اسلامی اخلاق

الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ۝۱۹۹ وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ؕ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝۲۰۰ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىِٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ۝۲۰۱﴾ (الاعراف: 199-201)
’’اے نبی! آپ در گذری کے شیوہ اختیار کیجئے اور لوگوں سے اچھی بات کہیے اور نادانوں سے الگ رہیے اگر شیطان کے گد گدانے سے انتقام وغیرہ کی گدگدی آپ کے دل میں پیدا ہو تو اللہ تعالی سے پناہ مانگ لیا کیجئے کیونکہ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے جو لوگ پر ہیزگار ہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے ان کے دل میں کوئی برا خیال آجاتا ہے تو فورا متنبہ ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹ جاتا ہے تو اس وقت صحیح راستہ دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو معاف اور درگذر کرنے کی تعلیم دی ہے اور یہ معاف کرنا اللہ تعالی کی بہت بڑی صفت ہے کہ اللہ تعالی بھی مخلوق کی غلطیوں کو درگذر کرتا رہتا ہے اگر وہ ایسانہ کرے تو کائنات عالم کی بستی برباد ہو جائے اللہ تعالی کا نام غفور غفار غافر اور عفو ہے اور یہ مکارم اخلاق کی بہت بڑی صفت ہے وہ اسی مکارم اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے نبیوں اور رسولوں کو بھیجتا رہا۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: (بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ)[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مؤطا امام مالك ص، 705۔ كتاب الجامع باب ما جاء في حسن الخلق و مسند احمد: 381/2۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں حسن اخلاق کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘
چنانچہ آپ نے اس کی تکمیل فرما دی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾ (سوره القلم : 4)
’’ آپ بہت بڑے خلق والے ہیں۔)
اور اس خلق کی آپ نے بہت بڑی تعریف فرمائی ہے۔
(أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيْمَانَا أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا)[1]
’’مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایمان کے کمال کا معیار جس چیز کو ٹھہرایا ہے وہ حسن اخلاق ہے یہی وہ پھل ہے جس سے ایمان کے درخت کی پہچان ہوتی ہے۔ اسلام میں نماز اور روزہ کی جو اہمیت ہے وہ ظاہر ہے لیکن اخلاق حسنہ کو بھی ان کی قائم مقامی کا شرف کبھی کبھی حاصل ہو جاتا ہے ارشاد ہے۔
(إِنَّ الرَّجُلَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلْقِهِ دَرَجَةً قَائِمِ اللَّيْلِ وَصَائِمِ النَّهَارِ)[2]
’’انسان حسن اخلاق سے وہ درجہ پا سکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نفل نمازوں میں رات بھر کی شب بیداری اور نفلی روزوں میں دن بھر کی بھوک اور پیاس سے جو درجہ حاصل ہو سکتا ہے و ہ درجہ حسن خلق سے بھی حاصل ہو سکتا ہے حسن اخلاق کی یہ حیثیت اس کو ایک گونہ عبادات کی کثرت سے بڑھا دیتی ہے اسلام میں اخلاق ہی وہ معیار ہے جس سے باہم انسانوں میں درجہ اور رتبہ کا فرق نمایاں ہوتا ہے فرمایا:
(خِيَارُكُمْ أَحْسَنُكُمْ اَخْلَاقًا)[3]
’’تم میں سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 527، 472،250/2 و سنن ابی داود: 354/4 کتاب السنة باب الدليل على زيادة
الايمان و نقصانه رقم الحديث: 4674۔
[2] مسند احمد: 187،133،64،90 /6 و ابو داود: 400/4 کتاب الأدب باب في حسن الخلق
رقم الحديث: 4790۔
[3] صحیح بخاري: 503/1 کتاب المناقب باب صفة النبيﷺ رقم الحديث: 3559، و مسلم:
255/2 كتاب الفضائل باب كثرة حيائه صلى الله عليه وسلم رقم الحديث: (2033)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مَا مِنْ شَيْ ءٍ يَوْضَعُ فِي الْمِيزَانِ اَثْقَلْ مِنْ حُسْنِ الْأَخْلَاقِ فَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَيَبْلُعُ بِهِ دَرَجَةً صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلوةِ)[1]
