اسلامی شریعت کا نفاذ
الحمد لله الذي نوّر بهدايته قلوب العارفين، وأقام على الصراط المستقيم أقدام السالكين، وهداهم إلى نوره المبين، وأنزل كتابه هدى للمتقين، له الحمد وله الفضل والإحسان، وهو الإله الحق المبين، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، فإياه نعبد وإياه نستعين، وأشهد أن سيدنا وحبيبنا محمدا عبده ورسوله، سيد المرسلين، وإمام المتقين، وقائد الغر المحجلين، اللهم صل وسلم وبارك على سيدنا محمد خاتم النبيين، وعلى آله الطيبين الطاهرين. وعلى خلفائه الراشدين، وعلى العمين العلمين والسبطين الشهيدين وعلى سائر الصحابة أجمعين، والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين.
’’ہر قسم کی تعریف و توصیف اور بڑائی اس ذات پاک کے لئے ہے جس نے اپنے بندوں کے دلوں کو ہدایت کی روشنی بخشی، صراط مستقیم پر انہیں گامزن کیا اپنے نور مبین کی انہیں راہ دکھائی اور ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اپنی کتاب نازل فرمائی تمام تعریف اس کے لئے اور ہر قسم کا فضل و احسان اس کی جانب سے ہے اور وہی معبود برحق ہے، ہم اس کی وحدت و یکتائی کی شہادت دیتے اس کی عبادت کرتے اور اس سے مدد مانگتے ہیں۔ ساتھ ہی ہم اپنے سید و حبیب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں جو سید المرسلین، امام المتقین اور اس امت غراء کے قائدورہبر ہیں۔ الٰہی! تو درود و سلام اور اپنی رحمتیں نازل فرما ہمارے سید محمد خاتم النبین پر، آپ کے طیب و طاہر آل و اولاد پر، خلفاء راشدین پر آپ کے پیارے چچا حمزہ و عباس اور لاڈلے نواسے حسن و حسین پر، جملہ صحابہ نیز تاقیامت ان کے نقش قدم پر چلنے والے مومنین پر۔ اما بعد!‘‘
لوگو! اللہ سے ڈرو اور اس کی اطاعت و بندگی نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی لازم پکڑو اور پیروی کا طریقہ یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے اور جن جن باتوں کی خبر دی ہے ان کی تصدیق کی جائے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں کیا جائے اور جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان سے پرہیز ہو۔ جس نے یہ پابندی کر لی اس نے صراط مستقیم پالیا۔ یہی وہ راہ ہے جو خوشنود کی مولی اور جنات نعیم تک پہنچانے والی ہے اور اسی پر چلنے اور جمے رہنے کا قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے:
﴿ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۵۳﴾ (الانعام: 153)
’’میرا (صراط مستقیم) سیدھا راستہ میں ہے تو تم اس پر چلنا اور دوسرے رستوں پر نہ چلنا کہ ان پر چل کر اللہ کے رستہ سے الگ ہو جاؤ گے انہی باتوں کا اللہ تمھیں حکم دیتا ہے تا کہ تم پرہیز گار بنو۔‘‘
بندہ کے اوپر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ بندے خالص اسی وحدہ لاشریک لہ کے لئے عمل کرے اور اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے کیونکہ جس طرح اللہ کے سوا بندے کا کوئی رب کوئی خالق اور کوئی رازق نہیں اسی طرح اس کے علاوہ کوئی معبود بھی نہیں۔ پس جس نے اپنے ظاہر و باطن ہر اعتبار سے عبادت کو صرف اور صرف اللہ کا حق جانا اور اس کے لئے دین کو خالص کر لیا وہی موحد حقیقی ہے اور جس نے عبادت کا ادنی اور معمولی حصہ بھی کسی اور کے لئے کیا وہ مشرک ہوا، جس کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ7۲﴾ (المائدة:72)
’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اللہ کے لئے دین کو خالص کر کے اسے پکاریں کہ اس کے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں اس کی ذات سے مدد طلب کریں اور اس کی عبادت کریں وہی مقصود عبادت اور لائق تعظیم و محبت ہے وہی ہے جو پکار سنے والا اور امید بر لانے والا ہے وہی ہے جو حاجت روا ہے اور مشکل کشا بھی۔
مسلمانو! یاد رکھو کہ دعا عبادت کا مغز ہے اور یہ خالص اللہ کا حق ہے فرمایا:
﴿ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ6۲﴾ (النمل: 22)
’’بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ تم بہت کم غور کرتے ہو۔‘‘
پس جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارا اس نے گویا اسے اللہ کے ساتھ اپنا معبود قرار دیا حالانکہ اللہ تعالی اس شرک سے کہیں بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ ہے اس کا ارشاد ہے:
﴿ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍؕ۱۳ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ؕ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ؕ وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠۱۴﴾ (فاطر: 13،14)
