انفاق فی سبیل اللہ
اہم عناصر خطبہ :
1۔ قرآن وسنت میں انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت
2۔انفاق فی سبیل اللہ کے فضائل اور فوائد
3۔ انفاق فی سبیل اللہ کے بعض عمدہ نمونے
4۔انفاق فی سبیل اللہ کے بعض آداب
5۔ انفاق فی سبیل اللہ کی بعض صورتیں
6۔ صدقات کے اجروثواب کو ضائع کرنے والے بعض امور
7۔ زکاۃ کی فرضیت اور اس کے بعض مسائل
پہلا خطبہ
برادرانِ اسلام !اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنے بندوں کو مال عطا کرتا ہے ، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ، پھر انھیں مال خرچ کرنے کا حکم دیتاہے ، انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دلاتا ہے اور بخل اور کنجوسی سے منع کرتاہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ‎﴾
’’ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن (کے مال) کی مثال اُس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اُگیں اورہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس(کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ اور وہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اگر آپ اللہ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کریں گے تو وہ ایسے ہے جیسے آپ نے سات سو روپے خرچ کئے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا ثواب سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ عطا کرے گا ۔اگر ایک مالدار آدمی کسی شخص کو کہے کہ آج تم فلاں آدمی کو ایک سو روپے دے دو ، میں کل تمھیں اس کے بدلے میں سات سو روپے دو نگا۔ تو کیا وہ شخص اسے سو روپے دینے سے ہچکچائے گا ، یا حیل وحجت پیش کرے گا ؟ نہیں ، ہر گز نہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کل مجھے اس کے بدلے میں ایک سو نہیں بلکہ سات سو روپے مل جائیں گے ۔ توآپ کا کیا خیال ہے اس ذات با برکات کے بارے میں جس کے پاس تمام خزانوں کی چابیاں ہیں اور وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور بڑے کرم والا ہے ، وہ اپنے وعدے میں سچا ہے اور وہ یہ فرماتا ہے کہ تم میر ی راہ میں خرچ کرو میں تمھیں سات سو گنا زیادہ اجر وثواب دونگا تو کیا وہ اس پر قادر نہیں ؟ اور کیا ہمیں اس کے حکم کے مطابق اس کی راہ میں خرچ نہیں کر نا چاہئے ! جبکہ اس کا ارشاد ہے :
﴿وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا﴾‏

’’اور جو کارِ خیر بھی آپ اپنے لئے آگے بھیجیں گے اسے اللہ کے ہاں اس حال میں پائیں گے کہ وہ ( اصل عمل ) سے بہتر اور اجر کے لحاظ سے بہت بڑا ہو گا ۔ ‘‘

ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالی کے لیے دن رات خرچ کرنے والے لوگوں کو یوں بشارت دی ہے :
﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‎﴾‏
’’ جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے رہتے ہیں ، دن رات ، خفیہ طور پر اور ظاہری طور پر ، اُن کا صلہ اللہ کے پاس ہے۔ اور اُن کو (قیامت کے دن)نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ غم ۔‘‘بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر واضح طور پر فرمایا ہے کہ کوئی شخص اُس وقت تک نیکی نہیں پا سکتا جب تک وہ اپنا محبوب مال خرچ نہ کرے ۔ ارشاد باری ہے :
﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ‎﴾
’’تم اس وقت تک نیکی ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اس چیز میں سے خرچ نہ کروجو تمھیں محبوب ہو اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے ۔ ‘‘

جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے انفاق فی سبیل اللہ کی کیا عمدہ مثالیں قائم کیں اس کا اندازہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے قصہ سے کیا جا سکتا ہے ۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار تھے اور انھیں اپنے اموال میں سے سب سے زیادہ محبوب مال ایک باغ تھا جو مسجد کے سامنے واقع تھا اور اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جایا کرتے تھے اور اس سے نکلنے والا عمدہ پانی نوش کیا کرتے تھے ۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ توابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے:﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ اور میرا سب سے محبوب مال یہ باغ ہے ، سو میں نے یہ اللہ کیلئے صدقہ کر دیا ہے اور اس پر میں اللہ تعالیٰ سے ہی اجر وثواب کا طلبگار ہوں اور اسے اس کے پاس ذخیرہ کرنا چاہتا ہوں ، لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کریں۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَخٍ،ذٰلِكَ مَالٌ رَابِحٌ،ذٰلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ))
’’ بہت خوب ، یہ نفع بخش مال ہے ، یہ نفع بخش مال ہے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمھاری بات سن لی ہے ، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو ، چنانچہ انھوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں میں بانٹ دیا۔
اور ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے سخت تنبیہ کی ہے کہ اگر تم بخل کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے تو ہم تمھیں ختم کرکے دوسرے لوگ لے آئیں گے جو تمھاری طرح بخیل نہیں بلکہ خرچ کرنے والے ہونگے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ ۖ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم ‎﴾
’’ دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلائے جاتے ہو ، تو تم میں ایسے شخص بھی ہیں جو بخل کرنے لگتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے وہ اپنے آپ سے ہی بخل کرتا ہے ۔ اور اللہ توبے نیاز ہے تم ہی اس کے محتاج ہو ۔ اور اگر تم منہ پھیرو گے تووہ تمھاری جگہ دوسرے لوگ لے آئے گا ، پھروہ تم جیسے نہ ہوں گے ۔ ‘‘

اور سورۃ سبا میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ تم لوگ جو کچھ بھی خرچ کرو ، زیادہ یا کم ، اللہ تعالیٰ جو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے وہ اس کی جگہ تمھیں اور مال عطا کردیتا ہے ۔
ارشاد باری ہے:﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ‎﴾‏
’’ اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ تمھیں اور دے دیتا ہے۔اور وہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔‘‘

لہٰذا کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ میں خرچ کرونگا تو میرا مال کم پڑ جائے گا ، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر مکمل یقین رکھتے ہوئے خرچ کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی جگہ اور عطا کردے گا۔ان تمام آیات کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور اس کا اجر وثواب ذکر کرکے اس کے بعض فوائد کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے ۔اسی بناء پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی مال بہت زیادہ خرچ کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے اور بخل کی مذمت کرتے تھے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا وَمَلَکَانِ یَنْزِلَانِ یَقُوْلُ أَحَدُہُمَا:اَللّٰہُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا،وَیَقُوْلُ الْآخَرُ:اَللّٰہُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا))
