اسلامی لباس

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ ؕ ﴾ (الاعراف:26)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے آدم کے بیٹو! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے جو تمہارے ستر کو ڈھانپتا ہے اور تمہارے لیے زینت بھی ہے۔ اور تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔‘‘
انسان کے لیے ستر پوشی نہایت ضروری ہے حیوان اور انسان میں لباس ہی سے فرق ظاہر ہوتا ہے۔ یہ لباس سردی گرمی سے بچاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ستر پوشی کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ ستر پوشی اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہے جیسا کہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے ان دونوں کو جنت کے بہترین جوڑے پہننے کو ملے تھے یہ پہنتے رہے لیکن اللہ تعالی کی نافرمانی کی وجہ سے وہ لباس ان کے بدن سے اتر گئے تو درخت کے پتوں سے اپنی شرمگاہوں کو چھپا لیا جیسا کہ اللہ تعالی نےفرمایا۔
﴿ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ؕ ﴾ (اعراف: 22)
’’پس جب ان دونوں نے درخت کا مزہ چکھا ان کے ستر ان پر کھل گئے تو اپنے اوپر درخت کے پتوں کو جوڑنے لگے۔‘‘
یہ بر ہنگی جس طرح فطرت کے خلاف ہے اسی طر ح عقل اور شریعت کے خلاف ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا يَنظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ.)[1]
’’کوئی مرد کسی مرد کے پردے کے اعضاء نہ دیکھے اور کوئی عورت کسی عورت کے پردے کے اعضاء نہ دیکھے۔‘‘
یوں تو تمام بدن کو چھپانا مناسب ہے مگر مردوں کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک اور عورتوں کے لیے چہرے اور ہاتھوں کے سوا سارا بدن چھپانا فرض ہے ان حصوں کا کھلا رہنا کسی صورت میں جائز نہیں۔
سفید کپڑا
سب کپڑوں میں سے سفید کپڑے زیادہ اچھے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اِلْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمُ الْبَيَاضَ فَإِنَّهَا مَنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ وَ كَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ)[2]
’’سفید کپڑے پہنو۔ کیونکہ سب کپڑوں میں سفید کپڑے بہتر ہوتے ہیں اور ان ہی کپڑوں میں اپنے مردوں کو دفن کرو۔‘‘
سرخ کپڑے
زیادہ سرخ کپڑا مردوں کے لیے مناسب نہیں عورتوں کے لیے مباح ہے اور سیاہ اور سبز عورتوں اور مردوں کے لیے یکساں جائز ہے لیکن سیاہ کے ساتھ دوسرا رنگ بھی ہونا چاہیے۔
ریشم: مردوں کے لیے ریشم اور سونا حرام ہے اور عورتوں کے لیے دونوں حلال ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے ریشم کو دائیں ہاتھ میں اور سونے کو بائیں ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔
ساده لباس: سادگی ہر چیز میں اچھی ہے کھانے پینے میں بھی اور لباس میں بھی رسول اللہﷺ کا لباس ہمیشہ ہی سادہ رہتا تھا، موٹا کرتہ، موٹی چادر اور موٹا تہبند زیب تن فرمایا کرتے تھے اور کبھی تو پیوند لگا ہوا بھی پہن لیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح مسلم: [2] ابو داؤد: کتاب اللباس، باب فی البیاض 90/4۔
[3] مسند احمد: 1/ 96 ابوداؤد كتاب اللباس، باب في الحديث للنساء 89/4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کپڑے میں کوئی تکلف نہیں تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک مرتبہ صبح کو گھر سے باہر تشریف لے گئے تو آپ کے بدن پر سیاہ بالوں کی چادر تھی۔[1]
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ ایک شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔[3]