(قیامت کی) ترازو میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی کہ حسن اخلاق والا اپنے حسن خلق سے ہمیشہ کے روزہ رکھنے والے اور نماز پڑھنے والے کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
یعنی یہ کہ حسن اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز ترازو میں نہیں اس حدیث نبوی نے پوری طرح واضح کر دیا ہے کہ اسلام کی میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ گراں کوئی چیز نہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ بندہ کو خدا کی طرف سے جو کچھ ملا ہے اس میں حسن اخلاق کا عطیہ سب سے بڑھ کر ہے۔
(خَيْرُ مَا أُعْطِيَ النَّاسُ خُلُقٌ حَسَنٌ)[2]
’’لوگوں کو قدرت الہی کی طرف سے جو چیزیں عطا ہوئی تھیں سب سے بہتر اچھے اخلاق ہیں۔‘‘
اس بشارت نے اخلاق حسنہ کی نعمت کو تمام انسانی نعمتوں سے بالا تر بنا دیا ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(أَحَبُّ عِبَادِ اللَّهِ إِلَى اللَّهِ أَحْسَنُهُمْ اخْلَاقًا)[3]
’’اللہ کے بندوں میں اللہ کا سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حسن خلق خدا کی عبادت کا ذریعہ ہے اور در حقیقت رسول ﷺ محبت کا بھی یہیں وسیلہ ہے فرمایا: (إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَىَّ وَ أَقْرَبَكُمْ مِنِّي فِي الْآخِرَةِ مَجَالِسَ مَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا وَإِنَّ اَبْعَضَكُمْ إِلَىَّ وَابْعَدَكُمْ مِنِّي فِي الْآخِرَةِ مَسَاوِيكُمْ أَخْلَاقًا)[4]
’’تم میں سب سے پیارا نشست میں مجھ سے سب سے نزدیک وہ ہیں جو خوش خلق ہیں اور مجھے ناپسند اور قیامت میں مجھ سے دور وہ ہوں گے جو تم میں بداخلاق ہیں۔‘‘
آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں دو صحابیہ تھیں ایک رات بھر نماز پڑھتیں دن کو روزہ رکھتیں اور صدقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 451، 448، 446/6 و ابوداود: 400/4 کتاب الادب، باب في حسن الخلق رقم
الحديث: (4791)
[2][3] مسند احمد: 278/4 و مسند طيالسي ص:171 رقم الحدیث 1233، ابن حبان، رقم
الحديث:486 و ابن ماجه کتاب الطب باب ما أنزل الله داء الا انزل له شفاء رقم الحديث: 3436
[4] مسند احمد: 193/4 و ابن حبان رقم الحدیث:182 و ابن ابی شیبه 327/8 کتاب الادب باب ما ذكر في حسن الخلق و كراهية الفحش.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیتیں لیکن اپنی زبان درازی سے پڑوسیوں کا ناک میں دم کیسے رہتیں۔ دوسری صحابیہ صرف فرض نمازیں پڑھتیں اور غریبوں کو چند کپڑے بانٹ دیتیں لیکن کسی کو تکلیف نہ دیتیں آنحضرتﷺ سے ان دونوں کی نسبت پو چھا گیا تو آپ نے پہلی کی نسبت فرمایا کہ اس میں کوئی نیکی نہیں وہ اپنی بدخلقی کی سزا بھگتے گی اور دوسری کی نسبت فرمایا کہ وہ جنتی ہوگی۔[1]
ان دونوں بی بیوں کی سیرتوں کے جو مختلف نتیجے پیغمبر ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے ظاہر ہوئے ہیں وہ اسلام میں اخلاق کی حیثیت کو پوری طرح نمایاں کر دیتے ہیں۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک بدوی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ مجھے وہ کام سکھائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ فرمایا انسان کو غلامی سے آزاد کر، انسان کی گردن کو قرض کی بندھن سے چھڑا اور ظالم رشتہ دار کا ہاتھ پکڑا اگر یہ نہ کر سکے تو بھوکے کو کھلا اور پیاسے کو پلا اور نیکی بتا اور برائی سے روک۔ اگر یہ نہ کر سکے تو بھلائی کے سوا اپنی زبان روک۔[2]
غور کیجئے کہ یہ حدیث اخلاقی عظمت کو کہاں تک بڑھا رہی ہے۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں:
(كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا وَأَحْسَنَهُمْ خلقًا)[3]
