجب ہیں، یعنی وہ حقوق جو کسی شخص کی حیثیت میں دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کی بنا پر ان پر فرض ہیں۔ ان میں وہ تمام اخلاقی، قانونی اور معاشرتی حقوق شامل ہیں جو انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ انصاف، عزت اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔
جو شخص ان حقوق کا خیال نہیں رکھتا وہ حقیقی اور کامل مومن نہیں ہے اور ایسے شخص کی نجات کل قیامت والےدن ممکن نہیں۔ سیدنا ابوہریرہ   کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّار
”کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟“ صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی سازوسامان۔ آپ نے فرمایا: 
”میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہو گا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ ]صحیح مسلم: 6579[
جہنم میں جانے کا ایک سبب حقوق العباد کا خیال نہ رکھنا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِلاَّ أَصْحَابَ الْيَمِينِ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِينَ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ
” مگر داہنے والے۔ باغوں میں ہوں گے، پوچھیں گے۔ گناہگاروں سے۔ کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔“] المدثر 39 تا  44[
حضرت ابوہریرہ  نے فرمایا:نبی اکرم ﷺ  سے عرض کی گئی:’’اے اللہ کے رسول! فلاں خاتون رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور نیکی کے دیگر کام کرتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر)فرمایا:
لَا خَيْرَ فِيهَا، هِيَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ
’’اس میں کوئی خیر نہیں، وہ دوزخی ہے۔‘‘
انہوں (صحابہ)نے کہا:اور فلاں عورت (صرف)فرض نماز ادا کرتی ہے اور پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے لیکن کسی کو ایذا نہیں پہنچاتی؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ’’یہ جنتی عورتوں میں سے ہے۔‘‘    ] الادب المفرد: 119 صححہ الالبانی[
6۔ شرم و حیاء:
ایمان کی چھٹی علامت شرم و حیاء ہے ، سیدنا ابوہریرہ   کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ
”ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیا ( شرم ) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“]صحیحبخاری: 9[
سیدنا ابوہریرہ   کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
الْحَيَاءُ مِنْ الْإِيمَانِ وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَالْبَذَاءُ مِنْ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ
”حیا ایمان کا ایک جزء ہے اورایمان والے جنت میں جائیں گے اوربے حیائی کا تعلق ظلم سے ہے اورظالم جہنم میں جائیں گے۔“ [ترمذی: 2009 صححہ الالبانی]
یہ شرم و حیا ایک فطری چیز ہے جو ہر مرد و عورت کے لیے ضروری ہے قرآن مجید میں بھی شرم کا تذکر و متعدد جگہ آیا ہے اور اس کی مدح سرائی کی گئی ہے حضرت موسی   کو مدین کے سفر میں دو لڑکیوں سے سابقہ پڑا تھا وہ اگرچہ بدویا نہ زندگی بسر کرنے کی عادی تھیں تاہم ان میں یہ وصف نمایاں تھا کہ خدا نے اس کا ذکر کیا ہے کہ ان کی عادت یہ تھی کہ جب تک تمام لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو پانی پلا کر پلٹ نہ جاتے وہ اپنے مویشیوں کو پانی نہیں پلاتی تھیں۔ تاکہ مردوں کی کشمکش اور اس کے اختلاط سے الگ رہیں اور جب ان کے باپ نے ان میں سے ایک کو موسی   کے بلانے کے لیے بھیجا۔
 فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآءٍ ؗ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ
”تو ان لڑکیوں میں سے ایک شرماتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہا کہ میرے ابا جان آپ کو بلاتے ہیں۔‘‘ [القصص: 25]
7۔ صبر و شکر:
ایمان کی ساتویں علامت صبر و شکر ہے ، سیدنا صہیب کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ
”مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے۔اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ،یہ(ابھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔“ [صحیح مسلم: 7500]
پتہ چلا کہ حقیقی مومن اور مسلمان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ تکلیف پر صبر کرتا ہے اور خوشی میں شکر بجا لاتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے کامیاب لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَالۡعَصۡرِ   اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِىۡ خُسۡرٍ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ
”زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقیناً گھاٹے میں ہے۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔“ [العصر: 3-1]
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّٰه لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور مقابلے میں جمے رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ [آل عمران: 200]
8۔ اللہ کا ذکر سن کر دل کا ڈر جانا:
ایمان کی آٹھویں علامت ذکرِ الٰہی سن کر دل کا ڈرنا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
”(اصل) مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انھیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔“ [الانفال: 2]
یعنی جب مومن اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دلوں میں خشیت اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ یہ خوف محبت، احترام اور اللہ کی عظمت کا احساس ہے، جو ایمان کا ایک اہم حصہ ہے۔
9۔ اللہ پر توکل:
ایمان کی نویں علامت اللہ پر توکل اور بھروسہ کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
”(اصل) مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انھیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔“ [الانفال: 2]
اللہ پر توکل اور بھروسہ کیسا ہونا چاہئے؟ صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
ہجرت کرتے وقت جب مکہ سے نکل کر آپﷺ نے حضرت ابوبکر  کے ساتھ غارثور میں پناہ لی۔ قریش میں خون آشامی کے ساتھ اب اپنی ناکامی کا غصہ بھی تھا۔ اور اس لئے اس وقت ان کے انتقام کے جذبات میں غیر معمولی تلاطم ہو گیا۔ وہ آپ کے تعاقب میں نشان قدم کو دیکھتے ہوئے ٹھیک اس غار کے پاس پہنچ گئے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس پر خطر حالت میں کسی کے حواس بحال رہ سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر  نے گھبرا کر عرض کی:
لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ تَحْتَ قَدَمَيْهِ لَأَبْصَرَنَا
یارسول اللهﷺ دشمن اس قدر قریب ہیں کہ اگر ذرا نیچے جھک کر اپنے پاؤں کی طرف دیکھیں گے تو ہم پر نظر پڑ جائے گی۔ 
لیکن آپﷺ نے روحانیت کی پر سکون آواز میں فرمایا:
مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا
’’ان دو کو کیا غم ہے جس کے ساتھ تیسرا خدا ہو۔‘‘ 
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا
”غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔“ [التوبہ: 40]
سینہ نبوت کے سوا اس روحانی سکون کا جلوہ اور کہاں نظر آسکتا ہے۔ قریش کے اس اعلان کے بعد جو محمدﷺ کو زندہ یا ان کا سرکاٹ کر لائے گا اُس کو سو اونٹ ملیں گے۔ سراقہ بن جعشم نے آپ ﷺ کا تعاقب کیا اور اس قدر قریب پہنچ گیا کہ وہ آپﷺ کو پا سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر  بار بار گھبرا کر ادھر دیکھ رہے تھے۔ لیکن ایک دفعہ بھی آپ ﷺ نے مڑ کر نہیں دیکھا کہ سراقہ کس ارادہ سے آ رہا ہے۔ یہاں دل پر وہی سکینیت ربانی طاری تھی اور لب ہائے مبارک تلاوت قرآن مصروف تھے۔ [صحیح بخاری: 3906]
10۔ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا:
ایمان کی دسویں علامت تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے ، سیدنا ابوہریرہ   کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ – أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ – شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ
”ایمان کے ستر سے اوپر (یا ساٹھ سے اوپر) شعبے (اجزاء) ہیں ۔ سب سے افضل جز لاالہ الا اللہ کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیابھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے ۔ “ [صحیح مسلم: 153]
اوریہ ایسی نیکی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جنت کا داخلہ دے دیتے ہیں، سیدنا ابوہریرہ   کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخَّرَهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ
”ایک شخص کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے کانٹوں کی بھری ہوئی ایک ٹہنی دیکھی، پس اسے راستے سے دور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ( صرف اسی بات پر ) راضی ہو گیا اور اس کی بخشش کر دی۔“ [صحیح بخاری: 652]