حضرت ابو ہرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے:
(اَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا كِسَاءً مُلَبَّدًا وَإِزَارًا غَلِيظًا فَقَالَتْ قَبِضَ رُوحُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَين)[3]
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک موٹا تہبند نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ روح مبارک ان ہی دو کپڑوں میں نکلی تھی۔‘‘
یعنی انتقال کے وقت آپ ایک پیوند لگی ہوئی چادر یا پیوند لگے ہوئے کمبل کو اور ایک موٹا تہند پہنے ہوئے تھے معلوم ہوا کہ آپ کو موٹا اور معمولی کپڑا زیادہ پسند تھا، کیونکہ اس میں خاکساری اور تواضع ہے۔ قیمتی اور بھڑکیلا لباس پہننے سے اس میں تکبر غرور اور خود بینی کے جذبات آ جاتے ہیں۔
کرتہ: حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ سب کپڑوں میں رسول اللہ ﷺ کو کرتہ زیادہ پسند تھا۔[4]
کرتہ زیادہ پسند ہونے کی وجہ یہ بیان کیجاتی ہے کہ کرتے سے بدن اچھی طرح ڈھک جاتا ہے اور اس میں زیادہ خاکساری اور انکساری بھی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کرتے کی آستین پہنچے تک تھی۔[5]
پائجامه: پائجامہ ستر پوشی کے لیے بہترین لباس ہے رسول اللہ ﷺ نے اسے بہت پسند فرمایا ہے اور خریدا بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم كتاب المباس، باب التواضع في اللباس۔
[2] بخاري، كتاب الصلوة باب الصلوة في الجبة۔
[3] بخاري، كتاب اللباس، باب الأكسية و الخمائص۔
[4] ابوداؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في القميص:76/4۔
[5] ترمذی، کتاب البیوع،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ابن القیم صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے پائجامہ خریدا ہے اور بظاہر پہنے کے لیے خریدا ہے اور دوسری روایتوں سے پائجامہ پہنے کا ثبوت بھی ملتا ہے اور صحابہ کرام آپ کی اجازت سے پائجامہ پہنتے تھے۔ (زاد المعاد)
تہ بند
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ منتقی میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
(قُلْنَا يَارَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَتَسَرْوَلُونَ وَلَا يَأْتَزِرُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسَرْوَلُو او انْتَزِرُوْا خَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ)[1]
’’ہم لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! یہود و نصاری پائجامہ پہنتے ہیں اور تہ بند نہیں باندھتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ تم یا ئجامہ پہنو اور تے بند باندھو اور اہل کتاب کے خلاف کرو۔‘‘
ان تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ پائجامہ پہننا بھی مسنون ہے لیکن رسول اللهﷺ زیادہ تر تہبند ہی باندھا کرتے تھے آپ کا تہبند چار ہاتھ لمبا اور دو ہاتھ چوڑا ہوتا تھا اور پنڈلی تک ہوتا تھا۔
چادر: رسول اللہﷺ چادر اوڑھتے بھی تھے اور نماز بھی اس میں پڑھتے تھے اور علماء نے کہا ہے کہ آپ کی چادر چھ ہاتھ لمبی اور سوا تین ہاتھ چوڑی ہوتی تھی۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ زادالمعاد جلد اول میں فرماتے ہیں: علامہ واقدی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ کی چادر چھ ہاتھ لمبی اور سوا تین ہاتھ چوڑی ہوتی اور آپ کا تبند سوا چار ہاتھ لمبا اور سوا دو ہاتھ چوڑا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو چادروں میں یمن کی چادر بہت پسند تھی۔[2]