’’ ہر دن صبح کو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک دعا کرتے ہوئے کہتا ہے: اے اللہ!خرچ کرنے والے کو اور مال عطا کر اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ نہ کرنے والے کا مال تباہ کردے ۔ ‘‘
اورحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا حَسَدَ إِلَّا فِی اثْنَتَیْنِ: رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ یَقُوْمُ بِہِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَآنَاءَ النَّہَارِ،وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَہُوَ یُنْفِقُہُ آنَاءَ اللَّیْلِ وَآنَاءَ النَّہَارِ))
’’ دو آدمیوں کا عمل قابل ِ رشک ہے ، ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ قرآن دے اور وہ اسے دن رات پڑھتا رہے ۔ اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اسے دن رات خرچ کرتا رہے ۔ ‘‘

اس حدیث سے ثابت ہواکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا قابلِ رشک عمل ہے۔اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ:یَا ابْنَ آدَمَ ! أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْكَ))
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے آدم کے بیٹے ! تم خرچ کرتے رہو ، میں تم پر خرچ کر تا رہونگا ۔ ‘‘
انفاق فی سبیل اللہ ایک نفع بخش تجارت ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ ‎﴿٢٩﴾‏ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ‎﴿٣٠﴾
’’بے شک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کو پڑھتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس سے وہ خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ ہو گا ۔ تاکہ اللہ انھیں ان کا پورا پورا اجر دے اور اپنے فضل وکرم سے مزید عطا کرے ، یقینا وہ معاف کرنے والا اور بڑا قدر دان ہے ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایک ایسی تجارت ہے جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوتا ، منافع ہی منافع حاصل ہوتے ہیں ، یعنی موجودہ مال میں برکت آتی ہے اور مزید رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ ‎﴾
’’ اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دو تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمھیں معاف کردے گا ، اللہ تعالیٰ بڑا قدر دان اور نہایت بردبار ہے ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کو قرض حسنہ قرار دیا ہے حالانکہ مال کا اصل مالک بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے ، وہ جس کو چاہے کم دے اور جس کو چاہے زیادہ عطا کرے ۔ اور اصل مالک کو مال لوٹا دینا قرض نہیں کہلاتالیکن یہ در حقیقت اُس مالک کا کرم ہے کہ وہ اسے قرض حسنہ قرار دیتا ہے اور اسے کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ‎﴾
’’ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نا شکرے اور بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ صدقات کی پرورش کیسے کرتا ہے اس کی وضاحت ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ملتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ تَصَدَّقَ بِعِدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ ، وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ ، فَإِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُہَا بِیَمِیْنِہِ ثُمَّ یُرَبِّیْہَا لِصَاحِبِہَا کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ))
’’ جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے ، اور اللہ تعالیٰ حلال کمائی کو ہی قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے ، پھر صدقہ کرنے والے کیلئے اس کی پرورش ایسے کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ ) ایک پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے ۔ ‘‘

اللہ اکبر ، کتنا کریم ہے ہمار ا خالق ومالک ،کھجور کے برابر صدقے کو اتنا بڑھاتا اور اس کی اتنی پرورش کرتا ہے کہ وہ ایک پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے ! سبحان اﷲ وبحمدہ ان تمام آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ سے مال بڑھتا ہے اور بے انتہا منافع حاصل ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے انسان کو اس بات کا اندیشہ قطعا نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے مال میں کمی واقع ہو جائے گی یا بنک بیلنس کم ہو جائے گا ، بلکہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر یقین کامل ہونا چاہئے کہ (( مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَّالٍ))
’’ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا ۔‘‘ بلکہ اس میں اضافہ کرتا ہے ۔اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا تھا :
(( أَنْفِقْ بِلَالُ،وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِی الْعَرْشِ إِقْلَالًا ))
’’ بلال ! تم خرچ کرو اور عرش والے کی طرف سے کمی کا خوف نہ کرو ۔ ‘‘
صدقہ قیامت کے روز انسان پر سایہ کرے گا
قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ تمام بنو آدم کو اکٹھا کرے گا تو یہ سورج جو اب کروڑوں میل کی مسافت پر ہے اُس دن انسانوں سے صرف ایک میل کے فاصلے پر ہو گا ، تب لوگوں کو ان کے اعمال کے بقدر پسینہ آئے گا ، کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں تک ہو گا ، کسی کا پسینہ اس کے گھٹنوں تک ہو گا ، کسی کا پسینہ اس کی کوکھ تک ہو گا اور کسی کا پسینہ اس کے منہ تک پہنچ رہا ہو گا ۔اُس دن صدقہ کرنے والا انسان اپنے صدقے کے سائے تلے ہو گا جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( کُلُّ امْرِیئٍ فِیْ ظِلِّ صَدَقَتِہِ حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ ))
’’ ہر شخص اپنے صدقے کے سائے تلے ہو گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے ۔ ‘‘اور جو انسان انتہائی خفیہ انداز سے صدقہ کرے وہ عرش الٰہی کے سائے تلے ہو گا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( سَبْعَةٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہِ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ ))
’’ سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سائے تلے جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۔ ‘‘
اور اگر ہم بھی روزِ قیامت کی گرمی اور اس دن کے پسینے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں کثرت سے صدقہ کرنا ہو گا ۔ خاص طور پر خفیہ صدقہ کہ جس کا کسی کو پتہ نہ چلے ، کیونکہ اس کی جزاء عرش الٰہی کا سایہ ہے ۔
فرشتے آبیاری کرتے ہیں جی ہاں ! صدقہ کرنے والے شخص کا مال با برکت ہوتا ہے اور اس کے باغات کی آبیاری فرشتے کرتے ہیں ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ ایک آدمی ایک صحراء سے گذر رہاتھا کہ اس نے ایک بادل میں سے یہ آواز سنی (اِسْقِ حَدِیْقَةَ فُلاَنٍ) ’’فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ ۔‘‘ چنانچہ وہ بادل ایک طرف چلا گیا اور ایک کالے پتھروں والی زمین پر پانی برسا دیا ، پھر وہاں موجود نالیوں میں سے ایک نالی نے وہ سارا پانی اپنے اندر لے لیا ، یہ آدمی پانی کے پیچھے پیچھے چل دیا، اس نے اچانک دیکھا کہ ایک شخص اپنے باغ میں کھڑا ہے اور وہ اپنے بیلچے کے ساتھ اِس پانی کا رخ اُس باغ کی طرف موڑ رہا ہے۔ اس نے کہا:اے اللہ کے بندے !آپ کا نام کیا ہے ؟تو اس نے اپنا وہی نام بتایا جسے یہ آدمی بادل میں سے سن چکا تھا ۔ پھر اُس نے پوچھا : اے اللہ کے بندے ! آپ نے میرا نام کیوں وچھا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے بادل میں سے ایک آواز سنی تھی جس سے یہ پانی نکل کر یہاں پہنچا ہے ، وہ آواز کہہ رہی تھی : فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ اور اس نے آپ ہی کا نام لیا تھا۔ تو کیا آپ بتائیں گے کہ آپ اس باغ میں کیا کرتے ہیں ؟ اس نے کہا:
