اطمینان قلب
﴿ إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ﴾
﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ۲۸﴾[الرعد: 28]
اس دنیا میں ہر کوئی سکون اور اطمینان قلب کا متلاشی ہے حتی کہ لوگ سکون پانے کے لیے بہت کچھ کر گزرتے ہیں لیکن سکون نہیں ملتا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ سکون حاصل کرنے کے لیے وہ طریقے اختیار کرتے ہیں جن سے سکون کی بجائے مزید بے سکونی ملتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں خواہشات کے پورے ہونے سے سکون ملتا ہے۔ مال و منال کی بہتات اور سہولیات کی کثرت سے سکون ملتا ہے۔ یہ محض خوش فہمی اور مغالطہ ہے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے پاس مال و منال کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ لیکن بے سکونی کی وجہ سے نیند تک نہیں آتی گولیاں کھا کے سوتے ہیں۔
اور آج ذہنی امراض کے ہسپتال بڑھ رہے ہیں۔ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ معاشی پریشانی بھی کوئی نہیں، گھریلو مسئلہ بھی کوئی نہیں لیکن چین اور سکھ نہیں ہے۔ کیسے ہو؟ ہم نے سکون اور چین حاصل کرنے کا طریقہ بگاڑ لیا ہے۔ لوگ فلموں ڈراموں میں سکون ڈھونڈ رہے ہیں، کھیل تماشے میں جی لگا کر اطمینان قلب تلاش کر رہے ہیں، نہیں یہ سکون کی جگہ نہیں یہ تو بے سکونی کے اسباب ہیں۔ ان سے اضطراب بے چینی اور بے قراری تو مل سکتی ہے سکون بھی نہیں مل سکتا۔
آؤ قرآن کریم اور رسول عربی ﷺ کی سیرت سے پوچھیں:
سکون کیسے ملے گا؟:
اللہ تعالی نے سکون حاصل کرنے کے لیے کئی طریقہ بھی بتلایا ہے اور جزوی اسباب بھی بتلائے ہیں۔ کئی اور جامع طریقہ یہ ہے:
﴿ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ [الرعد:28]
فرمایا: ’’لوگو! کان کھول کر سن لو دلوں کا اطمینان اور قلبی سکون اللہ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘
اور یہاں اللہ کے ذکر سے مراد قرآن وسنت ہے یعنی قرآن وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے سے دلوں کو قرار آتا ہے اور دل سکون پاتے ہیں۔
جس طرح سورۃ طہ میں فرمایا:
﴿ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی ۙ۬ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی۱۲۳ وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا﴾[طه: 123-124]
جو میری نازل کردہ ہدایات کے مطابق زندگی بسر کریں گے وہ نہ بھٹکیں گے اور نہ بیقراری و بدبختی کا شکار ہوں گے (وہ سعادت مندی اور سکون والی زندگی پائیں گے) اور جو میرے ذکر (قرآن وسنت سے اعراض کریں گے ان کے لیے سکھ چین اور سکون نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ تنگی بے قراری اور بے سکونی والی زندگی پائیں گئے انہیں دنیا قبر اور حشر کہیں بھی سکون نہیں ملے گا۔
سورہ نحل میں فرمایا:
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ﴾ [النحل:97]
’’جو مرد اور عورت نیک عمل کریں گے (اور کتاب وسنت کے مطابق زندگی گزاریں گے)۔ ہم انہیں با وقار ستھری اور پر سکون زندگی دیں گے‘‘
