اسلامی ملک اور اس کی سرحدوں کے دفاع کی اہمیت و فضیلت شریعت کی روشنی میں
اپنا دفاع مضبوط کرنے کا حکم الہی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا (النساء : 71)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے بچائو کا سامان پکڑو، پھر دستوں کی صورت میں نکلو، یا اکٹھے ہو کر نکلو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران : 200)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور مقابلے میں جمے رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
عسکری تربیت کا مقصد بھی دفاع مضبوط کرنا ہی ہے
فرمایا
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (الأنفال : 60)
اور ان کے لیے جتنی کر سکو قوت کی صورت میں اور تیار بندھے گھوڑوں کی صورت میں تیاری رکھو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو ڈرائو گے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو بھی جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انھیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اس آیت مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ جہادی، عسکری ٹریننگ کا مقصد دشمنوں کو مرعوب اور دھشت زدہ کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس سے مسلمان محفوظ و مامون ہوں گے
کفار کی خواہش ہے کہ مسلمان غافل رہیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً (النساء : 102)
وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا چاہتے ہیں کاش کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامانوں سے غفلت کرو تو وہ تم پر ایک ہی بار حملہ کر دیں۔
اس آیت مبارکہ میں کفار کی ایک خواہش کا تذکرہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ کسی نہ کسی طرح مسلمان اپنے دفاع، آلات حرب وضرب، اور عسکری تربیت سے غافل ہوں تو ہم ان کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر حملہ کر سکیں
جبکہ اوپر والی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے غفلت سے منع کرتے ہوئے اپنی اپنی طاقت کے مطابق ہروقت عسکری تیاری میں مگن رہنے کا حکم دیا ہے
اس سے معلوم ہوا کہ کفار مسلمانوں کو غفلت میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بیدار رکھنا چاہتے ہیں
اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم کس کی خواہش پوری کرتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی سیکیورٹی کے لیے زبردست اھتمام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسباب حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ استنجاء کے لئے تشریف لے جاتے تب بھی نیزہ ساتھ ہوتا تاکہ کیڑے ، مکوڑوں سے حفاظت ہو سکے
اور نماز کے لیے جاتے تو تب بھی نیزہ وغیرہ ساتھ رکھتے
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
«يَدْخُلُ الخَلاَءَ، فَأَحْمِلُ أَنَا وَغُلاَمٌ إِدَاوَةً مِنْ مَاءٍ وَعَنَزَةً، يَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ» (بخاری ،كِتَابُ الوُضُوءِ،بَابُ حَمْلِ العَنَزَةِ مَعَ المَاءِ فِي الِاسْتِنْجَاءِ،152)
پاخانے میں جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن اور نیزہ لے کر چلتے تھے۔ پانی سے آپ طہارت کرتے تھے
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے
فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَالعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ (بخاري ،كِتَابُ الوُضُوءِ،بَابُ اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوءِ النَّاسِ،187)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں اور آپ کے سامنے ( آڑ کے لیے ) ایک نیزہ تھا
مگر آج ہمارے معاشرے میں یہ رجحان کہ گھر میں سانپ مارنے اور کتوں کو بھگانے کے لئے لاٹھی تک میسر نہ ہو، انتہائی غیر دانشمندانہ بات ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی ریاست کی پہرہ داری کرتے ہوئے
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ : لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ، ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا ، أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ (بخاری 2908)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر ( ایک آواز سن کر ) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں پڑاؤ کرتے تو پہرہ لگاتے
