اسلامی اخوت اور اتحاد

الحمد لله الذي هدانا للإسلام، ووفقنا لاتباع هدي خير الأنام . ألف سبحانه بين قلوب المؤمنين فأصبحوا بنعمته إخوانا، ونزع الغل من صدورهم فكانوا عند الشدائد أعوانا، وأشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على سيدنا محمد وآله وصحبه
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اسلام کی راہ دکھائی اور رسول خیر الانام صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کی توفیق بخشی۔ مومنوں کے دلوں کو متحد کیا تو اللہ کے فضل سے وہ بھائی بھائی بن گئے اور ان کے سینوں سے کینہ کپٹ دور کیا تو وہ آڑے وقتوں میں ایک دوسرے کے یار و مددگار ہو گئے میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ ہمارے آقاو سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ الہی! تو ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اپناؤ اور انہی کی راہ پر چلو وہی ہدایت و کامیابی کی راہ ہے اور اس پر چل کر فوز و فلاح اور عزت و سربلندی حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’حبل اللہ‘‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا ہے اور وہ ”حبل اللہ“ خود اس کا نازل کردہ قرآن اس کے بھیجے ہوئے رسول اور ان کی لائی ہوئی شریعت ہے۔ ارشاد ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور متفرق نہ ہو جاؤ۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إنَّ الله يرضى لكم ثلاثا: أن تعبدوه ولا تشركوا به، وأن تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا، وَأَن َنَاصَحُوا مَنْ وَلاه الله أَمْرَكُمْ) [موطا مالک میں یہ حدیث ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مروی ہے، دیکھئے کتاب الکلام باب ماجاء فی اضاعة المال (20) نیز دیکھئے: صحیح مسلم، کتاب الا قضیہ (1715)]
’’اللہ تعالی نے تمہارے لئے تین باتیں پسند کی ہیں: اول یہ کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھر او دوم یہ کہ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور باہم متفرق نہ ہو جاؤ سوم یہ کہ اللہ نے جس کو تمہار اوالی و حکمراں بنا دیا ہے اس کے ساتھ خیر خواہی کرو۔‘‘
بندگان الهی! اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین برحق کے ساتھ اس وقت دنیا میں مبعوث فرمایا جب لوگ گروہ در گروہ بٹے ہوئے تھے اور عقائد و نظریات اور مذاہب میں ایک دوسرے سے مختلف تھے ان کے درمیان مختلف مذاہب اور جاہلی و قبائلی عصبیت موجود تھی اور ہر فریق اپنے مخالف سے برسر پیکار تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے جب دین اسلام کے ساتھ آپ کو بھیجا تو آپ نے لوگوں کے درمیان حق کا صور پھونکا انہیں فطرت سلیمہ کی طرف بلایا وحدت و یگانگت اور اخوت و بھائی چارگی کی دعوت دی اور اسے فرض قرار دیا اختلاف و انتشار کو حرام ٹھرایا اور اس کے نقصانات سے انہیں آگاہ کیا اور عداوت و دشمنی سے جو ضعف انحلال آتا ہے اس کی نشاندہی کی:
﴿وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ﴾ (الانفال: 36)
’’آپس میں جھگڑا نہ کرو کہ اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا۔‘‘
تمام امت مسلمہ ایک جماعت ہے ضروری ہے کہ وہ باہم متحد رہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہے اور اپنے دین اپنے اتحاد اور عالم اسلام کے خلاف اٹھنے والے طوفانوں اور چیلنجوں کے مقابل سینہ سپر رہے ارشاد الہی ہے:
﴿إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَّاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ﴾ (الانبياء: 92)
’’یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، تو میری ہی عبادت کیا کرو۔‘‘
اسلامی اخوت اور اسلامی اتحاد ہی وہ عظیم ترین اصول ہے جو مختلف قوموں، قبیلوں اور مختلف جنس کے انسانوں کو باہم مربوط رکھتا ہے بشر طیکہ وہ اسلامی شریعت کو ماننے والے ہوں اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر امت اپنے شرف و بزرگی کے قلعے تعمیر کرتی اور بہترین معاشرہ کی تشکیل عمل میں لاتی ہے کیونکہ معاشرہ کی تشکیل میں اس سے بہتر اور مضبوط کوئی بنیاد نہیں۔ دینی اخوت و بھائی چارگی کی واضح مثال یہ ہے کہ اسلام نے اللہ کی توحید اور اخلاص عبادت کی تعلیم دینے کے بعد تمام بندوں کو شرعی تکالیف میں مسادی قرار دیا ہے اور مامورات و منہیات کے سلسلہ میں ان کے مابین کوئی تفریق نہیں رکھی ہے چنانچہ نماز روزہ زکوۃ، حج اور دیگر تکالیف شرعیہ کے ذریعہ یکساں طور پر ہر نفس کی تعمیر اور اس فریضہ کی ادائیگی کا اہل بنانا مقصود ہے جو اللہ کی بے پایاں نعمتوں کی شکر گذاری کے تعلق سے ان پر عائد ہوتا ہے۔ اللہ کی نعمتوں کی شکر گذاری کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نعمتوں سے نواز نے والی ذات گرامی کے لئے نعمتوں کا اقرار کیا جائے اس کے احکام کی تابعداری کی جائے اور ان اخلاق قرآنی سے خود کو متصف کیا جائے جو بندے اور معبود کے تعلق سے اور خود انسان اور اس کے ابنائے جنس کے تعلق سے قرآن کریم کے اندر بیان کئے گئے ہیں۔ اسلامی اخوت در حقیقت ایک بچی بھائی چارگی ہے جو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی کے لئے سراپا اعتماد بنا دیتی ہے، جو اسے طاقت بہم پہنچاتا ہے اپنی عزت و آبرو کی طرح اس کی عزت و آبرو کی بھی حفاظت کرتا ہے اپنی طرح اس کے خیر و منفعت کے لئے بھی کوشاں ہوتا ہے اور خیر و منفعت کے کام اس کے حق میں ویسے ہی پسند کرتا ہے جیسے خود اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کو دعوت اسلام کا ستون قرار دیا ہے جو دعوت دین کے اصولوں کو مضبوط و راسخ کرتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو وہاں آپ نے مہاجرین و انصار کے درمیان اسی اخوت و بھائی چارگی کے رشتے کو مضبوط کرنے پر زور دیا جس کے نتائج نہایت ہی بہتر شکل میں ظاہر ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنم ایک دوسرے کے لئے باہم مشفق و مہربان ہو گئے جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کی شان میں فرمایا ہے:
﴿أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ (الفتح:29)
’’کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل۔‘‘
اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا) [صحیح بخاری و صحیح مسلم، تفصیل کے لئے دیکھئے: خطبہ ’’اسلامی شریعت ہی امن و سلامتی کی ضامن ہے‘‘]
’’ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی اور مسلمان دار ہجرت مدینہ منورہ کے اندر جمع ہو گئے اور سارے لوگوں نے مل جل کر اللہ کی رسی قرآن مجید کو مضبوطی سے تھام لیا تو ان کی قوت ایمانی وحدت و اتحاد نیز اللہ کے کا ر بلندی اور کلمہ کفر کی سرکوبی کی بابت ان کے حسن نیت اور اخلاص کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے ان کی مدد فرمائی انہیں سر بلندی عطا کی اور ان کی قوت و شوکت کو مضبوط کیا انہوں نے تمر دو سرکشی اور شر و فساد کے بتوں کو ہلا کر رکھ دیا ایوان کفر میں زلزلہ بپا کر دیا اور لوگ فوج در فوج دین اسلام کے اندر داخل ہونے لگے، فتح و کامرانی اور اقبال و سر بلندی ان کے قدم چومتی رہی یہاں تک کہ ایمان باللہ، حسن نیت اور شریعت اسلام سے تمسک کے نتیجہ میں مشرق و مغرب کو اپنے زیر نگیں کر لیا۔
لیکن اس کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا اور لوگوں کے اندر قساوت قلبی اور دین و عقیدہ سے انحراف پیدا ہونے لگا تو باطل طاقتیں ہم پر مسلط ہو گئیں کیا ہے کوئی بیدار ذہن یا نصیحت گیر جور شد و ہدایت کی جانب لونے اور اپنے رب کی طرف رجوع کرے ؟ اللہ تعالی کا اعلان ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوْا مَا بِأَنفُسِهِمْ﴾ (الرعد:11)
’’اللہ اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔‘‘
مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان تمام معاملات میں جو اسلام اور کلمہ اسلام کی رفعت و سر بلندی کا ذریعہ ہوں اپنے آپ کو ایمانی مادی اور جنگی قوت سے مسلح کریں۔
بندگان الهی! لہٰذا اللہ سے ڈرو اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ اسلام کے برحق اصول و مبادی اس وقت زندہ اور قائم رہ سکتے ہیں جب خود اس کے داعی زندہ ہوں اور ان پر عمل کریں، لہٰذا حق کو لازم پکڑو اور اس کی مدد کرو اور ظلم و تعدی اور کفر و باطل کے خلاف سینہ سپر رہو اور شر و فساد کا قلع قمع کر دو اگر ایسا کرتے ہو تو اللہ تعالی تمہیں دنیا کی عزت و سعادت عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی نعمت و رضوان سے نوازے گا:
﴿إِنْ تَنصُرُوا اللهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾ (محمد:7)
’’اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله في العز والسطان والفضل والإحسان، أحمده سبحانه وأشكره، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له . وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على محمد وعلى آله وصحبه
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو غلبہ و سلطنت اور فضل و احسان والا ہے میں اللہ سبحانہ کی حمد بیان کرتا اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
لوگو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور آخرت کے لئے تقوی کا توشہ تیار کرو کیونکہ تقوی ہی سب سے بہترین توشہ ہے اللہ کی رسی کو سب مل جل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور باہم اختلاف نہ کرو اور اپنے دین متین نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپناؤ۔ اسلام نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ باہم متحد ہو کر اور ایک دوسرے سے جڑ کر ر ہو، حق کی مدد کرو اور دین اسلام سے برگشتہ ظالموں کے خلاف تن کر کھڑے ہو جاؤ تاکہ دین حق ہی پوری امت کے اندر رائج ہو اور پوری دنیا کے مسلمان ایک قوت بن جائیں جو لوگوں کو معروف کا حکم دیں، منکرات سے روکیں ان کا طاقتور کمزوروں کی رعایت کرے اور مالدار غریبوں کا خیال رکھے اس طرح ان کا شیرازہ متحد رہے اور اتحاد مضبوط ہو ان کے ملک کو عزت و سربلندی حاصل ہو ان کا پہلو بھاری اور ان کے حقوق محفوظ ہو جائیں۔ مگر یہ سب اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مسلمان اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت طیبہ کو اپنا لیں اور دین پر عمل پیرا ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