جنت کا ثبوت اور اس کی وسعت

﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝۱۳۳﴾(آل عمران:133)
گزشتہ خطبات میں ہم نے جنت کے بارے میں جانا کہ جنت کی خواہش انسان کی فطری خواہش ہے، اور تمام ادیان و مذاہب اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں سوائے ملحدین و عقل پرستوں کے۔
عقل پرست لوگ جو صرف اس چیز کو تسلیم کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں جو عقل پر پوری اترتی ہو، اسی طرح ملحدین بھی کسی ایسی چیز کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں جو ان کی عقل کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو، بلکہ وہ تو عقل پرستوں سے بھی ایک ہاتھ آگے ہیں کہ وہ تو اللہ تعالی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے ، ان کے نزدیک یہ کائنات خود بخود معرض وجود میں آئی ہے اس کا کوئی خالق و مالک نہیں ہے، چنانچہ وہ جنت جہنم ، حشر نشر، پل صراط ، جن اور فرشتے اور دیگر تمام غیر مرئی چیزوں کے وجود کا انکار کر دیتے ہیں، بلکہ وہ ان سب کی بنیاد: مرنے کے بعد زندہ کیے جانے کے عقیدے کا ہی انکار کر دیتے ہیں کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ، کہ جب انسان زندہ ہی نہیں ہو گا تو ان چیزوں کے وجود کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوگا۔
اور قرآن پاک میں منکرین کے اس عقلی اعتراض کو جا بجا ذ کر کیا گیا ہے:
﴿ ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ۝۳﴾(ق:3)
’’ان کا کہنا ہے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟)) یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے۔‘‘
اسی طرح دیگر متعدد آیات ہیں۔
تو منکرین و ملحدین کا عقیدہ آخرت سے انکار تو سمجھ میں آتا ہے کہ چونکہ وہ نعمت ایمان سے محروم ہیں، اس لیے کسی چیز کا بھی انکار کر سکتے ہیں۔ مگر افسوس ان مدعیان اسلام پر ہے جو مغرب زدہ ذہنیت کے حامل ہیں اور سائنسی ترقی سے مرغوب و مسحور ہو کر جدت پسندی اور روشن خیالی کے نام سے اسلام کے ان عقائد کا نہ صرف یہ کہ انکار کرتے ہیں بلکہ استہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔
بعض دین بے زار اور ملحد قسم کے ادباء و شعراء جنت کا کچھ اس طرح نقشہ پیش کرتے ہیں گویا دو کوئی عشرت کدہ ہے کہ جس میں داخل ہوتے ہی لوگ تقویٰ و پرہیز گاری کا لبادہ اتار پھینکیں گے اور وہاں شراب کے جام چلیں گے، پہلوؤں میں حوریں ہوں گی ، موسیقی کی محفلیں ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔
مگر جنت پاکیز ہ لوگوں کا پاکیزہ ماحول والا پاکیز و مقام ہے۔
﴿ اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِؕ۝۲۷﴾ (الواقعة:26،27)
وہ وہاں کوئی بے ہودہ اور گناہ کی بات نہ سنیں گے، جو بات بھی ہوگی درست اور سلامت ہوگی۔ کوئی یا وہ گوئی، جھوٹ، غیبت، گالی گلوچ اور طنز و تمسخر نہ ہوگا بلکہ ہر بات درست سلیقے کے مطابق اور سلامتی والی ہوگی۔
جنتی جب جنت میں داخل ہوں گے تو فرشتے استقبال کرتے ہوئے اسلام علیکم کہہ رہے ہوں گے:
﴿ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ۝﴾(الزمر:73)
’’سلام ہو تم پر بہت اچھے رہے، داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے‘‘
اور وہ کہیں گے۔
﴿ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُ ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ۝۷۴﴾ (الزمر:74)
’’اللہ کا شکر ہے کہ جس نے ہمارے ساتھ کیا ہوا وعدہ بیچ کر دکھایا، اور ہم کو زمین کا وارث بنایا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں، پس بہترین اجر ہےعمل کرنے والوں کے لیے۔‘‘
اہل جنت وہاں ہر سانس کے ساتھ تسبیح وتحمید کریں گے سبحان اللہ اور الحمد للہ کہیں گے، اور آپس میں گفتگو کے انتقام پر الحمد لله رب العالمین کہیں گے، اور حوریں وہاں نہایت شرم و حیا والی اور باپردہ ہوں گی۔ تو جنت کا ماحول نہایت ہی پاکیزہ ہوگا۔
