اطاعت اور اتباع رسولﷺ کے تقاضے
233۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عننہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبٰي))
’’میری امت کے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے مگر جو (جنت میں جانے سے) انکار کرے گا۔‘‘
صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون ہے جو انکار کرے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبٰي)) (أَخْرَجَةُ الْبُخَارِي:7280)
’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے یقینا انکار کیا۔‘‘
234۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((منْ أَطَاعَتِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى الله، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِي:2957 و7137، وَمُسْلِمٌ:1835)
’’جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جس شخص نے میری نافرمانی کی اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی۔ جس شخص نے میرے امیر کی بات مانی اس نے میری بات مانی اور جس نے میرے امیر کی خلاف ورزی کی اس نے گویا میری خلاف ورزی کی۔‘‘
235۔سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانٌ عَلٰى أَرِيكَتِهِ يَقُول: عَلَیْكُمْ بِهٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدتُّمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُّمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَلَا لُقْطَةُ مُعَاهِدٍ إِلَّا أَن يُسْتَغْنٰى عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُرْهُ فَلَهُ أَن يُّعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ)) ( أخرجه أحمد: 17174، وأبو داؤد:4604)
’’(لوگو) آگاہ ہو جاؤا یقینًا مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز بھی دی گئی ہے۔ (لوگو) آگاہ ہو جاؤ! عنقریب ایسے ہوگا کہ ایک پیٹ بھرا (آسودہ حال) آدمی اپنے تخت یا دیوان پر بیٹا کہے گا: تم صرف اس قرآن کو لازم پکڑو۔ جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ (لوگو) سن لو! تمھارے لیے گھریلو گدھوں کا گوشت، کچلی والے درندے، اور کسی ذمی (کافر) کا گرا پڑا مال اٹھا لینا حلال نہیں مگر یہ کہ اس کا مالک اس سے بے پروا ہو جائے۔ اور جو شخص کسی قوم کے پاس جائے تو ان پر اس کی مہمانی کرنا واجب ہے اگر وہ اس کی مہمانی نہ کریں تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے سے اپنی مہمانی کے مطابق ان سے حاصل کرلے۔ ‘‘
238۔ سیدنا ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی نے فرمایا:
((ا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ، يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي, مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ، أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، فَيَقُولُ: لَا نَدْرِي! مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ!)) (أخرجه أبو داود: 4605، والترمذي: 2663، وابن ماجه: 13، والحاكم: 108/1)
’’میں تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں ہرگز نہ پاؤں کہ وہ اپنے تخت یا دیوان پر بیٹھا ہو اور اس کے پاس میرے احکام میں سے کوئی حکم پہنچے جس کا میں نے حکم دیا ہو یا اس سے منع کیا ہو تو وہ کہنے لگے: ہم نہیں جانتے، ہم تو کتاب اللہ میں جو پائیں گے، صرف اس پر عمل کریں گے۔ ‘‘
توضیح وفوائد: اللہ تعالیٰ نے کائنات کی افضل اور کامل ترین ہستی کو اپنا آخری نبی اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا تو انھیں لوگوں کے لیے پیروی کا نمونہ بنایا۔ آپﷺ جو دین لے کر آئے، وہ ہر خاص و عام، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب کے لیے سمجھنا یکساں طور پر آسان ہے، بس ایک ہی شرط ہے کہ انسان کو نصیحت حاصل کرنے کی سچی تڑپ ہو۔ اللہ تعالی نے رہتی دنیا تک لوگوں کی کامیابی کی صرف ایک کنجی بنائی ہے اور وہ ہے اتباع رسول (ﷺ)۔ رسول الله ﷺنے نہایت وضاحت سے آگاہ فرما دیا کہ لوگ تمھیں میری اطاعت و اتباع سے ہٹانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کریں گے لیکن تمھاری نجات کا واحد راستہ میری اطاعت ہے اور وہ بھی اس طرح کہ میری اطاعت ہی سب پر مقدم ہو۔ ملال یہ ہے کہ آج کوئی قرآن کی آڑ لے کر اور کوئی فقہ کی دیوار کھڑی کر کے لوگوں کو اتباع رسول ﷺسے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اللہ تعالی ہدایت دے۔
237۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اہل کتاب کی کتاب کے چند اوراق لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انھیں پڑھنا شروع کر دیا۔ آپ یہ دیکھ کر غضبناک ہوئے اور فرمایا:
((أَمُتَهَوَّلُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءُ نَقِيَّةً، لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍ فَتُكَذِّبُوا بِهِ، أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِ ولَوْ أَنَّ مُوسٰى كَانَ حَيًّا، مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي)) (أخرجه أحمد: 15156، وابن أبي شيبة:49/7، وابن أبي عاصم في السنة: 50، والبزار: 124، والبيهقي
في شعب الإيمان: 177، والبغوي في شرح السنة، وإسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، وحسنه الألباني في مشكاة المصابيح: 177، وفي ظلال الجنة: 50)
’’ابن خطاب! کیا تم تذبذب کا شکار ہو یا حماقت اور بے پروائی سے کسی مشکل میں پھنسنا چاہتے ہو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں جو دین تمھارے پاس لایا ہوں، وہ بالکل صاف شفاف ہے۔ تم ان سے کسی قسم کا سوال نہ کرو کیونکہ اگر وہ تمھیں حق بتائیں اور تم اسے جھٹلا دو یا دو تمھیں غلط بتائیں اور تم اس کی تصدیق کر دو۔ (تو تم دونوں صورتوں ہی میں گنہ گار ہو۔) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کے لیے میری پیروی اور فرماں برداری کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔‘‘
توضیح و فوائد: جب موسٰی علیہ السلام نبی ہو کر یہ حیثیت نہیں رکھتے کہ اگر وہ زندہ ہو جائیں تو اپنی بات کو بطور دلیل پیش کر سکیں تو مقلدین جن ائمہ کے اقوال کو دین کا درجہ دیتے ہیں ان کے لیے ایسا کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔
238۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم نے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هٰذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِي وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنَ بِالَّذِي أَرْ سِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 153)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس اُمت (امت دعوت) کا کوئی ایک بھی فرد یہودی ہو یا عیسائی، میرے متعلق سن لے، پھر وہ مر جائے اور اُس دین پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا تو وہ اہل جہنم میں سے ہی ہو گا۔‘‘
توضیح وفوائد: نبی ﷺکی بعثت کے بعد سابقہ تمام شریعتیں کا لعدم قرار پا چکی ہیں۔ اب جن غیر مسلموں تک نبیﷺ کی رسالت کا پیغام پہنچ جائے ان کے لیے بدستور یہودی یا عیسائی رہنا درست نہیں۔
………………