’’رسول اللہﷺ سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ خلیق تھے۔‘‘
حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اس کے باجود اپنے لیے حسن خلق کی یہ دعا مانگتے تھے۔
(اللَّهُمَّ كَمَا أَحْسَنْتَ خَلْقِي فَحَسِّنْ خُلْقِي)[4]
’’اے اللہ ! جس طرح تو نے میری بناوٹ اچھی بنائی ہے تو میری عادت کو اچھی بنا دے۔‘‘
یہ دعا اس لیے ہے کہ اخلاق حسنہ در حقیقت صفات الہی کا سایہ وظل ہے اور اس کی صفات کاملہ کے ادنٰی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد:440/2 و ابن حبان موارد ص 503، كتاب البرو الصلة باب ما جاء في اصحاب و الحيران، رقم الحديث: (2054)
[2] مسند احمد:299/1 و بیهقی 273/10 دار قطنی:135/2-
[3] صحیح بخاري: 502/1 کتاب المناقب باب صفة النبيﷺ رقم الحديث: (3589) وصحیح مسلم: 258/2، كتاب الفضائل باب في صفة النبي رقم الحديث: 6066-
[4] مسند احمد: الترغيب: 410/3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترین مظاہر ہیں۔
ہم ان ہی صفات و اخلاق کو اچھا کہتے ہیں جو صفات ربانی کا عکس ہیں اور ان ہی کو برا سمجھتے ہیں جو خدا کی صفات کے منافی ہیں البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ خدا کی بعض خاص صفتیں ایسی بھی ہیں جو اس کے ساتھ مخصوص ہیں اور جن کا تصور بھی دوسرے میں نہیں کیا جاسکتا جیسے اس کا واحد ہونا، خالق ہونا، نیز ایسی پُر جلال صفتیں ہیں جو صرف خدا ہی کو زیبا ہیں جیسے اس کی کبریائی او بڑائی وغیرہ اس قسم کی صفات کا بندہ میں کمال یہ ہے کہ ان کی مقابل کی صفتیں اس میں پیدا ہوں خدا کی کبریائی کے مقابلہ میں بندہ میں خاکساری اور تواضع ہو اور خدا کی بلندی کے مقابلہ میں پستی اور فروتنی جو الغرض اسلام نے انسان کی روحانی تکمیل کا ذریعہ اخلاق کو اسی لیے قرار دیا ہے کہ وہ صفات الہی کے انوار کے کسب فیض کا سبب ہے ہم جس حد تک اس کسب فیض میں ترقی کریں گے ہماری روحانی ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہی زندگی کی روحانی سیر کی آخری منزل ہے اخلاق کا اس سے بلند تر تخیل ممکن نہیں ہے۔
اخلاق حسنہ اور قرآن مجید
سارا قرآن مجید خلق عظیم کا داعی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہﷺ کے خلق عظیم کے بارے میں فرماتی ہیں کہ آپ کا خلق قرآن ہی تھا۔[1]
یعنی جوقرآن مجید میں الفاظ کی صورت میں ہے وہی رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں بصورت عمل تھا اگر غریبوں اور مسکینوں کی امداد و اعانت کا حکم دیا تو پہلے خود اس فرض کو ادا کیا خود بھوکے رہے اور دوسروں کو کھلا دیا اگر آپ نے اپنے دشمنوں اور قاتلوں کے معاف کرنے کی نصیحت کی تو پہلے خود اپنے قاتلوں اور دشمنوں کو معاف کیا کھانے میں زہر دینے والوں سے درگذر کیا اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ جنہوں نے آپ پر تیر برسائے اور تلواریں چلائیں مسلح ہو کر بھی کبھی ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا کپڑوں کی شدید ضرورت کے وقت میں بھی جس نے آپ ﷺ سے کپٹرا مانگا خود اپنی چادر اتار کر اس کے حوالے کر دی۔ اللہ تعالی نے اپنے سے کرنیک اور خلیق بندوں کی مندرجہ ذیل آیتوں میں یہ شان بتائی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح مسلم: كتاب صلوة المسافرين باب جامع صلوة النيل ومن نام عنه أو مرض …… رقم الحدیث: 1739۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝۶۳ وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا۝۶۴ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ۝۶۵ اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۝۶۶ وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝۶۷ وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ۝۶۸ یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ۝۶۹ اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۷۰ وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰهِ مَتَابًا۝۷۱ وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا۝۷۲ وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا۝۷۳ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۝۷۴ اُولٰٓىِٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًاۙ۝۷۵ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۝۷۶ قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠۝۷۷﴾ (سورة الفرقان: 63 تا 77)