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایک سرخ جوڑا پہنے ہوئے اور تہبند باندھے ہوئے اور چاور اوڑھے ہوئے دیکھا۔[3]
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک روز صبح کے وقت رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے تو آپ کے جسم مبارک پر سیاہ رنگ کے بالوں کی چادر تھی۔[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 264/5۔
[2] بخاري: کتاب اللباس، باب البرود و الخبر و الشملة۔
[3] بخاري: كتاب اللباس، باب الثوب الأحمر۔
[4] مسلم: كتاب اللباس، باب المواضع في اللباس۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پگڑی اور ٹوپی: سر چھپانے کے لیے ٹوپی اور پگڑی کا استعمال عرب میں خصوصی طور پر رائج تھا آنحضرت ﷺ بھی پگڑی باندھتے تھے اور صحابہ کو بھی ترغیب دیتے تھے۔
آپ کے عمامہ کے مقدار کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی ہے بعض لوگ سات ہاتھ اور بعض بارہ ہاتھ کا بتاتے ہیں اور آپ کا شملہ چار بالشت کا ہوتا جسے پس پشت لگائے رہتے فتح مکہ کے روز جب آپ شہر میں داخل ہوئے تھے تو آپ کے سرمبارک پر سیاہ عمامہ تھا یعنی آپ سیاہ عمامہ باندھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ عمامہ باندھتے تو دونوں مونڈھوں کے درمیان یعنی پچھلی جانب شملہ ڈال دیتے تھے۔[1]
بہر حال عمامہ کے بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمامہ باندھنا سنت ہے اور اسلام کا شعار ہے لیکن موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے عموما اس کو چھوڑ دیا ہے اور سکھوں نے اپنا شعار بنا لیا۔
رومی جبه: رسول اللہ ﷺ نے تنگ آستیوں کا رومی جبہ پہنا ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ بھی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ (غزوہ تبوک میں) قضائے حاجت کے لیے گئے پھر جب واپس تشریف لائے تو میں پانی لے کر پہنچا آپﷺ نے وضو کیا اس وقت آپ ایک رومی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ [2]
اچکن اور شیروانی:
حضرت محرمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے مسور سے کہا کہ مجھ کو خبر ملی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس (کہیں سے) اچکنیں آئی ہیں آپ تقسیم کر رہے ہیں۔ چلو ہم بھی آپ کے پاس چلیں (شاید ہم کو بھی کوئی اچکن اور شیروانی مل جائے) ہم باپ بیٹے مل کر گئے دیکھا تو آپ گھر میں ہیں۔ والد نے مجھ سے کہا آنحضرت ﷺ کو آواز دو۔ میں نے اس کو برا سمجھا اور والد سے کہا میں رسول اللہ ﷺ کو آواز دوں؟ انہوں نے کہا بیٹے رسول اللہﷺ مغرور نہیں ہیں۔ میں نے آپﷺ کو بلایا۔ آپ دیباج کی ایک اچکن جس میں سنہری بٹن لگے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذی، کتاب اللباس، باب سدل العمامة الكتفين 3/ 48۔
[2] بخارى كتاب الصلوة باب الصلوة في الجبة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھے ( کندھے یا ہاتھ پر ) ڈالے ہوئے تشریف لائے اور فرمانے لگے۔ مخرمہ میں نے یہ اچکن تیرے لیے چھپا رکھی تھی پھر وہ ان کو دے دی۔[1]
اچھا لباس اور زیب وزینت
شریعت کے دائرے میں رہ کر اچھا لباس پہننا اور زینت کرنا بھی درست ہے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ (اعراف: 31)
’’عبادت کے وقت زینت کی چیزوں کو پہنو۔‘‘
(انَّ اللهَ يُحِبُّ أن يُّرَى آثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ)[2]
’’اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جو نعمتیں اس نے اپنے بندے کو دے رکھی ہیں ان کا اثر اس پر دکھائی دے۔“