تاہم جنت کا وجود قرآن و حدیث کے واضح اور بکثرت دلائل کی روشنی میں ثابت شدہ ہے اور عقل بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ مگر جنت کے وجود کے عقلی دلائل سے قطع نظر ہم صرف قرآن وحدیث کے دلائل کے حوالے سے بات کریں گے کیونکہ ہمارے مخاطب اہل ایمان ہیں اور جنت کے وجود پر ایمان، اس کے حق ہونے پر ایمان، ایمان بالغیب میں شامل ہے دین کا حصہ ہے۔ اور جنت کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے اگرکسی کو جنت کے وجود کو تسلیم کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہو تو وہ اپنے ایمان کی فکر کرے۔ جنت کے وجود کے قرآن وحدیث کے بہت سے دلائل میں سے صرف دو ایک کا ذکر کرتے ہیں۔
قرآن پاک کی متعدد آیات میں جنت کے حصول کے لیے جلدی کرنے اور اس کی طرف سبقت لے جانے کی ترغیب دی گئی ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝۱۳۳﴾ (آل عمران:133)
’’اور دوڑ کر چلو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف کہ جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ سَابِقُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ؕ ﴾ (الحديد:21)
’’دوڑو، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو، اپنے رب کی مغفرت اور اس کی جنت کی طرف کہ جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے، اور جوان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ۔‘‘
اسی طرح جنت کے بارے میں بہت کی احادیث میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ آپﷺ جب رات کو تسجد کے لیے اٹھتے تو فرماتے:
((اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَقَوْلُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَوْ لَا إِلَهَ غَيْرُكَ))(بخاری:1120)
تو دعائے استحتاج میں اللہ تعالی کی حمد بیان کرتے ہوئے جنت اور جہنم کے حق ہونے کا ذکر بھی فرماتے ۔ بلکہ ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
(( منْ قَالَ أَشْهَدُ أن لا إله إلا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ محَمَّدًا عَبدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَابْنُ أُمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ الْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَ رُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللهُ مِنْ أَي أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ، الثَّمَانِيَةِ شَاءَ))(مسلم:28)
جو شخص میں یہ دعا پڑھے، اللہ تعالی اسے جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس میں سے چاہے داخل کر دے۔ یعنی جنت کے حق ہونے کا اقرار ایمان بالغیب کا حصہ بھی ہے اور اس اقرار و تسلیم کا اللہ تعالی کے ہاں اجر و انعام بھی ہے۔
جنت کا ذکر قرآن وحدیث میں بہت تفصیل سے ہوا ہے، جو ایک دو خطبوں میں بیان نہیں ہو سکتا، تاہم نہایت اختصار کے ساتھ جنت اور اہل جنت کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔
سب سے پہلے جنت کی وسعت اور کشادگی کے بارے میں جانتے ہیں، قرآن پاک میں جنت کے عرض کا ذکر کیا گیا ہے، طول کا نہیں یعنی جنت کی صرف چوڑائی کا ذکر ہے۔ لمبائی کا نہیں۔ اور جنت کی چوڑائی کیا بیان کی گئی ہے؟ فرمایا:
﴿عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضِ﴾ ’’اس کی چوڑائی زمینوں اور آسمانوں کے برابر ہے۔‘‘
اور آپ جانتے ہیں کہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں اب زمینوں اور آسمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاتے جائیں، ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر جتنی لمبائی بنتی ہے، اتنی جنت کی صرف جوڑائی ہے، اور قرآن پاک نے صرف چوڑائی کا ذکر کیا ہے، لمبائی کا نہیں، جس کا مطلب ہے کہ لمبائی یقینًا چوڑائی سے زیادہ ہے، مگر کتنی زیادہ ہے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، مگر یہ بات یقینی ہے کہ جنت کی لمبائی بہت زیادہ ہوگی ، اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جنت کے ایک درخت کا سایہ اتنا طویل ہے کہ اک گھڑ سوار سو برس تک مسلسل چلتا رہے تو بھی سایہ ختم نہیں ہوگا، جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺ فرمایا:
((إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ سَنَةٍ)) (بخاری:3252)
’’جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں اک گھڑ سوار سو برس تک چلتا رہے گا یعنی تب بھی ختم نہ ہوگا۔‘‘
اسی طرح ایک حدیث میں ہے۔
((أَنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَينِ مِنْ مَصارِيعِ الْجَنَّةِ لَكُمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ كَمَا بَينَ مَكَّةَ وَبُصْرَى)) (صحیح البخاری:4712)
’’جنت کے دروازے کے دو پاٹوں کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہے، جتنا مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے (بصری شام کے ایک علاقے کا نام ہے جو مکہ سے تقریبا تیرہ سو کلومیٹر فاصلے پر ہے )۔‘‘
اس حدیث میں مکہ مکرمہ سے دو مقامات کے درمیان کی مسافت کے تقابل کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مکہ سے ہجر جو کہ بحرین میں ایک مقام کا نام ہے، اور بصری جو کہ سوریا (شام) کے ایک علاقے کا نام ہے۔ مسافت تقریبا ایک جیسی ہے۔ مکہ سے ہجر1210 کلو میٹر ، جبکہ مکہ سے بصری 1272 کلومیٹر ہے۔ صرف 62 کلومیٹر کا فرق ہے۔ اسی طرح اک دوسری حدیث سے بھی اندازہ کر سکتے ہیں، جس میں جنت کے درجات کا ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةُ درجة)) (بخاری:2790)
’’جنت میں سو درجے ہیں۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ وہ سو درجے اللہ تعالی نے مجاہدین کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔
((مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ))
’’ہر دو درجوں کے درمیان کا فاصلہ زمین و آسمان کے برابر ہے۔‘‘
((وَالْفِرْدَوْسَ أَعْلَاهَا دَرَجَةً))
’’اس میں سب سے بلند ترین درجہ فردوس ہے۔‘‘
((وَمِنْهَا تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ وَمِنْ فَوْقِهَا يَكُونُ الْعَرْشِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللهَ فَاسْتَلُوهُ الفَردَوس)) (مسلم:1884)
’’اور اس سے جنت کی چاروں شہریں جاری ہوتی ہیں (سبحان اور جیحان اور نیل اور فرات ) اس کے اوپر عرش ہے لہٰذا جب تم اللہ تعالی سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو۔‘‘
تو جنت کی لمبائی کتنی ہے اس کا تو اللہ تعالی کے سوا کسی کو علم نہیں اور اللہ تعالی نے اس کا ذکر بھی نہیں فرمایا، مگر اتنا بیان فرما دیا ہے کہ:
﴿وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّ مُلْكًا كَبِیْرًا۝﴾(الدهر:20)
’’اور جب تم دیکھو گے تو ہر طرف نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بہت بڑی سلطنت ہی تمہیں نظر آئے گی ۔‘‘
تو یہ تو بات ہو رہی تھی جنت کی وسعت اور کشادگی کے حوالے سے ، اب اگر جنت کی نعمتوں کا ذکر کریں تو وہ بھی یقینًا بے حد و حساب ہوں گی، اور ایسی ہوں گی کہ انسان دیکھتا ہی رہ جائے گا، انسان کی خوشی کی انتہاء نہیں رہے گی۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُتِيَ بِالْمَوْتِ كَالْكَبْشِ الأَمْلَحِ، فَيُوقَفُ بين الجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُذْبَحُ وَهُمْ يَنْظُرُونَ))
’’قیامت کے روز موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں جنت اور جہنم کے در میان لاکھڑی کی جائے گی اور اسے ذبح کیا جائے گا جنتی اور جہنمی لوگ اسے دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘
((فَلَوْ أَنَّ أَحَدًا مَاتَ فَرَحًا لَمَاتَ أَهْلُ الْجَنَّةِ))
’’اگر خوشی سے مرنا ممکن ہوتا تو اہل جنت خوشی سے مر جاتے ۔‘‘
((وَلَوْ أَنَّ أَحَدًا مَاتَ حَزَنًا لَمَاتَ أَهْلُ النَّارِ)).(ترمذی:2558)
’’اور اگر غم سے مرنا ممکن ہوتا تو جہنمی غم سے مر جاتے۔‘‘
مگر موت کو چونکہ ذبح کر دیا گیا ہو گا لہٰذا جنتی خوشی سے مریں گے نہیں بلکہ اس خوشی سے لطف اندوز ہوں گے۔
غم سے مرنے کے واقعات تو آپ نے بہت سنے ہوں گے کہ کوئی شخص غم کا صدمہ برداشت نہ کر سکا اور فوت ہو گیا، اسی طرح خوشی کے آنسو نکلنے اور خوشی سے مر جانے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں، بلکہ بسا اوقات تو کوئی معمولی سی غیر متوقع خوشی بھی ہارٹ ایک کا باعث بن جاتی ہے، اور جنت کی نعمتیں اور جنت کے نظارے تویقینًا دیکھ کر انسان حیران و ششدر رہ جائے گا۔