(أَمَّا إِذَا قُلْتَ ہَذَا فَإِنِّیْ أَنْظُرُ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِہِ وَآکُلُ أَنَا وَعِیَالِیْ ثُلُثًا،وَأَرُدُّ فِیْہَا ثُلُثَہُ )
’’ جب آپ نے مجھے یہ بات بتائی ہے تو میں بھی آپ کو بتا دیتا ہوں !اصل بات یہ ہے کہ میں اس باغ سے نکلنے والا پھل تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں ، ایک حصہ صدقہ کردیتا ہوں ، دوسرا حصہ میں اور میرے بچے کھاتے ہیں اور تیسرا حصہ میں اسی میں واپس لوٹا دیتا ہوں ۔ ‘‘
انفاق فی سبیل اللہ سے خیر کے دروازے کھل جاتے اور تمام امور آسان ہو جاتے ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ ‎﴿٥﴾‏ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ ‎﴿٦﴾‏ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ ‎﴿٧﴾‏ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ ‎﴿٨﴾‏ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ ‎﴿٩﴾‏ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ ‎﴿١٠﴾‏ وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّىٰ ‎﴿١١﴾
’’ لہٰذا جس نے ( اللہ کی راہ میں ) دیا اور ڈرتا رہا اور بھلی باتوں کی تصدیق کی تو ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیں گے ۔ اور جس نے بخل کیا اور بے پروائی کرتا رہا اور بھلی باتوں کو جھٹلایا تو ہم اسے تنگی کی راہ پرچلنے کی سہولت دیں گے ۔ اور جب وہ جہنم میں گرے گا تو اس کا مال اس کے کسی کام نہ آئے گا ۔ ‘‘

ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ‘خرچ کرنے والے کے سامنے خیر کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اس کے تمام امور ‘ خواہ دنیوی ہوں یااخروی آسان ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بر عکس اگر انسان بخل کرے اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرے تو اس کے سامنے خیر کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور تمام امور مشکل ہو جاتے ہیں۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تزکیۂ نفس ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ‎﴿١٠٣﴾
’’ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے ، اس طرح آپ انھیں پاک کردیں گے اور صدقہ کے ذریعے ان کا تزکیہ کریں گے ۔ اور آپ ان کیلئے دعا کیجئے ، بلا شبہ آپ کی دعا ان کیلئے باعث تسکین ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ صدقہ کرنے سے تین فوائد حاصل ہوتے ہیں : پہلا یہ کہ انسان گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔دوسرا یہ کہ صدقہ کرنے کے بعد باقی ماندہ مال بھی پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ خرچ کرنے والے کا نفس مال و دولت کی محبت ، حرص ، لا لچ اور بخل جیسی امراض سے پاک ہوتا ہے ۔
انفاق فی سبیل اللہ قبر کی آگ کو بجھا دے گا
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِیئُ عَنْ أَہْلِہَا حَرَّ الْقُبُوْرِ،وَإِنَّمَا یَسْتَظِلُّ الْمُؤْمِنُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْ ظِلِّ صَدَقَتِہِ))
’’بے شک صدقہ کرنے والوں سے صدقہ قبروں کی گرمی کو بجھائے گا ۔ اور مومن قیامت کے روز اپنے صدقے کے سائے میں ہو گا ۔ ‘‘
انفاق فی سبیل اللہ کے بعض عمدہ نمونے
انفاق فی سبیل اللہ کے بعض فضائل اورفوائد وثمرات ذکر کرنے کے بعد اب ہم اس کے بعض عمدہ نمونے ذکر کرتے ہیں اور جب ہم ’’ عمدہ نمونوں ‘‘ کی بات کرتے ہیں تو اس سلسلے میں ہمارے سامنے سب سے پہلے امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام گرامی آتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت کریم اور بہت زیادہ سخی تھے ۔
 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ بھیڑ بکریوں کا سوال کیا جو دو پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ کو بھر دیتی ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کی سب اسے عطا کردیں،پھر وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس لوٹا اور کہنے لگا :
(أَیْ قَوْمِ،أَسْلِمُوْا،فَوَاللّٰہِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَیُعْطِیْ عَطَاءَ مَنْ لَّا یَخَافُ الْفَقْرَ)
’’ اے میری قوم ! تم سب اسلام قبول کر لوکیونکہ اللہ کی قسم ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اُس شخص کی طرح عطا کرتے ہیں جسے کسی فقر وفاقہ کا خوف نہیں ہوتا ۔ ‘‘
 حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے عصر کی نماز ادا کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی سلام پھیرا ہی تھا کہ آپ فورا اٹھے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی کے حجرے میں چلے گئے ، لوگ آپ کی جلد بازی کو دیکھ کر پریشان ہو گئے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ آپ کی جلدبازی کی وجہ سے حیران ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا :’’ مجھے نماز میں یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کا ایک ڈھیلا ‘ جو صدقے کا تھا موجود ہے ، تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں رات ہونے تک وہ ہمارے گھر میں ہی نہ پڑا رہ جائے ، اس لئے میں جلدی سے اندر گیا اور اسے تقسیم کرنے کا حکم دیا ۔ ‘‘ اور جہاں تک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تعلق ہے تو وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتے تھے ۔
 چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے اُس دن میرے پاس مال موجود تھا ۔ میں نے دل میں کہا : آج حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جانے کا بہترین موقع ہے ، لہٰذا میں اپنا آدھا مال لے آیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ نے پوچھا : اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ میں نے کہا : جتنا مال آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اتنا ہی گھر والوں کیلئے چھوڑ آیا ہوں ۔پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا پورا مال لے آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا ۔ آپ نے پوچھا : اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ تو انھوں نے کہا : میں ان کیلئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آیا ہوں ۔تب میں نے کہا :میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت نہیں لے جا سکتا۔
 حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جیش العسرۃ ) یعنی انتہائی تنگی کے عالم میں فوج کو جنگ تبوک کیلئے تیار ہونے کا حکم دیا توحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنے ایک کپڑے میں ایک ہزار دینار لے آئے اور انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں انڈیل دیا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اپنے ہاتھوں سے اوپر نیچے کرتے ہوئے بار بار فرما رہے تھے : (( مَا ضَرَّ ابْنَ عَفَّانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ ))