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں غزوہ ذات الرقاع کے لیے نکلے تو کسی مسلمان نے مشرکین میں سے کسی کی بیوی کو قتل کر دیا ، تو اس مشرک نے قسم کھائی کہ میں اصحاب محمد میں خون بہا کر رہوں گا ۔ چنانچہ وہ نبی کریم ﷺ کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرنے لگا ۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور فرمایا ” کون ہمارا پہرہ دے گا ؟ “ تو اس کام کے لیے ایک مہاجر اور ایک انصاری اٹھے ۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ” تم دونوں اس گھاٹی کے دہانے پر کھڑے رہو ۔ “ جب وہ دونوں اس کے دہانے کی طرف نکلے ( تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیں گے ) چنانچہ مہاجر لیٹ گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا ( اور پہرہ بھی دیتا رہا ۔ ) ادھر سے وہ مشرک بھی آ گیا ۔ جب اس نے ان کا سراپا دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ اس قوم کا پہریدار ہے چنانچہ اس نے ایک تیر مارا اور اس کے اندر تول دیا ۔ اس ( انصاری ) نے وہ تیر ( اپنے جسم سے ) نکال دیا ( اور نماز میں مشغول رہا ) حتیٰ کہ اس نے تین تیر مارے ۔ پھر اس نے رکوع اور سجدہ کیا ۔ ادھر اس کا ( مہاجر ) ساتھی بھی جاگ گیا ۔ اس ( مشرک ) کو جب محسوس ہوا کہ ان لوگوں نے اس کو جان لیا ہے ، تو بھاگ نکلا ۔ مہاجر نے جب انصاری کو دیکھا کہ وہ لہولہان ہو رہا ہے تو اس نے کہا : «سبحان الله» ! تم نے مجھے پہلے تیر ہی پر کیوں نہ جگا دیا ؟ اس نے جواب دیا ” میں ایک سورت پڑھ رہا تھا ، میرا دل نہ چاہا کہ اسے ادھوری چھوڑوں
(ابو داؤد، كِتَابُ الطَّهَارَةِ، بَابُ الْوُضُوءِ مِنْ الدَّمِ،198حسن)
تم نے اپنے لیے اس پہرے کی وجہ سے جنت واجب کرلی ہے
سیدنا سہل بن حنظلیہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ( ہم ) لوگ غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے اور بہت لمبی مسافت طے کی حتیٰ کہ پچھلا پہر ہو گیا ۔ سو میں نماز کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر تھا کہ ایک گھوڑ سوار آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے آگے آگے چلتا رہا حتیٰ کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھ گیا تو دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے سب لوگ اپنی عورتوں ، چوپاؤں اور بکریوں سمیت حنین کی طرف جمع ہو رہے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرمایا اور کہا : ” کل انشاءاللہ یہ سب مسلمانوں کی غنیمت ہو گا ۔ “ پھر فرمایا ” آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا ؟ “ سیدنا انس بن ابی مرثد غنوی ؓ نے کہا : میں ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا ” تو سوار ہو جاؤ ۔ “ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ۔ آپ نے اس سے فرمایا ” اس گھاٹی کی طرف چلے جاؤ حتیٰ کہ اس کے اوپر چڑھ جاؤ اور ایسا نہ ہو کہ رات میں ہم تمہاری طرف سے دھوکہ کھا جائیں ۔ “ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ اپنے مصلے پر تشریف لائے اور دو رکعتیں پڑھیں ۔ پھر دریافت فرمایا ” کیا تم نے اپنے سوار کو دیکھا ہے ؟ “ صحابہ نے کہا : نہیں ، اے اللہ کے رسول ! ہم نے اس کو نہیں دیکھا ہے ۔ پھر نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور رسول اللہ ﷺ نماز پڑھانے لگے اور اس دوران میں آپ گھاٹی کی طرف بھی دیکھتے رہے حتیٰ کہ جب نماز مکمل کر لی اور سلام پھیر لیا تو فرمایا ” خوشخبری ہو ، تمہارا سوار آ گیا ہے ۔ “ پس ہم بھی درختوں میں سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے ، تو وہ سامنے آ گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کھڑا ہوا ۔ اس نے سلام کیا اور کہا : میں ( آپ کے ہاں سے ) روانہ ہوا حتیٰ کہ اس گھاٹی کے اوپر چڑھ گیا جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے حکم فرمایا تھا ، جب صبح ہوئی تو میں نے دونوں گھاٹیوں میں دیکھا تو مجھے کوئی شخص نظر نہیں آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا : ” کیا تم رات کو ( گھوڑے سے ) اترے بھی تھے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ، صرف نماز پڑھنے یا قضائے حاجت کے لیے ہی اترا ہوں ۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : ” تم نے اپنے لیے لازم کر لی ( جنت ) تم اس کے بعد اور کوئی عمل نہ بھی کرو تو کوئی مؤاخذہ نہیں ۔ “
(ابوداؤد، کتَابُ الْجِهَادِ،بابٌ فِي فَضْلِ الْحَرْسِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى2501صحیح)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوہ سے واپسی پر کہیں پڑاؤ کیا تو سونے سے پہلے صحابہ سے فرمایا کہ ہمیں صبح کون بیدار کرے گا
