اسراء ومعراج
اہم عناصر ِ خطبہ :
1۔ اہمیت ِ اسراء ومعراج
2۔ تاریخ ِ اسراء ومعراج
3۔ واقعاتِ اسراء ومعراج
4۔مقاصدِ اسراء ومعراج
برادران اسلام !
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد معجزات سے نوازا ، ان میں سے ایک اہم معجزہ ’’ اسراء ومعراج ‘‘ ہے۔ اس معجزہ کے دو حصے ہیں ، ایک کا تعلق مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کے سفر سے ہے جسے ’’ اسراء ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور دوسرے کا تعلق مسجد اقصی سے آسمانوں سے اوپر تک ‘ جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ‘ سے ہے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت ودوزخ کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی متعدد نشانیاں دکھلائی گئیں ، کئی انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات کرائی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں ۔ اسے ’’ معراج ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
واقعۂ اسراء ومعراج کے متعلق أہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں جسمانی طور پر اسراء ومعراج کرایا گیا ، نہ کہ نیند کی حالت میں روحانی طور پر ۔
امام طحاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:(وَالْمِعْرَاجُ حَقٌّ وَقَدْ أُسْرِیَ بِالنَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم وَعُرِجَ بِشَخْصِہِ فِی الْیَقَظَةِ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ إِلٰی حَیْثُ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الْعُلَا وَأَکْرَمَہُ اللّٰہُ بِمَا شَاءَ،وَأَوْحٰی إِلَیْہِ مَا أَوْحٰی)
یعنی ’’ معراج برحق ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی طور پر بیداری کی حالت میں سیر کرائی گئی اور آسمان تک بلکہ وہاں سے بھی اوپر جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ کو لے جایا گیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے حسبِ منشا آپ کی تکریم کی اور جو کچھ اس نے چاہا آپ کی طرف وحی کی ۔‘‘
’’ اسراء ‘‘ کے بارے میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ‎﴾‏
’’ پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس کو ہم نے بابرکت بنایا ہے ، اس لئے کہ ہم انھیں اپنی قدرت کی بعض نشانیاں دکھائیں ، یقینا اللہ تعالیٰ خوب سننے ، دیکھنے والا ہے ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ کا آغاز اللہ تعالیٰ نے ﴿سُبْحَانَ سے کیا ہے۔ اس کا لفظی معنی تو یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے عیب سے پاک ہے ، تاہم عربی زبان میں یہ لفظ حیرت وتعجب کے اظہار کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اظہارِ تعجب کیا جا رہا ہے کہ اس نے اپنے بندے کو وہ طویل مسافت راتوں رات طے کرادی جو اُس وقت چالیس راتوں میں طے کی جاتی تھی۔ اور یہ اسلوبِ بیان اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو ’’ اسراء ومعراج ‘‘ بیداری کی حالت میں جسمانی طور پر کرایا گیا ، ورنہ اگر یہ خواب کی حالت میں روحانی طور پر ہوتا تو اس پر لفظ﴿سُبْحَانَ کے ساتھ اظہار تعجب نہ کیا جاتا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس میں لفظ ’’ عبد ‘‘ فرمایا ہے ، یعنی اس نے اپنے ’’ بندے ‘‘ کو سیر کرائی ۔ تو یہ لفظ بھی جسم اور روح دونوں پر بولا جاتا ہے ، نہ کہ صرف روح پر ۔ یہ دوسری دلیل ہے اس بات پر کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں نہیں ‘ بلکہ بیداری میں ’’ اسراء ومعراج ‘‘ کے شرف سے نوازا گیا ۔
اور اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اگر ’’ اسراء ومعراج ‘‘ کا واقعہ خواب میں پیش آیا ہوتا اور آپ نے لوگوں کو اپنا خواب ہی سنایا ہوتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ جھٹلاتے اور نہ اس کا انکار کرتے ۔ لہٰذا کفارِ مکہ کی تکذیب اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خواب بیان نہ کیا تھا بلکہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا تھاکہ آپ کو جسمانی طور پر بیداری کی حالت میں اسراء ومعراج کرایا گیا ہے ، تبھی تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا تھا کہ ہم مکہ مکرمہ سے ایلیا (بیت المقدس ) تک کا سفر چالیس راتوں میں طے کرتے ہیں اور آپ راتوں رات وہاں سے ہو کر واپس بھی پہنچ گئے !
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:(وَہَذَا مَذْہَبُ جَمْہُوْرِ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ مِنْ أَنَّ الْإِسْرَاءَ کَانَ بِبَدَنِہِ وَرُوْحِہِ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلاَمُہُ عَلَیْہِ کَمَا دَلَّ عَلٰی ذَلِكَ ظَاہِرُ السِّیَاقَاتِ مِنْ رُکُوْبِہِ وَصُعُوْدِہٖ فِی الْمِعْرَاجِ وَغَیْرِ ذَلِكَ)
’’ اگلے پچھلے بیشتر اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم وروح دونوں کے ساتھ اسراء کرایا گیا ، حیسا کہ قصۂ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سواری پر سوار ہونا ، اوپر جانا وغیرہ جیسے امور سے یہ بات بالکل واضح ہے۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ کے حوالے سے یہ بھی جان لیجئے کہ منکرین ِحدیث ‘ جو معجزۂ اسراء ومعراج کو ایک کہانی قرار دیتے ہیں ‘ان کا کہنا ہے کہ اس آیت میں مسجد اقصی سے مراد مسجد نبوی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہاں واقعۂ ہجرت کی طرف اشارہ کیا ہے !
اور یہ ان کی جہالت کا بین ثبوت ہے کیونکہ واقعۂ ہجرت رات کے کچھ حصے میں مکمل نہیں ہوا تھا بلکہ اس پر کئی دن لگے تھے ۔ اور اس کا آغاز رات کے وقت نہیں بلکہ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں ہوا تھا۔ اور ویسے بھی اُس وقت مسجد نبوی موجود نہیں تھی جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے تھے ، اسے تو وہاں پہنچنے کے بعد تعمیر کیا گیا ۔ اس کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے ، مدنیہ نہیں ، لہٰذا اس میں مکی زندگی میں پیش آنے والا واقعہ ہی مراد لیا جا سکتا ہے ، مدنی زندگی میں بنائے جانے والی مسجد کا ذکر مکی سورت میں کیسے آ سکتا ہے !!