’’تم اللہ کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں اگر تم ان کو پکار و تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کر سکیں اور قیامت کے روز تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور اللہ باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘
اسلامی بھائیو! توحید کے بعد سب سے اہم چیز فرض نماز ہے لہٰذا ضروری ہے کہ نماز کے سلسلہ میں جو حکم دیا گیا ہے اس کی مکمل رعایت کرتے ہوئے پورے خشوع و خضوع اور جملہ ارکان کے ساتھ نماز ادا کی جائے ارشاد الہیی ہے:
﴿وقَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ . الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ﴾ (المومنون: 2،1)
’’تحقیق فلاح پا گئے وہ مومنین جو اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں۔‘‘
نماز کے بعد نمبر آتا ہے زکوۃ روزہ اور حج کا جیسا کہ کتاب وسنت میں نمذ کو ر ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھنا بھی از حد ضروری ہے کہ کسی بھی معاملہ میں خود ساختہ قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے شریعت اسلامی سے فیصلہ لینا دین کا ایک اہم ترین فریضہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ۴۴﴾ (المائده: 44)
’’اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ دیں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
اللہ کے بندو شریعت اسلامی کو اپنانے اور معاملات میں اس کو فیصل بنانے ہی میں معاشرے کی بہتری ہے کیسی شریعت عدالت حق ہے جس میں ادنی بھی ظلم وجور نہیں۔ یہ شریعت حیات انسانی کے کسی بھی مسئلہ کا حکم بیان کرنے سے عاجز ہے نہ نوع انسانی کو فلاح و بہتری کی راہ دکھانے سے درماندہ بلکہ یہ انسان کے اجناس و ادوار کے اختلاف کے باوجود اس کے جملہ مصالح کو محیط اور اس کے لئے خیر و فلاح کی ضامن ہے۔
قرون اولی میں اسلامی حکومت کا دائرہ چین سے لے کر مغرب اقصیٰ تک پھیلا ہوا تھا اور اس کے مختلف ممالک پر اسلام کا علم لہرا رہا تھا ان ممالک کے اندر مختلف قسم کے لوگ بستے تھے، جن کی قومیتیں مختلف تھیں، عادات واطوار جدا جدا تھے ان میں عربی بھی تھے فارسی بھی، رومی بھی تھے افریقی بھی لیکن اسلامی حکومت نے ان تمام امتوں کو ایک نہایت ہی عمدہ اور بہترین نظام کے تحت ایسا مربوط اور منظم کر رکھا تھا کہ کبھی بھی یہ ضرورت نہیں پیش آئی کہ وہ کسی غیر اسلامی نظام یا قانون سے مدد لیں، بلکہ اللہ تعالی کی توفیق و نصرت سے جب جب مسلمانوں نے کوئی ملک فتح کیا یا حکومت اسلامیہ کے اندر کچھ نئے معاملات و مسائل در پیش ہوئے تو علمائے شریعت نے اپنے اجتہادات کے ذریعہ کتاب و سنت کی روشنی میں ان مسائل کا حل تلاش کیا علمائے حق نے کسی بھی معاملہ میں مصالح کی جستجو سے نہ تو کو تاہی برتی اور نہ ہی مصالح عامہ پر مشتمل کسی مقدس اصول سے ان کا کبھی ٹکراؤ ہوا۔
مسلمانوں کے ساتھ اور ان کی حکومت کے سائے میں کچھ ایسے لوگوں نے بھی زندگی گذاری جو مسلمان نہیں تھے لیکن اسلام کا نظام عدل انہیں بھی شامل رہا اس نظام عدل نے نہ تو ان پر ظلم کیا اور نہ ہی شریعت کے مقرر کردہ ان کے حقوق غصب کئے اسلامی حکومت کے زیر سایہ زندگی گزار نے والے ایک غیر مسلم نے کہا تھا کہ اسلام ضروریات زندگی کے جملہ تقاضوں کو پورا کرتا ہے اس لئے اس کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ آئندہ صدیوں میں وہ مسلسل ترقی کرتا جائے اور اپنی کامل مضبوطی اور فطری لچک کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے باقی رہے اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دنیا کے سامنے ایک محکم ترین شریعت پیش کی اور اس شریعت کی تفاصیل میں تمام نظامہائےعالم پر فوقیت لے گیا۔
ہمیں مذہب اسلام کے سلسلہ میں ان غیر مسلموں کی شہادت کی کوئی حاجت نہیں کیونکہ ہمارے سامنے حق واضح اور ظاہر ہے لیکن ’’الفضل ما شهدت به الأعداء‘‘ (یعنی فضل و کمال تو وہ ہے کہ دشمن بھی اس کی گواہی دینے پر مجبور ہو جائیں) کے تحت ہم نے یہ بات ذکر کر دی ہے۔
وہ نام نہاد مسلمان جو شریعت اسلامیہ کو اپنا حکم ماننے اور مسائل و معاملات میں اس سے فیصلہ لینے سے گریز کرتے ہیں وہ دراصل ظلم و سرکشی اور اپنی خواہشات کی پیروی میں ایسا کرتے ہیں۔ ورنہ اگر وہ حق بات بولیں تو ضرور وہ انصاف کی بات ہو گی مگر افسوس کہ تفوق و برتری کی چاہت اور مخلوق پر جبر و تسلط کے جذبہ نے انہیں انصاف کی بات کہنے سے روک رکھا ہے۔