’’اور رحمان کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے اپنی سی بات کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں سلام ہے اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے کرتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کے عذاب کو ہٹا دے کہ اس کا عذاب چھٹ جانے والا ہے وہ برا ٹھکانا اور برا مقام ہے اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخیلی کا مظاہر کرتے ہیں اور درمیانی راستہ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام کر دیا وہ بغیر حق کے قتل نہیں کرتے اور نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرنے دو اپنے اوپر سخت زبال لائے گا اس قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وہ ذلت وخواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے اور جو شخص توبہ کرلے اور نیک عمل کرے تو وہ حقیقتا خدا کی طرف سچا رجوع کرتا ہے اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغویت پر ان کا گذر ہوتا ہے وہ بزرگانہ طور پر گذر جاتے ہیں اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں کرتے اور یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور ہمارے بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔ کہہ دے اگر تمہاری التجا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا تم تو جھٹلا چکے اب عنقریب اس کی سزا تم کو چمٹ جانے والی ہے۔‘‘
ان آیتوں میں اللہ تعالی نے اخلاق کریمانہ کی بعض اہم باتوں کو بیان فرمایا ہے جو غور و عمل کے لائق ہے اور سورہ بنی اسرائیل میں بھی عبادت ریاضت اور اطاعت والدین اور قرابتداروں ہوتا جوں کی امداد کی نصیحت اور اسراف و فضول خرچی کی مذمت، بخل، اولادکشی، بدکاری، کسی بے گناہ کی جان لینے اور یتیموں کو ستانے کی ممانعت کی اس کے بعد ایفائے عہد کرنے، ٹھیک ٹھیک ناپنے تولنے کا تاکیدی کا حکم دیا ہے اور زمین پر اکڑ کر اترا کر چلنے سے منع فرمایا ہے ان آیتوں کو غور سے پڑھیے اور سمجھئے۔
﴿ وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳ وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ۝۲۴ رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْ ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا۝۲۵ وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا۝۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا۝۲۷ وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا۝۲۸ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۝۲۹ اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠۝۳۰ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا۝۳۱ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۝۳۲ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا۝۳۳ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا۝۳۴ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۝۳۵ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا۝۳۶ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۝۳۷ كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا۝۳۸ ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤی اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ؕ وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰی فِیْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۳۹﴾ (بنی اسرائیل: (23-39)