اب سوال یہ ہے کہ اسراء و معراج کا واقعہ کب پیش آیا ؟
اس بارے میں اہلِ علم کے مابین شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں دس سے زیادہ اقوال نقل کئے ہیں ۔کسی نے کہا : ہجرت سے ایک سال قبل (ماہ ربیع الاول ۱۲ ؁ نبوی میں ) اور یہ ابن سعد وغیرہ کا قول ہے۔اور یہی بات نووی رحمہ اللہ نے بھی بالیقین کہی ہے ۔ جبکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ نے بھی اسی تاریخ ( ہجرت سے ایک سال قبل ) کو بالجزم ذکر کیا ہے۔
اور کسی نے کہا : ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ( ماہ رجب۱۲ نبوی میں) کسی نے کہا : چھ ماہ قبل۔ کسی نے کہا: گیارہ ماہ قبل اور کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ کہا۔ لیکن جو بات اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ عظیم الشان واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل یعنی ماہ ربیع الاول ۱۲ ؁ نبوی میں پیش آیا اس کی دلیل امام زہری رحمہ اللہ اور حضرت عروۃ بن زبیر رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ بیت المقدس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اسراء کرایا گیا یہ آپ کی مدینہ روانگی سے ایک سال قبل تھا ۔ ان کا یہ قول موسی بن عقبہ نے اپنی مغازی میں ذکر کیا ہے جو صحیحین کے رواۃ میں سے ہیں اور ان کی اس کتاب کے بارے میں ابن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں : (کِتَابُ مُوْسَی بْنِ عَقَبَةَ عَنِ الزُّہْرِیِّ مِنْ أَصَحِّ ہَذِہِ الْکُتُبِ)
’’ سیرت کی کتابوں میں موسی بن عقبہ کی کتاب جو انھوں نے زہری سے روایت کی ہے صحیح ترین کتابوں میں سے ہے ۔ ‘‘ اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ان کی کتاب کی توثیق کی ہے۔
اور اسی بات کو حافظ عبد الغنی المقدسی رحمہ اللہ نے اپنی سیرت کی کتاب میں ترجیح دی ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔
اور شاید حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ انھوں نے زاد المعاد میں زھری رحمہ اللہ کا یہ قول سب سے پہلے نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل پیش آیا۔
بنا بریں جو بات عام لوگوں میں مشہور ہے کہ یہ واقعہ ماہ رجب کی ستائیسویں رات کو پیش آیا ‘ درست نہیں کیونکہ کسی معتمد روایت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ۔ واللہ اعلم
مولانا صفی الرحمن مبارکفوری رحمہ اللہ نے ’’ الرحیق المختوم ‘‘ میں اہلِ سِیَر کے چھ اقوال ذکر کئے ہیں۔ ان میں سے ایک قول علامہ منصورپوری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ نبوت کے دسویں سال ۲۷ / رجب کو پیش آیا ۔ پھر انھوں نے اسے اِس بناء پر صحیح ماننے سے انکار کیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نماز پنجگانہ کی فرضیت سے پہلے ہوئی ، یعنی نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ۔ جبکہ نمازیں معراج کی رات فرض کی گئیں ۔ لہٰذا معراج کا زمانہ ان کے بقول اِس کے بعد کا ہو گا اس سے پہلے کا نہیں ۔ اسی طرح انھوں نے وہ دو اقوال بھی غیر صحیح قرار دئیے جو اِس سے بھی پہلے کی تاریخ بتاتے ہیں ۔ رہے باقی تین اقوال ( نبوت کے بارہویں سال ماہ رمضان میں، نبوت کے تیرہویں سال ماہ محرم میں اور نبوت کے تیرہویں سال ماہ ربیع الأول میں) تو ان کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کیلئے کوئی دلیل نہیں مل سکی ۔ تاہم ان کے بقول سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے ۔
معجزۂ اسراء ومعراج کے متعلق چند تمہیدی گذارشات عرض کرنے کے بعد اب ہم اصل واقعہ کی جانب آتے ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم الشان واقعہ کے متعلق صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں متعدد روایات موجود ہیں جو تقریبا پچیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ، اگر کوئی شخص ان میں سے صرف ایک دو روایات کو سامنے رکھ لے تو وہ یقینی طور پر اس پورے واقعہ کا احاطہ نہیں کر سکے گا کیونکہ کسی ایک روایت میں اس کی پوری تفصیلات بیان نہیں کی گئیں ۔ اور پھر ان میں صحیح روایات بھی ہیں اور ضعیف اور ناقابل اعتبار بھی۔ لہٰذا ہم کوشش کریں گے کہ صحیح روایات کی روشنی میں اس معجزہ کی تفصیلات ذکر کریں ۔ واﷲ ولي التوفیق
شق صدر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’ میں مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا۔ ( ایک روایت ‘ جسے حافظ ابن حجر نے بحوالہ طبرانی ذکر کیا ہے ‘ اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس رات کو حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے۔ ان کے گھر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا گھر کیوں کہا ؟ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں رہائش پذیر تھے ) گھر کی چھت کو کھولا گیا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے ، مجھے خانہ کعبہ کے پاس حطیم میں لے آئے ( جہاں میں نے کچھ دیر آرام کیا ۔) مجھ پر اونگھ طاری تھی ، نہ میں مکمل طور پر سویا ہوا تھا اور نہ اچھی طرح بیدار تھا ، اسی حالت میں ایک کہنے والے نے کہا : تین میں سے ایک‘ جو دو آدمیوں ( حمزہ اور جعفر ) کے درمیان ہے ( یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔) پھر مجھے اٹھا کر ( زمزم کی جانب ) لے جایا گیا ، وہاں سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا، پھر میرا سینہ زیرِ ناف بالوں تک چیرا گیا اور میرا دل نکال کر اسے زمزم کے پانی کے ساتھ دھویا گیا ، پھر اسے ایمان وحکمت سے بھر کر اس کی اصلی جگہ پر لوٹا دیا گیا ، بعد ازاں میرا سینہ بند کردیا گیا ۔‘‘
شقِ صدر کا یہ واقعہ صحیح ترین روایات میں موجود ہے۔ اس لئے اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ پہلی مرتبہ نہ تھابلکہ اس سے پہلے بھی کم از کم دو مرتبہ ایسا ہو چکا تھا ۔ پہلی مرتبہ بچپن میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر میں زیرِ پرورش تھے اور دوسری مرتبہ بعثت کے وقت ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ذکرکیا ہے ۔ اور شاید اس میں حکمت یہ تھی کہ آپ کو بعد میں پیش آنے والے بڑے بڑے واقعات کیلئے تیار کیا جائے ۔ واللہ اعلم
ابتدائے اسراء
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
(( ثُمَّ أُتِیْتُ بِدَابَّةٍ أَبْیَضَ یُقَالُ لَہُ الْبُرَاقُ،فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُوْنَ الْبَغْلِ،یَقَعُ خَطْوُہُ عِنْدَ أَقْصٰی طَرْفِہِ ، فَحُمِلْتُ عَلَیْہِ )) ’’ پھر میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتا ہے ، یہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھااور اس کا ایک قدم اس کی حدِ نگاہ تک جاتا تھا ، مجھے اس پر بٹھایا گیا ۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اسراء کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ’’ براق ‘‘ کو اس حالت میں لایا گیا کہ اسے نکیل ڈالی گئی تھی اور اس پر زین کسی ہوئی تھی ، اس نے کچھ شوخی دکھائی تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شوخی دکھاتے ہو حالانکہ اللہ کے نزدیک ان سے زیادہ معزز سوار تمھارے لئے کوئی نہیں۔ اس نے جب یہ بات سنی تو اس کے پسینے چھوٹ گئے۔
بیت المقدس میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
(( فَرَکِبْتُہُ حَتّٰی أَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ،قَالَ : فَرَبَطْتُہُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِی یَرْبِطُ بِہِ الْأنْبِیَاءُ ، ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّیْتُ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ))
’’ پھر میں براق پر سوار ہوا یہاں تک کہ بیت المقدس میں پہنچ گیا ۔ (چنانچہ میں نیچے اترا اور) اپنی سواری کو اس جگہ پر باندھا جہاں دیگر انبیاء علیہم السلام باندھا کرتے تھے ، پھر میں مسجد کے اندر چلا گیا اور اس میں دو رکعت نماز اداکی۔ ‘‘ ابن جریر کی روایت میں ‘ جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ‘ یہ الفاظ ہیں کہ ’’ میں نے انبیاء ورسل علیہم السلام کو نماز پڑھائی۔‘‘ یہاں دوو تین باتیں انتہائی توجہ کے قابل ہیں :
پہلی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی میں لایا گیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ مسجد اقصی فضیلت والی مسجد ہے جس میں نماز پڑھنے کی نیت سے اس کی طرف باقاعدہ سفر بھی کیا جا سکتا ہے ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ:اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْأقْصٰی، وَمَسْجِدِیْ ہَذَا))
’’ ثواب کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے ، اور وہ ہیں : مسجد الحرام ، مسجد اقصی اور میری یہ مسجد ۔ ‘‘
اور یہ وہ مسجد ہے جس کا ارد گرد بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق با برکت ہے ﴿الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ﴾‏ تو اس کی اپنی برکت کا کیا کہنا !