دنیا میں بھی سکون، قبر میں بھی سکون اور حشر میں بھی سکون ہی نصیب ہوگا۔ تو سکون حاصل کرنے کے لیے یہ بڑی جامع نصیحت ہے کہ اپنی زندگی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق بنائی جائے تو سکون مل جائے گا۔ اس لیے کہ گناہ و نافرمانی، فسق و فجور یہ تو دلوں کے روگ ہیں جن سے دل بگڑ جاتا ہے اور قرار نہیں پاتا۔ دیکھ لو! ایک تکلیف مصیبت یا پریشانی ایک بے دین مشخص کو آتی ہے وہ دیواروں کو کی خودکشی پر اتر آتا ہے۔ واویلا کرتا ہے حتی کہ ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے لیکن وہی صدمہ وہی تکلیف ایک دیندار متقی و پرہیز گار شخص کو پہنچتی ہے تو وہ تکلیف میں بھی پرسکون رہتا ہے وہ خود کشی نہیں کرتا وہ دیواروں کو ٹکریں نہیں مارتا وہ جانی توازن سے محروم نہیں ہوتا وہ مصیبت و پریشانی کو اللہ کا فیصلہ مجھ کر قبول کر لیتا ہے اور اللہ کی طرف سے اسے سکون ملتا ہے۔
اس بات کو رسول اللہﷺ نے ان الفاظ سے تعبیر فرمایا تھا:
(عَنْ صُهَيْبٍ رضی اللہ تعالی عنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: ((عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شكر فَكَانَ خَيْراً لَّهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ) [صحیح مسلم، کتاب الزهد، باب المؤمن أمره كله خير (1999)]
’’صھیب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تعجب ہے ایمان دار شخص کی حالت پر کہ وہ اپنے تمام معاملات کو اپنے لیے بہتر سمجھتا ہے (اگرچہ بظاہر معاملات بہتر نہیں ہوتے) یہ اعزاز صرف ایمان دار شخص کو حاصل ہوتا ہے کہ اگر اسے خوشی نصیب ہوتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے تو (اس کا شکر ادا کرنا) اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے بیماری وغیرہ پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے تو اس کا صبر کرنا اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔‘‘
بہر حال ان آیات اور احادیث میں اطمینان قلب اور دلی سکون کا کلی ضابطہ دستور بیان کیا گیا ہے اور وہ ایمان اور اتباع قرآن وسنت ہے۔
اسی طرح قرآن وسنت میں سکون حاصل کرنے کے لیے کئی جزوی اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں۔ آنکھیں دل کے ساتھ مربوط ہیں دل اور آنکھوں کا آپس میں بڑا گہرا رشتہ اور تعلق ہے اس لیے شریعت میں آنکھوں کے متعلق دو ضا بطلے بتلائے گئے ہیں اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو دل سکون پاتا ہے۔ انسان کے اندر دو خواہشات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
ایک مادی خواہش کہ کھانے، پینے، پہنے کو اچھا ملے۔ مال و منال وافر ہو۔ سواری مکان عالیشان ہو۔ آسائش اور سہولتیں میسر ہوں۔ جب یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو انسان کا دل تڑپتا ہے۔ دوسری خواہش جنسی خواہش ہے جب یہ پوری نہیں ہوتی انسان کا دل بے قرار ہوتا ہے۔ ان دونوں خواہشوں کو اعتدال پر لانے کے لیے نظر کی حفاظت ضروری ہے۔ اور نظر کی حفاظت کے دو ضابطے بتلائے گئے ہیں۔
پہلا ضابطہ:
یہ مادی خواہش کو اعتدال میں رکھنے کے لیے ہے۔ صیح البخاری میں حدیث ہے:
(اُنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ ذٰلِكَ أَجْدَرُ إِلَّا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ) [صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب ينظر إلى من هو أسفل منه (6490) و مسلم (2963) والترمذي (2513)]
’’اپنے سے نیچے والے لوگوں کو دیکھو اور اپنے سے اوپر والوں کو نہ دیکھو یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں جانو گے۔‘‘
