انسان کا مقام اور اُس کی حیثیت: اُس کی سوچ اور نیت

﴿وَ كمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانت ظَالِمَةً وَّاّنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا أٰخَرِيْنَ﴾ (الانبياء:11)
’’اور کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری قوم کو اٹھایا۔‘‘
زندگی میں انسان کی بڑی بڑی خواہشات میں سے ایک بہت بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا آپ منوائے ، معاشرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور اپنی حیثیت ثابت کرے۔ چنانچہ پہلے وہ مقام و مرتبے کا ایک خود ساختہ معیار مقرر کرتا ہے اور پھر اُس کے حصول کے لیے وہ زندگی بھر کے لیے مصروف عمل ہو جاتا ہے۔
کسی کے ہاں مقام و مرتبے کا معیار مال و دولت ہوتا ہے، کسی کے ہاں عہدہ و منصب ، کسی کے ہاں اس کا پیشہ اس کی حیثیت اور اس کے رقبے کی علامت ہوتا ہے، کسی نے تعلیمی ڈگری کو اپنے مرتبے کی پہچان قرار دے رکھا ہوتا ہے ، اور کسی نے کسی اور چیز کو مگر حقیقت میں انسان کی حیثیت اور اس کے مقام و مرتبے کی بنیاد اور معیار کیا ہے؟
اس پر ایک ضرب المثل تو عوامی ہے کہ عوام میں مشہور رہے کہ: ((قِيْمَةٌ كُلُّ امْرِیءٍ مَا يُحْسِنُ))
’’ ہر آدمی کی اصل قدروقیمت اس چیزمیں ہے جس کی وہ خواہش اور طلب و جستجوکرتا اور عزم رکھتا ہے۔
مثلا: اگر کوئی شخص کسی ایسے کام میں مہارت رکھتا ہو جسے معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو، مگر وہ کام اُس نے صرف ضرورت اور گز ر اوقات کے لیے اختیار کر رکھا ہو، تو وہ کام اس کی پہچان اور اس کے مقام و مرتبہ کی علامت نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ اس کی اصل پہچان اور اس کا مقام و مرتبہ اس کی خواہش اور طلب ، اس کی سوچ اور کردار ، اور اس کے نصب العین میں ہوگا، جس کا وہ دل میں عزم مصم رکھتا ہوں کہ جس کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے شر سے لوگوں کو محفوظ رکھے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے ، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ((سَأَلْتُ النَّبِیَّ أَي الْعَمَلِ أَفْضَلُ))
’’میں نے آپﷺ سے دریافت کیا: کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
قالَ: ((إِيْمَانُ بِاللهِ وَجِهَادُ فِي سَبِيلِهِ))
’’اللہ تعالی پر ایمان اور اس کی راہ میں جہاد ۔‘‘
((قُلْتُ: فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ))
’’میں نے پوچھا کہ کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟‘‘
((قَالَ: أَعْلَاهَا ثَمَنًا ، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا))
’’تو آپﷺ نے فرمایا: جو سب سے مہنگا ہو، اور اپنے مالکوں کے ہاں سب سے عزیز ہو۔‘‘
((قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟))
’’میں نے عرض کیا کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں تو ؟‘‘
((قَالَ: تُعِينُ صَانِعًا أَوْ تَصْنَعُ الأَخْرَقَ))
’’تو فرمایا: کسی کام کرنے والے کی مدد اور اعانت کردو ، یا کسی اناڑی اور نا تجربہ کار کا کام کردو‘‘
((قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ))
’’میں نے عرض کیا ، اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں تو ؟‘‘
((قَالَ: تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِ))
’’فرمایا: تو لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو۔‘‘
تو گویا کہ انسان کی زندگی کا کم سے کم نصب امین یہ ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو کم از کم نقصان بھی نہ پہنچائے ۔
((فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ)) (بخاري:2518)
تو آدمی کے مقام و مرتبے کے معیار کے حوالے سے یہ دوسری ضرب المثل جو کہ خواص کی ہے، یعنی علماء و حکماء اور دانشوروں کے ہاں معروف و مشہور ہے زیادہ مناسب اور موزوں ہے۔ کیوں کہ اگر آدمی کی حیثیت اور اس کے مقام و مرتبے کا معیار کام کی نوعیت قرار دیا جائے تو پھر مزدور لوگ جو کہ لوگوں کی غالب اکثریت ہیں بے مقام اور بے حیثیت قرار پاتے ہیں ، جب کہ آدمی کے مقام و مرتبے کا معیار اس کا کام نہیں بلکہ اس کی سوچ اس کے خیالات، اس کے افکار اور اس کے عزائم ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:
((قَالَ: كُنتُ أَرْعَى غَنَمًا لِعُقَبَةُ ابْنِ أَبِي مُعيط))
’’میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘
((فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللهِ وَأَبوبَكْرٍ))
’’ایک روز میں بکریاں چرا رہا تھا کہ آپ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا میرے پاس سے گزر ہوا۔
((فَقَالَ: يَا غُلَامُ هَلْ مِنْ لَبَنٍ ؟))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اے تو جوان! کیا تیرے پاس دودھ ہے؟‘‘
((قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ))
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا: ہاں،‘‘
((وَلٰکِنِّی مُوْتَمَنٌ)) ’’ مگر میں امانت دار ہوں، (یعنی یہ میرے پاس امانت ہیں)‘‘
((قَالَ: فَهَلْ مِنْ شَاةٍ لَمْ يَنْرُ عَلَيْهَا الْفَحْلُ؟))
’’تو آپ سے کہ ہم نے فرمایا: کیا تیرے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس پر نر کو دانہ ہو یعنی جفتی نہ کی ہو؟‘‘
((فَأَتَيْتُهُ بِشَاةٍ))
’’تو میں نے آپ سے کم کو ایک ایسی بکری حاضر کردی ۔‘‘
((فَمَسَحَ ضَرْعَهَا فَنَزَلَ لَبَنٌ))
’’آپ ﷺ نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا دودھ اتر آیا۔‘‘
((فَحَلَبَهُ فِي إِنَاءٍ))
’’آپ ﷺنے اسے ایک برتن میں دو ہا ۔‘‘
((فَشَرِبَ وَسَقَى أَبا بكر))
’’آپ ﷺنے خود بھی پیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی پلایا۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: اِقْلِصْ، فَقَلَصَ))
’’پھر آپﷺ نے تھن کو کیا سکڑ جا، اور وہ سکڑ گیا ۔‘‘
((قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُهُ بَعْدَ هَذَا))
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ، فرماتے ہیں ، پھر اس واقعے کے بعد ایک دفعہ میں آپ سے کام کی خدمت میں حاضر ہوا‘‘
((فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَّمْنِي مِنْ هَذَا الْقَوْلِ))
’’اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ) یہ باتیں مجھے بھی سکھائے ۔‘‘
((قَالَ: فَمَسَحَ رَأْسِي ، وَقَالَ: يَرْحَمُكَ اللهُ! فَإِنَّكَ عَلَيْمٌ مُعَلَّمٌ))(ابن جبان:7186)
’’تو آپﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تجھ پر رحم فرمائے تم سیکھے سکھائے نوجوان ہو ۔‘‘
تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو جن کی معاشرے میں حیثیت اور مقام و مرتبے کا تعین اگر ان کے کام کی وجہ سے کیا جاتا تو وہ محض اک چرواہے تھے، جنھیں دیہات کی زبان میں کئی کہا جاتا ہے، مگر ان کا اصل مقام ان کی امانت داری اور ان کے کردار کی بلندی قرار پایا اور وہ بھی آپ ﷺ کی زبان اقدس سے کہ: ((فَإِنَّكَ غُلَيمٌ مُعَلَّم)) کہ تم ایک سیکھے سکھائے نوجوان ہو۔
آدمی کی یہ خواہش کہ سوسائٹی میں اس کو ایک اچھا مقام حاصل ہو ، اس کا ایک سٹینس (Status) ہو، اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے ، فی ذاتہ بری خواہش نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی جائز اور فطری خواہش ہے۔