’’ آج کے بعد عثمان بن عفان جو کچھ بھی کریں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔‘‘اُم درۃ کا بیان ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک لاکھ درہم لے کر آئی ، وہ اُس دن روزے کی حالت میں تھیں ، چنانچہ انھوں نے وہ تمام درہم تقسیم کر دئیے ۔تو میں نے ان سے کہا : آپ نے پورا مال تقسیم کردیا ، اگر آپ چاہتیں تو کم از کم ایک درہم رکھ لیتیں جس سے آپ گوشت خرید لیتیں اور اسی سے افطاریکے وقت کھانا کھا لیتیں ! انھوں نے کہا : اگر تم مجھے یاد کرا دیتی تو میں ایسے ہی کر لیتی ۔
اِس طرح کے واقعات بے شمار ہیں ، ہم نے صرف تین واقعات ذکر کئے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم انفاق فی سبیل اللہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے اور اس طرح دل کھول کر خرچ کرتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو بھی بھول جاتے تھے ۔
انفاق فی سبیل اللہ کی مختلف اقسام
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔ ان میں سے چند اہم طریقے یہ ہیں :
1۔ تعمیر ِ مساجد
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ‎﴿١٨﴾‏
’’ اللہ کی مساجد کو تعمیر ( اور آباد ) کرنا تو بس اُس کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا ، نماز قائم کی اور زکاۃ دیتا رہا اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا ۔ پس قریب ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہونگے ۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِدًا یَبْتَغِیْ بِہِ وَجْہَ اللّٰہِ ، بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ ))
’’ جو شخص اللہ کیلئے مسجد بنائے ، محض اللہ تعالیٰ کی رضا کو طلب کرتے ہوئے تو اللہ اس کیلئے جنت میں گھر بنادیتا ہے ۔ ‘‘
2۔ علم نافع کی نشر واشاعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلاَثٍ:صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ،أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ،أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ))
’’ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ ، علمِ نافع اور صالح اولاد جو اس کیلئے دعا کرتی رہے ۔ ‘‘
علم نافع کی نشر واشاعت میں کسی طرح سے بھی حصہ ڈالا جا سکتا ہے ۔ مثلا قرآن وحدیث کی تعلیم دینا ، دروس اور خطبِ جمعہ کے ذریعے لوگوں کو احکام شرعیہ اور آداب اسلامیہ سے روشناس کرانا ، دینی کتب کو چھپوانا ، قرآن وحدیث کے ریکارڈ شدہ لیکچرز کو تقسیم کرنا ، طالب علموں کو کتب مہیاکرنا اور مساجد میں قرآن مجید وقف کرنا وغیرہ ۔
3۔ کفالت ِ ایتام
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیْمِ فِی الْجَنَّةِ ہٰکَذَا وَقَالَ بِإصْبَعَیْہِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطٰی ))
’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہونگے جیسے یہ دو انگلیاں ہیں۔ ‘‘ یعنی انگلیٔ شہادت اور درمیانی انگلی ۔
4۔ جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا
حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَقَدْ غَزَا،وَمَنْ خَلَفَ غَازِیًا فِیْ أَہْلِہِ بِخَیْرٍ فَقَدْ غَزَا ))
’’ جو شخص ایک مجاہد کو مالی طور پر تیار کرکے جنگ کیلئے روانہ کرے وہ ایسے ہے جیسے اس نے خود جنگ میں حصہ لیا ۔اور جو آدمی کسی مجاہد کے گھر والوں میں رہے اور خیر وبھلائی کے ساتھ ان کی رکھوالی کرے تو وہ بھی ایسے ہی ہے جیسے اس نے خود جنگ میں شرکت کی ۔ ‘‘
5۔ فقراء ومساکین کو کھانا کھلانا یا ان کی مدد کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ‎﴿٨﴾
’’ خود کھانے کی محبت کے باوجود وہ مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ‘‘اور بیوگان اور محتاجوں کی مدد کرنے والا اور ان پر خرچ کرنے والا شخص ایسے ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ہو۔حضرت صفوان بن سُلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اَلسَّاعِیْ عَلَی الْأرْمَلَةِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ،أَوْ کَالَّذِیْ یَصُوْمُ النَّہَارَ وَیَقُوْمُ اللَّیْلَ))
’’ بیوگان اور مسکینوں پر خرچ کرنے والا آدمی ( اجر وثواب کے اعتبار سے ) ایسے ہے جیسے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا یا دن کو روزہ رکھنے والا اور رات کو قیام کرنے والا ہو ۔ ‘‘
6۔ روزہ داروں کا روزہ افطار کرانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہٖ غَیْرَ أَنَّہُ لَا یَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَیْئٌ))
’’ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلواتا ہے تواسے بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا روزہ دار کو ملتا ہے ۔ اور خود روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں آتی ۔ ‘‘
انفاق فی سبیل اللہ کا ثواب ضائع کرنے والے امور:1۔ریا کاری اور 2۔ احسان جتلانا زجو شخص محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے خرچ نہ کرے بلکہ صرف لوگوں کو دکھلانے یا اپنی تعریف سننے کیلئے خرچ کرے تو اس کی یہ نیت اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتی ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو کسی کو صدقہ دینے یا اس پر خرچ کرنے کے بعد اسے اپنا احسان جتلائے یا لوگوں کے سامنے اسے رسوا کرکے اذیت پہنچائے تو اس کا صدقہ بھی برباد ہو جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ‎﴿٢٦٤﴾وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ‎﴿٢٦٥﴾
’’ مومنو! اپنے صدقات (وخیرات) کو احسان جتلاکر اور ایذا دے کر اُس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو لوگوں کو دکھانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ تو اُس (کے مال) کی مثال اُس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اُس پر زور کا مینہ برسے اور وہ اُسے صاف کر ڈالے ۔ (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اللہ ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ اور جولوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اور خلوصِ نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پرواقع ہو۔ (جب) اُس پر مینہ پڑے تو دُگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی۔ اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے احسان جتلا کر اور جس پر خرچ کیا جائے اسے اذیت پہنچا کر اپنے صدقات کو برباد کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان دونوں چیزوں سے صدقات کا اجر وثواب ضائع ہو جاتا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے ریاکاری کی نیت سے خرچ کرنے والے اور محض اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے خرچ کرنے والے کی الگ الگ مثالیں ذکر کی ہیں ، دکھلاوا کرتے ہوئے خرچ کرنے والے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اس چٹان کی طرح قرار دیا ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو ، پھر اس پر موسلا دھار بارش برسے تو اُس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ مٹی بالکل صاف ہو جائے گی ، اسی طرح لوگوں کو دکھانے یا ان سے تعریف سننے کی خاطر خرچ کرنے والے شخص کو بھی کچھ نہیں ملتا ۔اور اخلاص نیت کے ساتھ خرچ کرنے والے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اس باغ کی مانند قرار دیا ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو ، اگر اس پر بارش برسے تو وہ دوگناپھل دیتا ہے ۔ اور اگر بارش نہ برسے تو صرف پھوار ہی کافی ہوتی ہے اور وہ پھر بھی کچھ نہ کچھ پھل ضرور دیتا ہے ، اسی طرح صدقات میں اگر اخلاص نیت اور صرف رضائے الٰہی کی طلب ہو تو ان کا اجر وثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے جو صدقہ خفیہ طور پر کیا جائے وہ اُس صدقے سے بہتر ہے جو ظاہری طور پر کیا جائے کیونکہ خفیہ طور پر صدقہ کرنے میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے اور ریاکاری سے زیادہ دور ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ‎﴿٢٧١﴾