یعنی دنیا کے میدان میں مال و منال سواری مکان صحت و جمال اور آسائش سہولیات میں اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھو۔ اپنے سے بالا تر کو نہ دیکھو۔ اپنے مکان والا کرائے پر رہنے والے کو کرائے والا، جھونپڑے والے کو جھونپڑے والا، فٹ پاتھ والے کو دیکھے اس سے اللہ کی نعمتوں کی قدر پیدا ہو گی شکر گزاری پیدا ہو گی اور نتیحۃً سکون ملے گا۔ ہم الٹ ہیں ہم دنیا کے میدان میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھ دیکھ کر ہر وقت جلتے اور کڑھتے رہتے ہیں۔
میرے پاس یہ بھی نہیں یہ بھی نہیں۔ فلاں کے پاس تو یہ بھی ہے وہ بھی ہے۔
بابا سعدی کا واقعہ:
بابا سعدی (فارسی کا معروف ادیب) اپنی آپ بیتی بیان کرتا ہے میں لمبا سفر کر کے دمشق کیا سواری تو کجا پاؤں میں جوتا بھی نہیں تھا، پیدل چلنے کی وجہ سے پاؤں میں آبلے نکل آئے، دل میں شکوہ پیدا ہوا کہ اللہ نے پہننے کو جوتا بھی نہیں دیا، یہی سوچتے سوچتے دمشق کی جامع مسجد میں داخل ہوا۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی پہلی نظر ایسے شخص پر پڑی جس کے دونوں پاؤں نہیں تھے فوراً استغفار کیا اور سجدہ شکر بجا لایا کہ کیا ہوا کہ جوتا نہیں ہے۔ اللہ نے مجھے چلنے کے لیے دو پاؤں تو دیئے ہیں۔ تو حقیقت ہے جب آدمی کم تروں کو دیکھے گا سکون ملے گا اور اگر برتروں کو دیکھے گا بے سکونی ملے گی اور پھر اس کا پیٹ قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔
مشکواۃ میں ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَّالٍ لَابْتَغَى ثَالِثًا، وَلَا يَمَلًا جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التَّرَابُ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ) [صحيح البخاري، كتاب الرقاق باب ما يتقى من فتنة المال، رقم: 6436، و مسلم، رقم: 2418]
’’این عباس رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: بالفرض اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کا طلب گار ہوگا اور ابن آدم کے پیٹ کو تو (قبر کی) مٹی ہی بھر سکتی ہے اور اللہ تعالی اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو تو بہ کے لیے اس کی جانب رجوع کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث میں آپﷺ نے یہی نکتہ سمجھایا ہے کہ اگر آدمی اپنے سے بالاتر پر آسائش لوگوں پر نگا میں ڈالے گا تو اس کا حرص و طمع کبھی ختم نہیں ہوگا اور جب حرص و طمع ختم نہیں ہو گا تو بے سکونی بے قراری اور تنگدلی بھی ختم نہیں ہوگی یہ مرتے دم مال کے لیے تڑپتا اور تلملا تا رہے گا۔
اس لیے آپﷺ نے یہ نمونہ پیش فرمایا کہ جب آدمی کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو رہی ہوں تو اسے مال و منال کے سلسلے میں اس حد پر رک جانا چاہیے۔ جس طرح سنن ابی داؤد میں ہے:
جناب لقیط بن صبرہ کہتے ہیں میں بنو المنتفق کے وفد میں رسول اللہﷺ کی طرف آیا۔ تو جب ہم آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو ہم نے نبی ﷺ کو گھر نہ پایا۔ ام المومنین جناب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا گھر میں موجود تھیں۔ کہتے ہیں انہوں نے ہمارے لیے خزیرہ (ایک مخصوص قسم کا حلوہ پکانے کا حکم دیا تو وہ ہمارے لیے تیار کیا گیا پھر ہمارے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو آپ نے آتے ہی ہم سے پوچھا: ’’کیا تم نے کوئی چیز کھائی ہے یا تمہارے لیے کوئی چیز تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ہم نے کہا جی ہاں یا رسول اللہﷺ! کہتے ہیں ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اچانک آپ کا چرواہا آپ کی بکریاں لے کر واپس پلٹا اور اس کے پاس ایک بکری کا بچہ تھا جو آواز دے رہا تھا تو آپﷺ نے کہا: ”کیا جنا ہے بکری نے؟ اس نے جواب دیا: ایک بچہ جنا ہے پھر آپ ﷺ نے کہا: ’’اس کی جگہ ایک بکری ذبح کر دو۔‘‘ اس کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ’’یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے تمہاری وجہ سے تکلف کیا ہے اصل میں بات یہ ہے کہ ہماری سو بکریاں ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ ان میں اضافہ ہو۔ تو جب بکری کوئی بچہ جنتی ہے ہم اس کی جگہ ایک بکری ذبح کر دیتے ہیں۔[سنن أبي داؤد، كتاب الطهارة، باب في الاستنثار، رقم: 142]
دوسر ا ضابطہ
یہ جنسی خواہش کو اعتدال میں رکھنے کے لیے ہے:
﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰی لَهُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ﴾ [النور:30]
مطلب یہ ہے:
نگاہیں پست رکھو غیر محرم عورتوں کو نہ دیکھو۔ اس سے سکون حاصل ہوگا۔ آج بے پردگی، فلم ڈرامہ ڈش کیبل مردوزن کے اختلاط نے سکون برباد کر کے رکھ دیا۔ حکم تو تھا کوئی عورت سامنے آ جائے:
(اِصْرِفْ بَصَرَكَ) [صحيح مسلم، كتاب الأدب، باب نظرة الفجاة (2159) و ابوداؤد (2148) والترمذی (2776)]
’’اپنی نظر فورًا پھیر لو۔‘‘
لیکن آج درزی کی سلائی مشین، خرادیے کا خراڈ، ڈرائیور کی بس اور گاڑی اور دکاندار کی دکان نیم برہنہ بے حیاء عورتوں کی تصویروں کو سامنے سجائے بغیر چلتی ہی نہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا:
’’غیر محرم عورت پر پڑنے والی نظر شیطان کا زہریلا تیر ہے جو دل میں کھبتا اور دل کو زخمی کر دیتا ہے ۔ آج نظروں کی آوارگی کا نتیجہ ہے دل گندی عشقیہ محبت سے بھر گئے اور اللہ رسول اور قرآن کی محبت سے خالی ہو گئے۔ اور سکون برباد ہو گیا۔ نظروں کی آوارگی سے دل مردہ ہو گئے، ضمیر مردہ ہو گئے روحانیت ختم ہو گئی۔ شجاعت و بہادری نہ رہی، غیرت و حیاء نہ رہی۔ اور سکون چھن گیا اور قلب در مانع هموم و غموم اور اضطراب و انفطار سے پر ہو گیا۔
آئیے! سکون قلب کے لیے شافی علاج موجود ہے اور وہ علاج ایمان و تقویٰ اتباع شریعت اور خشیت الہی ہے وہ علاج اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت کتاب و سنت پر پختہ عمل اور عبادت واطاعت میں مشغول ہوتا ہے یہ علاج سو فیصد یقینی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی سیرت پڑھئے: ہر طرف سے اذیتیں، ہر جانب سے مصیبتیں، کئی کئی دن کی مسلسل بھوک، بامشقت جہادی سفر چوبیس گھنٹے میں کھانے کو صرف ایک کھجور، اس کے باوجود پر سکون دل ہشاش بشاش سجدے میں پڑ کے اللہ کی شکر گزاری کرتے اور کہتے یا اللہ ہم تیری ثناء خوانی کا حق ہی ادا نہیں کر سکتے تو اس طرح ہے جس طرح تو نے خود اپنی ثناء کی ہے۔[صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ما یقال فی الرکوع و السجود، رقم:1090]
انہوں نے صحیح طریقے سے سکون تلاش کیا انہیں مل گیا۔ ہم نے غلط طریقہ اپنایا ہم سکون پانے میں ناکام رہے اللہ ہمیں سمت سیدھی کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