لیکن اس مقام و مرتبے کی بنیاد اور معیار اپنی طرف سے گھر لینا اور مقرر کر لینا ، نہ صرف یہ کہ ایک جھوٹا، جعلی اور مصنوعی معیار ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں تفرق و تشتت، اختلاف و انتشار اور نفرت ، حسد، بغض کدورت ، طبقاتی کشمکش اور ظلم و نا انصافی کو جنم دیتا ہے۔
انسان کا اصل مقام اس کے اخلاق و کردار ، اس کی افادیت ، اس کی شرافت ، اور اسلام سے اس کی وابستگی اور وفاداری کے لحاظ سے ہوتا ہے ۔ اور اسلام سے گہری وابستگی اس کے مقام کو اور بلند کرتی اور چار چاند لگا دیتی ہے۔ اس پریقینًا بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ،
مگر ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔
حدیث میں ہے:
((أَنَّ امْرَأَةَ سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ أَوْ شَابًا))
’’ایک سیاہ فام عورت یا ایک نو جوان مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتی یا کرتا تھا۔‘‘‘
((فَقَدَهَا أَوْ فَقَدَهُ رَسُولُ اللَّهِ فَسَأَلَ عَنْهَا أَوْ عَنْهُ))
’’آپ ﷺنے اس عورت یا اس نو جوان کو موجود نہ پاکر اس کے بارے میں دریافت فرمایا‘‘
((فَقَالُوا مَاتَ))
’’تو لوگوں نے بتایا کہ وہ فوت ہو گیا ہے ۔‘‘
((قَالَ أَفَلا كُنتُمْ آذَنْتُمُونِي))
’’آپ ﷺنے فرمایا: تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی ؟‘‘
((فَكَأَنَّهُمْ صَغَّرُوا أَمْرَهَا أَوْ أَمْرَهُ))
’’گویا کہ لوگوں نے اس عورت یا اس تو جو ان کے معاملے کو معمولی جانا ۔‘‘
((فَقَالَ: دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ))
’’تو فرمایا: مجھے اس کی قبر کی نشاندہی کرو۔‘‘
((فَدَلُّوهُ فَصَلَّى عَلَيْهَا))
’’لوگوں نے اس کی نشاندہی کی تو آپ سے ہم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هٰذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُونَةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا، وَإِنَّ اللهَ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ))
’’پھر فرمایا: یہ قبریں اپنے مکینوں پر تاریکی سے بھری ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ میرے ان کا جناز و پڑھنے پر انہیں روشن کر دیتا ہے۔‘‘
آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کسی بے سہارا اور کالی عورت اور وہ بھی مسجد میں جھاڑو دینے والی کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے، چنانچہ لوگوں نے اسے عام اور معمولی حیثیت والی عورت سمجھ کر جنازہ پڑھ کر دفنا دیا۔
مگر وہ تو لوگوں کا بتایا ہوا معیار ہے، اللہ تعالی کے ہاں آدمی کی اعلیٰ شخصیت ہونے کا اک دوسرا معیار ہے اور وہ ہے اس کا تقویٰ و پرہیز گاری اور اسلام سے اس کے تعلق کی گہرائی۔
چنانچہ اس سے بڑھ کر کسی کی خوش قسمتی اور کسی کے مقام کی بلندی کیا ہو گی جسے آپ ﷺ قابل اہمیت اور توجہ اور درخور اتنا سمجھتے ہوں ۔
آج دین کے ساتھ نسبت اور وابستگی پر لوگ شرم محسوس کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ دین کے ساتھ نسبت و تعلق ایک مسلمان کا سرمایہ حیات ہے، اس کی عزت و افتخار ہے، اس کی خوش بختی اور سعادت مندی ہے۔
آپ اندازہ کریں کہ آپ ﷺسید الاولین والآخرین اور سرور کائنات معاملات دین کا اس درجہ اہتمام کرتے اور اہمیت دیتے کہ تواضع اور انکساری کے بلند ترین مقام پر فائز ہوتے ۔ حدیث میں ہے ، حضرت انس بن مالک جو یہ روایت کرتے ہیں کہ:
((غَدَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ بعبد الله بن أبي طلحة لِيُحَنِّكَهُ))
’’میں صبح کے وقت عبد اللہ بن ابی طلحہ کو آپ سے کام کے پاس گھٹی دلانے کے لیے کر لے گیا۔‘‘
((فَوَافَيتُهُ فِي يَدِهِ الْمِيسَم يَسمُ إِبلَ الصَّدَقَةِ))
’’تو میں نے آپ ﷺکو اس حال میں پایا کہ آپ ﷺکے ہاتھ میں لوہے کا تیز دھار آلہ تھا جس سے آپﷺ صدقے کے اونٹوں کو نشان لگا رہے تھے۔ تاکہ صدقے کے اونٹ دوسرے اونٹوں کے ساتھ گڈمڈ اور غلط ملط نہ ہو جا ئیں۔
اب اس سے بڑھ کر دین کے معاملات کی اہمیت کا انداز و کیا ہو سکتا ہے کہ آپ لیے کام اپنے مبارک ہاتھوں سے نشان لگا رہے ہوں، بدبو کی اذیت برداشت کر رہے ہوں اور ہاتھ خون سے لت پت ہوں۔
تو معاشرے میں انسان کے مقام و مرتبے کی علامت اس کی پہچان اور اس کا معیار وہ ہے جو اسلام نے مقرر کیا ہے جبکہ خود ساختہ معیار کے نتائج انتہائی خوفناک ثابت ہوتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں عزت و شرافت اور مقام و مرتبے کا ایک معیار مال و دولت سمجھا جاتا ہے، مگر مال و دولت صرف اس شخص کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے جو جائز طریقے سے کھائے اور جائز اور حلال طریقے سے خرچ کرے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے: آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلُوهُ خَضِرَةٌ))
’’یہ مال یقینًا شیریں اور سرسبز ہے۔‘‘
((مَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ بِحَقِّهِ فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ))
’’پس جس نے اسے حق کے ساتھ یعنی جائز طریقے سے حاصل کیا اور حق کے ساتھ لگایا یعنی جائز طریقے سے خرچ کیا تو وہ بہترین امداد ہے۔‘‘
((وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقَّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ))
’’اور جس نے اسے نا حق حاصل کیا، وہ اس حص کی طرح ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا:
نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ))
’’صالح مال ، صالح شخص کے لیے کیا ہی خوب ہے۔‘‘
مال و دولت کے بارے میں لوگوں میں جو ایک عمومی تصور پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ مال و اولاد اور دیگر نعمتیں اللہ تعالی کا فضل ہوتے ہیں۔ خود سے یہ طے کر لینا کہ فلاں نعمت اللہ تعالی کا فضل ہے انسان کو دھوکے میں مبتلا کر دیتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ اپنی کوٹھیوں اور اپنے بنگلوں پر یہ آیت لکھواتے ہیں۔
﴿هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي﴾
’’ یہ میرے رب کا فضل ہے ۔‘‘
یہ آیت کا ایک ٹکڑا ہے، پوری آیت نہیں ہے اب پوری آیت کیوں نہیں لکھتے اس لیے کہ اس سے دولت اور چودھراہٹ کا نشہ کا فور ہے۔
یقین کے ساتھ کہ دیتے ہیں کہ یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ مال و دولت کے نقصانات میں سے ، اگر جائز طریقے سے نہ کھایا گیا ہو اور جائز طریقے اس آیت کریمہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے الفاظ کا ذکر کیا گیا ہے، انہوں ۔ نے فرمایا:
﴿هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي اَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ﴾ (النمل:40)
’’ یہ میرے رب کا فضل ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری‘‘
اندازہ کیجیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو فضل ربی کو ایک امتحان سمجھتے تھے، مگر ہم کس طرح پر خرچ نہ کیا گیا ہو، بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی میں تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ تکبر اسے ظلم و زیادتی پر ابھارتا اور بر انگیختہ کرنے لگتا ہے۔
……………………