اور یہی وہ مسجد ہے جو مسلمانوں کا قبلۂ اول رہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت مدینہ کے سولہ یا سترہ ماہ بعد تک اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے ۔۔۔۔۔۔ سو یہ مسجد انتہائی عظمت والی ہے ، لیکن افسوس صد افسوس کہ آج یہ مسجد یہودیوں کے قبضے میں ہے جو ہر آئے دن اس کی حرمت کو پامال کرتے رہتے ہیں۔ اور خود مسلمانانِ بیت المقدس اور اہلِ فلسطین کو بھی اس مسجد میں نماز اداکرنے کیلئے کئی پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ مختلف قیود وحدود سے گزرنے اور نا پاک یہودیوں کی خود ساختہ شرائط کو پورا کرنے کے بعد ہی انھیں مسجد اقصی کی دہلیز کو عبور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ چہ جائیکہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے باشندگان اس میں نماز ادا کرنے کا تصور کریں ۔۔۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ اس مسجد کو ظالم اور غاصب یہودیوں کے قبضے سے آزاد فرمائے اور ہمیں بھی اس میں نماز ادا کرنے کا موقع دے ۔ آمین
دوسری بات یہ ہے کہ مسجد اقصی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں انبیاء ورسل علیہم السلام کا نماز پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء ورسل علیہم السلام سے افضل ہیں ، تبھی تو ان کی موجودگی میں کوئی اور نہیں بلکہ وہی امام بنے ۔
اور اس میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا دین ایک ہے اور وہ ہے دین ِ اسلام۔ اوریہی دین اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ 
’’ جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا۔ ‘‘
نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہی امام اعظم ہیں اور انہی کی شریعت واجب الاتباع ہے۔ اور ان پر نازل کی گئی کتاب ہی منبعِ ہدایت ہے ۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب مثلا تورات وانجیل کو منبعِ ہدایت تصور کرنا گمراہی ہے۔اور تیسری بات یہ ہے کہ بیت المقدس میں انبیاء کرام علیہم السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا جو واقعہ ہے اس کے بارے میں اہلِ علم کے ما بین اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ معراج سے قبل تھا یا اس کے بعد ؟
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اور اسی طرح اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ البدایہ والنہایہ ‘‘ میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج سے واپس لوٹے تو انبیاء کرام علیہم السلام بھی آپ کے ساتھ آئے اور انھوں نے بیت المقدس میں آپ کے پیچھے نماز ادا کی جو ہو سکتا ہے کہ اُس دن کی فجر کی نماز ہو ۔ جبکہ دیگر کئی محققین کا موقف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کیلئے جاتے ہوئے امامت ِ انبیاء علیہم السلام کے شرف سے نوازا گیا۔ ان میں حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں اور ہم نے ابن جریر کے حوالے سے جو روایت ذکر کی ہے وہ اسی موقف کو تقویت پہنچاتی ہے۔ واللہ اعلم
مہمان نوازی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
(( ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَاءَ نِی جِبْرِیْلُ علیہ السلام بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ،فَقَالَ جِبْرِیْلُ: اخْتَرْتَ الْفِطْرَۃَ ))
’’ پھر میں (مسجد اقصی سے ) باہر آیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے مجھے دو برتن پیش کیے جن میں سے ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا ۔ میں نے دودھ کو پسند کیا تو جبریل علیہ السلام نے کہا : آپ نے فطرت کو پسند کیا ہے۔ ‘‘
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام دین ِ فطرت ہے کیونکہ دودھ خالص ہوتا ہے جبکہ شراب انگور وغیرہ میں تبدیلی لا کر بنایا جاتاہے۔اس کے علاوہ شراب انسان کے مزاج کو بھی تبدیل کردیتا ہے اور اس کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے جبکہ دودھ تو انسان کے یومِ پیدائش سے ہی اس کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔
معراج
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
(( ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا السَّمَاءَ الدُّنْیَا))
’’ پھر ( میں اور جبریل علیہ السلام ) چل پڑے یہاں تک کہ ہم آسمانِ دنیا پر پہنچ گئے۔ ‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ پھر جبریل علیہ السلام مجھے آسمانِ دنیا کی طرف لے گئے۔ ‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ (( ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِیْ فَعَرَجَ بِی إِلیَ السَّمَاءَ الدُّنْیَا ))
’’ پھر جبریل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمانِ دنیا کی طرف لے گئے۔ ‘‘
یہ تینوں روایات صحیح ہیں اور ان سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر جانے کا ذریعہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے ۔ تاہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بعض روایات ذکر کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نہایت خوبصورت سیڑھی نصب کی گئی جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر کو تشریف لے گئے ۔ واللہ اعلم
پہلے آسمان پر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’حضرت جبریل علیہ السلام نے دستک دی ، پوچھا گیا : آپ کو ن ہیں ؟ انھوں نے کہا : جبریل ۔ پوچھا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انھوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ کہا گیا : کیا آپ کو بلایا گیا ہے؟ انھوں نے کہا : جی ہاں انھیں بلایا گیا ہے ۔ کہا گیا:(( مَرْحَبًا بِہٖ،وَلَنِعْمَ الْمَجِیْیُٔ جَاءَ )) انھیں خوش آمدید اور ان کا آنا مبارک ہو ۔
پھر آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا ۔ ہم پہلے آسمان کے اوپر گئے تو حضرت آدم علیہ السلام کے پاس سے گذرے ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا : یہ آپ کے باپ آدم ہیں ، انھیں سلام کیجئے ۔ میں نے انھیں سلام کہا تو انھوں نے سلام کاجواب دیا اور کہا : (( مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْاِبْنِ الصَّالِحِ ))
’’ نیک بیٹے اور صالح نبی کو خوش آمدید ۔‘‘
پھر انھوں نے میرے لئے دعائے خیر کی ۔ اور میں نے دیکھا کہ ان کے دائیں بائیں کچھ سائے ہیں ، وہ جب دائیں طرف دیکھتے ہیں تو مسکرا دیتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو دیتے ہیں ۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا تو انھوں نے کہا : یہ ان کی دائیں بائیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں ۔ دائیں جانب اہلِ جنت کی اور بائیں جانب اہلِ جہنم کی ، چنانچہ وہ جب اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں تو غم اور صدمے کی وجہ سے رو دیتے ہیں ۔‘‘
دوسرے آسمان پر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام کے ہمراہ دوسرے آسمان پر پہنچے تو وہاں بھی پہلے آسمان کی طرح حضرت جبریل علیہ السلام نے دستک دی ، سوال وجواب کے بعد دروازہ کھولا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا گیا ۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام سے ہوئی جو خالہ زاد بھائی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سلام کہا ۔ انھوں نے جواب دیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوش آمدید کہا اور آپ کیلئے دعائے خیر کی ۔
تیسرے آسمان پر
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسرے آسمان پر پہنچے تو وہاں بھی پہلے آسمان کی طرح حضرت جبریل علیہ السلام نے دستک دی اور آسمان کے دربانوں کے ساتھ ان کے سوال وجواب کے بعد دروازہ کھولا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا گیا ، اِس آسمان پر حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے کرائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سلام کہا ۔ انھوں نے جواب دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا اور آپ کیلئے دعائے خیر کی ۔ ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : (( وَإِذَا ہُوَ قَدْ أُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ )) ’’ میں نے دیکھا کہ آدھا حسن صرف حضرت یوسف علیہ السلام کو دیا گیا ہے ۔‘‘