یعنی اگر اللہ تعالی نے کسی بندے کو اچھی حیثیت عطا فرمائی ہے تو اچھا لباس استعمال کرنا چاہیے اور باوجود وسعت کے بجیلی کی وجہ سے خراب لباس استعمال کرنا اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناقدری کرتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے اس امر کی خواہش رہتی ہے کہ میرے کپڑے عمدہ ہوں سر میں تیل لگا ہوا ہو جوتی بھی اچھی ہو اور بہت سی چیزوں کا اس نے ذکر کیا یہاں تک کہا کہ مجھے خواہش رہتی ہے کہ میرا کوڑا بھی اچھا ہو۔ آپﷺ نے سن کر فرمایا:
(انَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الجَمَال)[3]
’’اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا یہ تکبر ہے کہ میں عمدہ لباس پہنوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ یہ تو خوب صورتی ہے اور خدا اس خوب صورتی کو پسند فرماتا ہے۔[4]
باریک لباس
لباس ستر پوشی کیلئے ہے اور ایسا باریک لباس پہننا جس سے بدن کا اندرونی حصہ صاف نظر آجائے نا جائز ہے کیونکہ اس سے لباس کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ایسا باریک لباس عورت و مرد دونوں کے لیے حرام ہے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب اللباس، باب القباء وفروج حرير وهـوالقباء ( 5800) 863/2۔
[2] ترمذي، کتاب الادب، باب ماجاء ان الله يحب الى اثر نعمته على عبده:25/4
[3]، [4] مسلم: كتاب الإيمان، باب تحريم الكبر وبيانه.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(يَا أَسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ يُصْلِحْ أَنْ يُرِى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَاوَأَشَارَ إِلٰى وَجْهِهِ وَکفیه)[1]
’’اے اسماء ! جب عورت بالغ ہو جائے تو درست نہیں ہے کہ اس کی جسم سے کوئی حصہ دیکھا جائے سوائے اس کے اور ان کے یہ فرما کر آپﷺ نے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(صِفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمُ اَرَهُمَا قَوْمٌ مَّعَهُمْ سِيَاطٌ كَاَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنَسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُؤسُهِنَّ كَاَسْمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ ريحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيَوجَدُ مِنْ مَّسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا)[2]
’’دو قسم کے دوزخی لوگ ہیں جن کو ابھی تک میں نے دیکھا نہیں ایک۔ وہ لوگ جن کے ساتھ گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ظلماً کوڑے ماریں گے (یعنی حاکم وغیرہ ظالم ہوں گے چنانچہ موجودہ زمانے میں ایسے لوگ حکمران ہیں) اور دوسرے وہ عورتیں جو بظاہر میں کپڑے پہنے ہونگی اور حقیقت میں وہ ننگی ہوں گی اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور فریفتہ کرنے والی ہوں گی اور خود بھی ان کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی اور ان کی طرف نسبت کریں گی اور ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ایک جانب جھکے ہوں گے۔ وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو یا میں بھی حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے پائی جائے گی۔‘‘
یعنی وہ باریک کپڑے پہنے ہوں گی جس سے ان کا بدن جھلکے گا گویا ظاہر میں ملبوس میں مگر حقیقت میں عریان ہیں چنانچہ اس زمانہ میں اسی قسم کی عورتیں موجود ہیں یا چہرے کے علاوہ بھی کچھ بدن ڈھانکتی ہیں اور کچھ کھلا رکھتی ہیں دوپٹہ کو پیٹھ پر ڈال کر سینے گردن اور بازو اور پاؤں کھلے رکھتی ہیں اور ان اعضاء کو کھول کر لوگوں کو فریفتہ کرتی ہیں۔ علامہ نووی شرح صحیح مسلم میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ بدن کے کچھ حصہ کو پوشیدہ کریں کی اور کچھ حصہ کو ظاہر کریں گی اور بدکار عورتوں کی طرح نازوانداز سے چلیں گی جس سے لوگوں کو فریفتہ کریں گی۔
اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن میں باریک کپڑا پہننے کی ممانعت ہے جو ترغیب اور منتقی وغیرہ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابوداود: کتاب اللباس، باب فيما تبدى المرأة من زينتها 106/4۔
[2] مسلم: کتاب الجنة نعيمها-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منقول ہیں اگر کوئی موٹا کپڑت ہے تو اوپر سے باریک کپڑا پہننے میں حرج نہیں ہے۔ اور عورتوں کے لیے چست کپڑا پہننا حرام ہے جس سے اعضاء نمایاں ہوتے ہیں۔
عورتوں کو ’’مستوارت‘‘ کہتے ہیں اور مستورات کے معنی میں چھپی ہوئی چیزیں یعنی سوائے چہرہ اور ہتھیلی کے عورت کے لیے سارا جسم چھپانا ضروری ہے یہاں تک کہ سر اور دونوں ہاتھوں کو اور پیر تک سارا جسم کپڑے سے ڈھانکے رہیں۔ بازوؤں کا کھلا رہنا بے پردگی میں داخل ہے۔ صحابیہ عورتیں پورے ہاتھ کی آستینیں رکھتی تھیں اور انگلیوں کے درمیان بٹن لگانی تھیں جیسا کہ بخاري شریف میں ہے کہ حضرت ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنی آستینوں کی گھنڈیاں اپنی انگلیوں کے درمیان رکھتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس باریک اوڑھنی کو پھاڑ کر پھینک دیا اور دوسری غف اور موٹی اوڑھنی اوڑھنے کو دی۔[1]
پرانا لباس
لباس جب پرانا ہو جائے اور پھٹ جائے تو پیوند لگا کر اور مرمت کر کے استعمال کرنا سنت ہے اور تواضع و خاکساری کی نشانی ہے۔
اور ٹخنوں کے نیچے پائجامہ لنگی اور چادر وغیرہ لٹکا کر اکڑ کر چلنا حرام ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔
(لَا يَنْظُرُالله يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلٰى مَنْ جَرَّ إِزَارَة بَطَراً)[2]
’’جو ٹخنوں کے نیچے کپڑا شیخی کے طور پر لٹکا کر چلے گا تو قیامت کے روز اللہ تعالی اس کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایسا شخص جہنمی ہے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا (وَارْفَعْ إِزَارَكَ إلى نِصْفِ السَّاقِ فَإِن أبيتَ فَإِلٰى الْكَعْبَيْنِ وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ[4]
’’اپنا تہبند آدھی پنڈلی تک اونچا رکھو اگر اتنا نہیں تو ٹخنوں تک رکھوا، اورتہبند کو نیچے لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ وہ تکبر ہے اور اللہ تعالی تکبر پسند نہیں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذی و ابن ماجه۔ [2] بخاري، کتاب اللباس، با من خر ثوبه۔
[3] بخاري، کتاب اللباس، باب ما اسفل من الكعبين فهو في النار (5787)
[4] ابوداود۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیا کپڑا پہننے کی دعا
رسول الله ﷺ جب نیا کپڑا پہنتے تو جو اس کپڑے کا نام ہوتا وہ نام لیتے یعنی کرتے، چادر عمامہ وغیرہ اور پہنتے وقت بسم اللہ کر کے ان دعاؤں کو پڑھتے۔
(اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى كَسَانَى مَا أَوَارِي بِهِ عَوْرَ تِی وَاَتَجَمَّلُ بِهِ فِى حَيٰوتِى)[1]
’’سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے وہ چیز پہنائی جس سے میں نے اپنی شرمگاہ چھپا لی اور اس سے میں اپنی زندگی میں غنیمت حاصل کرتا ہوں۔“
(اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ اَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ اَسْئَلُكَ خَيْرَهُ وَخَيْرَ مَا صُنِعَ لَهُ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِهِ وَ شَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ)[2]
”اے اللہ! ہر قسم کی تعریف تیرے لیے ہی ہے تو نے مجھے کپڑا پہنایا میں اس کپڑے کی بھلائی تجھے سے مانگتا ہوں اور اس بھلائی کا طالب ہوں جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اور اس کپڑے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس چیز کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔‘‘
کپڑا پہنتے وقت داہنے طرف سے پہننا چاہیے۔[3]
انگوٹھی:
ضرورت کے وقت چاندی کی انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا مسنون ہے۔ نگینہ میں نام یا کوئی ضروری چیز کا لکھنا بھی سنت ہے رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور نگینہ میں ”محمد رسول الله“ ﷺ کا لفظ لکھا ہوا تھا۔[4]
جوتا: رسول اللہﷺ جوتا پہنتے تھے جو موجودہ زمانے کے چپل کی طرح تھا جس کے دو تسمے تھے۔[5]
اور آپﷺ نے فرمایا: ’’جب جوتا پہنو تو پہلے داہنے پیر میں پہنو اور جب اتارو تو پہلے بائیں پیر سے اتارو۔[6]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]ابو داؤد، کتاب اللباس، باب 74/4۔
[2] ترمذي، کتاب اللباس، باب ما يقول اذا لبس ثوبا جديدًا: 64/3۔
[3] صحيح ابن حبان (5398) [4]بخاري، كتاب اللباس، باب خاتم الفضة۔ [5] بخاري: كتاب اللباس باب قبالان في النعل. [6] بخاري: کتاب اللباس، باب ينزع نعله اليسرى۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موزے: چمڑے کے موزوں کو پہننا اور اس پر مسح کرنا بھی ثابت ہے رسول اللہﷺ موزے پہنتے اور اس پر مسح کر لیا کرتے تھے۔[1]
جوتوں اور موزوں کو پہننے سے پہلے جھاڑ لینا چاہیے تاکہ گرد و غبار سے بھی صاف ہو جائے اور اگر کوئی تکلیف دہ چیز ہو تو نکل جائے۔
اس طرح سے سوتے وقت بستر بھی جھاڑ لینا چاہیے اور اگر کپڑا صندوق میں سے نکال کر پہننا ہو یا الگنی وغیرہ سے اتار کر پہننا ہو تو ا سے خوب جھاڑ کر پہننا چاہیے۔
کنگھی: بالوں میں تیل لگانا اور کنگھی کرنا مستحب ہے اور پراگندہ مکروہ ہے رسول اللہ ﷺ نے نظافت اور صفائی ستھرائی کی بہت ترغیب دلائی ہے۔ آپ بالوں میں کنگھی کرتے تھے اور تیل بھی استعمال فرماتے تھے۔ اور آپ گاہے بگاہے کنگھی کرتے تھے کنگھی کرنے سے منع فرماتے تھے۔[2]
سر کے بالوں کو منڈوانا اور کترانا درست ہے پٹھے دار بالوں کا کانوں تک رکھنا مسنون ہے۔ داڑھی منڈوانا حرام ہے اور مونچھوں کا کٹانا اور پست کرنا ضروری ہے۔[3]
ناخن تراشنا اور بغل اور زیر ناف کے بال صاف کرنا مسنون ہے۔[4]
سفید بالوں میں خضاب لگانا مستحب ہے[5] لیکن زیادہ سیاہ خضاب نہ ہو بالکل کالا خضاب لگانا منع ہے سفید بالوں کو اکھاڑنا حرام ہے۔[6]
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اسلامی تہذیب اور روایات پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین (سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلِمِيْنَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] امام ابن عبدالبر، الاستذکار میں فرماتے ہیں موزوں پر مسح کی روایت 40 صحابہ سے مروی ہے۔ بخارى كتاب الصلوة باب الصلوة في الخفات۔
[2] سنن نسائی، کتاب الزينة باب الترجل غبا (5061)۔ [3] بخاري: كتاب اللباس باب اعفاء اللحى. [4] بخاري کتاب اللباس، باب تقليم الاظفار. [5] مسلم: کتاب اللباس، باب استحباب خضاب الشيب۔ [6] ترمذی، کتاب الادب، باب ماجاء فى النهى عن نتف الشيب: 25/4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