فطرانہ کا مال جمع ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مال فطرانہ کی پہرے داری پر مقرر کیا
سیکیورٹی کے مد نظر خندق کھودنے والے صحابہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بخشش کی دعا کرتے ہیں
غزوہ خندق میں جو لوگ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے مجموعی طور پر ان سب کی تعداد دس ہزار تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کا اندازہ کرکے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے ان سمتوں میں خندق کھدوائی اور عام مسلمانوں کے ساتھ خود بھی زمین کھودنے اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے رہے۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف نکلے تو مہاجرین و انصار سردی میں صبح صبح خندق کھود رہے تھے، ان کے پاس کوئی غلام نہ تھے، جو ان کے بجائے یہ کام سرانجام دیتے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشقت اور بھوک کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا :
اَللّٰهُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَهْ
فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرَهْ
’’اے اللہ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔‘‘
صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں کہا :
نَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَي الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَا
’’ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد پر بیعت کی ہے، ہمیشہ کے لیے، جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے۔‘‘
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواب میں کہتے :
اَللّٰهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلاَّ خَيْرُ الْآخِرَهْ
فَبَارِكْ فِي الْأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرَهْ
’’اے اللہ! خیر تو بس آخرت ہی کی خیر ہے، سو تو انصار و مہاجرین میں برکت فرما۔‘‘
انسانی جان کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ دوران نماز موذی جانور کو قتل کرنے کا حکم ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ : الْحَيَّةُ، وَالْعَقْرَبُ. (ترمذی الجزء رقم :1، الصفحة رقم:414 390رقم الحدیث، صحیح)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو موذی جانوروں سانپ اور بچھو کو دوران نماز(بھی) قتل کرنے کا حکم دیا
انسانی حفاظت کی غرض سے پانچ فاسق جانوروں کو حرم میں بھی مارنے کا حکم
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
خَمْسٌ فَوَاسِقُ، يُقْتَلْنَ فِي الحَرَمِ: الفَأْرَةُ، وَالعَقْرَبُ، وَالحُدَيَّا، وَالغُرَابُ، وَالكَلْبُ العَقُورُ (بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ،بَابٌ: خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ فَوَاسِقُ، يُقْتَلْنَ فِي الحَرَمِ،3314)
پانچ جانور موذی ہیں ، انہیں حرم میں بھی مارا جاسکتا ہے ( توحل میں بطریق اولیٰ ان کا مارنا جائز ہوگا ) چوہا ، بچھو ، چیل ، کوا اور کاٹ لینے والا کتا
وفی روایۃ لمسلم فی الحل والحرم
تعاون باہمی کے متعلق حکم اسلام
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ : 2)
اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ (مسلم ،كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ،بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ،6853)
اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے
دین اسلام تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا علمبردار ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ فرمایا:
الدِّينُ النَّصِيحَةُ ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَنْ قَالَ لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ (ترمذي،أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي النَّصِيحَةِ،1926صحيح)
دین سراپاخیرخواہی ہے’ ، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں)اور عام مسلمانوں کے لیے
قوم کا ہرفرد اپنے آپ کو پوری قوم کا محافظ اور ذمہ دار سمجھے
