انسان کا سب سے بڑا اعزاز اس کا مقصد تخلیق
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون﴾ (الذاريات:56)
انسان اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں سے ایک بالکل منفر د مخلوق ہے، جسے بہت سی مخلوقات پر بہت سی چیزوں میں امتیازی اوصاف اور خصوصیات حاصل ہیں۔ جسمانی ساخت میں وہ سب سے بہترین سانچے اور ڈھانچے والا ، متناسب قد و قامت اور متوازن اعضاء و جوارح والا اور جسمانی لحاظ سے ہی دیگر بہت سی منفرد خوبیوں اور صلاحیتوں والا ہے اور اسی طرح فکر وفہم اور علم و عقل میں بھی وہ سب سے ممتاز اور بلند پایہ مخلوق ہے۔ چنانچہ اس کی تمام تر خوبیوں ، صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اس آیت کریمہ میں گویا سمودیا گیا ہے کہ:
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ﴾ (التين:4)
’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔‘‘
انسان کے بہت سے امتیازی اوصاف میں سے کہ جو اسے دیگر مخلوقات کے مقابلے میں حاصل ہیں، ایک بنیادی وصف اور خوبی عقل ہے۔
عقل اگر چہ دیگر جاندار مخلوقات کو بھی حاصل ہے جیسا کہ جانور وغیرہ ہیں مگر انھیں ایک ہی محدود شکل میں دی گئی ہے، جیسا کہ کھانے پینے ، اپنا دفاع کرنے اور افزائش نسل سے بہت متعلق ضروریات کو سمجھنے کی حد تک ہے۔ عقل نہیں گردانتے، بلکہ فریز و اور جبلت قرار دیتے ہیں کہ ان اگر چہ علماء کرام اسے چیزوں کی سمجھ، پہچان، جاذبیت اور کشش اُن مخلوقات کی فطرت اور جبلت میں رکھ دی گئی ہے چنانچہ وہ ان چیزوں کے حصول کی کوشش انہیں تقاضوں کے تحت ہی کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر انسان کے اندر تین بڑی اور اہم قوتیں ہیں: قوت عقل، قوت غضب و غصہ اور قوت خواہش نفس ۔
اللہ تعالی کی بے شمار مخلوقات میں سے تین مخلوقات ان قوتوں کے حوالے سے موضوع بحث بنتی ہیں اور وہ ہیں: انسان ، فرشتے اور حیوانات۔
ان مذکورہ تین قوتوں میں سے سب سے بلند مرتبہ قوت، قوت عقل ہے اور قوت عقل میں ان مخلوقات کا حصہ کچھ یوں ہے، جیسا کہ بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ: ((خُلِقَ لِلْمَلائِكَةِ عُقُول بلا شهوة))
’’فرشتوں کو عقل کے ساتھ مگر بغیر خواہش نفس کے پیدا کیا گیا۔‘‘
((وَخُلِقَ لِلْبَهَائِمِ شَهْوَةٌ بِلا عَقْل))
’’اور جانوروں کو خواہش نفس کے ساتھ مگر بغیر عقل کے پیدا کیا گیا۔‘‘
((وَخُلِقَ لِلإِنْسَانَ عَقْل وَ شَهْوَةٌ))
’’جبکہ انسان کو عقل سے بھی نوازا گیا اور خواہش نفس بھی اس میں رکھ دی گئی ہے۔‘‘
((فَمَنْ غَلَب عقله شهوته فَهُوَ خَيْرٌ مِنَ الْمَلائِكَةِ))
’’پس جس کی عقل اُس کی خواہش نفس پر غالب آجائے تو وہ فرشتوں سے بہتر ہوا۔‘‘
((وَمَنْ غَلَبَتْ شَهْوتُهُ عَقْلَهُ فَالْبَهَائِم خَيْرٌ مِنْهُ)) (مجموع الفتاوى:429/15)
’’اور جس کی خواہشات نفس اس کی عقل پر غالب آجائیں تو جانور اس سے بہتر ہوئے، یعنی دو جانوروں سے بھی بدتر ہے۔‘‘
تو جانوروں کی عقل کے حوالے سے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جانور بغیر عقل کے پیدا کئے گئے ہیں، ورنہ تصور کریں کہ اگر جانوروں کے پاس بھی عقل ہوتی تو انسانوں اور جانوروں کے مابین معاملات کچھ یوں ہو سکتے تھے کہ کوئی آدمی گدھے پر سوار ہو تو گدھا اُس سے کہے کہ نیچے اترو پہلے یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم میں سے گدھا کون ہے۔
ویسے جانوروں کا انسانوں کی طرح باتیں کرنا بھی حدیث سے ثابت ہے اور قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ((بَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً لَهُ قَدْ حَمَل عليها، التفتَتْ إِلَيْهِ الْبَقَرَة فَقَالَتْ إِنِّي لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا، وَلَكِنِّي إِنَّمَا خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ))