’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ واحد کے ساتھ سلوک و احسان کرنا اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے ہوں تک نہ کہنا نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رہنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسے ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے رشتے داروں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا حق ادا کرتے ر ہو اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچیے، بے جا اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں جس کی تو امید رکھتا ہے تو تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھول دیا کر کہ پھر ملامت کیا ہوا اور پچھتاتا ہوا بیٹھ جائے یقینًا تیرا رب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی یقینا وہ اپنے بندوں سے با خبر اور خوب دیکھنے والا ہے اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مارڈالا کرو ان کو اور تم کو ہم ہی روزیاں دیتے ہیں یقینًا ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے خبر دار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے تو ہم نے اس کے وارثوں کو طاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقے کے جو بہتر ہے یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے اور وعدے پورے کیا کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے اور جب ناپنے لگو تو بھر پورے پیمانے سے نابو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے سوال کیا جائے گا اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کر کیونکہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے اور سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک سخت ناپسند ہے یہ بھی منجملہ اس وحی کے ہے جو تیری جانب تیرے رب نے حکمت سے اتاری تو خدا کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا کہ ملامت خوردہ اور راندہ درگاہ ہو کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
اخلاق حسنہ اور نیکی
نیکی اور بھلائی اخلاقی حسنہ کی بہترین قسموں میں سے ایک قسم ہے اس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
﴿ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷﴾ (البقرة: 177)
’’ساری بھلائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے سے ہی نہیں بلکہ حقیقتًا بھلا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی پر قیامت کے دن پر فرشتوں اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو۔ جو اس کی محبت میں مال خرچ کرے۔ قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے۔ غلاموں کو آزاد کرے۔ نماز کی پابندی کرے۔ اور زکوۃ کی ادائیگی کرے۔ جب وعدہ کرے۔ تب اسے پورا کرے۔ تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔‘‘
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حق اللہ اور حق العباد کی ادائیگی اخلاق حسنہ کی روح اور جان ہے یعنی ہر حق والے کو پورا حق ادا کرنا اور جو جس درجے کے لائق ہے اس کو اسی درجہ پر رکھنا یہی عدل اور انصاف اور خدا کا امر اور اطاعت ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۹۰ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۹﴾ (النحل: 90-91)
’’اللہ تعالی حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت داروں کو دینے کا اور منع کرتا سے بے حیائی ہے اور نامعقول کام ہے اور سرکشی سے تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو اور پورا کرو عہد اللہ کا، جب آپس میں عہد کرو اور نہ توڑو قسموں کو پکا کرنے کے بعد اور تم نے کیا ہے اللہ کو ضامن اپنا، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