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں فجر کی اذان سے پہلے ( مدینہ سے باہر غابہ کی طرف نکلا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القرد میں چرا کرتی تھیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں مجھے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑ لی گئیں ہیں ۔ میں پوچھا کہ کس نے پکڑا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ قبیلہ غطفان والوں نے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے تین مرتبہ بڑی زور زور سے پکارا ‘ یا صباحاہ ! انہوں نے بیان کیا کہ اپنی آواز میں نے مدینہ کے دونوں کناروں تک پہنچا دی اور اس کے بعد میں سیدھا تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا آگے بڑھا اور آخر انہیں جالیا ۔ اس وقت وہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے اترے تھے ۔ میں نے ان پر تیر بر سانے شروع کردیئے ۔ میں تیر اندازی میں ماہر تھا اور یہ شعر کہتا جاتا تھا ” میں ابن الاکوع ہوں ‘ آج ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے “ میں یہی رجز پڑھتا رہا اور آخر اونٹنیاں ان سے چھڑالیں بلکہ تیس چادریں ان کی میرے قبضے میں آگئیں ۔ سلمہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر آگئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے تیر مار مار کر ان کو پانی نہیں دیا اور وہ ابھی پیاسے ہیں ۔ آپ فوراً ان کے تعاقب کے لیے فوج بھیج دیجئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن الاکوع ! جب تو کسی پر قابو پا لے تو نرمی اختیار کر ۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ پھر ہم واپس آگئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی اونٹی پر پیچھے بٹھا کر لائے یہا ں تک کہ ہم مدینہ واپس آگئے ۔ (بخاری كِتَابُ المَغَازِي، بَابُ غَزْوَةِ ذِي قَرَدَ،4194)
کسی ایک انسان کی جان کی حفاظت کرنے کی فضیلت
فرمایا
وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (المائده : 32)
اور جس نے اسے زندگی بخشی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی
اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرنے والے کے چہرے سے جہنم کی آگ دور کردی جائے گی
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ترمذی ،أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي الذَّبِّ عَنْ عِرْضِ الْمُسْلِمِ،1931صحيح)
جوشخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجود گی میں ) بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا
وفی روایۃ بالغیب
اسلامی سرحدوں پر ایک دن کا پہرہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ مِنَ الجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا، وَالرَّوْحَةُ يَرُوحُهَا العَبْدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ الغَدْوَةُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا» (بخاری، كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ فَضْلِ رِبَاطِ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،2892)
اللہ کے راستے میں دشمن سے ملی ہوئی سرحد پر ایک دن کا پہرہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہے اور جو شخص اللہ کے راستے میں شام کو چلے یا صبح کو تو وہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہے
ایک دن کا پہرہ ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے
سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا
«رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ، وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ» (مسلم ،كِتَابُ الْإِمَارَةِ،بَابُ فَضْلِ الرِّبَاطِ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ،4938)
"ایک دن اور ایک رات سرحد پر پہرپ دینا، ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اور اگر (پہرہ دینے والا) فوت ہو گیا تو اس کا وہ عمل جو وہ کر رہا تھا، (آئندہ بھی) جاری رہے گا، اس کے لیے اس کا رزق جاری کیا جائے گا اور وہ (قبر میں سوالات کر کے) امتحان لینے والے سے محفوظ رہے گا۔”
ایک دن کا پہرہ ایک ہزار دن سے بہتر ہے
حضرت عثمان بن عفانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:
رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنْ الْمَنَازِلِ (نسائى كِتَابُ الْجِهَادِ،فَضْلُ الرِّبَاطِ،3171حسن)
’’اللہ تعالیٰ کے راسے میں ایک دن سرحد پر تیار ہو کر بیٹھنا (نیکی کے) دوسرے مقامات میں ہزار دن بیٹھنے سے افضل ہے۔
حجر اسود کے پاس قیام اللیل سے بھی بہتر عمل
عن أبي هريرة أنه كان في الرباط ففزعوا فخرجوا إلى الساحل ثم قيل لا بأس فانصرف الناس وأبو هريرة واقف فمر به إنسان فقال ما يوقفك يا أبا هريرة فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فذكره .