چوتھے آسمان پر
پھر چوتھے آسمان پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال اسی طرح کیا گیا جیسا کہ پہلے آسمانوں پر کیا گیا ، اِس آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام سے کرائی گئی جنہوں نے اپنے نیک بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید کہا اور ان کیلئے دعائے خیر کی ۔
پانچویں آسمان پر
پھر پانچویں آسمان پر بھی مسرت وشامانی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا گیا اور یہاں آپ کی ملاقات حضرت ہارون علیہ السلام سے کرائی گئی ۔ انھوں نے بھی آپ کو مرحبا کہا اور نیک بھائی اور صالح نبی کا استقبال کرتے ہوئے ان کیلئے دعائے خیر کی ۔
چھٹے آسمان پر
پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھٹے آسمان پر لے گئے ۔ یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال پہلے آسمانوں کی طرح گرمجوشی سے کیا گیا ۔ پھر حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات کرائی گئی جنہوں نے دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور استقبال کیا اور آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کیلئے دعائے خیر کی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’ میں جب آگے بڑھا تو حضرت موسی علیہ السلام رونے لگ گئے ، پوچھا گیا کہ آپ کیوں روتے ہیں ؟ تو انھوں نے کہا :(( یَا رَبِّ،ہَذَا الْغُلَامُ الَّذِیْ بَعَثْتَہُ بَعْدِیْ یَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِہِ الْجَنَّةَ أَکْثَرُ وَأَفْضَلُ مِمَّا یَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِی ))
’’ اے میرے رب ! یہ خوبرو نوجوان جس کو تو نے میرے بعد مبعوث کیا ‘ اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے کہیں زیادہ جنت میں داخل ہونگے ! ‘‘
ساتویں آسمان پر
پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتویں آسمان پر لے گئے جہاں پہلے آسمانوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا گیا اور آپ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کرائی گئی ، انھوں نے بھی دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور استقبال کیا اور اپنے نیک بیٹے اور صالح نبی کو خوش آمدید کہا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:(فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاہِیْمَ مُسْنِدًا ظَہْرَہُ إِلَی الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ،وَإِذَا ہُوَ یَدْخُلُہُ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا یَعُوْدُوْنَ إِلَیْہِ)
’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام ’’البیت المعمور‘‘کا سہارا لئے ہوئے بیٹھے تھے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے(اور وہ جب اس سے نکلتے ہیں تو ) پھر کبھی اس میں داخل نہیں ہو سکیں گے ۔ ‘‘
جبکہ صحیح بخاری میں ہے :(ہَذَا الْبَیْتُ الْمَعْمُوْرُ یُصَلِّی فِیْہِ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ،إِذَا خَرَجُوْا لَمْ یَعُودُوْا إِلَیْہِ آخِرَ مَا عَلَیْہِمْ)
’’ البیت المعمور میں ستر ہزار فرشتے ہر روز نماز اداکرتے ہیں ، جب وہ چلے جاتے ہیں تو وہ آخر تک اس میں نہیں لوٹ سکیں گے ۔‘‘
قتادۃ کہتے ہیں:(ذُکِرَ لَنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم قَالَ: الْبَیْتُ الْمَعْمُوْرُ مَسْجِدٌ فِی السَّمَائِ بِحِذَاءِ الْکَعْبَةِ،لَوْ خَرَّ لَخَرَّ عَلَیْہَا)
’’ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : البیت المعمور خانہ کعبہ کے برابر آسمان میں ایک مسجد ہے، اگر وہ گر جائے تو سیدھی خانہ کعبہ پر گرے گی ۔‘‘ اورجب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے البیت المعمورکے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:
(بَیْتٌ فِی السَّمَاءِ بِحِیَالِ الْبَیْتِ،حُرْمَتُہُ فِی السَّمَاءِ کَحُرْمَةِ ہَذَا فِی الْأَرْضِ)
’’ وہ بیت اللہ (کعبہ)کے برابر آسمان میں اللہ کا گھر ہے اور آسمان میں اس کی حرمت ایسے ہی ہے جیسا کہ زمین میں خانہ کعبہ کی حرمت ہے۔ ‘‘
مہمان نوازی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
(( ثُمَّ أُتِیْتُ بِإِنَاءٍ مِّنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِّن لَّبَنٍ وَإِنَاءٍ مِّنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ ، فَقَالَ:ہِیَ الْفِطْرَۃُ الَّتِی أَنْتَ عَلَیْہَا وَأُمَّتُكَ))
’’ پھر مجھے تین برتن پیش کئے گئے ، ایک میں شراب ، دوسرے میں دودھ اور تیسرے میں شہد تھا ۔ میں نے دودھ والا برتن اٹھایا اور دودھ نوش کیا ۔ چنانچہ جبریل نے کہا :آپ اور آپ کی امت کے لوگ فطرت پر قائم ہیں ۔‘‘
صحیحین کی ایک اور روایت میں صرف دودھ اور شراب کا ذکر ہے اور اس میں یہ الفاظ بھی ہیں : (أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ ) ’’ خبردار ! اگر آپ شراب والا برتن اٹھاتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔‘‘
سدرۃ المنتہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’ پھر مجھے اور اوپر ’’سدرۃ المنتہی‘‘ کی جانب لے جایا گیا ۔ ( میں نے اسے بغور دیکھا تو ) اس کے پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل ایسے تھے جیسے ’’ہجر ‘‘ کے مٹکے ہوں ۔ پھر جب اللہ کے حکم سے اسے کسی چیز نے ڈھانپ دیا تو وہ اس قدر خوبصورت ہو گیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی شخص اس کا حسن بیان نہیں کر سکتا ۔ ( او رمیں نے دیکھا کہ ) اس کی جڑ میں چار نہریں ہیں ، دو باطنی اور دو ظاہری ، میں نے جبریل سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ کہ دو باطنی نہریں جنت میں ہیں اور ظاہری نہریں’’ فرات ‘‘ اور ’’ نیل ‘‘ ہیں۔ ‘‘
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ (إِلَیْہَا یَنْتَہِیْ مَا یُعْرَجُ بِہِ مِنَ الْأَرْضِ فَیُقْبَضُ مِنْہَا، وَإِلَیْہَا یَنْتَہِی مَا یُہْبَطُ بِہِ مِنْ فَوْقِہَا ، فَیُقْبَضُ مِنْہَا)
’’ سدرۃ المنتہی وہ مقام ہے جہاں زمین سے اوپر کو اٹھائی جانے والی چیز پہنچائی جاتی ہے اور وہاں اسے وصول کر لیا جاتا ہے ، اسی طرح اوپر سے جو چیز نیچے لائی جاتی ہے وہ بھی اسی مقام پر پہنچائی جاتی ہے اور وہاں اسے وصول کرلیا جاتا ہے ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ﴿إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے سونے کی تتلیاں ڈھانپ لیتی ہیں ۔
رؤیت ِ جبریل امین علیہ السلام
’’ سدرۃ المنتہی ‘‘ کے پاس ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دوسری مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ‎﴿١٣﴾‏ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ‎﴿١٤﴾‏ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ‎﴿١٥﴾‏ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ‎﴿١٦﴾‏ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ‎﴿١٧﴾‏ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ
’’ اور انھوں نے اُس ( فرشتہ ) کو دوسری بار دیکھا سدرۃ المنتہی کے پاس ، جس کے قریب ہی جنت المأوی ہے ، جب اُس سدرۃ کو وہ چیز ڈھانپ رہی تھی جو اسے ڈھانپ رہی تھی ، نہ ان کی نگاہ نے خطا کی اور نہ حد سے متجاوز ہوئی ، انھوں نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ﴾‏ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(( رَأَیْتُ جِبْرِیْلَ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتُہٰی عَلَیْہِ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ ))
’’ میں نے جبریل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا جن پر چھ سو پر تھے ۔‘‘
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس آیت کریمہ ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ کی یہی تفسیر کی ہے کہ اس سے مراد رؤیت ِ جبریل امین علیہ السلام ہے۔
جبکہ پہلی مرتبہ بعثت کے ابتدائی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کی اصل شکل میں دیکھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ‎﴿٨﴾‏ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ‎﴿٩﴾