’’آپﷺ نے فرمایا: ’’ایک آدمی اپنے پیل پر بوجھ لادے جارہا تھا، تو بیل نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا: میں اس کام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔‘‘
فَقَالَ النَّاسُ: ((سُبْحَانَ اللهِ تَعَجباً وفَزَعاً: أَبْقَرَةً تَكَلَّمُ ؟))
’’تو لوگوں نے حیرانی اور گھبراہٹ سے کہا: سبحان اللہ! بیل باتیں کرتا ہے!‘‘
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ((فَإِنِّي أَوْ مِنْ بِهِ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ)) (صحیح مسلم:2388)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: میں اس بات کو سچ مانتا ہوں اور ایمان رکھتا ہوں، ابوبکر و عمر بھی اس پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں ۔‘‘
اس حدیث سے حاصل ہونے والے دیگر فوائد کے ساتھ ایک یہ فائدہ اور نکتہ نہایت ہی تاہم جانوروں کا انسانوں کی طرح باتیں کرنا بالفعل واقع ہوا ہے اور قیامت کے نزدیک تو عام ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ درندے اور بے جان چیزیں بھی قیامت کے اہم ہے، ذہن سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت ابو بکر وعمر بن ہی کا اُمت میں کتنا بڑا مقام ہے کہ آپ سے کہ ہم ان کی عدم موجودگی میں ان کے ایمان کی گواہی دے رہے ہیں۔
قریب انسانوں سے باتیں کریں گے تو جانوروں کا اس طرح باتیں کرنا اصل میں خرق عادت ہے ورنہ ان میں انسان کی طرح بات کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ انسان یقینًا اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک نہایت ہی افضل و اشرف مخلوق ہے اور دیگر مخلوقات پر اس کی فضیلت کی وجوہات میں سے ایک وجہ فضیلت عقل بھی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان اگر عقل استعمال نہ کرے تو نہ صرف یہ کہ اس کی فضیلت چھن جاتی ہے بلکہ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اور آخرت میں اس کا انجام بھی انجام بد ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ۖؗ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا ؗ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا ؗ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا ؕ اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ﴾(الاعراف:179)
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، اُن کے پاس دل ہیں مگر وہ اُن سے سوچتے نہیں ، اُن کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ، وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔‘‘
انسان اللہ تعالی کی تخلیق کا شاہکار ہے اور اس کی مخلوقات میں سے عقلمند ترین مخلوق ہے اور عقل وجوہات فضیلت میں سے ایک وجہ فضیلت و امتیاز ہے، حالانکہ عقل تو فرشتوں کو بھی دی گئی ہے، مگر وہ اُس عقل سے صرف خیر کا کام ہی لیتے ہیں کیونکہ عقل کے ساتھ انہیں خواہشات نفس نہیں دی گئیں، چنانچہ شر اور برائی کو قبول کرنے کا مادہ ان میں نہیں رکھا گیا۔
﴿لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۶﴾(التحريم:6)
’’وہ بھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے بجالاتے ہیں ۔‘‘
جبکہ انسان کو عقل عطا کی گئی ہے تو ساتھ خواہشات نفس بھی اس کی فطرت اور جبلت میں رکھ دی گئی ہیں اور انسان جب عقل کو استعمال کرتے ہوئے خواہشات نفس سے بیچ کر احکام الہی بجالاتا ہے تو فرشتوں سے بہتر قرار پاتا ہے اور اگر عقل کے استعمال کو نظر انداز کر کے خواہشات نفس کی دلدل میں پھنس کے رہ جاتا ہے تو پھر وہ جانوروں سے بھی بدتر قرار پاتا ہے۔