موقف ساعة في سبيل الله خير من قيام ليلة القدر عند الحجر الأسود
الصفحة أو الرقم : 57 / 1068
خلاصة حكم المحدث : صـحـيـح
اسم الكتاب : السلسلة الصحيحة
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہے کہ وہ ایک دفعہ کسی پہرے پر موجود تھے کہ لوگ گھبرائے اور ساحل کی طرف چلے گئے پھر لوگوں کو خبر دی گئی کہ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے تو لوگ واپس تشریف لائے جبکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی جگہ پر کھڑے رہے ان کے پاس سے ایک شخص گزرا اس نے پوچھا اے ابوہریرہ آپ کو کس چیز نے یہاں کھڑے رکھا تو ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ہے آپ فرماتے تھے
اللہ کی راہ میں (پہرہ دینے کے لیے) ایک گھڑی کھڑا ہونا حجر اسود کے پاس رات بھر قیام کرنے سے بہتر ہے
اسلامی سرحدوں کی پہرے داری ایک جاری عمل ہے اور پہرے دار فتنہ قبر سے محفوظ رہے گا
فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
كُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يُنْمَى لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ
(ترمذي،أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا، 1621صحيح)
‘ہرمیت کے عمل کا سلسلہ بند کردیاجاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں سرحد کی پاسبانی کرتے ہوے مرے، تو اس کا عمل قیامت کے دن تک بڑھایا جاتا رہے گا اوروہ قبرکے فتنہ سے مامون رہے گا
اسلامی سرحدوں کا پہرے دار روز قیامت بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَجْرَى عَلَيْهِ أَجْرَ عَمَلِهِ الصَّالِحِ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُ وَأَجْرَى عَلَيْهِ رِزْقَهُ وَأَمِنَ مِنْ الْفَتَّانِ وَبَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ آمِنًا مِنْ الْفَزَعِ (ابن ماجہ، كِتَابُ الْجِهَادِ،بَابُ فَضْلِ الرِّبَاطِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،2767صحیح)
جو شخص اللہ کی راہ میں محاذ جنگ پر جہاد کے لیے تیار ہونے کی حالت میں فوت ہوا تووہ جو نیک عمل کرتا تھا اللہ اس کے لیے اس عمل کا ثواب جاری فرمادیتا ہے۔اور اس کا رزق جاری فر دیتا ہے اسے آزمانے والوں( منکرنکیر) کا خوف نہیں ہوتا۔ اور اللہ اسے قیامت کے دن خوف سے محفوظ اٹھائے گا۔
اپنے مال، اھل، دین اور خون کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہونے والا شہید ہے
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ (بخاری ،كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ،بَابُ مَنْ قَاتَلَ دُونَ مَالِهِ،2480)
کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے
حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ» (نسائی، كِتَابُ المُحَارَبَة،مَنْ قَاتَلَ دُونَ دِينِهِ،4100صحيح)
(ترمذی ،أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ،1421صحيح)
(ابو داؤد، كِتَابُ السُّنَّةِ،بَابٌ فِي قِتَالِ اللُّصُوصِ،4772صحیح)
’’جو شخص اپنے مال کو (لٹیروں سے) بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔ اور جو شخص اپنے گھر والوں کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔ اور جو شخص اپنے دین کی خاطر مارا جائے، وہ بھی شہید ہے۔ اور جو شخص اپنی جان بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ بھی شہید ہے۔‘‘
اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والے کے لیے جنت ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ مَظْلُومًا فَلَهُ الْجَنَّةُ» (نسائی، كِتَابُ المُحَارَبَة،مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ،4091صحيح)
’’جو اپنے مال کی حفاظت میں مظلوم مارا جائے، اس کے لیے جنت ہے۔‘‘
اسلامی علاقوں کی سرحدوں پر پہرے دینے والے سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ هَلْ تَدْرُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ ؟ قَالُوْا اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ أَوَّلُ مَنْ يَّدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُوْنَ الَّذِيْنَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُوْرُ وَيُتَّقٰی بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَ يَمُوْتُ أَحَدُهُمْ وَ حَاجَتُهُ فِيْ صَدْرِهِ، لاَ يَسْتَطِيْعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلاَئِكَتِهِ إئْتُوْهُمْ فَحَيُّوْهُمْ فَتَقُوْلُ الْمَلاَئِكَةُ نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ وَ خَيْرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَّأْتِيَ هٰؤُلاَءِ فَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ إِنَّهُمْ كَانُوْا عِبَادًا يَعْبُدُوْنِيْ، لاَ يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا، وَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُوْرُ وَ يُتَّقَی بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَ يَمُوْتُ أَحَدُهُمْ وَ حَاجَتُهُ فِيْ صَدْرِهِ، لاَ يَسْتَطِيْعُ لَهَا قَضَاءً، قَالَ فَتَأْتِيْهِمُ الْمَلاَئِكَةُ عِنْدَ ذٰلِكَ، فَيَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ : «سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ » ] [ مسند أحمد : 168/2، ح : ۶۵۷۸۔ ابن حبان : ۷۴۲۱۔ قال شعیب الأرنؤط و إسنادہ جید ]