’’پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا، پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم ۔‘‘
ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھا جب ان پر چھ سو پر تھے ۔
ان آیات کی تفسیر جب ایک صحابی سے صحیحین میں ثابت ہے تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ دو کمانوں کے بقدر یہ فاصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رہ گیا تھا ۔
جنت کی سیر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
(( ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِیْہَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤ وَإِذَا تُرَابُہَا الْمِسْك ))
’’ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا ، ( میں نے دیکھا کہ ) اس میں انتہائی عمدہ موتیوں کے قبے ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے ۔ ‘‘
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( بَیْنَا أَنَا أَسِیْرُ فِی الْجَنَّةِ أَتَیْتُ عَلٰی نَہْرٍ حَافَتَاہُ قُبَابُ اللُّؤْلُؤ ، فَقُلْتُ : مَا ہَذَا یَا جِبْرِیْلُ ؟قَالَ: ہَذَا الْکَوْثَرُ الَّذِیْ أَعْطَاكَ رَبُّكَ عَزَّ وَجَلَّ،قَالَ : فَضَرَبْتُ بِیَدِیْ فِیْہِ فَإِذَا طِیْنُہُ الْمِسْك)) ’’ میں جنت کی سیر کر رہا تھا کہ اسی دوران میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر عمدہ موتیوں کے قبے تھے ، میں نے کہا : جبریل ! یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا : یہ وہ نہر کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میں نے اس میں اپنا ہاتھ مارا تو اس کی مٹی کستوری تھی ۔ ‘‘
قلم چلنے کی آواز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
(( ثُمَّ عُرِجَ بِی حَتّٰی ظَہَرْتُ لِمُسْتَوَی أَسْمَعُ فِیْہِ صَرِیْفَ الْأَقْلَامِ))
’’ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں میں نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی ۔‘‘
یعنی جہاں فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور اس کے احکامات لکھ رہے تھے مجھے وہاں تک لے جایا گیا ۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اللہ رب العزت کو دیکھا تھا ؟
ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:(وَاتَّفَقَتِ الْأُمَّةُ عَلٰی أنَّہُ لَا یَرَاہُ أَحَدٌ فِی الدُّنْیَا بِعَیْنِہِ ،وَلَمْ یَتَنَازَعُوْا فِی ذَلِكَ إِلَّا فِی نَبِیِّنَا صلي الله عليه وسلم خَاصَّةً، مِنْہُمْ مَّنْ نَفٰی رُؤْیَتَہُ بِالْعَیْنِ ، وَمِنْہُمْ مَّنْ أَثْبَتَہَا لَہُ صلي الله عليه وسلم )
’’ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا میں اپنی آنکھوں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور اس بارے میں ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں ، ہاں صرف ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے ، چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور کچھ اس کااثبات کرتے ہیں ۔‘‘
پھر انھوں نے قاضی عیاض کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ اس مسئلہ میں خود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین بھی اختلاف تھا ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نفی ِ رؤیت کے قائل تھے جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اثبات ِ رؤیت کے قائل تھے ۔ اور بقول قاضی عیاض اثبات ِ رؤیت کی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے سوائے سورۃ النجم کی دو آیات کے ۔ اور ان کی تفسیر میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔
عزیزان گرامی ! یہ نزاع اپنی جگہ پر ، لیکن صریح اور قطعی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا ۔ ان میں سے چند نصوص یہ ہیں :
1۔ مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھا تھا کہ آپ کہنے لگیں : اے ابو عائشہ ( مسروق کی کنیت ) ! تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کے بارے میں کلام کرے تو اُس نے گویا اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ۔ میں نے کہا : وہ کونسی ہیں؟
فرمانے لگیں : جو شخص یہ دعوی کرے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ۔
مسروق کہتے ہیں : میں تکیے کا سہارا لے کر بیٹھا ہوا تھا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات سن کر سیدھا بیٹھ گیا اور میں نے کہا : ام المؤمنین ! مجھے بات کرنے کی اجازت دیں ، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا :﴿وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ  ’’ انھوں نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا ہے ‘‘ اور فرمایا ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ’’ اور انھوں نے اُس کو دوسری بار دیکھا‘‘؟
تو انھوں نے فرمایا : میں نے سب سے پہلے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : وہ جبریل ہیں جنھیں میں نے ان کی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا تھا ۔اسی کا ذکر ان دونوں آیات میں کیا گیا ہے ۔
پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا :
﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ 
’’ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا پورا ادراک کرتا ہے ۔ اور وہی انتہائی باریک بین اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘
اور تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی نہیں سنا :
﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴾‏
’’ اور کسی انسان کیلئے یہ ممکن نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے ، سوائے اس کے کہ اس پر وحی نازل کرے یا کسی پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو بھیجے ، پھر وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے ، بے شک وہ سب سے اونچا ، بڑی حکمت والا ہے۔ ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ الخ
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ مسروق نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : امی جان ! کیاحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو انھوں نے کہا : تم نے جو سوال کیا ہے اسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں ، میں تمھیں تین باتیں بتا رہی ہوں ‘ جو بھی تمھیں ان کے بارے میں بیان کرے وہ جھوٹا ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ جو شخص تمھیں یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ یقینا جھوٹا ہے ۔۔۔الخ
2۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( نُوْرٌ أَنّٰی أُرَاہُ ) ’’ وہ تو نور ہے ، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ۔‘‘
3۔ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے اور پانچ باتیں بیان فرمائیں:(( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَنَامُ وَلَا یَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَّنَامَ ، یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَیَرْفَعُہُ،یُرْفَعُ إِلَیْہِ عَمَلُ اللَّیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّہَارِ،وَعَمَلُ النَّہَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّیْلِ،حِجَابُہُ النُّوْرُ،لَوْ کَشَفَہُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْہِہِ مَا انْتَہَی إِلَیْہِ بَصَرُہُ مِنْ خَلْقِہِ))
’’ بے شک اللہ تعالیٰ کو نیند نہیں آتی ا ور نہ ہی اس کے شایان شان ہے کہ وہ سوئے ، وہ ترازو کو نیچے کرتا اور بلند کرتا ہے ، اُس کی طرف رات کا عمل (آنے والے ) دن کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے اور دن کا عمل (آنے والی ) رات کے عمل سے پہلے اوپر لے جایا جاتا ہے ۔ اس کے سامنے نور حائل ہے ،اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کے انوار تمام مخلوقات کو جلا کر راکھ بنا دیں ۔ ‘‘
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اس دنیا میں کسی شخص کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے خواہ وہ نبی کیوں نہ ہوں ۔
اس کی ایک اور دلیل حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ بھی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ‎﴾‏
