ایمان و استقامت کا بیان
الحمد لله ذي السلطان العظيم، والمن الجسيم، والعطاء العميم، أحمده سبحانه وأشكره، وأساله المزيد من بره وإحسانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، العالي بذاته وقدره وسلطانه، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الداعي إلى رضوانه، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه وإخوانه۔
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو بے پناہ قدرت والا عظیم احسان والا اور بے شمار بخششوں والا ہے، میں اس ذات پاک کا شکر گذار اور اس سے مزید بخشش و عنایات کا طلبگار ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو اپنی ذات، مرتبہ اور سلطنت میں سب سے بالاتر ہے ساتھ ہی اس بات کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد – صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور سول ہیں جو اس کی رضا و خوشنودی کی طرف بلانے والے ہیں۔ الہی! تو اپنے بندے اور سول محمد پر اور ان کے آل و اصحاب اور اخوان پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سے ڈرو کہ اس نے ہر حال میں اور ہر جگہ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
فرمایا: ﴿وَإِيَّايَ فَارْهَبُونَ﴾ (البقره: 40) اور مجھ ہی سے ڈرو۔
تقویٰ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی اس عظیم ترین نعمت پر اس کا شکر ادا کرو کہ دنیا کی کوئی بھی نعمت اس کے برابر نہیں ہو سکتی اور وہ اسلام کی نعمت ہے اور میں ملت ابراہیمی اور شریعت سمحہ ہے فرمایا:
﴿مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ؕ مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَ ؕ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ ۙ۬ مِنْ قَبْلُ﴾ (الج: 78)
اللہ نے تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں کی اور تمہارے لئے تمہارے باپ ابراہیم کا دین پسند کیا اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا تھا (اور اس کتاب میں بھی)
لہٰذا اس عظیم نعمت ’’اسلام‘‘ کی قدر کرو اسے مضبوطی سے اپناؤ اور اس کے حقوق واجبات پورے کرو اور اس کی صورت یہ ہے کہ رب تعالی کے احکام و اوامر کی اتباع کرو منہیات سے بچو اور اسلامی اوصاف سے متصف ہو کر اسلام کا عملی نمونہ پیش کرو۔
مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر معنی میں اللہ تعالی کا اطاعت گزار رہے اور فرمانبرداری کے تمام تقاضے پورے کرے، پس وہ اللہ ہی کی وحدانیت کے گیت گائے۔ عبادت اس کی کرے اس کے احکام بجالائے اور اس کے عقاب سے ڈرتے ہوئے منہیات سے بچے۔ قضا و قدر کے معاملہ میں اس کے آگے سرتسلیم خم کر دے اور یہ عقیدہ رکھے کہ یہ سب اللہ کی جانب سے ہے، حصول نعمت پر منعم حقیقی کا شکر ادا کرے اور صبر آزما حالات میں صبر ورضا کا پیکر بن جائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ نے جو چاہا ہوا اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا ارشاد باری ہے:
﴿ مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۱۱﴾ (التغابن:11)
’’کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر اللہ کے حکم سے اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے تو وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز سے با خبر ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اختلاف و نزاع میں فیصلہ کے لئے اسی کی جانب رجوع کیا جائے اور اپنے ہر چھوٹے بڑے مسائل خاص وعام حالات اجتماعی و اقتصادی معاملات، حقوق عامہ اور شخصی و نجی احوال میں اس کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کو فیصل اور حکم مانا جائے چنانچہ فرمایا:
﴿ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا6۵﴾ (النساء:25)
’’تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘
مسلمانو! غور کرو ایسی صورت میں وہ شخص جو عبادت کے اقسام یعنی دعا، نذر، ذبح، رجاء، تو کل اور خوف و رغبت میں سے کوئی عبادت بھی کسی غیر اللہ کے لئے کرتا ہے کیا وہ مومن ہو سکتا ہے؟ جبکہ فرمان الہی ہے:
﴿ وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًاۙ۱۸ ﴾(الجن: 18)
’’مسجدیں خاص اللہ کی ہیں لہٰذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘
نیز اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا:
﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۱6۲﴾ (الانعام:162، 16)
’’کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میر امر ناسب اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اس بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمانبردار ہوں۔‘‘
کیا وہ شخص مسلمان ہو سکتا ہے جو اللہ کی فرض کردہ عبادات یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج وغیرہ کو مقررہ اوقات کی پابندی کے ساتھ کامل طور پر نہ بجالاتا ہو؟
کیا اس بندے کا ایمان مکمل ہو سکتا ہے جو محرمات و منہیات مثلا شرک باللہ، قتل، زنا، چوری اور سودی کاروبار کا مرتکب ہو؟
کیا وہ کامل الایمان ہو سکتا ہے جو شراب خانوں اور فسق و فجور کے اڈوں کا چکر لگاتا پھرتا ہو؟ کیا وہ شخص مومن ہو سکتا ہے جو خود ساختہ قوانین سے فیصلہ لینے پر راضی ہو اور اس فیصلہ کو اللہ و رسول کے فیصلہ پر مقدم رکھتا ہو؟ ارشاد باری ہے:
﴿ اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠۵۰﴾ (المائده: 50)
’’کیا یہ زمانہ جاہلیت کے فیصلہ کے خواہش مند ہیں اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لئے اللہ سے اچھا فیصلہ کس کا ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس کے احکام و فرامین بجا لاؤ اور اپنے ایمان کا عملی ثبوت دو ایمان صرف نام رکھ لینے یا آرزو کر لینے کا نام نہیں بلکہ ایمان وہ ہے جو دل کے اندر جاگزیں ہو جائے اور اعمال اس کی تصدیق کر دیں۔
گذشتہ کوتاہیوں پر نادم ہو کر اللہ کے دربار میں صدق دل سے توبہ کرو تاکہ اللہ در گذر فرما کر جنت میں داخل کر دے اور اسی ایمان خالص پر تاحیات ثابت قدم رہو منکرات و معاصی سے خود کو محفوظ رکھو اور مالک حقیقی کو چھوڑ کر کسی اور در کارخ نہ کرو کیونکہ اس کے سوا کوئی شخص خود اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں، فرمان الہی ہے:
﴿ وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَیْـًٔا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ وَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَیٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا۳﴾ (سوره الفرقان: 3)
’’لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرتا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا۔‘‘
لہٰذا خالص اللہ کے لئے عمل کرو اور کسی کو اس کا شریک و ساجھی نہ بناؤ اور اسی طرح ایمان پر ثابت قدم رہ کر اس کا عملی نمونہ پیش کرو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۳۰ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ ۚ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ۳۱ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۠۳۲﴾ (فصلت: 30 تا 32)
’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا خوشی مناؤ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی تمہارے رفیق ہیں اور وہاں جس نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گی اور جو چیز بھی طلب کرو گے تمہارے لئے موجود ہو گی یہ بخشنے والے مہر بان کی طرف سے مہربانی ہے۔‘‘
بارك الله لنا ولكم في القرآن الكريم، ونفعني وإياكم بما فيه من الآيات والذكر الحكيم، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