’’کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘‘ فرمایا : ’’اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے فقراء اور مہاجرین داخل ہوں گے، جن کے ذریعے سے سرحدیں محفوظ کی جاتی تھیں اور ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا اور ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں باقی ہوتی تھی، وہ اسے پورا نہیں کر سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں میں سے جنھیں چاہے گا حکم دے گا کہ ان کے پاس جاؤ اور انھیں سلام کرو۔ فرشتے کہیں گے : ’’ہم تیرے آسمان کے رہنے والے اور تیری مخلوق میں سے تیرے چنے ہوئے ہیں، کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں اور انھیں سلام پیش کریں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’یہ میرے بندے تھے، میری بندگی کرتے تھے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے تھے، ان کے ساتھ سرحدیں محفوظ رکھی جاتی تھیں اور ان کے ذریعے سے ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا، ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس حال میں کہ اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں ہوتی، وہ اسے پورا نہیں کر سکتا تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’چنانچہ فرشتے اس وقت ان کے پاس آئیں گے اور ہر دروازے سے ان کے پاس داخل ہوں گے (اور کہیں گے) : ’’سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا، سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔‘‘
گمنام پہرے دار کا اللہ کے ہاں مقام و مرتبہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے
آپ نے فرمایا
طُوبَى لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَشْعَثَ رَأْسُهُ، مُغْبَرَّةٍ قَدَمَاهُ، إِنْ كَانَ فِي الحِرَاسَةِ، كَانَ فِي الحِرَاسَةِ، وَإِنْ كَانَ فِي السَّاقَةِ كَانَ فِي السَّاقَةِ، إِنِ اسْتَأْذَنَ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، وَإِنْ شَفَعَ لَمْ يُشَفَّع (بخاري ،كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ الحِرَاسَةِ فِي الغَزْوِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،2887)
مبارک وہ بندہ جو اللہ کے راستے میں ( غزوہ کے موقع پر ) اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے ، اس کے سر کے بال پراگندہ ہیں اور اس کے قدم گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں ، اگر اسے چوکی پہرے پر لگادیا جائے تو وہ اپنے اس کام میں پوری تندہی سے لگارہے اور اگر لشکر کے پیچھے ( دیکھ بھال کے لیے ) لگادیا جائے تو اس میں بھی پوری تندہی اور فرض شناسی سے لگا رہے ( اگرچہ زندگی میں غربت کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہ ہو کہ ) اگر وہ کسی سے ملاقات کی اجازت چاہے تو اسے اجازت بھی نہ ملے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش بھی قبول نہ کیجائے ۔
دو آنکھیں جہنم سے آزاد کردی گئی ہیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :
عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (ترمذی ،ابْوَابُ فَضَائِلِ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْحَرَسِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ1639صحيح)
دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اورایک وہ آنکھ جس نے راہ ِجہاد میں پہرہ دیتے ہوے رات گزاری ہو’۔
اسلامی افواج اور مجاہدین کے وطن، بیس کیمپ،اور تربیتی مراکزبھی اسی حکم میں ہیں
جہاد کرنے والے مجاہدین اور جنگ لڑنے والی اسلامی فوج کے پیچھے ان کے گھروں، علاقوں، کیمپوں اور مراکز کی حفاظت کرنا بھی جہاد فی سبیل اللہ میں شامل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهِرَ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ، قَالَ: «لَيْتَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي صَالِحًا يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ»، إِذْ سَمِعْنَا صَوْتَ سِلاَحٍ، فَقَالَ: «مَنْ هَذَا؟»، فَقَالَ: أَنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ جِئْتُ لِأَحْرُسَكَ، وَنَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاری، كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بابُ الحِرَاسَةِ فِي الغَزْوِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،2885)
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک رات ) بیداری میں گزاری ، مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کاش ! میرے اصحاب میں سے کوئی نیک مرد ایسا ہوتا جو رات بھر ہمارا پہرہ دیتا ! ابھی یہی باتیں ہورہی تھیں کہ ہم نے ہتھیار کی جھنکار سنی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ کون صاحب ہیں ؟ ( آنے والے نے ) کہا میں ہوں سعد بن ابی وقاص ، آپ کا پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے ۔ ان کے لیے دعاءفرمائی اور آپ سوگئے ۔
مدینہ منورہ کی مثال
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ : لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ، ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا ، أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ (بخاری 2908)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر ( ایک آواز سن کر ) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