’’ اور جب موسی ( علیہ السلام ) ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کا رب ان سے ہمکلام ہوا تو انھوں نے کہا : اے میرے رب ! مجھے اپنا دیدار نصیب فرما ، اللہ تعالیٰ نے کہا : تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ، لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہے تو تم مجھے دیکھ لو گے ۔ پھر جب اس پہاڑ پر اُس کے رب کی تجلی کا ظہور ہوا تو اسے ریزہ ریزہ کردیا ۔ اور موسی ( علیہ السلام ) بے ہوش ہو کر گر پڑے ، پھر جب ہوش ہوآیا تو کہنے لگے : اے اللہ ! تو ہر عیب سے پاک ہے ، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں پہلا مومن ہوں۔ ‘‘
اور جہاں تک سورۃ النجم کی آیات ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ‎﴿٨﴾‏ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ‎﴿٩﴾‏ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ کا تعلق ہے تو ان کی تفسیر صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھنا ہے۔
تاہم قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنا دیدار نصیب فرمائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ‎﴿٢٢﴾‏ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‎﴾
’’ اُس دن بہت سارے چہرے شاداب ہونگے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے ۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی :
اے اللہ کے رسول ! کیا ہم قیامت کے روز اپنے رب کو دیکھ سکیں گے ؟ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( ہَلْ تُضَارُّوْنَ فِی رُؤْیَةِ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ)) ’’کیا چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمھیں کسی مزاحمت یا مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟ ‘‘
انھوں نے کہا : نہیں ۔
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ہَلْ تُضَارُّوْنَ فِی الشَّمْسِ لَیْسَ دُوْنَہَا سَحَابٌ ؟))
’’ کیا تمہیں سورج کودیکھنے میں کسی مزاحمت یا مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اس کے سامنے بادل نہ ہوں ؟ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( فَإِنَّکُمْ تَرَوْنَہُ کَذَلِكَ))
’’ اسی طرح تم اپنے رب کو بھی دیکھو گے۔ ‘‘
اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ ، قَالَ : یَقُوْلُ اللّٰہُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی: تُرِیْدُوْنَ شَیْئًا أَزِیْدُکُمْ ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: أَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْہَنَا ؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ ؟ قَالَ : فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ ، فَمَا أُعْطُوْا شَیْئًا أَحَبَّ إِلَیْہِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلٰی رَبِّہِمْ عَزَّ وَجَلَّ ))
’’جب اہلِ جنت،جنت میں چلے جائیں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا:کیا تمھیں کوئی اور چیز چاہئے؟ وہ کہیں گے:کیا تو نے ہمارے چہروں کو رونق نہیں بخشی ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل کرکے جہنم سے نجات نہیں دی؟تو اللہ تعالیٰ پردہ ہٹا دے گا،پھر انھیں اپنے پروردگار کی طرف دیکھنے سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہوگی۔ ‘‘
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اہل ِ جنت میں شامل فرما کر ہمیں بھی اپنی رؤیت نصیب فرمائے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل علیہ السلام سدرۃ المنتہی سے آگے اُس مقام تک لے گئے جہاں آپ نے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور اس کے احکامات کو لکھنے والے قلموں کی آوازیں سنیں ۔
تحفۂ معراج
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:(( فَأَوْحَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیَّ مَا أَوْحٰی، وَفَرَضَ عَلَیَّ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ))
’’ پھر اللہ تعالیٰ نے جو کچھ وحی کرنا چاہا میری طرف وحی کیا اور مجھ پر دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض کیں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’ میں واپس لوٹا یہاں تک کہ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس پہنچا ، انھوں نے کہا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا: دن اور رات میں پچاس نمازیں ۔ انھوں نے کہا : آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور ان سے تخفیف کا سوال کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ۔ میں بنو اسرائیل کو آزما چکا ہوں ۔ چنانچہ میں اپنے رب کی طرف واپس آیا اور میں نے کہا : اے میرے رب ! میری امت پر تخفیف کریں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں ۔
پھر میں موسی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے پوچھا : کیا ہوا ؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کردی ہیں ۔ انھوں نے کہا: آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیںرکھتی ، لہٰذا آپ واپس جائیں اور مزید تخفیف کا سوال کریں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میں بار بار اپنے رب اور موسی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا اور اللہ تعالیٰ ہر مرتبہ پانچ پانچ نمازیں کم کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کہا:(یَا مُحَمَّدُ،إِنَّہُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ،لِکُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرٌ،فَذَلِكَ خَمْسُوْنَ صَلَاۃً)
’’ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اب ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہی ہیں اور ہر نماز دس نمازوں کے برابر ہے ۔ سو یہ ( گنتی میں پانچ ہیں لیکن اجر وثواب کے اعتبار سے ) پچاس نمازیں ہیں ۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے دس دس ‘ اور آخری مرتبہ پانچ نمازیں کم کیں اور جب پانچ نمازیں باقی رہ گئیں تو حضرت موسی علیہ السلام نے پھر بھی یہی کہا کہ آپ واپس جائیں اور مزید تخفیف کا سوال کریں ، لیکن میں نے کہا : اب تو مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے ۔ میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں ۔ چنانچہ ایک منادی نے پکار کر کہا : میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا ہے اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے اور میں ایک نیکی کے بدلے میں اس جیسی دس نیکیاں دیتا ہوں ۔‘‘
برادرانِ اسلام! دن اور رات میں پانچ نمازیں تحفۂ معراج ہیں ۔ اور اس پورے معجزے سے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل ثابت ہوتے ہیں وہاں اس سے ان نمازوں کی اہمیت وفرضیت بھی ثابت ہوتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو بار بار تاکید کی ہے کہ وہ نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرتے رہیں ۔ اور نمازیں ضائع کرنے یا ان میں سستی کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ذکر کیا ہے ۔ ( نسأل اللہ العفو والعافیة )
اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ جن پر باقی سارے احکام کی فرضیت زمین پر نازل ہوئی جبکہ نمازیں آپ پر آپ کو آسمانوں سے اوپر بلا کر فرض کی گئیں ‘ آپ خود بھی ساری زندگی پابندی کے ساتھ ان نمازوں کو ادا کرتے رہے اور آپ نے اپنی امت کو بھی اسی بات کی آخری وصیت فرمائی کہ ( اَلصَّلَاۃَ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ)’’ نماز کی پابندی کرنا اور اپنے ما تحت لوگوں کے حقوق ادا کرتے رہنا ۔‘‘
لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ جہاں قصۂ معراج سے اپنے ایمان کو ترو تازہ کرے وہاں اِس تحفۂ معراج کی اہمیت وفرضیت کا بھی اپنے دل کی گہرائیوں سے اعتراف کرے اور عملی طور پر اسے ہمیشہ پابندی کے ساتھ ادا کرتا رہے کیونکہ اس میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کی راحت ہے اور یہ باری تعالیٰ سے مناجات کا بڑا ذریعہ
ہے ۔اسی لئے اسے ’’ام العبادات ‘‘اور مومن کی معراج کہا گیا ہے ۔