ان آیتوں میں اللہ تعالی نے تین چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور تین چیزوں سے منع فرمایا ہے اس کے ساتھ ایفائے عہد کی بھی تاکید فرمائی ہے گویا اللہ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ کے سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دیا ہے فطری اور اصولی طور پر اجمالی حیثیت سے سب باتیں آ گئی ہیں جن تین چیزوں کا خدا نے حکم دیا ہے وہ یہ میں عدل و احسان ایتاء ذی القربی عدل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے تمام عقائد، اعمال، اخلاقی معاملات، جذبات، اعتدال و انصاف کے ترازو میں تلے ہوں افراط و تفریط سے کوئی پلہ جھکنے یا اٹھنے نہ پائے سخت سے سخت دشمن کے ساتھ بھی معاملہ کرے تو اند ہاتھ سے نہ چھوٹے اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو جو بات اپنے لیے پسند نہ کرتا جو اپنے بھائی کے لیے بھی پسند نہ کرے احسان کے معنی یہ ہیں کہ انسان بذات خود نیکی اور بھلائی کا پیکر بن کر دوسروں کا جلا چاہے مقام عدل وانصاف سے ذرا بلند ہو کر فضل و عفو اور تلطف و ترحم کی خو اختیار کرے فرض ادا کرنے کے بعد تطوع وتبرع کی طرف قدم بڑھائے انصاف کے ساتھ مردت کو جمع کرے اور یقین رکھے کہ جو بھلائی کرے گا خدا اسے دیکھ رہا ہے ادھر سے بھلائی کا جواب ضرور بھلائی کی صورت میں ملے گا ﴿هَلْ جَزَاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الإِحْسَانُ﴾ (سوره رحمن:20)
یہ دونوں خصلتیں یعنی عدل و احسان یا بالفاظ دیگر انصاف و مروت تمہارے اپنے نفس اور ہر ایک خویش و بیگانہ اور دوست دشمن سے متعلق تھیں لیکن اقارب کا حق اجانب سے کچھ زائد ہے جو تعلقات قرابت قدرت نے باہم رکھ دیے ہیں انہیں نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اقارب کی ہمدردی اور ان کے ساتھ مروت واحسان اجانب سے کچھ بڑھ کر ہونا چاہیے گویا احسان کے بعد ذوی القربی کا بالتخصیص ذکر کر کے متنبہ فرما دیا کہ عدل وانصاف تو سب کے لیے یکساں ہے لیکن مروت واحسان کے بعض مواقع بعض سے زیادہ رعایت و اہتمام کے قابل ہیں فرق مراتب کو فراموش کرنا ایک طرح قدرت کے قائم کیے ہوئے قوانین میں دخل اندازی ہے ان تینوں لفظوں کی ہمہ گیری کو پیش نظر رکھتے ہوئے سمجھ دار آدمی فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کون سی فطری خوبی بھلائی اور نیکی دنیا میں رہ گئی ہے جو ان تین فطری اصولوں کے احاطہ سے باہر ہو (فلله الحمد والمنة)
منع بھی تین چیزوں سے کیا ہے فحشاء، منکر، بغی۔ کیونکہ انسانی قوتیں تین ہیں جن کے بے موقع اور غلط استعمال سے ساری خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوتی ہیں قوت شہوت بہیمیہ شہوانیہ قوت وہمیہ شیطانیہ اور قوت سبعیہ غالبًا فحشاء سے وہ بے حیائی مراد ہے جن کا منشا شہوت و بہیمیت کی افراط ہو منکر معروف کی ضد ہے یعنی نامعقول کام جن پر فطرت سلیمہ اور عقل صحیح انکار کرے۔ گویا قوت و ہمیہ شیطانیہ کے غلبہ سے قوت عقیلہ ملکیہ دب جائے۔ تیسری چیز بھی ہے یعنی سرکش کر کے حد سے نکل جانا ظلم و تعدی پر کمر بستہ ہو کر درندوں کی طرح کھانے پھاڑنے کو دوڑنا اور دوسروں کے جان و مال یا آبرو لوٹنے کے واسطے دست درازی کرنا اس قسم کی تمام حرکات قوت سود یہ غصبیہ کے بے جا استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔
الحاصل آیت میں تنبیہ فرما دی کہ انسان جب تک ان تینوں قوتوں کو قابو میں نہ رکھے اور قوت عقلیہ ملکہ کو ان سب پر حاکم نہ بنائے مہذب اور پاک نہیں ہو سکتا۔
اکثم بن صفی نے اس آیت کریمہ کو سن کر اپنی قوم سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ یہ پیغمبر تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں۔ اور کمینہ اخلاق و اعمال سے روکتے ہیں تو تم اس کے ماننے میں جلدی کرو (فَكُونُوا فِي هذا الأمر رُؤسًا وَلَا تَكُونُو فِيهِ أَذْنَابًا) ’’یعنی تم اس سلسلہ میں سر بنو، دم نہ بنو۔‘‘
