اتباع سنت
الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۳۱ قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ۳۲﴾ (آل عمران: 31،32)
اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اے ہمارے نبی! آپ سب لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ کو چاہتے ہو تو میری پیروی کر واللہ تم کو چاہے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا وہ بخشنے والا مہربان ہے لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو اگر ان کی فرمانبرداری سے پھر جاؤ گے تو کافر ہو جاؤ گے اور کافروں کو اللہ تعالی دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی تابعداری تمام لوگوں پر فرض ہے اتباع کے معنی تابعداری کے اور کسی کے موافق عمل کے ہیں اور سنت کے معنی رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل و تقریر کے ہیں اس کے موافق عمل کرنے کو اتباع سنت کہتے ہیں آپ کے حکموں اور اعمال کی تابعداری فرض ہے آپ کی فرمانبرداری اللہ کی فرمانبرداری ہے آپ کی پیروی کرنے والے سے خدا بہت خوش ہوتا ہے اور اپنا پیارا بنا لیتا ہے جیسا کہ آیت مذکور سے معلوم ہوا کہ تم اگر خدا کو محبوب بنانا چاہتے ہو تو اس کے رسول کی پیروی کرو تو اللہ تعالی تم کو محبوب بنالے گا اور اگر آپ کی اطاعت سے روگردانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو دوست نہیں بناتا۔ رسول کی باتوں کو لو اور جس چیز کا حکم دیں کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے باز رہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ﴾ (الحشر: 7)
’’ہمارے رسول جو حکم تمہیں دیں اس کو مان لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًۙا۱۵۰ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا ۚ ﴾ (النساء: 150،151)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانیں گے اور بعض کو نہیں مانیں گے اور وہ ان دونوں کے بیچ کا راستہ چاہتے ہیں یہی لوگ پکے کافر ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (النور:63)
’’جو لوگ اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ کوئی درد ناک مصیبت یا عذاب ان کو نہ پہنچ جائے۔‘‘
اس قسم کی بہت سی آیتیں ہیں جن میں رسول اللہﷺ کی فرمانبرداری اور اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری ہی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ وہی کہتے اور کرتے تھے جو خدا کا حکم ہوتا تھا۔ بلا خدا کے حکم کے وہ بولتے ہی نہیں اور نہ کچھ کرتے تھے فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى﴾ (النجم:3، 4)
’’وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے مگر ان کا ارشاد صرف وہی ہے جو ان پر اترتا ہے۔‘‘
لہٰذا رسول اللہ صلی علیم کی فرمانبرداری و پیروی ہم سب پر فرض ہے بلا رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری و پیروی کے نجات نہیں ہے۔
یعنی ہر کام میں سنت کی پیر ہی ضروری ہے اور اسی میں ہم سب مسلمانوں کا امتحان بھی ہے جو لوگ اس میں پورے اتریں گے وہی پورے مسلمان ہیں اور جو لوگ اتباع سنت میں کچے ہوں گے وہ پکے مسلمان نہیں ہیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ هَدَی اللّٰهُ ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۱۴۳﴾ (البقرة:143)
’’جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں پر پھر جاتا ہے گو یہ کام مشکل ہے مگر جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے (ان پر کوئی مشکل نہیں) اللہ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا اللہ تعالی لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘
یعنی تحویل قبلہ امتحان کے لیے ہے یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر بیت اللہ کی طرف متوجہ کرنا اسی لیے ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ رسول کا سچا تابع دارکون ہے جنہوں نے نبی ﷺ کی تابعداری نہیں کی اور بیت اللہ کی طرف نماز پڑھی وہ سچے مسلمان نہیں ہیں رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی سے بڑی سخت مصیبت آتی ہے جیسا کہ جنگ احد میں رسول اللہﷺ کی نافرمانی سے شکست ہوگئی اور بہت سے لوگ شہید ہو گئے قرآن یہ میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۱۵۲ اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْوٗنَ عَلٰۤی اَحَدٍ وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ فِیْۤ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَكُمْ وَ لَا مَاۤ اَصَابَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۱۵۳﴾ (آل عمران: 152، 153)