لہذا عقل ہی انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عقل کا دین میں دائرہ کار کیا ہے، وہ کسی طرح کام کرتی ہے اور اس سے مطلوب کیا ہے؟ بظاہر یہ سوال بڑا سادہ اور آسان سا نظر آتا ہے، مگر اس کا جواب حقیقت میں اتنا آسان نہیں ہے، بلکہ بہت طویل اور گہرا ہے اس لیے اس کی تفصیل میں نہیں جاسکتے، البتہ اس کا خلاصہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ کچھ یوں ہے: کہ عقل معیار مطلق نہیں ہے کہ ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر اس کے صحت و سقم کے بارے میں جانا جائے، بالخصوص دین کے بارے میں۔ دین میں اصل چیز نقل ہے یعنی جو چیز قرآن وحدیث کے دلائل کی صورت میں منقول ہے، عقل کا کام صرف دلائل کے صحت و سقم کے بارے میں جانتا اور اس کو سمجھتا ہے، یعنی یہ جانتا کہ کوئی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے یا نہیں۔ یہ جانتا عقل کے دائرہ کار میں نہیں ہے کہ قرآن وحدیث نے جو حکم دیا ہے وہ حکم عقل پر پورا اترتا ہے کہ نہیں۔
دین کے حوالے سے عقل کی مثال آنکھ کی سی ہے، کہ بے شک چیزوں کو آنکھ کے ذریعے ہی دیکھا جاتا ہے، بشرطیکہ آنکھ صیح سلامت ہو، لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آنکھ چاہے صحیح سلامت بھی ہو مگر اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتی، اس کے لیے روشنی کا ہونا ضروری ہے اور اس صورت میں وہی الہی وہ روشنی ہے جس میں عقل دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ رہی بات کہ عقل کسی طرح کام کرتی ہے، تو انسان کی عقل کی اساس اور بنیاد استدلال ہے، معلوم اور مادی چیز سے استنباط کر کے نامعلوم اور غائب چیز معلوم کرنا۔ مثلاً: آدمی آگ کو دیکھتا ہے اور اس کے دھوئیں کو بھی دیکھتا ہے تو اس نے حسی مشاہدہ بھی کیا اور اس کے آثار بھی دیکھے۔ تو اُس کا یہ مشاہدہ یقین حسی کہلائے گا۔ لیکن جب وہ دیوار کے پیچھے سے دھواں الھتا ہوا تو دیکھے مگر آگ نظر نہ آرہی ہو تو وہ اُس وقت استدلال کرتا ہے، دھوئیں سے آگ کے وجود پر دلیل نکالتا ہے کہ چونکہ دھواں آگ کے بغیر نہیں ہوتا ، جہاں دھواں ہوتا ہے وہاں آگ بھی ہوتی ہے، لہذا دھوئیں کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آگ موجود ہے، تو یہ مشاہد و یقین استدلالی کہلائے گا۔ تیسری صورت اس کی یہ ہے کہ کوئی ایسا آدمی کہ جس پر انسان سو فیصد اعتماد کرتا ہو اور اسے سچا مانتا ہو، وہ آکر بتاتا ہے کہ فلاں جگہ پر آگ لگی ہے، تو آپ نے اگر چہ آگ نہیں دیکھی، اس کے آثار بھی نہیں دیکھے، مگر ایک سچے آدمی کی خبر پر یقین کرتے ہوئے اس آگ کے بارے میں جانا ہے، تو اس علم ، اور اک اور یقین کو یقین اخباری کہیں گے۔ تو اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں، کائنات کی تخلیق کے بارے میں، مابعد الموت کے بارے میں، غیر مرئی مخلوقات ، جنوں اور فرشتوں کے بارے میں معلومات یقین اخباری ہے۔
ور نہ ان میں سے کسی چیز کا ہم نے مشاہدہ تو نہیں کیا، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ ۪ وَ مَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا۵۱﴾ (الكهف:51)
’’میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت ان کو نہیں بلایا تھا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا اور نہ ہی میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والا ہوں ۔‘‘
اب تک کی گفتگو سے ہم نے یہ جانا کہ دین میں عقل کا دائرہ کار کیا ہے اور یہ کہ عقل کسی طرح کام کرتی ہے، اور اب سوال کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ عقل سے مطلوب کیا ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ عقل کی موجودگی کا لازمی نتیجہ کیا ہے! تو عقل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنے بارے میں جاننے کی کوشش کرے کہ وہ کیا ہے اور کیوں ہے!