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا اور محمدﷺ کی محبت جاگزین ہوئی۔
کتاب اور سنت میں اخلاقی باتوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور ہر ایک کو اس پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے ان اخلاقی باتوں کی بہت لمبی فہرست ہے قرآنی اخلاق کی اجمالی فہرست ذیل میں بیان کرنے کے بعد احادیث کی اخلاقی اور اجمالی فہرست بیان کریں گے اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان اخلاقیات کو پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
قرآنی اخلاق
سچ بولنا، جھوٹ کی برائی، علم ہے عمل کی مذمت، عام عضو در گذر، توکل، صبر، شکر، حق پر استقامت، خدا کی راہ میں جان دینا، سخاوت اور خیرات کا حکم، بخل کی برائی، اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت، میانہ روی کی تاکید، عزیزوں قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور پڑسیوں کے ساتھ نیکی۔ مسافروں، سائلوں اور عزیزوں کی امداد۔ غلاموں اور قیدیوں کے ساتھ احسان۔ فخر اور غرور کی برائی۔ امانتداری۔ وعدہ کا ایفاء کرنا۔ عہد کا پورا کرنا۔ معاہدوں کا لحاظ رکھنا۔ صدقہ و خیرات۔ نیکی اور بھلائی کی بات کرنا۔ آپس میں لوگوں کے درمیان محبت پیدا کرنا۔ کسی کو برا بھلا نہ کہنا۔ کسی کو نہ چڑانا۔ نہ برے ناموں سے یاد کرنا۔ والدین کی خدمت واطاعت۔ ملاقاتوں میں باہم بھلائی اور سلامتی کی دعا کرنا۔ حق گوئی۔ انصاف پسندی کی گواہی دینا۔ گواہی کو نہ چھپانا۔ چھوٹی گواہی کا دل کی گناہ گاری پر اثر۔ نرمی سے بات کرنا۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلنا۔ صلح جوئی۔ اتفاق و اتحاد۔ ایمانی برادری۔ انسانی برادری۔ اکل حلال۔ روزی خود حاصل کرنا۔ تجارت۔ گداگری کی ممانعت۔ لوگوں کو اچھی بات کی تعلیم دینا اور بری بات سے روکنا۔ اولاد کی خود کشی اور کسی دوسرے کی ناحق جان لینے کی ممانعت، یتیم کی کفالت۔ اس کے مال و جان کی نیک نیتی کے ساتھ حفاظت۔ ناپ اور تول میں بے ایمانی نہ کرنا۔ ملک میں فساد برپا نہ کرنا۔ بے شرمی کی بات سے روکنا۔ زنا کی حرمت۔ آنکھیں نیچی رکھنا۔ کسی کے گھر بغیر اجازت داخل نہ ہونا۔ ستر اور حجاب۔ خیانت کی برائی۔ آنکھ، کان اور
دل کی باز پرس۔ نیکی کا کام کرنا۔ لغو سے اعراض۔ امانت اور عہد کی رعایت۔ ایثار۔ تحمل۔ دوسروں کو معاف کرنا۔ دشمنوں سے درگذر۔ بدی کے بدلے نیکی کرنا، غصہ کی برائی۔ مناظروں اور مخالفوں سے گفتگو میں آداب کا لحاظ۔ مشرکوں کے بتوں تک کو برا نہ کہنا۔ فیصلہ میں عدل و انصاف۔ دشمنوں تک سے عدل و انصاف۔ صدقہ وخیرات کے بعد لوگوں پر احسان دھرنے کی برائی الاپنے کی مذمت، فسق اور فجور سے نفرت۔ چوری ڈاکہ رہزنی اور دوسروں کے مال کو بے ایمانی سے لینے کی ممانعت۔ دل کا تقوی اور پاکیزگی۔ پاک بازی جتانے کی برائی۔ رفتار میں وقار و متانت، مجالس میں حسن اخلاق، ضعیفوں کے اور عورتوں کے ساتھ نیکی۔ شوہر کی اطاعت۔ بیوی کا حق ادا کرنا۔ ناحق قسم کھانے کی برائی، چغلی خوری۔ طعنہ زنی اور تہت دھرنے کی ممانعت۔ جسم و جان اور کپڑوں کی پاکیزگی اور طہارت۔ شرم گاہوں کی ستر پوشی۔ سائل کو نہ چھڑکنا۔ یتیم کو نہ دبانا۔ خدا کی نعمت کو ظاہر کرنا۔ غیبت نہ کرنا۔ بدگمانی نہ کرنا۔ سب پر رحم کرنا۔ ریا اور نمائش کی نا پسندیگی۔ قرض دینا۔ قرض معاف کرنا۔ سود اور رشوت کی ممانعت۔ ثبات قدمی۔ استقلال اور شجاعت و بہادری کی خوبی۔ لڑائی کے میدان سے نامردی سے بھاگ کھڑے ہونے کی برائی۔ شراب پینے اور جوا کھیلنے کی ممانعت۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا۔ ظاہری باطنی اور ہر قسم کے بے شرمی کی باتوں سے پر ہیز۔ بے غرض نیکی کرنا۔ مال و دولت سے محبت نہ کرنا۔ ظلم سے منع کرنا۔ لوگوں سے بے رحمی نہ کرنا۔ گناہ سے بچنا۔ ایک دوسرے کو حق پر قائم رکھنے کی فہمائیش۔ معاملات میں سچائی اور دیانت داری وغیرہ۔ اگر ان سب کے ثبوت میں قرآن مجید کی آیتیں لکھی جائیں تو ایک دفتر ناکافی ہوگا اگر آپ عالم باعمل ہیں تو قرآن مجید سے ان آیتوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ اب آپ احادیث کے اخلاقیات کی اجمالی فہرست ملاحظہ فرمائیں۔