’’اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا کہ تم اس کے حکم سے انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹنے لگے یہاں تک کہ تم بزدل ہو گئے اور کام میں جھگڑ نے لگے اور نافرمانی کرنے لگے اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا ارادہ آخرت کا تھا پھر تمہیں ان سے پھیر دیا تا کہ تمہیں آزمائے اور یقینًا اس نے تمہاری لغزش سے درگذر فرمایا۔ ایمان والوں پر اللہ بڑے فضل والا ہے جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے اور کسی کی طرف توجہ تک نہ کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آواز میں دے رہے تھے پس تمہیں تم پرغم پہنچا تاکہ تم نہ فوت شد و چیز پرغم گین ہو اور نہ ملی ہوئی چیز پر اداس ہو اللہ تعالی تمہارے اعمال سے خبردار ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں غزوۂ احد کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کی فتح یابی کا وعدہ کیا تھا جو پورا کر کے دکھایا لیکن بعض لوگوں نے رسول کی نافرمانی کی کہ آپﷺ نے مورچہ والوں سے کہا تھا کہ تم لوگ یہیں پر جمے رہنا خواہ ہماری فتح ہو یا نہ ہولیکن فتح ہونے کے بعد مورچہ والوں نے مورچہ چھوڑ دیا اور مال غنیمت کے جمع کرنے میں مشغول ہو گئے مخالفین نے دوبارہ حملہ کیا جس سے مسلمانوں کی فتح مندی کے بعد شکست ہو گئی یہ سب کچھ رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی سے ہوا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعُ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (النساء: 115)
’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کی وضاحت ہو جانے کے بعد بھی رسول کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دینگے جدھر وہ خود متوجہ ہوا ہے اور اسے دوزخ میں ڈال دیں گے وہ بہت ہی بری جگہ ہے پہنچنے کی۔‘‘
یعنی جو غیر شرعی طریق پر چلے شرع ایک طرف ہو اور اسکی راہ ایک طرف ہو فرمان رسول کچھ ہو اور اس کا منتہائے نظر کچھ اور ہو حالانکہ اس پر حق کھل چکا ہو دلیل دیکھ لی ہو پھر بھی مخالفت رسول کر کے مسلمانوں کی صاف راہ سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسی ٹیڑھی اور بری راہ پر اسے لگا دیتے ہیں اسے پھر وہی بری راہ اچھی معلوم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ بیچوں بیچ جہنم میں پہنچتا ہے مومنوں کی راہ کے علاوہ راہ ڈھونڈنا دراصل رسول سے خلاف اور شقاق کرنا ہے ایسے لوگ قیامت کے دن بہت افسوس کریں گے اور پچھتائیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۲۷ یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۲۸
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۲۹﴾ (الفرقان: 27 تا 29)
’’اس دن ستمگر شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (ﷺ) کی راہ لی ہوتی ۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی شیطان تو انسان کو وقت پر ورغلا دینے والا ہے۔‘‘
یعنی قیامت کے روز رسول کا نافرمان کف افسوس ملتا ہوا کہے گا کہ کاش میں رسول کے راستے پر چلتا اور فلاں فلاں کو دوست نہ بناتا ان ایرے غیروں نے نصیحت پہنچنے کے بعد مجھے گمراہ کر دیا لیکن اس وقت کے افسوس کرنے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا جہنمی جہنم میں چلے جانے کے بعد بھی یہی آرزو کریں گے۔
﴿ یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا وَ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا رَبَّنَاۤ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۠﴾ (الاحزاب: 66 تا 68)
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے حسرت اور افسوس سے کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سردار اور بزرگوں کی بات مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھڑکا دیا پروردگار تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما۔‘‘
اس قسم کی اور بہت سی آیتیں ہیں جن میں رسول کی نافرمانی کی وجہ سے سخت سزا کی دھمکی دی گئی ہے اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب مسلمانوں کا خاتمہ آپ کے طریقے پر کرے نبی کریم ﷺ کی عوام کی سنت پر چلنے والے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور اسلاف عظام کی مبارک جماعت میں ہمارا شمار کرے آمین ثم آمین۔
(وَاخِرُدَعْوَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)