اس سے پہلے کہ جنت کی نعمتوں اور اہل جنت کی صفات کا ذکر کیا جائے، اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرتے وقت جو جنت الفردوس کا سوال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اس کی حکمت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کی ایک حکمت تو یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ جنت کا سب سے بلند مقام ہے، اور دوسری یہ کہ اس کے اوپر اللہ تعالی کا عرش ہے اور ایک یہ کہ جنت کی نہریں وہیں سے پھولتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات تو یہی ہے کہ جنت الفردوس اللہ تعالی کے پڑوس میں ہے،
یعنی جنت الفردوس کو جنتوں میں سب سے بلند ترین بتلایا گیا ہے۔ مگر جنت میں ایک مقام اس سے بھی بلند ہے اور اس کا نام ہے۔ الوسیلیہ ، اور وہ مختص ہے صرف ایک شخصیت کے لیے، اور وہ ہیں: سید الاولین والآخرین سید الانبیاءمحمد مصطفی سے کام ۔
چنانچہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى فَاسْئَلُوا اللهَ لِي الْوَسِيلَةَ))
’’فرمایا جب تم مجھ پر درود بھیجو تو میرے لیے اللہ تعالی سے وسیلہ کی دعا کرو۔‘‘
((قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَسِيلَةُ))
’’صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ وسیلہ کیا ہے ؟‘‘
((قَالَ: أَعلى درجة فِي الْجَنَّةِ، لَا يَنَالُهَا إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ))
’’تو فرمایا: وہ جنت میں اعلیٰ ترین درجہ ہے، جو صرف ایک آدمی کو حاصل ہوگا۔‘‘
((وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ)) .(احمد:7588)
’’اور میں امید کرتا ہوں کہ میں ہی وہ ہوں گا۔‘‘
تو اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرتے ہوئے جنت الفردوس کا سوال کرنا اس لیے اہم ہے کہ وہ جنت اللہ اور اس کے رسول سے کام کے قریب ہے، جنت الفردوس پالینے سے اللہ اور اس کے رسول نے امام کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
اس لیے اللہ تعالی سے جنت الفردوس کی دعا مانگیں اور اپنے عملوں کی طرف نہ دیکھیں ، اگر دعا قبول ہوگئی تو ان شاء اللہ نیک اعمال کی توفیق بھی نصیب ہو جائے گی۔ اور دوسرے یہ کہ صرف عملوں کی بدولت کوئی جنت میں جا بھی نہیں سکتا، الا یہ کہ اللہ تعالی کی رحمت ہو جائے۔ حضرت آسیہ اللہ کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں فرعون کی بیوی تھیں، وہ کتنی نیک پارسا، کتنی بلند مقام و مرتبے والی تھیں ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ایمان والی عورتوں کی مثال بیان کرتے ہوئے حضرت مریم علیہا السلام کا اور ان کا ذکر کیا ہے، اور حدیث میں ان کے بارے میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ ، وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءُ إِلَّا آسِيَة إِمْرَأَةٌ فِرْعَونَ وَمَرْيَمَ بْنَتَ عِمْرَانَ))
’’مرد تو بہت کامل ہوئے ہیں لیکن عورتوں میں صرف آسیہ فرعون کی بیوی اور مریم بنت عمران ہیں ۔‘‘
((وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الشَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ))(بخاری:3411، مسلم:2431)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی برتری اور فضیلت تمام عورتوں پر اس طرح ہے جس طرح ثرید کی دیگر تمام قسم کے کھانوں پر ہے۔‘‘
تو حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا ان عورتوں میں سے ایک ہیں جنہیں کامل گردانا گیا ہے، اس حدیث کی تشریح کا تو نہ جانے کب موقع ملے اس لیے سر دست تھوڑی سی وضاحت کرتا چلوں۔ جو عورتیں زیادہ کامل نہ ہو سکیں تو اس میں کوئی عورتوں کی تنقیص اور توہین اور کمتری نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ عورتوں پر ذمہ داری بہت بڑی ہے، اور وہ ہے بچوں کی تربیت کرنا مردوں سے زیادہ بڑی ذمہ داری ہے، لیکن کوئی سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔
تو حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا ذکر کر رہا تھا وہ کتنی دور اندیش تھیں، اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ان کی دعا کا ذکر کیا ہے۔
﴿ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ۝﴾ (التحريم:11)
’’اے میرے رب ! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچائے۔‘‘
تو اللہ کے پڑوس میں جنت کا سؤال، وہی جنت الفردوس کا سوال ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم سے جنت الفردوس عطا فرمائے ۔ آمین۔
…………………