احادیث کے اخلاقیات کی اجمالی فہرست
صلہ رحمی۔ ماں باپ کے ساتھ سلوک۔ بچوں سے محبت۔ چھوٹوں کی محبت اور بڑوں کی عزت۔ اپنے بھائی کے لیے اپنے ہی مانند چاہنا۔ ہمسائے کے ساتھ سلوک۔ غلاموں کا قصور معاف کرنا۔ اہل وعیال کی پرورش۔ یتیموں کی پرورش۔ بیوہ کی خبر گیری۔ حاجتمند کی امداد۔ اندھوں کی دستگیری۔ عام انسانوں کے ساتھ ہمدردی۔ قرض داروں پر احسان۔ فریادیوں کی فریادری، خلق کو نفع رسانی مسلمانوں کی خیر خواہی۔ جانوروں پر شفقت اور ہم محسنوں کی شکر گذاری۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق۔ بیماروں کی خدمت و عیادت۔ رشک و حسد کی ممانعت۔ شجاعت بہادری۔ لڑائی کے میدان سے بھاگنے کی برائی۔ امیر و امام کی اطاعت۔ مداومت عمل۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنا۔ شیریں کلامی، خوش خلقی ، فیاضی۔ بد زبانی سے اجتناب۔ مہمان نوازی۔ شرم و حیاء۔ علم و وقار۔ غصہ کو ضبط کرنا۔ عفو و در گذر۔ صبر و تحمل۔ حسب و نسب پر فخر اور قمار بازی کی مذمت۔ بدگمانی کی برائی۔ کسی کے گھر میں بلااجازت داخل نہ ہونا، دوسروں کے گھر جا کر ادھر ادھر نہ دیکھنا۔ دوسرے بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے دعا کرنا۔ رفق ونری۔ قناعت۔ استغفار۔ گداگری کی ممانعت۔ تہمت لگانے کی برائی۔ غیبت کی ممانعت۔ اپنے گناہوں کی پردہ پوشی۔ اپنے بھائیوں کے عیوب پر پردہ ڈالنا۔ چغل خوری کی ممانعت۔ بغض اور کینہ کی ممانعت۔ دوسرے کی ٹوہ لگانے کی ممانعت۔ کبر و غرور کی مذمت۔ ہنسی مذاق کی برائی۔ راز داری۔ تواضع و خاکساری۔ امانتداری۔ گالی کی ممانعت۔ منہ پر مدح و ستایش کی ممانعت۔ نفس انسانی کا احترام۔ ظلم کی ممانعت۔ عدل و انصاف۔ تعصب کی ممانعت۔ سخت گیری کی ممانعت۔ غم خواری و غم گساری۔ توکل۔ لالچ کی برائی۔ رضا بالقدر۔ ماتم کی ممانعت۔ قمار بازی کی ممانعت۔ سچائی کی ہدایت اور جھوٹ کی ممانعت۔ جھوٹی گواہی کی ممانعت، جھگڑا اور فساد کرنے کی ممانعت۔ باہم مصالحت کرانا۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے۔ منافقت اور دورخی چال کی ممانعت۔ وعدہ خلافی کی ممانعت۔ خیانت اور فریب کی ممانعت۔ شراب خوری اور زناکاری اور چوری کی ممانعت۔ طہارت اور صفائی۔ دوست و احباب کی ملاقات۔ اسلام و تحیہ۔ مصافحہ و معانقہ۔ دیگر آداب ملاقات، آداب مجلس۔ آداب طعام۔ آداب لباس۔ آداب نشست و برخاست۔ خانہ داری کے آداب۔ سونے جاگنے کے آداب۔عورتوں کے متعلق خاص آداب و اخلاق اور سلوک کے احکام۔
اگر ان سب کی حدیثیں لکھی جائیں تو بہت لمبا مضمون ہو جائے گا ہم نے اسلامی اخلاق وآداب کے بارے میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں کا مدلل بیان آیا ہے طالب اخلاق کے لیے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے اور سیرت النبی کے اخلاق کا حصہ جو پانچویں جلد میں ہے اسی طرح دوسری اخلاقیات کی کتابوں کا مطالعہ بھی بہت ضروری ہے۔ تصور کرنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ اسلام کے ہر ہر حکم میں اخلاق مضمر ہے یہ اسلام ہی کی خوبی ہے کہ اس نے حسن اخلاق کے تمام پہلوؤں کو بیان کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔
(بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ حُسنَ الْأَخْلاقِ)[1]
’’میں حسن اخلاق کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘
آئندہ ہم انشاء اللہ نبی کریمﷺ کے اخلاق حسنہ کو مستقل ایک خطبہ میں بیان کریں گے۔ اللہ تعالی ہم سب کو نبی ﷺ کے اخلاق حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مؤطا امام مالك: ص 705 كتاب المجامع باب ما جاء في من الحلق و مسند احمد: 381/2۔