اللہ رب العزت کا ایک اور احسان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
(( وَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَةٌ ،فَإِنْ عَمِلَہَا کُتِبَتْ لَہُ عَشْرًا،وَمَنْ ہَمَّ بِسَیِّئَةٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا لَمْ تُکْتَبْ شَیْئًا، فَإِنْ عَمِلَہَا کُتِبَتْ سَیِّئَةً وَاحِدَۃً ))
’’ نمازوں کی فرضیت کے علا وہ یہ بات بھی میری طرف وحی کی گئی کہ جو نیکی کا ارادہ کرے ، پھر اسے عملی طور پر انجام نہ دے تو وہ اس کیلئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور اگر وہ اسے عملی طور پر کر لے تو اس کیلئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے ، پھر اس پر عمل نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔ اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے ۔ ‘‘
تین انعامات
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(أُعْطِیَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلي الله عليه وسلم ثَلَاثًا: أُعْطِیَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ،وَأُعْطِیَ خَوَاتِیْمَ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ،وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ یُشْرِك بِاللّٰہِ مِنْ أُمَّتِهِ شَیْئًا اَلْمُقْحِمَاتُ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں عطا کی گئیں :
۱۔ پانچ نمازیں
۲۔ سورۃ البقرۃ کی آخری آیات
۳۔ آپ کی امت کے ہر اس فرد کے بڑے گناہ معاف کردئے گئے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ۔
پہلا انعام پانچ نمازیں ہیں جن کے متعلق ہم مختصر سی گفتگو پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اور دوسرا انعام سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات ہیں جن کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ(( اَلْآیَتَانِ مِنْ آخِرِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ مَنْ قَرَأَ بِہِمَا فِیْ لَیْلَةٍ کَفَتَاہُ ))
’’ جو شخص سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات کسی رات میں پڑھ لے تو وہ اسے کافی ہو جاتی ہیں ۔ ‘‘
اور تیسرا انعام کبیرہ گناہوں کی مغفرت ہے ہر اس شخص کیلئے جس کی موت عقیدۂ توحید پر آئے ۔اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے بغیر سزا وعذاب کے معاف کردے گا اور اگر چاہے گا تو اسے اس کے کبیرہ گناہوں کی سزا دے کر جہنم سے نکال دے گا اور پھر اسے جنت میں داخل کردے گا ، جیسا کہ بعض نافرمان موحدین کے بارے میں اہل السنۃ والجماعہ کا عقیدہ ہے اور اس کے متعلق واضح دلائل بھی موجود ہیں۔
چند اہم واقعات
1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
جس رات میں مجھے سیر کرائی گئی مجھے عمدہ خوشبو محسوس ہوئی ، میں نے کہا : جبریل ! یہ عمدہ خوشبو کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : یہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی خاتون اور اس کے بچوں کی خوشبو ہے ۔ میں نے کہا : اس کا کیا قصہ ہے ؟
انھوں نے کہا : وہ ایک دن بنت ِ فرعون کو کنگھی کر رہی تھی کہ کنگھی اس کے ہاتھ سے گر گئی ، تب اس نے کہا : بسم اﷲ
بنت ِ فرعون نے پوچھا : میرا باپ ؟
اس نے کہا : نہیں ، یہ وہ اللہ ہے جو تیرے باپ کا بھی رب ہے ۔
بنت ِ فرعون نے کہا : کیا میں اپنے باپ کو خبر دوں ؟ اس نے کہا : ہاں ، دے دو
چنانچہ بنت ِ فرعون نے اپنے باپ فرعون کو اس واقعہ کی خبر دی۔ اس نے اسے بلایا اور کہا : کیا میرے علاوہ بھی تمھارا کوئی رب ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ، اللہ تعالیٰ جو میرا اور تیرا بھی رب ہے ۔
تو اس نے تانبے کے ایک بڑے برتن میں تیل گرم کرنے کا حکم دیا ، پھر اس نے کہا : اِسے اور اس کے بچوں کو اس میں پھینک دیا جائے ۔
اُس خاتون نے کہا : میں تم سے ایک مطالبہ کرنا چاہتی ہوں ۔ اس نے کہا : کیا ہے ؟ تو اس نے کہا : میں یہ چاہتی ہوں کہ تم میرے بچوں کی ہڈیاں ایک کپڑے میں لپیٹ کر ہم سب کو ایک ہی قبر میں دفن کردینا ۔
اس نے کہا : ٹھیک ہے ۔
پھر اُس کے حکم کے مطابق اُس کے بچوں کو ایک ایک کرکے اُبلتے تیل میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ اس کا ایک دودھ پیتا بچہ باقی رہ گیا ۔ اُس کی وجہ سے ایسے لگا جیسے وہ پیچھے ہٹ رہی ہے ، تب وہ دودھ پیتا بچہ بول اٹھا اور کہنے لگا : (یَا أُمَّہْ،اِقْتَحِمِیْ،فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا أَہْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَۃِ )
’’ امی جان ! کود جائیں ، کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے ۔‘‘
چنانچہ اس نے بھی اس میں چھلانگ لگا دی۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَقِیْتُ إِبْرَاہِیْمَ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِی،فَقَالَ:یَا مُحَمَّدُ،أَقْرِءُ أُمَّتَكَ مِنِّی السَّلَامَ، وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَیِّبَةُ التُّرْبَةِ،عَذْبَةُ الْمَاءِ،وَأَنَّہَا قِیْعَانٌ،غِرَاسُہَا : سُبْحَانَ اللّٰہِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ))
’’اسراء ومعراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی تو انھوں نے کہا: اے محمد!اپنی امت کو میری طرف سے سلام پہنچادینا،اور انھیں آگاہ کرنا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی ہے ،اس کا پانی انتہائی میٹھا ہے اوراس کی زمین بالکل ہموار ہے اور(سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ)کے ساتھ اس میں شجر کاری کی جا سکتی ہے۔ ‘‘
3۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’ جب میرے رب عز وجل نے مجھے معراج کرایا تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گذرا جنھیں تانبے کے ناخن دئیے گئے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ۔ میں نے کہا : جبریل ! یہ کون ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا :
(ہٰؤُلاَءِ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ وَیَقَعُوْنَ فِی أَعْرَاضِہِمْ)
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ( غیبت کرتے ) ہیں اور ان کی عزتوں پر طعن وتشنیع کرتے ہیں۔‘‘
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ میں نے شبِ معراج میں دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ۔ میں نے کہا: جبریل ! یہ کون ہیں؟ انھوں نے عرض کیا :
(ہٰؤُلَاءِ خُطَبَاءُ مِنْ أُمَّتِكَ،یَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَیَنْسَوْنَ أَنْفُسَہُمْ وَہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ،أَفَلَا یَعْقِلُوْنَ ؟)
’’ یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہیں حالانکہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت بھی کرتے ہیں تو کیا انھیں عقل نہیں ہے ؟‘‘
یہ معجزۂ اسراء ومعراج کے وہ واقعات تھے جو صحیح اسانید کے ساتھ روایت کئے گئے ہیں ۔ہم نے انھیں جوں کا توں بیان کردیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اس عظیم الشان معجزہ پر اور اس میں ذکر کی گئی تمام غیبی باتوں پر ایمان لانے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے ۔آمین
دوسرا خطبہ
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اوپر سے نیچے اترے تو انبیائے کرام علیہم السلام بھی آپ کے ساتھ بیت المقدس میں آئے جہاں آپ نے انھیں نماز پڑھائی جو ہو سکتا ہے کہ اُس دن کی صبح کی نماز ہو ۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس سے نکلے ، براق پر سوار ہوئے اور صبح کے اندھیرے میں ہی مکہ میں پہنچ گئے۔
شاید ان کی دلیل صحیح مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
(( وَقَدْ رَأَیْتُنِی فِی جَمَاعَةٍ مِنَ الْأنْبِیَاءِ فَإِذَا مُوسٰی قَائِمٌ یُّصَلِّی،فإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئةِ وَإِذَا عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ قَائِمٌ یُّصَلِّی، أَقْرَبُ النَّاسِ بِہِ شَبَہًا عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِی،وَإِذَا إِبْرَاہِیْمُ قَائِمٌ یُّصَلِّی، أَشْبَہُ النَّاسِ بِہِ صَاحِبُکُمْ (یَعْنِی نَفْسَہُ ) فَحَانَتِ الصَّلَاۃُ،فَأَمَمْتُہُمْ ))