یہ سوال انسان کی زندگی کا سب سے پہلا، سب سے بڑا اور سب سے اہم سوال ہے، اسی ایک سوال کے جواب سے مزید کئی سوال پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر انسان نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔
اللہ تعالی انسان کو اس پہلو پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْـًٔا مَّذْكُوْرًا۱﴾ (الدهر:1)
’’کیا انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟‘‘
اور پھر اس کے بعد فرمایا:
﴿اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۲﴾ (الدهر:2)
’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا، تا کہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ۔‘‘
یہ تو اللہ تعالی نے خود ہی بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ کسی طریقے سے پیدا کیا ہے (کہ اس کے بتانے میں بھی حکمتیں ہیں) اور یہ بھی بتا دیا کہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیا اور وہ ہے امتحان لینا اور یہ بھی بتا دیا کہ اُس کے لیے کس طرح کے اسباب و وسائل اور ذرائع مہیا کئے (اور وہ ہیں: سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں)۔
مگر اس سوال کا جواب معلوم کرنا انسان پر چھوڑ دیا کہ کیا اس پر کوئی ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا حالانکہ اس سوال کے اندر ہی اس کا جواب بھی موجود ہے کہ یقینًا انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا، مگر اس کو سوالیہ انداز میں اس لیے بیان کیا کہ انسان اس بات پر غور و فکر کرے کہ اُس کو کیوں پیدا کیا گیا، اس کا مقصد تخلیق کیا ہے۔ اخباری یقین حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآن وحدیث اس سے بھرے پڑے ہیں، اور اس بات کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے بھی اس طرح کہ:﴿ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (المؤمنون:115)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف بھی پلٹتا ہی نہیں ہے۔‘‘
اور کبھی یہ کہہ کر کہ:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْن﴾ (الذاريات:56)
’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
کبھی اس انداز میں کہ:
﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِينَ﴾ (الانبياء:16)
’’ ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا۔‘‘
اور بھی یوں کہ:
﴿أيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَن يُّتْرَكَ سُدًى﴾ (القيامة:36)
’’کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا ۔‘‘
اور اگر استدلالی یقین حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے بھی اللہ تعالی نے عقل عطا کر رکھی ہے اور غور و فکر کے دروازے اس کے سامنے کھلے ہیں جیسا کہ فرمایا:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ﴾ (آل عمران:190
’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ہوشمند و عقلمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں ۔‘‘
زمین و آسمان کی پیدائش اور دن رات کے باری باری آنے میں غور و فکر کر کے صحیح نتیجے کے لیے بس ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ ان پر غور و فکر کرنے والی عقل معتقل سلیم ہو۔ اُس میں تصب ، انحراف اور انجیاز نہ ہو کیونکہ
وَمَنْ يَكُ ذَافَمٍ مُرٍّ مَرِيضٍ
يَجِد مُرًّا بِهِ الْمَاءَ الزلالا
’’جو بیمار ہو اور بیماری کی وجہ سے اُس کا منہ کڑوا ہو، تو اُس کو میٹھا اور صاف پانی بھی کڑوا ہی لگتا ہے۔‘‘
تو یہاں عقلمند لوگوں کو کائنات میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے اور حقیقت میں عقلمند وہ ہیں:
﴿الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾(آل عمران:191)
’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں، دو بے اختیار بول اٹھتے ہیں۔‘‘
﴿ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
’’ پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے، پس اے رب! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے‘‘
اور جب انسان کائنات کی تخلیق پر غور و فکر کر کے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ فضول اور بے مقصد نہیں بنائی گئی تو خود انسان کی تخلیق ، اس کا اپنا وجود کہ جس میں اللہ تعالی نے بہت نشانیاں رکھ رکھی ہیں، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ؕ﴾(فصلت:53)
’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھا ئیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ واقعی حق ہے۔‘‘
تو انسان اپنی ذات پر غور کر کے اس حقیقت تک پہنچ سکتا ہے کہ وہ بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا، اس کی زندگی کا یقینًا ایک مقصد ہے، وہ مقصد کیا ہے، ہر مسلمان اس سے خوب آگاہ ہے، جو لوگ اس مقصد سے آگاہ نہیں ہیں یا جنہوں نے اس مقصد کو پس پشت ڈال رکھا ہے، وہ ہمیشہ قلق و اضطراب، بے چینی اور ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ یوں تو ہر شخص نے اپنی اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی ہدف اور متحصد متعین کر رکھا ہے، کسی نے دولت کا حصول کسی نے شہرت کا حصول، کسی نے عہدہ و منصب کا حصول اور کسی نے کوئی اور ۔ مگر انسان کی زندگی کا حقیقی مقصد کیا ہے؟ کچھ تو جانتا ہی نہیں چاہتے اور کچھ جان کر انجان بنے ہوئے ہیں اور دنیا کی لذتوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔
جب انسان اپنے حقیقی مقصد سے انحراف کرتا ہے تو پھر وہ اُس مقصد کا غلام بن جاتا ہے جس کو اس نے اپنا رکھا ہوتا ہے، جیسا کہ جو شخص دولت کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے تو ایسے شخص کو آپ سے کہ ہم نے دولت کا بندہ ، اس کا پجاری اور غلام بتلایا ہے ۔ فرمایا:
((تعس عبد الدينار وعبد الدرهم)) (صحيح البخاری:2887)
’’ہلاک اور بد بخت جو درہم و دینار کا بندہ۔‘‘
حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کوئی شخص چاہے کتنی ہی دنیا کی محبت رکھتا ہو مگر اس کی پوجا نہیں کرتا۔ مگر آپ نے امام نے اسے دولت کا پجاری اور عہد اور غلام قرار دیا ہے اور اس کے لیے بد دعا فرمائی ہے۔
اس بد دعا سے کسی طرح بچتا ہے، پھر ان شاء اللہ جاننے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
……………………