’’ اگر تم خیرات ظاہراً دو تووہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہلِ حاجت کو تو وہ خوب تر ہے۔ اور (اس طرح کا دینا) تمہارے گناہوں کو بھی دور کر دے گا۔ اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے ۔ ‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ ))
’’ خفیہ طور پر صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بجھا دیتا ہے ۔ ‘‘نیز خرچ کرنے کے بعض آداب سکھلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ‎﴿٢٧٢﴾‏ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ‎﴿٢٧٣﴾
’’ اور (مومنو) تم جو مال خرچ کرو گے تو اُس کا فائدہ تمہی کو ہے ۔ اور تم تو جو خرچ کرو گے اللہ کی خوشنودی کیلئے کرو گے ۔ اور جو مال تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پوراپورا دیدیا جائے گا اورتمہارا کچھ نقصان نہ کیا جائے گا ۔ (اور ہاں تم جو خرچ کرو گے تو) اُن حاجتمندوں کیلئے جو اللہ کی راہ میں رُکے بیٹھے ہیں اور زمین میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے (اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں) یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص اُن کو غنی خیال کرتا ہے ۔ اور تم چہرے سے اُن کو صاف پہچان لو گے (کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب) لوگوں سے (منہ پھوڑ کر اور) لپٹ کر نہیں مانگ سکتے ۔ اور تم جو مال خرچ کرو گے کچھ شک نہیں کہ اللہ اُس کو جانتا ہے ۔‘‘

جہاں تک احسان جتلانے اور اذیت پہنچانے کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے صرف ان خرچ کرنے والوں سے اجر وثواب کا وعدہ فرمایا ہے جو خرچ کرنے کے بعد ان دونوں چیزوں سے اجتناب کرتے ہیں۔
ارشاد ہے :﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‎﴿٢٦٢﴾
’’ جولوگ اپنا مال اللہ کے رستے میں خرچ کرتے ہیں پھر اُس کے بعد نہ اُس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں اُن کا صلہ اُن کے رب کے پاس (تیار) ہے اور (قیامت کے روز) نہ اُن کو کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ ‘‘

احسان جتلانا کتنا بڑا گناہ ہے ‘ اس کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں :حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ثَلَاثَةٌ لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ:اَلْعَاقُّ لِوَالِدَیْہِ،وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ،وَالْمَنَّانُ عَطَاعہُ، وَثَلَاثَةٌ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ:اَلْعَاقُّ لِوَالِدَیْہِ،وَالدَّیُّوْثُ،وَالرَّجِلَةُ ))
’’ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کرے گا : والدین کا نافرمان (اور ان سے بد سلوکی کرنے والا ) ، ہمیشہ شراب نوشی کرنے والا اور احسان جتلانے والا ۔ اور تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہو نگے : والدین کا نافرمان اور انھیں اذیت پہنچانے والا ، دیوث ( جس کے گھر میں بد کاری ہورہی ہو اور وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہے۔) اور وہ عورت جو مردوں جیسی وضع قطع بناتی اور ان سے مشابہت اختیار کرتی ہو ۔ ‘‘
3۔گھٹیا چیز کا صدقہ کرنا

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ‎﴿٢٦٧﴾
’’ مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں اُن میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔اور بُری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کر لو اُن کو کبھی نہ لو۔ اور جان لو کہ اللہ بے پروا اور قابل ِ ستائش ہے ۔‘‘
4۔صدقہ واپس لینا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ مَثَلَ الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْ عَطِیَّتِہِ کَمَثَلِ الْکَلْبِ أَکَلَ حَتّٰی إِذَا شَبِعَ قَاءَ،ثُمَّ عَادَ فِی قَیْئِہ ))
’’بے شک وہ آدمی جو اپنے صدقے کو واپس لے لے اُس کی مثال اُس کتے کی سی ہے جو سیر ہو کر کھائے ، پھر قے کر دے اور پھر اسی کو چاٹنا شروع کردے ۔ ‘‘

اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کیلئے ایک گھوڑا دیا تواس نے اس کی غذا وغیرہ کا اہتمام نہ کیا جس سے وہ کمزور پڑ گیا۔ پھر میں نے ارادہ کیا کہ ( اگر وہ مل جائے تو ) میں اسے خرید لوں ۔ میرا خیال یہ تھا کہ وہ آدمی اسے سستے داموں بیچ دے گا ۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَا تَشْتَرِہ،وَلَا تَعُدْ فِیْ صَدَقَتِكَ وَإِنْ أَعْطَاکَہُ بِدِرْہَمٍ،فَإِنَّ الْعَائِدَ فِیْ صَدَقَتِہ کَالْکَلْبِ یَعُوْدُ فِیْ قَیْئِہ ))
’’ اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ مت واپس لو اگرچہ وہ تمھیں ایک ہی درہم میں کیوں نہ دے ، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا شخص اس کتے کی مانند ہے جو اپنی قے کو دوبارہ چاٹنا شروع کردے ۔ ‘‘

لہٰذا انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کو ان تمام امور سے اجتناب کرنا چاہئے جو ان کے صدقات کو ضائع کردینے و الے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دے اور ہمارے صدقات کو قبول فرمائے ۔
دوسرا خطبہ
پہلے خطبہ میں ہم نے صدقات کے فضائل وفوائد اور ان کے بعض احکام بیان کئے۔ اب یہ بھی جان لیجئے کہ صدقات میںسب سے اہم صدقہ فریضہ ٔ زکاۃ کی ادائیگی ہے ۔
زکاۃ کی تعریف
عربی زبان میں لفظ ’’ زکاۃ ‘‘ پاکیزگی ، بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ شریعت میں ’’زکاۃ ‘‘ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصے کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔ اور اسے ’’زکاۃ ‘‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور اس کامال پاک اور بابرکت ہو جاتا ہے۔یاد رہے کہ ’’ زکاۃ ‘‘ کیلئے قرآن وسنت میں ’’ صدقہ ‘‘کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے :
﴿‏ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا
’’(اے پیغمبر)آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعے آپ ان کو پاک صاف کردیں گے ۔‘‘
زکاۃ کی اہمیت
( 1 ) زکاۃ دین اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دین اسلام قائم ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ: شَھَادَۃِ أَن لَّا إِلٰہ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ،وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ،وَإِیْتَاءِ الزَّکَاۃِ ۔۔۔۔الخ ))
’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، نماز قائم کرنا اور زکاۃ ادا کرنا ۔۔۔۔۔‘‘
( 2 ) زکاۃ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ….
’’ اور میری رحمت تو ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ، پس میں اپنی رحمت ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو ( گناہ اور شرک سے ) بچے رہتے ہیں اور زکاۃ ادا کرتے ہیں۔ ‘‘
(3)زکاۃ دینی بھائی چار ے کی شروط میں سے ایک شرط ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿‏ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ
’’ پس اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکاۃ دیتے رہیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۔ ‘‘
(4) مسلم معاشرے میں جن عادات کو عام ہونا چاہئے ان میں سے ایک زکاۃ ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
‎﴿‏ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ….الخ﴾
’’مومن مردو عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مدد گار ومعاون اور)دوست ہیں،وہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے اور زکاۃ ادا کرتے ہیں ۔۔۔‘‘
( 5 ) جنت الفردوس کے وارث بننے والے مومنوں کی جو صفات اللہ نے بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک زکاۃاداکرنا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ‎﴾
’’ اور جو زکاۃ ادا کرنے والے ہیں۔ ‘‘
( 6 ) حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : مجھے ایسا عمل بتائیے جسے کرنے سے میں جنت میں چلا جاؤں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِكُ بِہ شَیْئًا،وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوْبَةَ،وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ،وَتَصِلُ الرَّحِمَ))
’’ اللہ ہی کی عبادت کرتے رہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ۔ فرض نماز پابندی سے ادا کرتے رہو ، زکاۃ ادا کرتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔ ‘‘
( 7 ) زکاۃ کی ادائیگی سے مال بڑھتا اور بابرکت ہو جاتا ہے اورآفتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ‎﴾
’’ اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں اضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اور جو تم زکاۃ دوگے اللہ کی خوشنودی پانے کی خاطر تو ایسے لوگ ہی کئی گنا زیادہ پانے والے ہیں۔ ‘‘
زکاۃ کے فوائد
( 1 ) اللہ تعالیٰ نے رزق کی تقسیم اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ، جسے چاہے زیادہ دے اور جسے چاہے تھوڑا دے ، لیکن مالدار کو اللہ تعالیٰ نے زکاۃ دینے ، صدقہ کرنے اور خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ، تاکہ جسے اللہ نے تھوڑا دیا ہے اسے بغیر سوال کے ملتا رہے اور اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں ۔ اور فقیرکو اللہ تعالیٰ نے سوال سے بچنے کاحکم دیا ہے تاکہ اس کے اندر صبرو شکر جیسی صفات حمیدہ پیدا ہوں ۔ اس طرح معاشرے کے یہ دونوں فرد اللہ کے اجروثواب کے مستحق ہوتے ہیں، مالدار خرچ کرکے اور فقیر صبروشکر کرکے۔
( 2 ) اسلام کے مالیاتی نظام کی ایک خوبی یہ ہے کہ ا گر پورے اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کیا جائے تو دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں منحصر ہونے کی بجائے معاشرے کے تمام افراد میں گردش کرتی رہتی ہے۔اسکے برعکس دیگر مالیاتی نظاموں میں یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے چند افراد تو عیش وعشرت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور انہی کے قرب وجوار میں رہنے والے دوسرے لوگ غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں جو بہت بڑا ظلم ہے ۔ چنانچہ معاشرے میں مالیاتی توازن برقرار رکھنے ا وراس معاشرتی ظلم کا سد باب کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کو فرض کیا اور صدقات اور انفاق کی طرف ترغیب دلائی تاکہ معاشرے کے تمام افراد مال ودولت سے مستفید ہوتے رہیں۔
(3) زکاۃ کی ادائیگی سے مالدار اور فقیر کے درمیان محبت پیدا ہوتی ہے اور یوں معاشرہ بغض، نفرت او رخود غرضی جیسی بیماریوں سے پاک ہو جاتا ہے ۔ زکاۃ دینے والے میں سخاوت ، شفقت اور ہمدردی اور زکاۃ لینے والے میں احسانمندی ، تواضع اور انکساری جیسی صفات حمیدہ پیدا ہو جاتی ہیں ۔ گویا نظامِ زکاۃ معاشرے میں اخلاقی قدروں کو پروان چڑھاتا ہے۔
( 4 ) تاریخ شاہد ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں جب زکاۃ کو حکومتی سطح پر جمع اور اسے فقراء میں تقسیم کیا جاتا تھا تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب تلاش کرنے کے باوجود بھی معاشرے میں فقراء نہیں ملتے تھے ، چنانچہ زکاۃ بیت المال میں جمع کرادی جاتی تھی اورپھر اسے مسلمانوں کے مفادات عامہ میں خرچ کر دیا جاتا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسلامی نظامِ زکاۃ سے معاشرے میں غربت ختم ہوتی ہے بشرطیکہ اسے پورے اخلاص اور مکمل دیانتداری کے ساتھ نافذ کیا جائے۔
( 5 ) مالدار لوگ اگر زکاۃ ادا نہ کریں تو معاشرے میں موجود فقراء احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں اور ان کے دلوں میں مالداروں کے خلاف شدید عداوت پیدا ہو جائے ۔ او رپھر وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے چوری اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم کا ارتکاب شروع کردیں ۔ یوں معاشرہ بد امنی اور لا قانونیت کی بھیانک تصویر بن جائے ، گویا اسلامی نظامِ زکاۃ ان اخلاقی جرائم کا سد باب کرتااور معاشرے کو امن وسکون کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
( 6 ) مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے ۔ اور اس کی واحد شکل یہ ہے کہ اس کی زکاۃ ادا کی جائے ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جب اللہ کی نعمتوں پر شکریہ ادا کیا جائے تو اللہ کی عنایات میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔
فرمان الٰہی ہے :﴿مْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
’’ اگر تم شکر ادا کروگے تو میں ضرور بالضرور تمھیں اورزیادہ دوں گا ۔ ‘‘
زکاۃ نہ دینے والے کا انجام
جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ زکاۃ فرض ہے اور اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔ چنانچہ جو شخص اس کی فرضیت سے انکار کرے وہ یقینا کافر اور واجب القتل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد جن لوگوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا تھا آپ نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے فرمایا تھا :
(وَاللّٰہِ لَوْمَنَعُوْنِیْ عِقَالًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم لَقَاتَلْتُہُمْ عَلٰی مَنْعِہِ)
’’اللہ کی قسم ! جولوگ ایک رسی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ، اگرمجھے نہیں دیں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘
اور جو شخص زکاۃ کی فرضیت کا توقائل ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو تو اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس کے متعلق ایک آیت اور ایک حدیث سماعت فرمائیے :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎﴿٣٤﴾‏ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ‎﴿٣٥﴾
’’اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے ، جس دن اس خزانے کو آتشِ دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی ( اور ان سے کہا جائے گا:) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا ، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( مَنْ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَلَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہُ مُثِّلَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَہُ زَبِیْبَتَانِ،یُطَوِّقُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ،یَأْخُذُ بِلِہْزِمَتَیْہِ یَعْنِی بِشِدْقَیْہِ،ثُمَّ یَقُوْلُ: أَنَا مَالُكِ،أَنَا کَنْزُكِ ))
’’ اللہ نے جس کو مال سے نوازا ، پھر اس نے زکاۃ ادا نہ کی توقیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہونگے ، یہ سانپ اس کے گلے کا طوق ہوگا اور اس کے جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا : میں ہوں تیرا مال ،میںہوں تیرا خزانہ ۔۔۔‘‘
کن چیزوں میں زکاۃ فرض ہے ؟
اسلام میں جن چیزوں پر زکاۃ فرض ہے وہ اور ان کے متعلقہ کچھ مسائل کچھ اس طرح ہیں :
1۔ سونا/ چاندی اور نقدی پیسے
سونا /چاندی میں زکاۃ فرض ہے بشرطیکہ ان کی مقدار مقررہ نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور اس کی ملکیت پر ایک سال گذر چکا ہو ۔ سونے کا نصاب .5 گرام جبکہ چاندی کا نصاب595 گرام ہے۔ اس طرح اگر سونا.5گرام سے اور چاندی595 گرام سے کم ہو تو زکاۃ فرض نہیں ہو گی اور اگر یہ دونوں اپنے مقررہ وزن کے برابر یا اس سے زیادہ ہوں لیکن ان پر سال نہ گذرا ہو تو تب بھی زکاۃ فرض نہیں ہو گی ۔ دونوں شرطیں اگر موجود ہوں تو سونے چاندی کی زکاۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کا وزن دیکھ لیں ، پھر مارکیٹ کے موجودہ ریٹ کے مطابق اس وزن کی قیمت کی تحدید کر لیں ،اس کے بعد اس کا اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ زکاۃ کی نیت سے ادا کردیں۔
مسئلہ ( 1 ):سونا / چاندی چاہے ڈھیلے کی شکل میں ہو یا زیورات کی شکل میں ، دونوں صورتوں میں زکاۃ فرض ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنی بیٹی کو لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جس کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو ؟ ‘‘ اس نے کہا نہیں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَیَسُرُّكِ أَنْ یُّسَوِّرَكِ اللّٰہُ بِہِمَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ سِوَارَیْنِ مِنْ نَّارٍ ))
’’کیا تمھیں یہ بات پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمھیں ان دونوں کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے؟ ‘‘تو اس نے انھیں زمین پر پھینک دیا اور کہا : یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہیں۔
مسئلہ ( 2 ) :کاغذی کرنسی چاہے ریال ہو یا دینار ، روپیہ ہو یا ڈالر … وہ بھی سونے چاندی کے حکم آتی ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ کرنسی موجود ہو اور اس پر سال گذر چکا ہو تو اس میں زکاۃ فرض ہوگی۔
مسئلہ (3) : قرض کی زکاۃ کی دو صورتیں ذہیں : پہلی یہ کہ مقروض قرضہ تسلیم کرتا ہو اور اسے جلد یا بدیر واپس کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو ، یامقروض تو قرضے سے انکاری ہو لیکن عدالت میں کیس کرکے اس سے قرضہ واپس لینے کا یقین ہو تو اس صورت میں قرض کی رقم کی زکاۃ قرض خواہ کو ادا کرنی ہوگی ۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ سال کے اختتام پر جب موجودہ مال کا حساب کیا جا رہا ہو اس کے ساتھ قرض کی رقم کو بھی ملا لیا جائے اور ٹوٹل مبلغ کا اڑھائی فیصد بطور زکاۃ ادا کردیا جائے ۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ مقروض قرضے سے انکاری ہو اور عدالت کے ذریعے اسے واپس لینے کا امکان بھی نہ ہو ، یا وہ قرضے کو تسلیم تو کرتا ہو لیکن ہر آئے دن واپسی کا وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرتا ہو ، یا اس کے حالات ہی ایسے ہوں کہ وہ قرضہ واپس کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں قرض کی رقم پر زکاۃ فرض نہیں ہوگی ، ہاں جب مقروض قرضہ واپس کردے تو گذشتہ ایک سال کی زکاۃ ادا کردی جائے۔
مسئلہ( 4 ) : ایک شخص کے پاس زکاۃ کا نصاب تو موجود ہو ،چاہے سونا / چاندی کی شکل میں یا نقدی کرنسی کی شکل میں یا کسی اور شکل میں ، لیکن وہ خود دوسروں کا مقروض ہو اور اگر زکاۃ ادا کرے تو مزید بوجھ تلے دب جانے کا اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں اس پر زکاۃ فرض نہیں ہوگی ، ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بھی اس کے پاس زکاۃ کے نصاب کے برابر مال موجود ہو اور اس پر سال گذر چکا ہو تو اس کا اڑھائی فیصد زکاۃ کی نیت سے ادا کرنا ضروری ہوگا۔
مسئلہ( 5 ) : کمپنی کے حصص ( شیئرز) اگر تجارتی مقصد سے خریدے گئے ہوں اور ان پر سال گذر چکا ہو تو ان کی زکاۃ ادا کرنا لازمی ہوگا ۔ اگر خود کمپنی تمام پارٹنرز کے حصص کی زکاۃ ادا کردیتی ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ ہر پارٹنر اپنے اپنے حصص کی زکاۃ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
مسئلہ( 6 ) : زکاۃ خالص سونے / چاندی پر فرض ہوتی ہے ، لہٰذا ملاوٹ کو وزن میں شمار نہیں کیا جائے گا،اس طرح اگر ملاوٹ کا وزن نکال کر خالص سونے / چاندی کا وزن مقررہ نصاب سے کم ہو جائے تو اس پر زکاۃ فرض نہیں ہوگی۔
2۔تجارتی سامان
دوسری چیز جس پر زکاۃ فرض ہوتی ہے وہ ہے ’’ تجارتی سامان‘‘ اور اس سے مراد وہ تمام اشیاء ہیں جنھیں تجارت کی نیت سے خریدا جائے ، چاہے مقامی مارکیٹ سے یا باہر سے درآمد کرکے ۔ اس طرح وہ تمام چیزیں اس حکم سے نکل جاتی ہیں جنھیں کسی نے اپنے ذاتی استعمال کیلئے خریدا ہو ، مثلا گھر ، گاڑی اور زمین وغیرہ تو ایسی اشیاء پر زکاۃ فرض نہیں اور اسی طرح صنعتی مشینری، آلات ، سٹورز اور ان میں پڑی الماریاں ، دفاتر اور ان کے لوازمات پر بھی زکاۃ فرض نہیں کیونکہ ایسی تمام اشیاء ایک جگہ برقرار رہتی ہیں اور انھیں بیچ کر تجارت کرنا مقصود نہیں ہوتا۔
تجارتی سامان کی زکاۃ نکالنے کا طریقہ
سال کے اختتام پر تاجر ( چاہے فرد ہو یا کمپنی ) کو چاہئے کہ وہ اپنے تمام تجارتی سامان کی مارکیٹ کے موجودہ ریٹ کے مطابق قیمت لگائے ، پھر اس کے پاس سال بھر جو نقدی کرنسی رہی ہو اسے اس میں شامل کرلے ۔ اسی طرح اس کا جو قرضہ قابل واپسی ہو اسے بھی حساب میں شامل کرلے اور اگر وہ خود مقروض ہو تو قرضے کی رقم نکال کر باقی تمام رقم کا اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ بطورِ زکاۃ ادا کردے ۔
مسئلہ :صنعتی آلات اور مشینری کی اصل قیمت پر تو زکاۃ فرض نہیں ، البتہ ان کی آمدنی اگر زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تو اس سے زکاۃ نکالنا ضروری ہوگا۔ اور یہی حکم کرائے پر دیے ہوئے مکانوں ، دوکانوں اور گاڑیوں وغیرہ کا بھی ہے کہ ان کی اصل قیمت پر زکاۃ نہیں ، کرائے پر ہے بشرطیکہ کرایہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تواس کا اڑھائی فیصد ادا کرنا ہوگا ۔ البتہ ان اشیاء پر ادا کیا جانے والا ٹیکس اور ان کی دیکھ بھال پر آنے والے دیگر اخراجات ان چیزوں کی آمدنی سے نکال لیے جائیں ۔ اسی طرح اگر مالک کا کوئی اورذریعہ معاش نہیں تو وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے جائز اخراجات بھی آمدنی سے نکال لے ، پھر جو رقم باقی ہو اس سے زکاۃ ادا کردے ۔
3۔حیوانات
جن مویشیوں پر زکاۃ فرض ہے وہ یہ ہیں : اونٹ ، گائے / بھینس او ربھیڑ بکریاں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( مَا مِنْ رَجُلٍ تَکُوْنُ لَہُ إِبِلٌ أَوْ بَقَرٌ أَوْ غَنَمٌ لَا یُؤَدِّیْ حَقَّہَا إِلَّا أُتِیَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَعْظَمَ مَا تَکُوْنُ وَأَسْمَنَہُ،تَطَؤُہُ بِأَخْفَافِہَا وَتَنْطَحُہُ بِقُرُوْنِہَا،کُلَّمَاجَازَتْ أُخْرَاہَا رُدَّتْ عَلَیْہِ أُوْلاَہَا حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ ))
’’ جس شخص کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہوں اور اس نے ان کی زکاۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن انھیں بہت بڑا او ربہت موٹا کرکے لایا جائے گا ، پھر وہ اسے اپنے ٹاپوں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے ، جب سب اس کے اوپر سے گذر جائیں گے تو پہلے کو پھر لوٹایا جائے گا اور لوگوں کا فیصلہ ہونے تک اس کے ساتھ اسی طرح ہوتا رہے گا ۔‘‘
مویشیوں میں زکاۃ کی فرضیت کیلئے چار شرطیں ہیں : ایک یہ کہ وہ اپنے مقررہ نصاب کو پہنچ جائیں ۔ اونٹوں کا کم ازکم نصاب پانچ ، گائے / بھینس کا تیس اور بھیڑ بکریوں کا چالیس ہے ۔ دوسری شرط یہ کہ ان کی ملکیت پر سال گذر جائے ۔ تیسری یہ کہ سال کا اکثر حصہ یہ مویشی چرتے رہے ہوں اور مالک کو سال بھر یا سال کا بیشتر حصہ ان کی خوراک خریدنا نہ پڑی ہو۔ اور چوتھی شرط یہ کہ یہ جانور کھیتی باڑی یا بوجھ برداری کیلئے نہ ہوں ۔ یہاں یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ مویشیوں کو اگر تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہو تو ان کی زکاۃ دوسرے سامانِ تجارت کی زکاۃ کی طرح نکالی جائے گی ، چنانچہ ان کی قیمت کا اعتبار ہوگا نہ کہ تعداد کا۔
تنبیہ : مویشیوں کے نصاب کی دیگر تفاصیل حدیث اور فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
4۔ زرعی پیداوار
فرمان الٰہی ہے:
﴿‏ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ
’’ اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور ہم نے تمھارے لئے زمین سے جن چیزوں کو نکالا ہے ، ان میں سے خرچ کرو۔ ‘‘
اس آیت سے ثابت ہوا کہ زمینی پیداوار مثلا گیہوں ، جَو ، چاول ، کھجور ، انگور اور زیتون وغیرہ میں زکاۃ فرض ہے اور اس بات پر پوری امت کا اجماع ہے۔
زرعی پیداوار کا نصابِ زکاۃ
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :(( لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ ))
’’ پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں۔‘‘پانچ وسق کی مقدار موجودہ حساب کے اعتبار سے653 کیلو گرام بنتی ہے ، اس طرح زرعی پیداوار اگر اس وزن سے کم ہو تو اس میں زکاۃ فرض نہیں ہوگی ۔ بعض علماء نے اس کا وزن630 کیلوگرام لکھا ہے ۔
زرعی پیداوار کا کتنا حصہ زکاۃ میں دیا جائے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(( فِیْمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُوْنُ أَوْ کَانَ عَثَرِیًّا: اَلْعُشْرُ،وَمَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ : نِصْفُ الْعُشْرِ ))
’’ جس کو بارش اور چشموں کے پانی نے سیراب کیا ہو یا وہ خود بخود زمینی پانی سے سیراب ہوا ہو اُس میں دسواںحصہ ہے ۔ اور جس کو آلات کے ذریعے یا محنت کرکے سیراب کیا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔ ‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو پیداوار بارشی پانی یا نہری پانی یا چشموں کے پانی سے حاصل ہوئی ہو اس کا دسواں حصہ اور جسے مشینوں کے ذریعے سیراب کرکے حاصل کیا گیا ہو اس کابیسواں حصہ بطورِ زکاۃ ادا کرنا ہوگا۔
مسئلہ( 1 ) :زرعی پیداوار پر سال گذرنا ضروری نہیں بلکہ وہ جیسے ہی حاصل ہوگی اس کی زکاۃ فورا ادا کرنی ہوگی ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ 
’’ اس کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کردو۔ ‘‘
مسئلہ( 2 ) : تازہ استعمال ہونے والے پھلوں اور سبزیوں پر زکاۃ نہیں ہے الّا یہ کہ ان کی تجارت کی جائے۔ تجارت کی صورت میں اگران کی قیمت نصاب ِ زکاۃ کو پہنچ جائے اور وہ سال بھر اس کے پاس رہے تو اس کا اڑھائی فیصد ادا کرنا ہوگا۔
مصارفِ زکاۃ
زکاۃ کے مسائل میں یہ بھی جان لیجئے کہ مصارف ِ زکاۃ کیا ہیں یعنی کون لوگ زکاۃ لینے کے مستحق ہیں ؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ 
’’ صدقات صرف فقیروں ، مسکینوں اور ان کے وصول کرنے والوں کیلئے ہیں ۔ اور ان کیلئے جن کی تالیفِ قلب مقصود ہو۔ اور گردنیں چھڑانے میں اور قرض داروں کیلئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کیلئے ۔ یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ زکاۃ لینے کے مستحق یہی آٹھ ہیں ، ان کو چھوڑ کر کسی اور مصرف پر زکاۃ خرچ نہیں کی جا سکتی ۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ زکاۃ کی رقم ان آٹھوں پر خرچ کی جائے بلکہ ان میں سے جو زیادہ مناسب اور زیادہ ضرورتمند ہو اس پر اسے خرچ کردیا جائے۔
( 1 ) و( 2 ) فقراء اور مساکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضرورتمند ہوں او رجن کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ جس سے وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں ۔ انھیں زکاۃ کی رقم سے اتنا پیسہ دیا جائے کہ جو زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ان کی ضروریات کیلئے کافی ہو۔
(3) ’’العاملین علیہا ‘‘سے مراد زکاۃ اکٹھی کرنے والے اور اسے مستحقین میں تقسیم کرنے والے لوگ ہیں ۔ انھیں زکاۃ کی رقم سے ان کے کام کے بقدر تنخواہ یا وظیفہ دیا جاسکتا ہے خواہ وہ مالدار کیوں نہ ہوں۔
( 4 ) ’’المؤلفۃ قلوبہم ‘‘ سے مراد کمزور ایمان والے نو مسلم لوگ ہیں ، یا وہ لوگ جن کے مسلمان ہونے کی امید ہو ، یا وہ کفار جن کو مال دینے سے توقع ہو کہ وہ اپنے قبیلے یا علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے۔
(5) ’’ وفی الرقاب ‘‘ سے مراد ہے غلاموں کو ان کے آقاؤں سے چھڑا کر آزاد کر دینا۔
( 6 ) مقروض جو قرض واپس کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے زکاۃ کی رقم دی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس نے قرضہ جائز مقصد کیلئے لیا ہو ۔ اسی طرح وہ لوگ جن پر چٹی پڑ جائے یا ان کا کاروبار شدید خسارے کا شکار ہو جائے تو انھیں بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
( 7 ) ’’ فی سبیل اﷲ‘‘ سے مراد جہاد اور دیگر تمام دینی مقاصد ہیں جو اللہ کی رضا کے موجب بنتے ہیں ، مثلا دینی مدارس میں زیرِ تعلیم طلبہ میں زکاۃ کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے ۔
(8) وہ مسافر جس کا سفر جائز مقصد کیلئے ہو اور اس کا زادِ راہ دورانِ سفر ختم ہو جائے اور وہ سفری ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پیسے کا محتاج ہو تواسے بھی بقدر ضرورت زکاۃ دی جا سکتی ہے ۔
تنبیہ( 1 ): یہ مستحقین ِ زکاۃ اگر اپنے قریبی رشتہ داروں میں مل جائیں تو انھیں زکاۃ دینے سے دوگنا اجر ملتا ہے ۔
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اَلصَّدَقَةُ عَلیَ الْمِسْکِیْنِ صَدَقَةٌ،وَعَلٰی ذِیْ الرَّحِمِ ثِنْتَانِ:صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ ))
’’مسکین کو دیا جائے تو صدقہ ہوتاہے اور اگررشتہ دار کو دیا جائے توصدقہ وصلہ رحمی دونوں ہوتے ہیں۔ ‘‘
تنبیہ( 2) : اپنے بیوي بچوں اور والدین کو زکاۃ نہیں دی جا سکتی ۔ ہاں بہن بھائی اگر ضرورتمند ہوں تو انھیں زکاۃ دینے سے دوگنا اجر ملے گا ۔ اسی طرح دولتمند ، کمانے والے تندرست لوگ ، فاسق وفاجر لوگ اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زکاۃ نہیں دی جا سکتی ۔ ہاں اگر فاسق وفاجر کے راہِ راست پر آنے کی امید ہو تو توبہ کی تلقین کرکے دے سکتے ہیں ۔آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو زکاۃ ادا کرنے اور انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق دے۔ آمین