’’ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں انبیائے کرام علیہم السلام کی جماعت میں ہوں ۔ میں نے اچانک دیکھا کہ موسی علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ ( میں نے انھیں بغور دیکھا تو ) وہ دبلے پتلے اور گھنگریالے بالوں والے تھے ، جیسا کہ وہ شنوء ۃ قبیلہ کے لوگوں میں سے ہوں ۔ میں نے پھر دیکھا تو وہاں عیسی علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور ان سے سب سے زیادہ ملتے جلتے عروہ بن مسعود الثقفی ہیں۔ پھر دیکھا تو وہاں ابراہیم علیہ السلام بھیکھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور ان سے سب سے زیادہ ملتے جلتے تمھارے ساتھی ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ پھر نماز کا وقت ہوا تو میں نے انھیں نماز پڑھائی ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسراء ومعراج کے بعد جب مکہ مکرمہ کوواپس لوٹ رہے تھے تو آپ قریش کے ایک قافلے کے پاس سے بھی گذرے جس کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کو اُس کے بارے میں اور اس کی آمد کے وقت کے متعلق آگاہ کیا تو جو کچھ آپ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا ۔ لیکن کفار نے پھر بھی اِس عظیم الشان واقعہ کو ماننے سے انکار کردیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’ جس رات مجھے سیر کرائی گئی اُس کی صبح میں نے مکہ مکرمہ میں کی اور مجھے اِس سلسلے میں پریشانی لاحق ہوئی کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے ۔ چنانچہ میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر غمزدہ حالت میں بیٹھ گیا ، اسی دوران اللہ کا دشمن ابو جہل میرے پاس سے گذرا ، اُس نے مجھے دیکھا تو میری طرف چلا آیا اور میرے پاس بیٹھ کر استہزاء کے انداز میں کہنے لگا :
آج کوئی نئی بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں
اس نے کہا : وہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آج رات مجھے سیر کرائی گئی ہے ۔
اس نے کہا : کہاں کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیت المقدس کی ۔
اس نے کہا : سیر کرکے آپ صبح سویرے ہمارے پاس بھی پہنچ گئے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں
تو اُس نے اِس اندیشے کے پیش ِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ جھٹلایا کہ جب وہ آپ کی قوم کے لوگوں کو بلا کر آپ کے پاس لے آئے تو کہیں آپ یہ بات ان کے سامنے بیان کرنے سے انکار ہی نہ کردیں۔ اس لئے اس نے کہا :
آپ کا کیا خیال ہے اگر میں آپ کی قوم کو بلا لاؤں تو آپ انھیں بھی یہ قصہ بیان کریں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے ۔
چنانچہ اُس نے بنو کعب بن لؤی کو پکارا ، جب سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھے ہو گئے تو ابو جہل نے کہا : اب آپ اپنی قوم کے لوگوں کو بھی وہی واقعہ سنائیں جو آپ نے مجھے سنایا ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آج رات مجھے سیر کرائی گئی ہے ۔
لوگوں نے کہا : کہاں کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیت المقدس کی ۔
لوگوں نے کہا : پھر آپ نے صبح بھی ہمارے درمیان کی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : کچھ لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کردیا اور کچھ نے اظہارِ حیرت کے طور پر اپنے سر پکڑ لئے ۔
پھر انھوں نے کہا : کیا آپ مسجد اقصی کے بارے میں بتا سکتے ہیں کہ وہ کیسی ہے ؟ یاد رہے کہ ان میں سے کچھ لوگ بیت المقدس کی طرف سفر کر چکے تھے اور وہ مسجد دیکھ چکے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ میں جب مسجد اقصی کے بارے میں بتانے لگا کہ وہ ایسی ہے تو اُس کی کچھ چیزوں کے بارے میں مجھے التباس سا ہو گیا ، پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد اقصی کو عقیل کے گھر کے قریب لا کھڑا کیا گیا ہے ، میں اسے اپنی نظروں سے دیکھتا رہا اور اس کے بارے میں لوگوں کو بتاتا رہا کہ وہ کیسی ہے ۔‘‘ چنانچہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جہاں تک مسجد اقصی کا وصف بیان کرنے کی بات ہے تو اللہ کی قسم !اس میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے کوئی غلطی نہیں کی۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَقَدْ رَأَیْتُنِیْ فِی الْحِجْرِ وَقُرَیْشٌ تَسْأَلُنِی عَنْ مَسْرَایَ،فَسَأَلَتْنِیْ عَنْ أَشْیَاءَ مِنْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْہَا،فَکَرَبْتُ کُرْبَةً مَا کَرَبْتُ مِثْلَہُ قَطُّ،قَالَ: فَرَفَعَہُ اللّٰہُ لِی أَنْظُرُ إِلَیْہِ،مَا یَسْأَلُوْنِی عَنْ شَیْئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُہُمْ بِہِ ))
’’ میں نے دیکھا کہ میں حطیمِ کعبہ میں ہوں اور قریش مجھ سے واقعۂ اسراء کے متعلق سوالات کر رہے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بیت المقدس کے بارے میں مجھ سے ایسی باتیں پوچھیں جو مجھے یاد نہیں رہی تھیں۔ لہٰذا میں اُس دن اتنا پریشان ہوا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے لا کھڑا کیا ۔ بعد ازاں وہ جو سوال کرتے میں بیت المقدس کو دیکھ کر انھیں جواب دے دیتا ۔‘‘
یہ تو تھا قریش کا حال ۔ لیکن جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کا تعلق ہے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ سن کر آپ کی فورا تصدیق کی ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریش کے کچھ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم اپنے ساتھی کی بات مانو گے،وہ دعوی کرتا ہے کہ ایک ہی رات میں بیت المقدس گیا اور مکہ کو واپس لوٹ آیا ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : انھوں نے واقعتا ایسی بات کی ہے ؟
لوگوں نے کہا : ہاں ، بالکل کی ہے ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : تب انھوں نے سچ فرمایا ہے ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انھیں یہ جواب دیا کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اِس سے بھی دور کے معاملے میں کرتا ہوں جب وہ آسمان سے وحی نازل ہونے کی خبر دیتے ہیں ۔
راوی کہتے ہیں : اسی لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ’’صدیق‘‘ کہا گیا ۔
برادرانِ اسلام !
آخر میں مختصرا یہ بھی جان لیجئے کہ اس عظیم معجزہ کے کئی مقاصد تھے ۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
1۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معجزہ اُس وقت عطا کیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال اور اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد انتہائی غمزدہ تھے ۔ اور اُدھر اہلِ طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو بد سلوکی کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینا اس کا بھی صدمہ تھا ۔ ایسے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء ومعراج کے ذریعے تسلی دی گئی اور آپ کو آگاہ کیا گیا کہ اگر اہلِ زمین آپ سے بد سلوکی کرتے ہیں تو اہلِ آسمان آپ کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں ۔
2۔بیت المقدس میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا کرکے آپ کی افضلیت ثابت کی گئی
3۔ شقِ صدر کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کو اور پختہ کیا گیا اور اسے مزید ترو تازگی بخشی گئی
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں سے اوپر لے جا کر اللہ تعالیٰ کی متعدد عظیم نشانیاں دکھلائی گئیں ، جنت کی سیر کرائی گئی ، جہنم کے عذاب میں مبتلا کئی لوگوں کو دکھلایا گیااور سدرۃ المنتہی وغیرہ کی زیارت کرائی گئی ۔ یقینا اس طرح کے غیبی امور کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عین الیقین نصیب ہوا ۔
5۔اس عظیم سفر میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کیں جو اِس فریضۂ اسلام کی عظمت اور اہمیت کی دلیل ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معجزات پر ایمان لانے کی توفیق دے اور قیامت کے روز ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے ہاتھوں حوض کوثر کا پانی نصیب فرمائے ۔
وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین