اتفاق و اتحاد

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۱۰۳﴾ (آل عمران: 102-103)
اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہو۔ جیسا کہ چاہیے اس سے ڈرنا اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور متفرق نہ ہو جاؤ اور یاد کرو اللہ کا احسان اپنے اوپر جب آپس میں تم سب دشمن تھے پھر الفت پیدا کر دی تمہارے دلوں میں پس ہو گئے اس کے فضل سے بھائی بھائی اور تم ایک آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے۔ پھر تم کو اس سے نجات دی اسی طرح بیان کرتا اللہ تعالی تم پر آیتیں تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘
یعنی ہر مسلمان کے دل میں یہ عزم ہونا چاہیے کہ وہ حتی المقدور تقوی اور پرہیز گاری کی راہ سے نہ ہٹے اور ہمیشہ اللہ سے استقامت کا طالب رہے۔ شیاطین چاہتے ہیں کہ تمہارا قدم اسلام کے راستے سے ڈگمگا دیں تمہ ہیں چاہیے کہ انہیں مایوس کر دو اور مرتے دم تک کوئی حرکت مسلمانی کے خلاف نہ کرو تمہارا مرنا اور جینا اسلام پر ہونا چاہیے یعنی سب مل کر قرآن کو مضبوط تھا سے رکھو یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے تو کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہو سکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل ہو جائے گی۔ قرآن کریم کو تھام لینا ہی وہ چیز ہے جس سے بھکری ہوئی قومیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرتی ہے۔ لیکن قرآن کو تھام لینے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراء و اہواء کا تختہ مشق بنا لیا جائے بلکہ اس کا وہی مطلب معتبر ہو گا جو احادیث صحیح اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خلاف نہ ہو۔ یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر خدا نے نبی کریم ﷺ کی برکت سے تم کو بھائی بھائی بنا دیا۔ جس سے تمہارے دین و دنیا درست ہوئے اور ایسی شاخ قائم ہو گئی جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوتے ہیں یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آ سکتی تھی۔
اور اختلاف و تنازع عداوت کا ذریعہ ہے جس قوم میں اتفاق اور اتحاد اور اخوت نہیں ہے وہ ہر ایک اعتبار سے ذلیل اور خوار ہے قرآن مجید اور حدیث میں اس اتفاق و اتحاد پر بڑا زور دیا گیا ہے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۵۲﴾ (سورة آل عمران:152)
’’اور اللہ تعالی نے اپنا وعدہ سچا کر کے دکھایا۔ تم اس کے حکم سے انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹنے لگے یہاں تک کہ تم بزدل ہو گئے اور ہر کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کرنے لگے اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا ارادہ آخرت کا تھا پھر تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمانے اور یقینًا اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا۔ ایمان والوں پر اللہ تعالی بڑا فضل والا ہے۔‘‘
یعنی جنگ احد میں اتفاق اور اتحاد کی برکت سے شروع شروع میں تم کو فتح عطا فرمائی اور تم دشمن پر غالب آگے لیکن جب تم میں تنازع اور اختلاف پیدا ہو گیا تو خدا اور رسول کے نافرمان ہو گئے اور دنیا کے طالب بن گئے تمہاری فتح شکست سے بدل دی گئی اور تمہاری ہوا اکھڑ گئی اور تم میں سے بہت سے لوگ مارے گئے ۔
یہ شکست تنازع، اختلاف، شقاق کی نحوست سے ہوئی اللہ تعالی نے سچ فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۝۴۵ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ۝۴۶ ﴾ (سورة انفال:45)
’’اے ایمان والو! جب بھڑوکسی فوج سے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم مراد پاؤ اور حکم مانو اللہ کا اور اس کے رسول کا۔ اور آپس میں نہ جھگڑو۔ پس نامرد ہو جاؤ گے اور جاتی رہے گی تمہاری ہوا اور صبر کرو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
جو سختیاں اور شدائد جہاد کے وقت پیش آئیں ان کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرو ہمت نہ ہارو مثل ہے۔ ’’ہمت کا حامی خدا ہے۔‘‘
اس آیت میں مسلمانوں کو بتلا دیا گیا کہ کامیابی کی کنجی کیا ہے، معلوم ہوا کہ دولت، لشکر اور اسلحہ وغیرہ سے فتح و نصرت حاصل نہیں ہوتی، ثابت قدمی، صبر و استقلال، قوت و طمانیت قلب، یادالہی خد اور سول کی اطاعت و فرمانبرداری و باهمی اتفاق و اتحاد سے حاصل ہوتی ہے اس اتحاد باہمی کے سلسلے میں اللہ تعالی نے یہ فرمایا:
﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ﴾ (الصف:4)
’’اللہ تعالی چاہتا ہے ان لوگوں کو جو لڑتے ہیں اس کی راہ میں قطار باندھ کر گویا کہ وہ دیوار ہیں سیسہ پلائی ہوئی۔‘‘
اللہ تعالی کو سب سے زیادہ ان لوگوں سے محبت ہے جو اس کی راہ میں اس کے دشمنوں کے مقابلے پر ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور میدان جنگ میں اس شان سے صف آرائی کرتے ہیں کہ گویا وہ سب مل کر ایک دیوار ہیں جس میں سیسہ پلا دیا گیا ہے اور جس میں کسی جگہ رخنہ نہیں پڑ سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْو تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰى)[1]
’’اے مخاطب تو دیکھتا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے پر مہربانی کرنے اور ایک دوسرے کو دوست رکھنے اور باہم شفقت کرنے میں تن واحد کی طرح ہیں کہ جب ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو جسم کے باقی اعضاء بیداری اور تپ میں موافقت کرتے ہیں۔‘‘
سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا کیا اچھا ترجمہ فرمایا ہے:
بنی آدم اعضائے یک دیگر ند که در آفرینش زیک جوہراند
مومن کی شان اور نشانی قرآن مجید میں یہی بتائی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب، باب رحمة الناس (9011)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِيْنَ﴾ (مائده: 54)
’’مومنوں کے معاملے میں پر نہایت عاجز و نرم مگر کافروں کے مقابلے میں نہایت معزز سخت‘‘
ہمارے اسلاف کرام کی یہ تعریف کی گئی تھی کہ
﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ ؕ وَ كَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ۝۲۸ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا ؗ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠۝۲۹﴾ (سوره فتح: 28-29)
’’وہی ہے جس نے اپنا رسول سیدھی راہ پر اور سچے دین پر بھیجا تاکہ اوپر رکھے اس کو ہر دین سے اور کافی ہے اللہ حق ثابت کرنے والا محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع اور سجدے میں ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی۔ نشانی ان کی ان کے منہ پر ہے سجدہ کے اثر سے، یہ شان ہے ان کی تو رات میں اور مثال ان کی انجیل میں جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا۔ پھر اس کی کمر مضبوط کی، پھر موٹا ہوا۔ پھر کھڑا ہو گیا اپنی نال پر خوش لگتا ہے کھیتی والا کہ جلائے ان سے جی کافروں کا۔ وعدہ کیا اللہ نے ان سے جو یقین لائے اور کہئے ہیں بھلے عمل۔ معافی کا اور بڑے ثواب کا۔‘‘
ہم نے اپنی ساری خوبیاں گنوا دیں اور دنیا کی تمام برائیاں سیکھ لیں۔ ہم اپنوں کے آگے سرکش ہو گئے اور غیروں کے آگے ذلت سے جھکنے لگے ہم نے اپنے پروردگار کے آگے دست سوال نہیں بڑھایا۔ لیکن بندوں کے دستر خوان کے گرے ہوئے ٹکڑے چنے لگے۔ ہم نے شہنشاہ ارض و سماء کی خداوندی سے تو نافرمانی کی مگر زمین کے چند جزیروں کے مالکوں کو اپنا خداوند سمجھ لیا۔ ہم پورے دن ایک بار بھی خدا کا نام ہیبت اور خوف کے ساتھ نہیں لیتے۔ پر سینکڑوں مرتبہ اپنے غیر مسلم حاکموں کے تصور سے لرزتے اور کانپتے رہتے ہیں۔ آج ہم پر اغیار چاروں طرف سے چھائے ہوئے ہیں اور ہر طرف سے ہم پر ظلم و تشدد کرتے ہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں ہر سال ناحق قتل کیے جاتے ہیں۔ بہتیرے بچے یتیم اور ان کی مائیں بیوہ ہو جاتی ہیں۔ نہ جان و مال کی حفاظت اور نہ عزت و آبرو سلامت رہی۔ یہ سب کچھ خدا کی نافرمانی اور آپس کے جنگ و جدال مقتل و قتال اور نفاق و شقاق کی وجہ سے ہے۔ رسول اللہﷺ نے سچ فرمایا:
(يُوشِكُ الأُمَمُ أن تَدَاعٰى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَٰكِلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ بَلْ أَنتُمْ يُوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلٰكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغَثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزِعَنَّ اللهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ قَالَ قَائِلٌ يَارَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ)[1]
’’ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ کفار ایک دوسرے کو ممالک اسلامیہ پر قابض ہونے کے لیے اس طرح بلائیں گئے جیسے کہ دستر خوان پر ایک دوسرے کو کھانے کے لیے بلاتے ہیں۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی؟ فرمایا: اس وقت تم بہت ہو گے لیکن ایسے بے بنیاد جیسے پانی کی رو کے سامنے خس و خاشاک (کوڑا کرکٹ) اور تمہارا رعب و داب دشمنوں کے دل سے اٹھ جائے گا اور تمہارے دلوں میں سستی پڑ جائے گی۔ ایک صحابی نے عرض کیا: حضور سستی کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ دنیا کی محب اور موت سے خوف کرو گے۔‘‘