شریعت اسلامیہ روئے زمین پر فتنہ و فساد مچانے والوں کے موافق ہو سکتی ہے نہ ہوائے نفس کی پیروی کرنے والوں کو راس آسکتی ہے کیونکہ دین نہ تو ہوا و ہوس کا ساتھ دے سکتا ہے اور نہ ہی شہوات اور خواہشات نفسانی کی موافقت کر سکتا ہے۔ ارشاد الہی ہے:
﴿ وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ ﴾ (المؤمنون:71)
’’اگر حق ان کی خواہشات پر چلے تو آسمان اور زمین اور جو ان میں ہیں سب درہم و برہم ہو جائیں۔‘‘
شریعت ہر شخص کو اس کے مقام پر کھڑا کرتی ہے اور تمام انسانوں کو عدل و انصاف اور اخوت و مساوات کے مضبوط رشتے سے باہم مربوط کرتی ہے اس کے نزدیک عربی اور عجمی میں کوئی فرق ہے نہ کالے اور گورے میں کوئی امتیاز، اسلام بنده کارشتہ اس کے خالق حقیقی سے جوڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرکش و متکبر اور وہ لوگ جو مخلوق کے درجوں سے اپنا مقام اونچا سمجھتے ہیں اور انہیں اپنا غلام اور تابع بنا کر رکھتے ہیں وہ اس دین بر حق کو قبول نہیں کرتے کیونکہ دین ان کے تمام نا جائز اثر ورسوخ کو چھین کر انہیں ان کے صحیح مقام پر لاکھڑا کرے گا اور ان کے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی کے درمیان حائل ہو جائے گا چنانچہ یہی سبب تھا جب کفار مکہ نے دیکھا کہ قرآن کریم تو انہیں ظلم و تکبر اور لوگوں پر بے جا تسلط و حکمرانی سے منع کر رہا ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ مطالبہ کر بیٹھے:
﴿ ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُ ؕ ﴾ (يونس: 15)
’’ یا تو اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لا دیا اس کو بدل دو۔‘‘
اس پر اللہ تعالی نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۱۵﴾ (یونس: 15)
’’اے محمد! کہہ دو کہ مجھ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب سے خوف آتا ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبه ثانیه
الحمد لله الذي أنزل على عبده الكتاب هدى ورحمة للمؤمنين. يهدي من يشاء برحمته، ويضل من يشاء بحكمته، أحمده سبحانه وأشكره، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله و صحبه
تعریفیں اللہ سبحانہ کے لئے ہیں جس نے مومنین کی ہدایت و رحمت کی خاطر اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے ہدایت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی حکمت سے گمراہ کر دیتا ہے، میں اس اللہ بزرگ و برتر کی حمد و ثنا بیان کرتا اور اس کا آداب شکر بجالاتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک و ساجھی دار نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اللہ تعالی کا بے شمار درود و سلام ہو اس نبی برحق محمد پر اور ان کے آل و اصحاب پر۔ صلی اللہ علیہ و سلم- اما بعد!
قرآن کریم کے اندر اللہ عز و جل ارشاد فرماتا ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ۙ۬ وَ هُدًی وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۵7﴾ (یونس: 57)
’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔‘‘
در حقیقت میں وہ برحق نصیحت اور سچا ڈراوا ہے جو ہمیں نصیحت کر سکتا اور اللہ کی ناراضگی کے کاموں سے روک سکتا ہے اور وہ قرآن عظیم ہے جو دلوں کی بیماریوں کے لئے شفا اور شکوک و شبہات کے امراض کا سچا علاج ہے کیونکہ اس کے اندر نہایت اچھے اور بہترین انداز واسلوب میں شکوک و شبہات دور کرنے اور دلوں کو کمال ایمان تک پہنچانے والے دلائل و براہین ذکر کئے گئے ہیں، نیز موثرترین نصیحتیں، ترغیب و ترہیب اور وعد و وعید کی باتیں بیان کی گئی ہیں، جن کے ذریعہ بندو کے اندر اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت اور اس کی اتباع کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور جب وہ اس جذبہ سے سرشار ہو جاتا ہے تو اسے فرح و سرور امسرت و شادمانی اور اللہ کی بخشش و رحمت کی بشارت حاصل ہو جاتی ہے جس کا ذکر اللہ نے یوں کیا ہے؟
﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۵۸﴾ (یونس: 58)
’’کہہ دو کہ (یہ کتاب) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوئی) ہے تو چاہئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
اللہ کے بندو! لہٰذا اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی نازل کردہ کتاب کے اندر غور و فکر کرو کہ اسی سے فلاح پا سکتے ہو اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو سمجھو اور اس پر عمل کرو کہ یہی دنیا و آخرت میں تمہارے لئے نفع بخش ثابت ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