موجودہ دور کے مسلمانوں کے تشتّت و تفرق اور آپس کے نزاع و اختلاف کی وجہ سے اغیار بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مسلمانوں کو کچلنے بلکہ ان کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں پس مسلمانوں کو اپنی عزت جان و مال کی حفاظت کے لیے متحد اور متفق ہو کر (وَاعْتَصِمُوْا بحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْ﴾ پر عمل پیرا ہونا چاہیے کیونکہ اسلام ہر کام میں اور تمام احکام میں اتحاد و اتفاق اخوت و بھائی چارہ کی دعوت لیے ہوئے ہے۔ کلمہ توحید جسے کلمہ وحدت کہا جاتا ہے اس کے قائل ہونے اور اس پر عمل کرنے کی وجہ سے جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہو جاتی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(أمِرْتُ أنْ أقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوْا اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُو الزَّكٰوة فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ فَقَدْ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَ هُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ)[2]
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز ادا کریں اور زکوۃ دیں جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے جان و مال کو بچا لیا۔ اسلامی حق کے علاوہ اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب الملاحم، باب في تداعي الأمم على الاسلام (184/4)
[2] بخاري: کتاب الايمان، باب فان تابوا و اقاموا الصلوة واتوا الزكاة فخلوا سبيلهم. (25)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز تنہا بھی ادا کی جا سکتی ہے لیکن جماعت سے پڑھنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(صَلوةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلٰوةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّ عِشْرِينَ دَرَجَةً)[ بخاري: کتاب الاذان، باب فضل صلاة الجماعة (645)]
’’جماعت کی نماز تنہا نماز سے ستائیس درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے۔‘‘
یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے ایک نماز پر ستائیس نمازوں کا ثواب ملے گا اور جماعت سے نماز پڑھنے کے بہت سے فائدے ہیں۔
(1) پانچوں وقت مسلمان آپس میں ملیں گے۔
(2) ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوں گے۔
(3) میل و محبت پیدا ہو گی۔
(4) اتفاق و اتحاد ہو گا (5) دوسروں کو دیکھ کر اور شوق پیدا ہو گا۔
(6) عبادت میں طبیعت لگے گی
(7) بزرگوں کی برکت سے نماز قبول ہوگی۔
(8) اسلامی شوکت نمایاں ہوگی۔
روزه:
ہر امیر و غریب شاہ و گدا پر فرض ہے اس میں بھی وحدت امت کا اظہار ہے۔ حج تو اتفاق و اتحاد کا مرکز بلکہ منبع ہے۔ اسلام کا ایک اصول مساوات بھی ہے۔ حج سے یہ مقصد بھی بخوبی حاصل ہو جاتا ہے سب لوگ شاہ ہوں یا گدا ایک ہی لباس میں ایک حالت میں ایک ہی جگہ پر خدائے واحد کی درگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اور اس طرح سب امتیازی تفرقے مٹ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہو کر امور سیاست و تجارت وغیرہ سب کاموں میں مشورہ کرنے کا موقع ملتا ہے اور اس طرح باہم تعاون و تناصر کا مقصد حاصل ہوتا ہے اسی وجہ سے غیر مسلم ہوشیار قومیں اجتماعات سے بہت خوفزدہ رہتی ہیں اور اپنے مقبوضات کے لوگوں کو حج سے روکنے کی مسلسل کوشش کرتی ہیں۔
اسی طرح سے جمعہ وعیدین کی نمازیں بھی اسلامی اتحاد و اخوت کی مظہر ہیں۔ غرض آپ نظر غائر سے دیکھیں گے اسلامی اتحاد کا مسئلہ ہر جگہ پائیں گے۔
آپ دور کیوں جائیں ﴿وَ فِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُوْنَ﴾ ’’اپنی ہستی کے وجود میں غور کرو‘‘
تین سو ساتھ اجزا اور اعضاء سے مرکب ہے اگر ایک ایک عضو الگ ہو جائے تو انسانی وجود ختم ہو جائے۔ غرض جتنا بھی زیادہ غور و فکر کرو گے ہر ایک چیز میں اتفاق و اتحاد کی جلوہ گری نظر آئے گی۔
(اَللّٰهُمَّ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوْبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وَانْصُرْنَا عَلٰى عَدُوِّنَا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلَّا لِّلَّذِيْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيْمٌ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